سید رافع

محفلین
عقیدت کی گرد : قسط ۱


درس قیام حسین

چھپی ہے اس کے تدبر میں معرفت کیسی
کہ مصلحت کی جنوں سے مناسبت کیسی؟
ہوس کے ساتھ وفا کی مفاہمت کیسی؟
ستمگروں کے ستم سے مصالحت کیسی؟

انور مسعود


کلام لکھنے والا چاہتا ہے کہ ٓپ ذرا سنبھل جائیں اور غور کریں کہ مصلحت کی جنوں سے کیا مناسبت۔ ہیں بھلا کیا ٓپ نے اس کی معارفت پر بھی غور کیا کہ جسکی مدح میں کلام ہے! تھوڑا سنبھل جائیں اور مراقبہ کر کے اس تدبر کرتے انسان کا تصور کریں۔ بس یہ وادی ایسی جہاں رفتار مدھم سے مدھم تر ہوتی جانی چاہیے یہاں تک کہ قدم رک جائیں، قلب تھم جائے اور صرف عقیدت برق رفتاری سے سفر کرے۔

رسول عربی محمدﷺ کے بال مبارک گرد آلود ہوئے یہ تو معرفت شیخ الحدیث کی بھی ہے۔ خود آپ علیہ السلام بھی تو حضور سے براہ راست گفتگو میں ہوں گے۔ مشورہ کس دل سے دیا ہو گا محمدﷺ نے کہ مصلحت اسی میں ہے کہ قیام کرو۔ فرمایا ہو گا کہ ان سے کلام کرو تبھی تو حر ادھر آئے۔ واللّٰہ اعلم

یہ بات بعید ہے کہ رسول عربی محمدﷺ اس موقع پر آپ علیہ السلام کو قیام کی مصلحت سے آگاہ کریں۔ یہ سب تو مدینہ میں رہتے ہوئے بھی علم میں تھا بلکہ اس سے قبل بوتراب کو مصلحت بلکہ جائے قیام کا علم تھا اور اس سے قبل رسول اللہ نے ام سلمہ کو قیام کی مصلحت کا راز بتا دیا تھا۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ کے گیسوئے مبارک دھول سے اٹے؟ علم اور مصلحت کا علم الگ شئے اور اپنے بیٹے علیہ السلام کے دانت پر پیار کرنے کی محبت اور شئے۔

نبوت کا بوجھ بھی عجیب بوجھ ہے کہ اس بیٹے کو کمر پر سوار کر رہے ہیں جس کے بارے میں علم ہے کہ ایک دن بال اسی کے لیے گرد آلود ہوں گے۔ انہی دانتوں پر بوسے ہیں جس کے لیے ایک دن زلف دھول آلود ہو گی۔ کیا عجیب ہو گی وہ محبت اور کیا ہو گا وہ بوجھ کہ مسجد میں منبر سے تیزی سے اتر کر جسکو اٹھا رہیں ہیں اسی کے لیے ایک دن اپنے گیسوے گرد آلود ہونے ہیں۔

نبوت کا ہر کام الہامی ہوتا ہے یعنی احاطہ کیا ہوا علم ہوتا جس کے علاوہ کچھ حق نہیں اور وہ عین حق۔

آپ نے ام سلمہ جو آپ کی زوجہ محترمہ ہیں ایک گرد بھری شیشی کیوں دی؟ کیوں انکو جا کر خواب میں اس شہادت کی خبر دی؟ ماریہ قبطیہ ہیں؛ حفصہ اور زینب ہیں؛ عائشہ اور صفیہ رضوان علیہم الاجمعین ہیں۔ ان سے اسکا تذکره کیوں نہیں۔
جیسے اگر میں آپ سے اپنی بات شئیر کروں تو آپ ہنسی ٹھٹھا کریں گے۔ میرا آپکا تعلق نہیں تو تعلقات میں کوئ اخلاص و ہمدردی نہیں۔ کندھا اس سے مانگا جاتا ہے جو یا تو محبت کرتا ہو یا اللہ سے محبت میں مشغول ہو کیونکے وہ تو ہے ہی غم خواری کا سمندر۔
رسول کریم کے لیے ابتدائے اسلام میں سخت تکالف برداشت کرنے والی ام سلمہ؛ ہجرت کی قربانی دینے والی ام سلمہ؛ شوہر احد میں شہید تو اکیلے بچوں کے ساتھ اکیلی رہنے والی ام سلمہ۔
لیکن ان سب سے بڑھ کر جب علی کی والدہ انتقال کر گئیں تو آپ نے فاطمہ بنت محمدﷺ کی پرورش کی۔ اب خود ہی سوچیں جن دانتوں کو رسول بوسے لے رہے ہیں ان کی والدہ کو کس نے پالا؟ ام سلمہ۔ کتنی محبت ہو گی انکو فاطمہ اور انکے بچوں سے۔ بس یہی وجہ ہے اپنے گرد آلود زلف لے کر ام سلمہ کے پاس آنے کی۔

ام سلمہ بھی کمال کی خاتون ہیں۔ گرد کی شیشی بھی پاس ہے۔ اس سے متعلق راز بھی پاس ہے۔ مدینے میں ہی رہیں لیکن جانے والے کو جانے دیا۔ جانے والے پر بھی علم کا غلبہ۔ رخصت کرنے والی بچپن سے بچے اور گرد کی شیشی کو جانتی تھیں۔
نبوت کا بوجھ بھی عجیب بوجھ ہے کہ رسول ام سلمہ کے حجرے میں ہیں۔ فرما دیتے ہیں کہ کوئ حجلہ خاص میں نہ آنے پائے۔ محدثین لکھتے ہیں کہ حسین چھوٹے تھے تیزی سے بھاگتے ہوئے حجلہ خاص میں داخل ہو گئے۔ ام سلمہ پکڑتی رہ گئیں۔ جب دیر ہو گئی تو عجیب بات ہے کہ حجلہ خاص میں رسول کی مرضی کے عین مطابق داخل نہ ہوئیں وہیں چوکھٹ پر بیٹھ کر معائنہ کیا۔ دیکھا تو حسین رسول کے پیٹھ مبارک پر سو گئے ہیں۔ اور رسول ہاتھ میں کچھ مسل رہے ہیں اور رو بھی رہے ہیں۔ ام سلمہ نے دریافت کیا تو فرمایا جبرائیل آئے تھے یہ گرد دے گئے جہاں حسین قتل کیے جائیں گے۔ جب یہ خون ہو سو حسین قتل۔ سو وہ گرد ام سلمہ کو دے دی جو انہوں نے شیشی میں رکھ لی۔
سوال ہے نبوت کے بوجھ کا کہ جب بیٹا سینے پر سوتا ہو اسکے قتل کی خبر دی جاتی ہے۔ جب بیٹا آس پاس نہ ہو جب بھی یہ ریت دی جا سکتی تھی تاکہ غم کچھ کم ہوتا یا دیکھ دیکھ کے رونا کم آتا! عجیب ہے نبوت کا بوجھ۔

اللہ فرماتا ہے کہ اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی اور یہ کہ ہم نشانی برقرار رکھتے ہیں یا اس سے اچھی نشانی لاتے ہیں۔ ابراھیم علیہ السلام کواپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا پیام بحالت نیند خواب میں دیا۔ جب ذبح کا وقت آیا تو ذبح نہ ہونے دیا۔ اس سے بہتر آیت آئ کہ جاگتے ہوئے خبر دی گئی کہ آپ اپنے اسے سوتے بچے کو ذبح ہوتے دیکھیں گے۔ اور بچہ ذبح ہونے بھی دیا۔

ہم بہتر آیت کے دور میں زندہ ہیں۔

ام سلمہ کو شیشی کی گرد دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کی یہی زوجہ اس وقت تک حیات رہیں یعنی 680 AD۔ یہ آخری زوجہ تھیں جو ذبیح حسین کے بعد بھی حیات رہیں۔ یہ سن وفات ہیں۔

ام المومنین ام سلمہ:۶۸۳
ام المومنین میمونہ: ۶۸۰
ام المومنین عایشہ: ۶۷۸
ام المومنین جویریہ: ۶۷۳
ام المومنین سودہ: ۶۷۴
ام المومنین صفیہ: ۶۷۰
ام المومنین زینب بنت جیش: ۶۴۱
ام المومنین رملہ: ۶۶۶
ام المومنین ماریہ: ۶۳۷
ام المومنین زینب: ۶۲۷
ام المومنین خدیجہ: ۶۱۹

یہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ وہی ام المومنین ہیں جن کے ہجرے میں آیت تطہیر نازل ہوئ۔

اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں اے نبی کے گھر والو! اور ستھرا کر دے تم کو ایک ستھرائی سے۔


سورہ احزاب ٣٣-٣٣۔

بہتر سنت یہ بھی طے ہوئ کہ اب ایک رحم دل باپ بیٹے کو ذبح نہیں کرے گا۔ چنانچہ آنکھوں پر پٹی باندھنے اور الٹا منہ بل لٹا کر ذبح کر سنت للہ بہتر سے تبدیل کی گئی۔

ابراھیم علیہ السلام کی سنت کو بہتر سنت سے یوں تبدیل کیا گیا کہ دشمن بے رحم ہو شقی اسقدر ہو کہ نہ بچہ دیکھے نہ جوان نہ اسکو پانی دے نہ اسکی رسائ ممکن بنائے۔

اب بیٹے کو اس دشمن کے سامنے مصلحت کے تحت گردن نہیں گلے کی سمت سے ذبح ہی نہیں ہونا بلکہ گردن کو الگ ہونا ہے۔

باپ کو میدان کے باہر یہ ملاحظہ کرنا ہے۔

اس بہتر ذبح کی سنت کی ضرورت کیا؟
بیٹے کے ذبح کو ملاحظہ کرنے میں صبر ہے۔ ویسا ہی صبر جیسا علم لدنی حاصل کرنے کے لیے موسی کو خضر کے ساتھ کرنا پڑا۔
انبیا کو کوئ اور مسئلہ درپیش نہیں ہوتا سوائے علم کے۔
ابراہیم کو علم چاہیئے تھا کہ مردوں کو زندہ کیسے کیا جائے گا۔ انکو پرندوں کو مانوس کرنے کو کہا گیا۔ پھر قیمہ پہاڑیوں پر رکھنے کا الہام ہوا۔ سو انہوں نے یہی کیا اور ایک آواز دی وہ سب پرندے اڑتے چلے آئے۔
اب ابراہیم کے اس علم کی زکوہ وہ خواب تھا جس میں اپنے بیٹے کو بذریعہ ذبح مردہ کرنا تھا۔ اللہ اس طرح علم کی محبت دل سے نکالتا ہے اور نور باقی رہنے دیتا ہے۔
محمدﷺ کی دعا ہی رب زدنی علما ہے۔ اقرا پہلی وحی۔ معراج میں جو وحی کی سو کی۔ حفیہ و خفیف ترین علوم جو محمدﷺ اور انکا رب جانتا ہے اور جس کو وہ عطا کریں۔ بیٹے کو ذبح ہوتے دیکھنے میں ایک خاص رضا پر تسلیم ہے جو سخت صبر کا متقاضی ہے لیکن یہی صبر اس خفیف و خفیہ علم کا تخت بھی ہے اور زکوہ بھی۔
عام مسلمانوں پر جو تکلیف یا بیماری صبر مانگتی ہے وہ علم کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اگر تکلیف یا بیماری کیش کرانا آتا ہو۔
واللہ اعلم

دل میں خیال علم نہ ہونے کے باعث آتا ہے۔

ایک نبی کا گزر ایک بستی سے ہوا دل میں خیال آیا کہ اللہ کیونکر ان کو دوباره زندہ کرے گا۔ یہ خیال نئی آیت و نشانی محمدﷺ کو کبھی نہیں گزرا کہ آپ بہتر و آخری نشانی ہیں۔

ان نبی کے دل میں یہ خیال آنا تھا کہ اللہ نے سو سال کی نیند ان پر بھیجی۔ جب اٹھایا گیا تو دیکھا کہ سواری کا گدھا بوسیدہ ہو چکا ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ہڈیاں ملیں اور پھر ان پر گوشت و کھال آ گئی۔
یوں ان کو علم عطا ہوا۔ اور اس علم کی زکوہ سو سال کی نیند۔

رسول اللہ محدثین لکھتے ہیں کہ ستر دفعہ استغفار کرتے۔ بعض کہتے ہیں سو دفعہ۔
یہ پچھلے درجے کے علم سے استغفار ہے۔
استغفار بلا عفلت یعنی دل میں ٹھیک ٹھیک علم ہو کہ کس چیز سے ہے علم کی زکوہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ زکوہ ہے کیا؟ کبھی ذبح کی حالت تک پہنچا دینا؛ کبھی صالح کو ذبح ہونے دینا؛ کبھی سو سال کی نیند؛ کبھی سوال پوچھنے پر پابندی علم کی زکوہ بنتی ہے۔ آخر اتنی محنت کا کمایا مال ہے کیوں سال مکمل ہونے پر زکوہ دے دوں؟
زکوہ پاک کرتی ہے۔ کس چیز کو؟ سینے کو محبت سے۔

یہ ذبح اور قتل کی ترتیب بہت اہم اگر باپ پہلے ذبح ہو جاتا اور بیٹے کے تیر بعد میں لگتا تو رسول عربی تو دونوں ملاحظہ فرماتے لیکن درمیانی کڑی کی زکوہ رہ جاتی اور کامل ومکمل اور عمدہ ترین زکوہ جو درکار بھی تھی کہ پہلے چھ ماہ کا پرنواسا تیر کھا کر باپ کی پاکی کی دلیل بنے اور نواسا ذبح ہو کر نانا کی پاکی کی دلیل بنے۔
یوں پاک گھرانے کی پاک زکوہ پورے اتمام وشان سے مکمل ہوئ۔

ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھما کے سامنے رسول عربی محمدﷺ نے دو دفعہ گریا فرمایا۔ ایک دفعہ جب ریت ملی اور دوسری دفعہ جب ریت کے متعلق خواب میں خبر دی۔ اس دن آپ کے گریے میں ام سلمہ شریک ہوئیں اور پھر گھر والے اور پھر پڑوسی اور پھر پورا مدینہ اور جب سے اب تک یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ لوگ عقیدت اور بعض علم کی وجہ سے اپنے آنسوں کے گجرے آپکی بارگاہ میں پہنچاتے ہیں۔ یہ سلسلہ دن رات ہر سو جاری کسی کے دل میں کسی کی آنکھوں میں۔ واللّٰہ اعلم


- میاں ظہوری
 
Top