اقبال علامہ اقبالؒ :::::: نالہ ہے بُلبُل ِشورِیدہ تِرا خام ابھی :::::: Sir Muhammad Iqbal

طارق شاہ

محفلین


علامہ اقبالؒ

نالہ ہے بُلبُل ِشورِیدہ تِرا خام ابھی
اپنے سینے میں اِسے، اور ذرا تھام ابھی

پُختہ ہوتی ہے، اگر مصلحت اندیش ہو عقل!
عِشق ہو مصلحت اندیش تو ، ہے خام ابھی

بے خطر کوُد پڑا آتشِ نمرُود میں عِشق
عقل ہے محو ِتماشائے لبِ بام ابھی

عِشق فرمُودۂ قاصِد سے سُبک گامِ عَمل
عقل، سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی

شیوۂ عِشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تُو ہے زنّاریِ بُت خانۂ ایّام ابھی

عُذر ِپرہیز پہ کہتا ہے بِگڑ کر ساقی!
ہے تِرے دِل میں وہی کاوشِ انجام ابھی

سعیِ پَیہم ہے ترازُوئے کم و کیف حیات
تیری مِیزاں ہے شمُار ِسَحَر و شام ابھی

ابرِ نیساں! یہ تنک بخشیِ شبنم کب تک؟
میرے کُہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی

بادَہ گردان ِعَجَم وہ ، عَرَبی میری شراب !
میرے ساغر سے جھجکتے مئے آشام ابھی

خبر اقباؔل کی لائی ہے گُلِستاں سے نسِیم
نَو گرفتار پَھڑکتا ہے تہ ِدام ابھی

علامہ اقبالؒ
 
Top