حسیب نذیر گِل
محفلین
علامہ اقبال، تصوف اوراولیاء کرام از ڈاکٹر صفدر محمود
سچی بات ہے کہ میں خود کو اقبال پر لکھنے کا اہل نہیں سمجھتا کیونکہ اقبال کے کلام کی روح کو سمجھنے کے لئے کلاسیکی اردو، عربی، فارسی، ادب اورقرآن حکیم پرگہری نظر، سیرت النبی ، فلسفے اور اسلامی تاریخ کے وسیع مطالعے کی ضرورت ہے۔ اس علمی بیک گراؤنڈ کے بغیر علامہ اقبال پر قلم اٹھانا محض سطحی کارروائی ہوگی۔ اس لئے میری اس تحریر کومحض اقبال سے محبت اورعقیدت کا اظہار سمجھا جائے نہ کہ کوئی علمی کاوش۔گزشتہ دنوں ہمارے بعض دانشور یوں تاثر دیتے رہے جیسے علامہ اقبال تصوف کے خلاف تھے، پیری مریدی کے دشمن تھے اور جیسے وہ اولیاء کرام سے بھی کوئی خاص عقیدت نہیں رکھتے تھے۔ روحانیت کامخالف یہ گروہ علامہ اقبال کو بھی اپنے گروہ میں شامل کرنے پرمصر تھا۔ میرے لئے یہ بات حیرت انگیز تھی کیونکہ علامہ اقبال ایک صوفی منش والد شیخ نور محمد کے بیٹے اور خود بھی صوفی منش انسان تھے۔ وہ زندگی بھر روحانیت کے چشموں سے فیض یاب ہوتے رہے، روح کی پیاس بجھاتے رہے اور اولیاء کرام کے قدموں میں حاضری دیتے رہے۔ بلاشبہ اقبال اس تصوف کے خلاف تھے جو راہبانیت اورترکِ دنیا کی طرف لے جاتا ہے۔ کاہلی، تساہل، بے عملی یا نشے کا عادی بنا کر لوگوں کو خود فراموشی کا شکار بنا دیتا ہے کیونکہ اقبال سمجھتے تھے کہ مذہب انسان کی مردہ رگوں میں زندگی کا خون پیدا کرتا اور دوڑاتاہے۔ انسان کے باطن کو منورکرکے اسے ایک باعمل اوربہتر انسان بناتا ہے۔ بقول اقبال دین وہ شعلہ ہے جوباطل کے ہر نظام کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتاہے۔ اس لئے جوتصوف انسان کو بے عمل بنادے یا احوال کی مستی میں گم کردے وہ خلافِ دین ہے۔ اسی طرح اقبال ایسی پیری مریدی کے خلاف تھے جومحض دکانداری، تجارت اور لوٹ مار کاذریعہ ہے۔ایسی پیری مریدی جس میں پیر کا گھر قمقموں سے روشن ہو اور مرید دیئے کی روشنی کو ترستاہو ورنہ روحانیت کے سنجیدہ پیرو کی حیثیت سے اقبالمانتے تھے کہ ”پیر یامرشد کی سخت ضرورت ہوتی ہے اس کے بغیر انسان صحیح اور کامل راستہ نہیں دیکھ سکتا۔“ (اقبال کاانٹرویو کشمیری گزٹ بحوالہ زندہ اقبال از قیوم نظامی ص33) اقبال نے اپنے ایک مکتوب بنام سراج الدین پال میں بھی لکھا ”اہل تصوف خصوصاً ہندوستان کے صوفیا نے تلوار کی بجائے حسن عمل اور اخلاق محمدی کے ذریعے اس کی اشاعت کی اورکروڑوں مسلمان ہوگئے۔ اسلام راہبانیت کے خلاف ہے… پیر یامرشد کی سخت ضرورت ہے اس کے بغیر انسان صحیح راستہ نہیں دیکھ سکتا… بشرطیکہ پیر دکانداری نہ کرتاہو“ (قیوم نظامی ص 35) تاریخی خطبات میں بھی تصوف پر روشنی ڈالتے ہوئے اقبال نے کہا کہ تصوف کی وہی شکل درست ہے جوتوحید پر ایمان رکھے، نبوت کی تقلید کرے، جس کا عشق الٰہی خلاقی اورفعال ہو، جو انسان کو صاحب ِ اختیار رکھے۔
سوال یہ ہے کہ اقبال کااولیاء کرام اور صاحبان باطن کے حوالے سے عملی رویہ کیا تھا؟ یہ جاننے کے لئے میں نے ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ”زندہ رُود“ کئی برس کے بعد دوبارہ پڑھی تو احساس ہوا کہ اقبال اولیاء کرام کو صاحبان کرامت مانتے تھے، ان سے گہری عقیدت رکھتے تھے اور روحانیت کے سرچشموں سے روح کی پیاس بجھانے کیلئے ہمیشہ بے چین رہتے تھے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اقبال نے مشرق و مغرب کی بہترین درسگاہوں سے تعلیم حاصل کی تھی اور ان کے وسیع مطالعے، روشن بصیرت اور فلسفے کاایک زمانہ قائل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقبال عالمی سطح کے فلاسفروں کی صف میں شامل ہوچکا ہے۔ اس کی فکر نہ ہی صرف تحریک پاکستان کازندہ محرک تھی، آزادی کا شعلہ تھی بلکہ بقول ڈاکٹرعلی شریعتی انقلاب ایران کی روح رواں بھی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ اقبال کی فکری شاعری نے گزشتہ صدی کے دوران نوجوان نسلوں کو بے پناہ متاثر کیا ہے اس لئے کہ اقبال زندہ اور طاقتور روح کے مالک ہیں اور روح روحانیت کے چشمے سے سیراب ہوئے بغیر زندہ اور طاقتور نہیں ہوسکتی۔
علامہ اقبال کی مستند سوانح عمری ”زندہ رُود“ کے مطابق اقبال اپنے محبوب صوفیا کے مزاروں پر اکثر حاضری دیتے تھے۔ بعض بزرگ ہستیوں اور مجذوبوں کے متعلق سن کر وہ ملاقات کے شوق میں ان کی خدمت میں حاضری بھی دیتے رہے۔ لاہور کے قریب شرق پور کے بزرگ میاں شیر محمد کے متعلق سنا توان کی خدمت میں پہنچ گئے۔ میاں شیرمحمد صاحب نے علامہ کے لئے دعا کی اور علامہ مسرور و مطمئن واپس لوٹے۔ بقول جاوید اقبال بہرحال اقبال کے اہل دل مشائخ سے ملاقات کے شوق سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی ہستی کی تلاش میں تھے جو اُن پر ایک ہی نگاہ ڈال کر ان کی روحانی تکمیل کردے جیسے خواجہ باقی باللہ نے شیخ احمدسرہندی کو خلوت میں لے جا کر ذکر قلبی کی تلقین کی تھی اور اسی وقت ان کا قلب جاری ہو گیاتھا۔ (صفحہ 344)
علامہ اقبال نے سن رکھا تھا شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے مزارپرحاضری دی جائے تو اللہ تعالیٰ نرینہ اولاد عطاکرتے ہیں۔ اقبال 1913سے لے کر 1923 تک دونوں بیویوں سے اولاد سے محروم رہے۔ جب 1924 میں انہیں علم ہوا کہ بیگمات امید سے ہیں تو وہ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے مزار پر سرہند پہنچے اور دعاکی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اولاد ِنرینہ سے نوازے اور احیائے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی اسی طرح توفیق دے جس طرح شیخ احمد سرہندی کوعطاکی۔ (زندہ رُود صفحہ 344) اقبال نے حضرت مجد د الف ثانی کے مزار پر عہد کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹا دیا تو وہ اسے ساتھ لے کر مزار پرحاضرہوں گے۔ جاویداقبال ذرابڑے ہوئے تو علامہ اقبال 29جون 1934 کو انہیں چودھری محمد حسین اورعلی بخش (ملازم) کے ساتھ لے کر حضرت مجدد الف ثانی کی بارگاہ میں حاضرہوئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں ”راقم کو خوب یاد ہے کہ وہ ان کی انگلی پکڑے مزار میں داخل ہوئے۔ اقبال تربت کے قریب فرش پر بیٹھ گئے اور راقم کوبھی پاس بٹھا لیا۔ پھرانہوں نے قرآن مجید کا ایک پارہ کھولااور دیرتک تلاوت کرتے رہے۔ اس وقت وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ گنبد کی خاموش اور تاریک فضا میں ان کی رندھی ہوئی آواز گونج رہی تھی۔ راقم نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو امڈ کررخساروں پر ڈھلک آئے ہیں۔ “ (زندہ رُود صفحہ 601) علامہ اقبال نے اپنے ایک خط میں نذیر نیازی کو لکھا تھا ”چند روزہوئے صبح کی نماز کے بعد آنکھ لگ گئی۔ خواب میں کسی نے پیغام دیا ہم نے جو خواب تمہارے اور شکیب ارسلان (شام کے معروف رہنما اتحاد اسلامی ممالک اوراحیائے اسلام کے بہت بڑے داعی) کے متعلق دیکھا تھا، وہ سرہند بھیج دیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ تم پر بہت بڑا فضل کرنے والا ہے۔ اس خواب کی بنا پر وہاں حاضری ضروری ہے۔“ (صفحہ 601) چنانچہ علامہ اقبال نے سرہند حاضری دی۔
علامہ اقبال سحر خیز تھے۔ ان کے اپنے بقول وہ صبح تین چار بجے بیدار ہوجاتے۔ عبادت میں مصروف رہتے اور پھر سوتے نہیں تھے۔ کبھی کبھار جائے نماز پر چند لمحے آنکھ لگ جاتی ورنہ یہی ان کامعمول تھا۔ ایک قدرے غیرمعروف لیکن عالم و فاضل اور نیم روحانی شخصیت پروفیسر مسعودالحسن تھے جنہوں نے ”حضرت داتاگنج بخش… ایک روحانی سوانح عمری“ بزبان انگریزی لکھی ہے جسے داتاگنج بخش اکیڈمی لاہور نے شائع کیا ہے۔ پروفیسرمسعود الحسن لکھتے ہیں۔ ”میں 1930 میں لاہور منتقل ہوا اورحضرت داتا گنج بخش کے مزار کے نزدیک رہائش اختیارکی۔ ان دنوں علامہ اقبال اکثر داتا گنج بخش کے مزار پرحاضری دیاکرتے تھے۔ وہ عام طور پر نماز فجر سے بہت پہلے آیا کرتے تھے۔ میری یہیں ان سے ملاقاتیں ہوئیں اورتعلقات استوار ہوئے۔ انہو ں نے مجھے کئی بارانگریزی میں کچھ لکھنے کے حوالے سے کام دیئے حتیٰ کہ اپنے خطبات بشمول خطبہ الہ آباد (1930) بھی دیئے۔ میں اس حوالے سے ان کی خدمت کرتارہا۔ علامہ اقبال نے مجھے بتایا تھا کہ انہیں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا خیال بھی حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر عبادت کے دوران آیا تھا“ (صفحہ 3)
موضوع تفصیلی تحریر کا متقاضی ہے لیکن کالم کا دامن تنگ ہے اس لئے تھوڑا لکھے کو بہت سمجھیں۔ صرف اتنی بات ذہن میں رکھیں کہ اقبال کی ساری شاعری حرکت، عمل اور جدوجہد کا پیغام ہے۔ حضور نبی کریم کی زندگی جدوجہد ِ مسلسل سے عبارت ہے اس لئے علامہ اقبال صرف پیشہ وارانہ پیری مریدی یعنی دکانداری کے خلاف تھے اورصرف ایسے تصوف کے خلاف تھے جو انسان کو بے عملی، راہبانیت اور خلوت نشینی کی جانب لے جاتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شیطان انسان کی غلامی، غربت، جہالت اور محرومی کوتقدیر بنا دیتاہے ورنہ جدوجہد سے ان بیماریوں کا علاج کیا جاسکتاہے۔ وہ اولیاء کرام اور روحانی شخصیات سے گہری عقیدت رکھتے تھے اور ان کی کرامات اور روحانی طاقت میں یقین رکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً حضرت نظام الدین اولیا، حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت داتا گنج بخش کے مزارات پر روحانی فیض کی تمنا لئے حاضری دیتے رہے۔
بشکریہ:روزنامہ جنگ