سید شہزاد ناصر
محفلین
علامہ اقبال رح جدید دانش اور قدیم حکمت کا نقطہ معراج تھے“ یہ الفاظ سیدعطاءاللہ شاہ بخاری نے ایک محفل میں کہے تھے۔ علامہ اقبال رح کے وجود میں ظاہری اور باطنی علوم نے یکجا ہو کر انہیں دورِ حاضر کا ایک عظیم انسان بنا ڈالا۔ ان کا دماغ جدید و قدیم علوم کا خزانہ اور ان کا دل روحانیت کی آماجگاہ تھا۔ ماضی کی جن شخصیات کی وجہ سے آج شریعت ‘ فقہ اور تصوّف کی بنیادیں قائم ہیں ‘ اقبال ان سب کا مرقع تھے۔ جن کی شاعری میں قرآن اور صاحبِ قرآن کے عشق کی وجہ سے حکمت اور تصوف کے اعلیٰ ترین اوصاف نظر آتے ہیں۔ ان خصوصیات کو انہوں نے عالمِ اسلام اور خصوصاََ ہندی مسلمانوں کی بیداری کے لیے استعمال کیااور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ آپ نے ایک طرف اپنے شعر کی عدالت میں پورے عالمِ اسلام کا مقدمہ لڑا۔
نہ مصطفےٰ نہ رضا شاہ میں ہے نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
انہیں اپنی شخصیت کے دوسرے رُخ یعنی روحانیت کی مسند نشینی کے لیے کوئی وجود نظر نہ آیاتو انہوں نے بڑی درد مندی اور بے قراری سے وہ رباعی رقم کی:
مضمون بشکریہ
http://www.wasifkhayal.com/edition-8/alama-iqbal-and-wasif-ali-wasi/
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
اور دوسری طرف اپنی دُور رس نگاہ سے مستقبل کے چہرے سے یوں نقاب اُٹھایاہے جس پر وقت مہرِ تصدیق ثبت کر رہا ہے ۔ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
عالمِ نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
مری نگاہوں میں ہے اس کی سحرِ بے نقاب
انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے آزاد وطن کے وجود میں آنے کا یقین ہو چکا تھا۔ اسی لیے اپنی وفات سے قبل اپنی علمی اور روحانی میراث کی منتقلی کے بارے میں بہت فکرمند تھے۔ انہوں نے اپنا سیاسی شعور حضرت قائد اعظم کے سپرد کیا۔ علمی مسند پر پہلے مولانا سید سلیمان ندوی کو بٹھانا چاہا ، ان کے انکار پر وہ مولانا مودودی مرحوم کی طرف متوجہ ہوئے ۔ ان کاسمند ِخیال عمل کے پیکر میں ڈھلنے کے لیے مختلف شخصیات کی تلاش میں رہا ۔ ایک زمانے میں وہ شاہ ولی اللہ کی طرح کسی مسلمان بادشاہ کی تلاش میں افغانستان کے نادر شاہ کو مضبوط کرنے کی کوشش میں رہے لیکن افغانیوں نے خود ہی نادر شاہ کا تختہ اُلٹ کر انہیں مایوس کر دیا۔ پھر ان کی نظر مصطفےٰ کمال اور رضا شاہ کبیر پر پڑی لیکن جلد ہی ان پر حقیقت آشکار ہو گئی۔آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
عالمِ نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
مری نگاہوں میں ہے اس کی سحرِ بے نقاب
نہ مصطفےٰ نہ رضا شاہ میں ہے نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
انہیں اپنی شخصیت کے دوسرے رُخ یعنی روحانیت کی مسند نشینی کے لیے کوئی وجود نظر نہ آیاتو انہوں نے بڑی درد مندی اور بے قراری سے وہ رباعی رقم کی:
سرودِ رفتہ باز آید کہ نہ آید
نسیمے ازحجاز آید کہ نہ آید
سرآید روزگارے دیں فقیرے
دِگر دانائے راز آید کہ ناید
ترجمہ:
کیا خبر اُٹھے نہ اُٹھے پھر سرودِ دلِ گداز
کیا خبر آئے نہ آئے اس طرف بادِ حجاز
اس فقیرِ رہ نشیں کا وقت تو ہوتا ہے ختم
دہر میں آئے نہ آئے پھر کوئی دانائے راز
پھر یقین افزاءاُمید کے عالم میں فرمایا:
اگر می آید آں دانائے رازے یدہ اُو را نوائے دل گدازے
یعنی: دہر میں آئے بھی میرے بعد اگر دانائے راز
اس کی فطرت کو عطا کر اک نوائے دل گداز
قدرت نے ان کی بے قرار روح کی تسکین کے لیے ان کے زمانہ قریب میں ایسی روحانی شخصیت پیدافرما دی کہ جو ان کے روحانی مشن کو نہ صرف جاری رکھ سکے بلکہ ان کی روحانی مسند کی وارث بھی بن سکے…. میری مراد حضرت واصف علی واصف رح سے ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ ہی ان کے آخری وارث ہوں بلکہ آنے والی صدیوں میں ان کے چشمہ افکار سے اور بھی کئی دریا بہیں گے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پیغام رسانی کی گذشتہ روایت کے برعکس اس دفعہ شعر کے ساتھ ساتھ نثر کو ذریعہ اظہار بنایا گیا …. اور نثر بھی وہ جس کی مثال روحانی دنیا میں ناپید ہے۔ جو نہ عربی ‘ فارسی کے بوجھ سے بھاری بھرکم ہے ‘ نہ عامیانہ ، نہ اساتذہ کے اشعار سے مرعوب اور نہ قدیم صوفیاءکے اقوال سے مرغوب۔ صدیوں کے صوفیانہ واردات و تجربات کے جدید پیرائے میں ڈھلتی ہوئی تحریر ….کہ بڑے بڑے فصیح البیان اور زبان آور جس کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے اپنی ظاہری حیات میں وقت کے اعلیٰ دماغوں کو مسحور کیا اور آج بھی ان کا حلقہ اثر سورج کی روشنی کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔نسیمے ازحجاز آید کہ نہ آید
سرآید روزگارے دیں فقیرے
دِگر دانائے راز آید کہ ناید
ترجمہ:
کیا خبر اُٹھے نہ اُٹھے پھر سرودِ دلِ گداز
کیا خبر آئے نہ آئے اس طرف بادِ حجاز
اس فقیرِ رہ نشیں کا وقت تو ہوتا ہے ختم
دہر میں آئے نہ آئے پھر کوئی دانائے راز
پھر یقین افزاءاُمید کے عالم میں فرمایا:
اگر می آید آں دانائے رازے یدہ اُو را نوائے دل گدازے
یعنی: دہر میں آئے بھی میرے بعد اگر دانائے راز
اس کی فطرت کو عطا کر اک نوائے دل گداز
مضمون بشکریہ
http://www.wasifkhayal.com/edition-8/alama-iqbal-and-wasif-ali-wasi/