سید شہزاد ناصر
محفلین
تاریخ اسلام میں سپہ سالار طارق بن زیاد کی قیادت میں اندلس کی فتح کے بعد مسلمانوں نے وہاں ساڑھے سات سو سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی۔یورپ کی اس عظیم الشان سلطنت کو علم و حکمت اور فنون کا مرکز بنا کر اس بے پناہ ترقی دی گئی، جسکی روشنی سے یورپ منور ہوا۔ اس دوران مسلمانوں کا شہرہ یورپ ہی نہیں دنیا بھر میں ہونے لگا۔ پورا یورپ اس سے مرعوب تھا اور دنیا کی ہر قوم اس سے کوسوں پیچھے تھی۔ مگر دوسرا پہلو اس سے بھی المناک اور خوں چکاںہے کہ جب اندلس کے ان مجاہدوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا کہ وہ عقیدہ توحید اور امامت عالم کے امین ہیں تو خدا واحدہ لاشریک نے انہیں فراموش کردیا جس کے نتیجے میں وہ تاریخ عالم میں اس طرح فنا ہوئے کہ صدیوں گزرنے کے باوجود سرزمین اندلس کا چپہ چپہ ان کی ہلاکت بربادی اور زوال پر ماتم کناں ہے۔اس ہلاکت اور زوال کا سبب داخلی اتحاد کی کمزوری فرقہ واریت میں اُلجھنا اور شمشیر وسناں کو چھوڑ کر طاﺅس و رباب کا دلدادہ ہونا تھا۔ فرڈنیارڈ نے 1236ءمیں تقریباً آٹھ سو سال قبل جب مسلمانوں کو شکست دیکر اندلس( اسپین) پر اسلامی اقتدار کا خاتمہ کیا تو مسلمانوں کو ملک بدر بھی کردیا۔ مسلمانوں کی تعمیر کردہ عمارات اور مساجد پر فاتح عیسائی رائبوں نے قبضہ جمالیا۔ اس طرح قرطبہ کی عالی شان اور پُر شکوہ مسجد جسے مسجد قرطبہ کا نام دیا جاتا ہے اور جسکی تعمیر عبدالرحمن اول نے وادی الکبیر کے کنارے 758ءمیں شروع کرائی اور اسکی توسیع دسویں صدی تک جاری رہی۔اس مسجد میں چودہ سو منقش ستون نصب تھے۔شاہ فلسطین نے جہاز میں ساڑھے چار سو من قیمتی پتھر بھجوائے۔ اس پر کتبے خط کو فی میں سونے کے موٹے موٹے لفظوںسے لکھے گئے۔ صدیاں گزر گئیں ہیں مگر آج بھی اس کے آثار سے وہ کچھ نظر آتا ہے کہ عقل انسانی ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔اندلس(اسپین) میں مسلمانوں کے زوال کے ساتھ ہی دوسری مساجد کی طرح یہ مسجد بھی عیسائی راہبوں کے تسلط میں آگئی جنہوں نے اسے گرجا گھر(Cathdral) میں تبدیل کردیا۔منبر اور دیوان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی البتہ اذان اورنماز پر پابندی عائد کردی گئی کہ اب یہ گرجا گھر ہے جہاں عیسائی عبادت کرسکتے ہیں۔تقریباً آٹھ صدیاں گزرنے پر علامہ اقبال کو یہ شرف و امتیاز حاصل ہوا کہ انہوں نے اس پابندی کے باوجود مسجد قرطبہ میں نہ صرف اذان دی بلکہ نماز ادا کی۔ اگرچہ اس حوالے سے علامہ اقبال کی کوئی تحریری شہادت موجود نہیں ہے تاہم تصویری ثبوت موجود ہے اور مختلف افراد نے تفصیلات بتائی ہیں جن کے مطابق پہلی گول میز کانفرنس جو 12 نومبر 1930ءتا 19جنوری 1931 تک ہوئی۔ اس میں علامہ اقبال کو شریک نہ کیا گیا۔دوسری گول میز کانفرنس 7ستمبر تا یکم دسمبر 1931ءتک ہوئی اس میں علامہ اقبال شریک ہوئے اور کانفرنس کے خاتمے پر مولانا غلام رسول مہر کے ہمراہ برطانیہ سے فلسطین چلے گئے اور موتمر عالم اسلامی میں الوداعی تقریر کرکے واپس ہندوستان آگئے۔مولانا عبدالمجید سالک کے مطابق
” تیسری گول میز کانفرنس کا آغاز16نومبر کو ہونا تھا۔ علامہ اقبال 13 اکتوبر1933ءکو لاہور سے فرنٹیر میل پر بہ عزم یورپ روانہ ہوئے۔مقصد یہ تھا کہ لندن پہنچنے سے پہلے ویانا، بوراپٹ، برلن وغیرہ کے علمی مراکز میں دوچار روز قیام کرتے جائیں۔
(ذکر اقبال صفحہ 178 )
علامہ اقبال 12نومبر کو لندن پہنچے تیسری گول میز کانفرنس17نومبر کو شروع ہوکر17دسمبر 1933ءمیں ختم ہوگئی۔ کانفرنس ختم ہونے کے بعد علامہ پیرس پہنچے اور علمی حلقوں کے علاوہ برگستان سے ملاقات کی۔ اس کے بعد علامہ نے ہسپانیہ کا دورہ کیا۔
( صفحہ180 )
علامہ اقبال خود ایک اخبار کے نامہ نگار سے سفر اسپین بارے فرماتے ہیں۔
”مجھے لندن میں اسپین جا کر لیکچر دینے کی دعوت ملی تھی۔اسلام کے مرکز کو دیکھنے کا مشتاق تھا۔میں نے دعوت قبول کرلی“۔( آئینہ اقبال مرتبہ محمد عبداللہ قریشی صفحہ198 )
” قرطبہ پہنچنے کے بعد آپ(علامہ) وہاں کی یگانہ روزگار مسجد میں تشریف لے گئے جواب گرجا گھر بن چکی ہے۔ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنے گائیڈ سے کہا میں یہاں نماز ادا کرناچاہتا ہوں۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ بات پادریوںکو ناگوار ہوگی اور وہ ہرگز اجازت نہ دیں۔ اقبال اس جگہ مصلی بچھا کر بیٹھ گئے۔ جس کو بے حد مقدس سمجھا جاتا ہے۔اتنے میں ایک پادری آپہنچا اور زور شور سے احتجاج کرنے لگا۔اقبال نے پادریوں کی طرف رخ کرکے گائیڈ سے کہا ایک دفعہ مکہ میں عیسائیوں کا وفد کوئی التماس لے کر پیغمبر اسلام کے پاس آیا۔ اس کے اراکین کو مسجدنبوی میں ٹھہرایا گیا تھا۔ جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو وہ متردد تھے کہ انہیں اسکی اجازت دی جائے گی کہ نہیں۔ آنحضرت کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ یقینا اپنے طور طریقے کے مطابق عبادت کرسکتے ہیں۔ اگر عیسائیوں کو آنحضرت نے اپنی ہی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی تھی۔انہیں ایک ایسی جگہ پر نماز ادا کرنے کی اجازت کیوں نہیں جو کبھی مسجد تھی۔ اقبال سے یہ سن کر کہا میں بڑے پادری سے پوچھ کر آتا ہوں۔اقبال نے پادریوں اور محکمہ آثار قدیمہ کی اجازت لے کر مسجد میں اذان دی جسکی فضا صدیوں سے بے اذان پڑی ہوئی تھی نماز پڑھی۔ آپ کی نماز کی حالت میں ایک پادری نے تصویر بھی اتاری“
(ملفوظات اقبال مرتبہ محمود نظامی صفحہ 318 )
مولانا عبدلامجید سالک لکھتے ہیں۔” ڈاکٹر صاحب نے یہ سارا واقعہ سید امجد علی کے نام لکھ بھیجا“( ذکر اقبال صفحہ138 )
علامہ اقبال کا یہ خط تا حال منظر عام پر نہیں آسکا۔ وگرنہ علامہ کے قلم سے یہ تفصیل سامنے آچکی ہوتی۔
مسجد قرطبہ میں علامہ اقبال کی دو تصاویر چھپ چکی ہیں جو روزگار فقیر صفحہ49,48 پر موجود ہیں۔ یہ دونوں تصاویر ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ایک تصویر میں وہ مصلیٰ پر قعود کی حالت میں نماز ادا کرنے میں مشغول ہیں جبکہ دوسری تصویر میں مصلیٰ پر ہاتھ میں چھڑی لیے کھڑے ہیں۔اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نماز سے فراغت کے بعد کی ہے۔یہ تصاویر مسجد کے اس مقام پر لی گئیں ہیں جو بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبال نے نماز ادا کرنے کیلئے مسلمانوں کے تاریخی اور تہذیبی پس منظر کو ذہن میں لاتے ہوئے اس جگہ کا انتخاب کیا ہوگا۔ یوں اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ علامہ نے طے شدہ پروگرام کے مطابق نمازادا کی۔ اور یہ کس اضطراری حالت کا نتیجہ نہیں جیسا کہ ان کے بعض تذکرہ نگار یہ تاثر دیتے ہیں علامہ اقبال نے جس جگہ نماز ادا کی وہ مسجد قرطبہ کا دلان ہے اس ہاتھ ایک محرابی راستہ ہے جو خلیفہ الحکم ثانی نے 961ءمیں تعمیر کرایا تھا۔یہ فن تعمیر کے حوالے سے انتہائی منفرد خصوصیات کا حامل ہے اور اس قدر اہم ہے کہ اسلامی فن تعمیر اور آرٹ کے نقطہ نظر سے تقریباً ہر کتاب میں مختلف زاویوں نے اس محراب کی تصویرREPRODUCE کی جاتی ہے کہ اس فن تعمیر کے حوالے سے اس کے محاسن بیان کئے جاتے ہیں۔
” ڈاکٹر صاحب کو قدیم عربی تہذیب سے نہایت دلچسپی بلکہ عشق تھا اور اسپین قدیم زمانے میں عربی تہذیب کا مرکز تھا اور اس زمانے میں اس کا مدفن ہے اس لئے اس سلسلے میں انہوں نے اسپین کا سفر کیا اور اسکی ہرچیز سے متاثر ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب نے خالص مذہبی اور تاریخی جذبات کے زیر اثر اسپین کا سفر کیا تھا اور اُس حیثیت سے وہاں کی ہر چیز پر نظر ڈالی۔اسپین کے سفر میں ڈاکٹر صاحب کو پروفیسر امین سے ملاقات کا موقع ملا (اقبال کامل29تا32 از مولانا عبدالسلام ندوی) علامہ اقبال نے اپنے سفر اسپین اپنے فرزند جاوید اقبال کے نام دوکارڈ بھیجے جو تصویری تھے جس پر مسجد قرطبہ کے عکس تھے اس کے ساتھ ہی لکھا کہ ”میں خدا کا شکر گزارہوں کہ میں اس مسجد کو دیکھنے کیلئے زندہ رہا مسجد تمام دنیا کی مساجد سے بہتر ہے خدا کرے تم جواں ہوکر اس عمارت کے انوار سے اپنی آنکھیں روشن کرو“۔
علامہ اقبال اسپین کی مسجد قرطبہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسپین سے۔ واپسی پر پیرس( فرانس ) سے ایڈیٹر انقلاب کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ
”مرنے سے قبل قرطبہ ضرور دیکھو،
”علامہ اقبال 27مارچ1933ءکو محمد اکرام کے نام اپنے خط میں سفر اسپین کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
” میں اپنی شاعری سے اس قدر لذت گیر ہوا۔ وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم مسجد قرطبہ پر لکھی گئی۔جو کسی وقت شائع ہوگی۔الحمراءکا تو مجھ پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی کیفیت میں پہنچا یاجو مجھے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔
( اقبال نامہ،جلد دوم ص321 )
علامہ اقبال نے مسجد قرطبہ پر ذیل کی نظم لکھی جس سے ان کے جذبات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔
آنی وفانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات
اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہوکہ نو منزل آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہوکسی مرد خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
تندو سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصر رواںکے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دم جبرائیل عشق دل مصطفےٰ
عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرگل تابناک
عشق ہے صبہائے خام عشق ہے کاسن الکرام
عشق فقیر حرم عشق امیر جنود
عشق ہے ابن سبل اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے لقمہ تار حیات
عشق سے نور حیات عشق سے نارحیات
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہویا خشت و سنگ چنگ ہویا صورت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرہ خون جگر سیل کو نبھاتا ہے دل
خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
عرش معلی سے کم سینہ ¿ آدم نہیں
گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہرِ کبود
پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا
اس کو سیر نہیں سوز و گداز سجود
کافر ہندی ہوں میں دیکھ میرا ذوق شوق
دل میں صلوٰة و درود لب پر صلوٰة درود
شوق میری لے میں ہے شوق میری نے میں ہے
نغمہ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے
تیرا جلال و جمال مرا خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل
تیری بنا پائیدار تیرے ستون بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
تیرے درو بام پروادی ایمن کا نور
تیرا مینار بلند جلوہ گہ جبرائیل
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلمان کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِ کلیم وخلیل
اسکی زمین بے حدود اس کا افق بے ثغور
اس کے سمندر کی موج دجل دینوب و نیل
اس کے زمانے عجیب اس کے فسانے غریب
عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل
ساقی اربابِ ذوق فارس میدان شوق
بادہ ہے اس کا رحیق تیغ ہے اسکی اصیل
مرد سپاہی ہے وہ اسکی زِرہ لا اِلہ
سایہ شمشیر میں اسکی پناہ لااِلہ
ربط