علامہ اقبال کا شکوہ، قسط نمبر 2

السلام علیکم
علامہ محمد اقبال رحمت اللہ کے شکوے کے سلسلے کے اگلے بند کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوں۔پڑھیں، سمجھیں اور سنیں۔
2.jpg
تشریح
یااللہ! یہ بجا طور پر سچ ہے کہ ہم مسلمان اطاعت گزاری میں مشہور ہیں، کلمہ گو ہیں، مگر ہماری زبوں حالی،محکومی اور زوالِ علم، اپنی کسمپرسی کی کہانی تیرے حضور پیش کرنے پر مجبور کرتی ہے( کہ تو ہی اس کا سبب جانتا ہے)۔بے شک ہم گو ایک خاموش ساز کی مانند ہیں،مجال نہیں تیری بارگاہ میں ہنگامہ کریں، یہ ساز ہماری شکایات کی نمائندگی کرتا ہے۔اگر ہمارے لبوں پر آہ کی آواز بھی آ جائے تو تو درگزر اور غفور ہے معاف فرما۔اے خدائے برتر ا جو تیرے تعابعدار ہیں آج ان سےان کا شکوہ سن لے، کہ تو نے ہی ہمیں یہ بولنے کی توفیق دی ہے۔جو تیری حمد و ثنا کرتے رہتے ہیں ان کی تھوڑی سی شکایت بھی سن لے۔کہ ہے کلام دل کی تصویر۔
جس طرح ایک نیک اور تابع فرمان انسان اپنے والدین کے سامنے اف نہیں کرتا اور ان کی ہر بات خاموشی سے سہہ لیتا ہے اور پھر انکی محبت کا سہارا لیکر اپنا مدعا پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ التجا اللہ پاک سے کی گئی ہے کہ اس کی شفیق اور محبت اور درگزر سے بھر پور ذات باری اپنی چاہتی مخلوق کی خاموش اشک بازی پر نگاہِ کرم ڈالے اور اپنے لامحدود علم سے اسکی رہنمائی کرے۔اللہ کی بابرکت ذات جس کے آگے کائنات کی ہر مخلوق سوالی ہے۔ہر لمحہ اسکی ہدایت کی طلب گار ہے وہ کبھی اپنی مخلوق پر ظلم نہیں کرتا اور نہ کرے گا۔یہی اللہ کا وعدہ علامہ اقبال رحمت اللہ کو اس شکوے کو قلم بند کرنے کا عزم دیتا ہے۔

(افتخار حسین کھوکھر)
 

یوسف-2

محفلین
علامہ اقبال کی نظم شکوہ جواب شکوہ پر علمائے کرام کے اعتراضات کے حوالہ سے ہونے والی ایک آن لائن گفتگو میں اس احقر نے درج ذیل خیالات کا اظہار کیا تھا۔ کلام اقبال کی تفہیم سے متعلق ہونے کی وجہ سے اس گفتگو کے چند اقتباسات کو یہاں شیئر کر رہاہوں:

مفتیوں کو اردو شعراء کی فوج ظفر موج میں صرف علامہ اقبال ایسا نظر آیا جس پر کفر کا فتویٰ لگاسکیں کہ وہ ”داڑھی منڈا“ تھا اور اس کی شاعری (کی کہانی میں) موجود منفی کردار منفی خیالات (کفریہ و شرکیہ جملوں) کا اظہار کیا کرتے ہیں اور اس بات کو دانستہ یا نادانستہ نظرانداز کردیتے ہیں کہ اقبال کی شاعری میں ایسے تمام منفی خیالات کا جواب بھی موجود ہے۔ واضح رہے جب ابتدا میں اقبال کی نظم شکوہ شائع ہوئی تھی تو کفر کےان فتاویٰ کی کسی حد تک سمجھ آتی تھی۔ جواب شکوہ کے بعد اکثر علماء نے اپنی اولین رائے سے رجوع بھی کر لیا تھا۔ لیکن ادب و شاعری سے قطعی ناواقف علماء پہلے بھی اور آج بھی ایسا لگتا ہے کہ علامہ کو تختہ مشق بنانے ہی میں اپنی ”اُخروی نجات“ سمجھتے ہیں۔

یہاں اس بات کا ”موقع“ نہیں کہ میں علامہ اقبال کی اُن خدمات کا ذکر کروں جو انہوں نے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے سر انجام دیں۔ آج ہم جس ”مملکت خدا داد پاکستان“ میں اسلامی نظام کے نفاذ کی (جیسی بھی) کوشش کررہے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ علامہ اقبال اسی مملکت کے ”بانیوں میں سر فہرست“ ہیں۔ علامہ کی اپنی ذاتی زندگی فسق و فجور سے دور تھی۔ گو چہرے پر داڑھی نہ تھی مگر وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ اور قرآن کا مطالعہ سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ آپ کے اکثر کلام میں قرآنی تعلیمات کی جھلک جابجا ملتی ہے۔ برصغیر کے بیشتر شعلہ بیاں خطیب اپنی تقریروں کو علامہ ہی کے اشعار سے سجانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ میں یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ علامہ کی سو فیصد شاعری ”قرآن و سنت“ کی بنیاد پر ہے۔ ایسا تو کوئی بڑے سے بڑا عالم دین بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کی ”سو فیصد تحریر و تقاریر“ قرآن و سنت پر سو فیصد پوری اترتی ہے۔ پھر ایک شاعر سے ایسی توقع کیوں کی جاتی ہے۔ جو بہر حال اپنی برادری میں دوسروں سے بہتر مسلمان ہے اور جس کی شاعری اکثر و بیشتر اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ ایک ایسے ”مومن شاعر “کی ذات و شاعری میں کیڑے نکالنے والے ذرا اپنے اپنے گریبانوں تو جھانک کر دیکھیں کہ کیا ان کی ذات ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے اور انہوں نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے فروغ میں حصہ لے کر علامہ و قائد اعظم کے حاصل کردہ مملکت کو انہوں نے کس درجہ تک ”اسلامی“ بنا لیا ہے۔ اسلام کے نام پر قائم کئے جانے والے بھاری اکثریتی مسلم مملکت کو اسلامی ڈھانچے میں تبدیل کرنا تو درکنار، ہم اس مملکت کو دو لخت ہونے سے بچانے میں بھی کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکے۔ آج بھی اس مملکت کو ایسے ہی خطرات کا سامنا ہے۔ مگر پاکستان کے ہر محلہ گلی کوچے میں موجود مولوی صاحبان سو فیصد ”پاکستانیوں“ کو یہ باور کرانے میں سراسر ناکام ہیں کہ ہمارا مفاد پاکستان کو قائم رکھنے میں ہے، اسے توڑنے میں نہیں۔ بنے بنائے مملکت کو ہم مذہب عوام کی مدد سے قائم رکھنا آسان کام ہے یا ایک ہندو اکثریتی ریاست متحدہ ہندوستان میں حاکم کافر قوم سے مسلمانوں کے لئے ایک مسلم اکثریتی مملکت حاصل کرنا آسان کام ہے۔ علامہ و قائد اعظم نے جو عظیم کارنامہ کر دکھا ہے، اس کی اہمیت ان کی ذات کے عیوب کی تشہیر کر کے کم نہیں کی جاسکتی۔ اور روز حشر اس جوابدہی سے نہیں بچا جاسکتا کہ ”داڑھی منڈوں“ نے تو تم مسلمانوں کے لئے ایک عظیم اسلامی مملکت قائم کرکے تمہارے حوالہ کردیا تھا ۔ تم لوگ اسے قائم و دائم رکھنے میں اور اس میں اسلامی نظام کے قائم کرنے میں کس حد تک ”کامیاب“ رہے۔ اللہ ہم سب کو وسعت نظری سے سرفراز کرے آمین ثم آمین

ایک عام کلیہ ہے کہ کفریہ و شرکیہ الفاظ کو نقل کرنا کفر اور شرک نہیں ہے۔ خود قرآن و حدیث میں بھی کفار و مشرکین کے کفریہ و شرکیہ کلمات نقل کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں علمائے کرام اور دینی اسکالرز بھی اپنی تحریروں اور تقریروں میں، جہاں انہیں ضرورت محسوس ہو، کفریہ و شرکیہ کلمات و خیالات کو ”نقل“ کرتے ہیں۔ یہی کام ادیب و شاعر بھی کرتے ہیں۔ لیکن دونوں کا انداز الگ الگ ہے۔

علماء اور اسکالرز کی تحریریں سادہ اور بیانیہ ہوتی ہیں۔ اور وہ جب بھی کسی کفری و شرکیہ خیالات و کلمات کو ”نقل“ کرتے ہیں تو ”صاف صاف“ لکھ دیتے ہیں کہ یہ اُن کے نہیں بلکہ فلاں اور فلاں کے خیالات ہیں۔ اس کے برعکس ادیب و شاعر کا نقلِ کفر و شرک بہ انداز دگر ہوتا ہے۔
ادیب و شاعر کی تحریریں ”تمثیلی“ انداز لئے ہوتی ہیں۔ اکثر ادبی تحریریں ”کہانیوں“ کے گرد گھومتی ہیں۔افسانہ ہو، ناول ہو، ڈرامہ ہو، یا خودسادہ کہانی، ہر ایک میں ”کہانی“ نمایاں یا غیر نمایاں طور پر ”موجود“ ضرور ہوتی ہے۔ اور جہاں کہانی ہوگی، وہاں ”کردار“ بھی ضرور ہوں گے۔ یہ ”کردار“ مثبت بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی۔ ایک ادیب یا شاعر منفی و مثبت دونوں قسم کے ”کرداروں“ کو تخلیق کرتا ہے۔ ادیب یہ کردار انسانی معاشرے ہی سے مستعار لے کر انہیں ”رنگ و روغن“ کرکے ”نمایاں“ کرکے پیش کرتا ہے۔ اسی لئے ادیبوں کے ”کردار“ میں ”مبالغہ آرائی تو ہوتی ہے، مگر ”خلاف واقعہ“ ہر گز نہیں ہوتے۔

ادب کے مختلف ”اصناف“ میں ” کہانی کے کردار مختلف انداز میں ”بولتے“ ہیں۔ اور انہیں زبان ادیب یا شاعر فراہم کرتا ہے۔ کسی ادبی شہ پارے میں کردار جو کچھ بولتے ہیں، وہ شاعر یا ادیب کے ذاتی نظریات و خیالات ہوتے بھی ہیں اور نہیں بھی ہوتے۔ اس کا انحصار ادیب و شاعر کی اپنی ”شخصیت“ پر ہوتا ہے۔ اور اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ وہ ”اپنی پیش کردہ کہانی“ کے ذریعہ منفی کرداروں کو پروموٹ کرتا ہے یا مثبت کرداروں کو۔ جب ایک باعمل مسلمان ادیب و شاعر اپنی کہانی میں ”منفی کرداروں“ کو پیش کرتا ہے تو بین السطور ان سے نفرت کرنا بھی سکھلاتا ہے یا مثبت کرداروں کو ان پر غالب کرکے دکھلاتا ہے۔ علامہ اقبال کا شکوہ بھی ایک ”منفی انسان یا مایوس مسلمان“ کے جذبات و خیالات کی ”ترجمانی“ کرتا ہے۔ اگر اس ترجمانی میں انہوں نے ”ایسے لوگوں کے خیالات و احساسات کو ”نقل“ کیا ہے تو کیا یہ نقل، ”کفر“ کے مترادف ہے۔ بالخصوص جب انہوں نے ”جواب شکوہ“ بھی پیش کرکے ایسے تمام ” فاسد خیالات“ کا رَد بھی پیش کردیا ہو۔ اگر کسی عالم دین نے اپنی کسی تحریر میں کفر یہ و شرکیہ الفاظ نقل کرکے اس کا ”جواب“لکھا ہو تو کیا ایسے عالم پر بھی اپنے قلم سے ”کفریہ و شرکیہ کلام لکھنے“ کا الزام لگایا جائے گا ؟

سچی بات تو یہ ہے کہ اگر بہ فرض محال مجھے شکوہ اور جواب شکوہ میں سے کسی ایک پر ”اعتراض“ کرنا پڑے تو مَیں تو ”جواب شکوہ“ پر کروں گا۔ ”شکوہ “ پر اعتراض اس لئے ”فضول“ ہے کہ اس میں حضرت اقبال نے مسلمانوں کے جس کم فہم گروہ کی ”ترجمانی“ کی ہے۔ ”اس قسم کے مسلمان“ ایسی ہی ”پست معیار“ کی گفتگو کرتے ہیں، جنہیں علمائے کرام ناسمجھی میں علامہ اقبال کے ”ذاتی خیالات“ سمجھ کر ان پر تنقید کر نے لگتے ہیں۔ علامہ نے ”جواب شکوہ“ میں اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے ”در جواب آں غزل“ پیش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص مکالمہ (شکوہ) کا اتنا طویل منظوم جواب لکھنا بہت ہی ”حساس معاملہ“ ہے۔ کیوں کہ:
(الف) ”شرعی اعتبار“ سے ہم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ”ایسی بات“ منسوب نہیں کر سکتے جو قرآن اور صحیح احادیث میں موجود نہ ہو ۔ ۔ ۔ واضح رہے کہ میں نے یہاں یہ نہیں کہا ہے کہ
(ب) ”شرعی اعتبار “سے ہم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ”ایسی بات“ منسوب نہیں کر سکتے جو قرآن اورصحیح احادیث کی تعلیمات کے خلاف ہو۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس ” ب “ طرز کے تمثیلی مکالمےلکھنا تو نسبتاً بہت آسان ہے۔ جبکہ کسی تمثیل میں، بالخصوص منظوم تمثیل میں اللہ کی طرف سے ”الف“ طرز کے مکالمے لکھنا، ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے لئے تلوار کی تیز دھار پر چلنے سے بھی مشکل کام ہے۔ اور علامہ اقبال کی قادرالکلامی نے اس تیز دھار کی تلوار پر اس طرح چل کر دکھا یا ہے کہ کسی بھی عالم دین کی طرف سے ”جوابِ شکوہ“ پر کوئی ”اعتراض“ سامنے نہیں آیا۔ حالانکہ کلیہ (الف) کو سامنے رکھ کر ”جوابِ شکوہ“ پر اعتراض کے مقامات ”تلاش“ کئے جاسکتے ہیں۔ اور اس اعتراض کی حیثیت بھی محض ایک علمی اعتراض یا تنقید جیسی ہوتی، جس سے کلیہ (ب) کی رو سےاختلاف بھی ممکن ہے۔
 
Top