محمد صہیب اعظم
محفلین
السلام علیکم
علامہ محمد اقبال رحمت اللہ کے شکوے کے سلسلے کے اگلے بند کے ساتھ حاضرِ خدمت ہوں۔پڑھیں، سمجھیں اور سنیں۔
تشریح
یااللہ! یہ بجا طور پر سچ ہے کہ ہم مسلمان اطاعت گزاری میں مشہور ہیں، کلمہ گو ہیں، مگر ہماری زبوں حالی،محکومی اور زوالِ علم، اپنی کسمپرسی کی کہانی تیرے حضور پیش کرنے پر مجبور کرتی ہے( کہ تو ہی اس کا سبب جانتا ہے)۔بے شک ہم گو ایک خاموش ساز کی مانند ہیں،مجال نہیں تیری بارگاہ میں ہنگامہ کریں، یہ ساز ہماری شکایات کی نمائندگی کرتا ہے۔اگر ہمارے لبوں پر آہ کی آواز بھی آ جائے تو تو درگزر اور غفور ہے معاف فرما۔اے خدائے برتر ا جو تیرے تعابعدار ہیں آج ان سےان کا شکوہ سن لے، کہ تو نے ہی ہمیں یہ بولنے کی توفیق دی ہے۔جو تیری حمد و ثنا کرتے رہتے ہیں ان کی تھوڑی سی شکایت بھی سن لے۔کہ ہے کلام دل کی تصویر۔
جس طرح ایک نیک اور تابع فرمان انسان اپنے والدین کے سامنے اف نہیں کرتا اور ان کی ہر بات خاموشی سے سہہ لیتا ہے اور پھر انکی محبت کا سہارا لیکر اپنا مدعا پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ التجا اللہ پاک سے کی گئی ہے کہ اس کی شفیق اور محبت اور درگزر سے بھر پور ذات باری اپنی چاہتی مخلوق کی خاموش اشک بازی پر نگاہِ کرم ڈالے اور اپنے لامحدود علم سے اسکی رہنمائی کرے۔اللہ کی بابرکت ذات جس کے آگے کائنات کی ہر مخلوق سوالی ہے۔ہر لمحہ اسکی ہدایت کی طلب گار ہے وہ کبھی اپنی مخلوق پر ظلم نہیں کرتا اور نہ کرے گا۔یہی اللہ کا وعدہ علامہ اقبال رحمت اللہ کو اس شکوے کو قلم بند کرنے کا عزم دیتا ہے۔
(افتخار حسین کھوکھر)