ڈاکٹراقبال کے دیوان و کلیات یعنی اقبال کے نام سے جو کلام مدون ہے یا زبان زد عام ہے اس میں مندرجہ بالا اشعار جو کہ راشد فاروق صاحب شریک محفل کیے ہیں یہ آپ اقبال جمع شدہ کلام میں قطعا نہ ملیں گے دراصل یہ کلام باقیات اقبال میں شامل ہے جو کہ ڈاکٹر اقبال لاہوری اپنی زندگی میں ہی لاہور سے شائع ہونے والے اخبار مخزن میں شائع کروایا
پہلے دوشعروں کامطلب اور مفہوم تو بہت واضح ہےجیسے کہ
آدمی کام کا نہیں رہتا
عشق میں یہ بڑی خرابی ہے
غالب نے اس خیال کو کچھ یوں باندھا ہے
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
مطلب یہ ہوا کہ عشق انسان کو دنیا و مافیہا سے الگ کردیتا ہے اور عشق کا شکار ہروقت اپنے محبوب کےخیال میں غرق رہتا ہے کسی شاعر نے اس خیال کو بہت خوبصورت طریقے سے اجاگر گیا ہے
اُن کی دُھن ،اُن کی تمنا ،اُن کی یاد
مختصرسا ہے مگر کافی ہے سامان حیات
میرے ناقص خیال کے مطابق ڈاکٹر اقبال ایسے عشق کے سخت خلاف تھے جو انسان کو غیرفعال (نان پریکٹل) کردے ۔اسی لیئے اپنے زمانے میں ان کی خواجہ حسن نظامی سے رسائل میں بہت بحث ہوئی اور یہ بحث اتنی بڑھی کہ بدمزگی پیدا ہوگئی تو سید اکبر الٰہ آبادی نےدرمیان میں پڑ کر دونوں کے مابین صلح کروائی۔
اقبال بال جبریل میں فرماتے ہیں
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
میری بساط کیا ہے ، تب و تاب یک نفس
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دل بے قرار کا
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب ، وہ درد جس کی کسک لازوال ہو!
دنیاوی علم جس کے بارے میں قران شریف میں آتا ہے ۔۔۔ ۔ قُتِلَ الْخَرَّاصُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ غَمْرَۃٍ سَاھُوْن َ۔پارہ۔۲۶ ۔ الذٰرِیٰتْ۔۱۰۔۱۱ ۔ (اٹکلیں (یعنی خیالی گھوڑے)دوڑانے والے ہلاکہوئے۔ڈاکٹر اقبال نے ایسا علم جو کہ غرور اور تکبر پیدا کرے ایسا علم جو نافع نہ ہو۔ اس کی اور عشق کی گفتگو کا خیال باندھا ہے ملاحظہ کیجئے
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندۂ تخمین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب!
عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب!
عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتح باب!
شرعِ محبت میں ہے عشرتِ منزل حرام
شورشِ طوفاں حلال، لذتِ ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب!
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
لن ترانی میں طور سوزی میں
پردے پردے میں بے حجابی ہے
لن ترانی یہ الفاظ قرآنی ہے اورسورہ الاعراف کی 143 آیت میں استعمال ہوا ہے ارشاد ربانی ہے وَلَمَّاجَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُقَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِفَإِنِ اسْتَقَرَّمَكَانَهُفَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّىرَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىصَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَقَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُإِلَيْكَوَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ۔ اور جب موسیٰ ہمارے مقرر کئے ہوئے وقت پر (کوہِ طور پر) پہنچے اور اُن کے رب نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے کہ اے اللہ! مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار (بھی) کروں۔ اللہ نے فرمایا کہ تم مجھے ہر گز نہ دیکھ سکو گے، ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے جب اُن کا رب پہاڑ پرنمودار ہوا تو (تجلی انوار ربانی نے) اُس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور میں توبہ کرتا ہوں اور جوا یمان لانے والے ہیں اُن میں سب سے اوّل ہوں۔
شیخ اقبال لاہوری نے لن ترانی کو اپنے کلام میں کچھ اسطرح استعمال کیا ہے
ذرا سا تو دل ہوں، مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
غضب کا خیال باندھا ہے ،کمال کردیا ہے بلکہ ڈرون اٹیک کردیا ہے
عین وصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا
گرچہ بہانہ جُو رہی میری نگاہ بے ادب
پوچھتے کیا ہو مذہب اقبال
یہ گنہگار بوترابی ہے
اس شعر کا مطلب جاننے کے لیئے اقبال کی شاعری میں اہل بیت سے محبت کو دیکھنا پڑے گا اور اس کا اندازہ وہی قاری کرسکتا ہے جس کے دل میں اہل بیت سے محبت ہو جیسا کہ بیدم وارثی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
بیدم یہی تو پانچ ہیں مقصود کائنات
خیر الوریٰ ،خیر النساء،حسنین اور علی
مرزا غالب فرماتے ہیں
غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگی بوتراب میں
کچھ اشعار جو کہ اہل بیت اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے بارے میں ہیں
تری خاک میں ہے اگر شرر، تو خیال فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری
جمال عشق و مستی نے نوازی
جلال عشق و مستی بے نیازی
کمال عشق و مستی ظرف حیدر
زوال عشق و مستی حرف رازی
یہ نکتہ سیکھا میں نے ابو الحسن سے
کہ جان مرتی نہیں مرگ بدن سے
ڈاکٹر اقبال اپنی تصنیف لطیف اسرار خودی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں
مسلم اول شہ مردان علی
عشق را سرمایہ ایمان علی
مردوں کے سردار حضرت علی ہیں اور عشق کے لیئے آپ کی ذات ایمان کا سرمایہ ہے
از ولای دودمانش زنده ام
در جهان مثل گوہر تابنده ام
مجھے ان کے خاندان سے محبت ہے اور ان کا عشق میری زندگی کا سرمایہ ہے اور اس کی برکت سے میں دنیا میں گوہر کی مانند تابندہ و چمک رہا ہوں
نرگسم وارفته ی نظاره ام
در خیابانش چو بو آواره ام
میں نرگس ہوں اور نظارے کے لیئے بے خود ہوں اور ان کے چمن کی کیاری میں خوشبو کی طرح ادھر ادھر اڑتا پھر رہا ہوں۔
زمزم ار جوشد ز خاک من ازوست
می اگر ریزد ز تاک من ازوست
اگر میری مٹی سے زمزم ابل رہا ہے تو ان کا فیضان ہے اگر میری انگور کی بیل سے شراب ٹپک رہی ہے تو یہ بھی اُن ہی کا کرم ہے۔
خاکم و از مهر او آئینه ام
می توان دیدن نوا در سینه ام
میں مٹی کی طرح کثیف ہوں لیکن ان کی محبت نے مجھے مثل آئینہ شفاف بنادیا ہے جس کی وجہ سے میرے سینے سے اٹھنے والی آواز کو تم دیکھ رہے ہو۔
مرسل حق کرد نامش بوتراب
حق «یدالله» خواند در ام الکتاب
رسول اللہ ﷺ نے آپ کو ابوتراب کے لقب سے ملقب کیا اور حق نے یداللہ قرار دیا۔
هر که دانای رموز زندگیست
سر اسمای علی داند کہ چیست
جو شخص زندگی کے بھید جانتا ہے اسے علم ہے کہ علی کے نام میں کیا پوشیدہ ہے۔
خاک تاریکی که نام او تن است
عقل از بیداد او در شیون است
مثلا ابو تراب کو ہی لے لیں یعنی بے نور مٹی کہ جس کا نام جسم ہے ۔عقل اس کے ظلم سے آہ و فریاد کررہی ہے
فکر گردون رس زمین پیما ازو
چشم کور و گوش ناشنوا ازو
از هوس تیغ دو رو دارد بدست
رهروان را دل برین رهزن شکست
شیر حق این خاک را تسخیر کرد
این گل تاریک را اکسیر کرد
مرتضی کز تیغ او حق روشن است
بوتراب از فتح اقلیم تن است
خدا کے شیر علی نے اس مٹی کو جس کا نام جسم ہے کو تسخیر کرلیا ہے ۔یہ مٹی بالکل بے نور تھی آپ نے ا سکو اکسیر بنالیا ہے۔آپ کے وجود مبارکہ ہیں جن کی تلوار سے حق و صداقت دنیا میں روشن ہوئے انہوں نے جسم کی ولایت فتح کرلی اس وجہ سے ابوتراب کا لقب پایا۔
مرد کشور گیر از کراری است
گوهرش را آبرو خودداری است
هر که در آفاق گردد بوتراب
باز گرداند ز مغرب آفتاب
جہاں کا سلطان بن جائے اگر علوی صفات و خصوصیات کو اپنا لے ۔پس گوہر بن جائے گا ا اپنی آبرو اور خودداری کا اور اس کے اندر کراکری صفات پیدا ہوجائیں گی۔درحقیقت یہی کراری صفت بندہِ عارف میں خود داری کی دلیل ہے اور خودداری ہی کی بدولت اس کے گوہر کی آبرو قائم ہے ۔پس جس نے اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے شہوات خواہشات اور ہوا اور حرص پر قابو پالیا پس وہ ابوتراب بن جاتا ہے اور ابو تراب وہ ہیں جو کہ مغرب سے سورج کو نماز عصر کے قضا ہونے پر واپس لوٹا دیتے ہیں۔
زیر پاش اینجا شکوه خیبر است
دست او آنجا قسیم کوثر است
از خود آگاهی یداللهی کند
از یداللهی شهنشاهی کند
خیبر کی شان و شوکت اس دنیا میں حضرت علی کے پاؤں کے نیچے تھی اور اگلی دنیا میں میں وہ ساقی کوثر ہونگے ۔پس خود آگاہی دست خدا ہے اور یہ دست خدا ہونا شہنشاہی ہے ۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہ کی شان میں
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول
مریم از عیسیٰ یک نسبت عزیز
با سہ (3)نسبت حضرت زہرا عزیز
علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ مریم علیھا السلام کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہونے کی وجہ سے صرف ایک نسبت ہے جب کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی تین نسبتیں ہیں ۔ جن کی وجہ سے وہ محترم و معزز ہیں
نورِ چشمِ رحمۃ اللعالمیں
آں امامِ اؤلین و آخرین
رحمت اللعالمین کی نور چشم ہیں ۔جو کہ امام اولین و آخرین ہیں ۔
بانُوئے آں تاجدار اھل اَتّٰی
مرتضیٰ ،مشکل کشا،شیرِ خدا
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی زوجہ مبارکہ ہیں جو کہ ھل اتی یعنی سورۃ دھر میں بیان شدہ نعمتوں کے حقدار ہیں
مادر آں قافلہ سالارِ عشق
مادر آں مرکزِ پرکارِ عشق
حسنین کریمین ،سردرارن جنت کی والدہ ماجدہ ہیں حضرت حسن رضی اللہ عنہ عشق حقیقی کے مرکز اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ عاشقان صادقین کے قافلے کے سردار ہیں ۔
امام حسن رضی اللہ عنہ کعبۃ اللہ میں نور ہدایت کے قیام کا باعث ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کے بکھرے ہوئے شیرازے کو یکجا کرنے اور عداوت اور جنگ و جدل کی آگ کو بجھانے کے لیئے مسند خلافت کو خیر آباد کہہ دیا ۔
امام حسین رضی اللہ عنہ صالحین کے آقا اور حریت پسند افراد کے قوت بازو ہیں زندگی میں عشق کی جلن اور لگن آپکی ذات بابرکات کی بدولت اپنی اصل حقیقت میں مؤجود ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات ہی مردانِ حق کے لیئے مشعل راہ ہے ۔
یہ سب تربیت ایک عظیم ماں ہی کرسکتی ہے ۔ حسنین کریمین کی اعلیٰ و ارفع شخصیات اور نیک سیرت اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کی مادر مہربان بزرگی ،سلیقہ ،قرینہ کی انتہائی بلندی پر متمکن ہیں۔
امام حسین کی شان بیان میں
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر وحنین بھی ہے عشق
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات
غریب وسادہ ورنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ، ابتدا ہے اسماعیل
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
نکل کرخانقاہوں سے اداکررسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری
آں امام عاشقاں پور بتول
سرور آزادے زبستان رسول
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
عاشقوں کے امام حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی اولاد اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے گلستان کے پھول ہیں حضرتعلی کرم اللہ وجہہ الکریم ان کے والد بزرگوار ہیں اس میں’’اللہ اللہ‘‘وہ کلمہ تحسین ہے جومرحبااورشاباش کے معنوں میں آتا ہے اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو‘‘بائے بسمہ اللہ‘‘ سے یادکیاگیا ہے یہ خود علامہ اقبال کی اہل بیت شناسی پرایک دلیل ہے امامحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو’’ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیا ہے علامہ اقبال قربانی امامحسین رضی اللہ تعالیٰ عنکوقربانی اسماعیل علیہ السلام کاتسلسل قرار دیتے ہیں۔(حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ تمام علوم قرآن شریف میں مؤجود ہیں اور تمام قرآن شریف کا علم سورۃ فاتحہ میں ہے اور سورۃ فاتحہ کا علم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں ہے اور اس کا نچوڑ حرف باء ہے اور میں اس باء کا نقطہ ہوں تفصیلات کے لیئے ملاحظہ فرمائیے )۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/الکہف-والرقیم-فی-شرح-بسم-اللہ-الرحمن-الرحیم.27195/
بہرآں شہزادہ خیرالملل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل
سرخ رو عشق غیور از خون او
شوخی ایں مصرع از مضمون او
روایت میں ہے کہ ایک دن نبی اکرمؐ اپنے دونوں نواسوں کوکندھوں پرسوار کرکےکھیلا رہے تھے آپ ﷺ نے اس وقت فرمایا کہ تمہارا اونٹ کیسا اچھا ہے اوراس کیسواریاں کیسی خوب ہیں ’’نعم الجمل‘‘ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔امام حسین رضی اللہ عنہ یعنی شہزادہ گلکوں قبا کے خون کی رنگینی سے عشق غیور سرخ رو ہے کربلا کے واقعہ سے اس موضوع میں حسن اوررعنائی پیدا ہوگئی ہے۔
درمیاں امت آں کیواں جناب
ہمچو حرف قل ھواللہ درکتاب
امت محمدیہ ﷺ میں آپ رضی اللہ عنہ کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے قرآن مجید میں سورۂ اخلاص کی ہے، سورۂ اخلاص میں توحید پیش کی گئی جو کہ قرآنی تعلیمات کا مرکزی نکتہ ہے، اسی طرح امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی امت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
دنیا میں حق و باطل کی کشمکش شروع سے چلی آ رہی ہے، اس کشمکش میں مجاہدین کی قوت بازو سے حق کا غلبہ ہوتا ہے اور باطل شکست و نامرادی سے دوچار ہوتا ہے
چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت راز ہر اندرکام ریخت
خاست آں سرجلوہ خیرالامم
چوں سحاب قبلہ باراں درقدم
برزمین کربلا بارید ورفت
لالہ در ویرانہ کارید رفت
جب خلافت کا تعلق قرآن سے منقطع ہو گیا اور مسلمانوں کے نظام میں حریت فکر و نظر باقی نہ رہی تو اس وقت امام حسین رضی اللہ عنہ اس طرح اٹھے جیسے جانب قبلہ سے گھنگھور گھٹا اٹھتی ہے یہ بادل وہاں سے اٹھا کربلا کی زمین پر برسا اور اسے لالہ زار بنا دیا۔
مدعایش سلطنت بودے اگر خودنکردے باچنیں سامان سفر
دشمناں چو ریگ صحرا لاتعد دوستان او بہ یزداں ہم عدد
اگر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کامقصد حصول سلطنت ہوتا تواس بے سروسامانی میں نہ نکلتے بلکہ دیگرسامان واسباب سے قطع، ساتھیوں کی تعداد کے اعتبار سے دیکھئے تویہ حقیقتواضح ہوجاتی ہے کہ مخالفین کالشکر لاتعداد تھامگر آپؑ کے ساتھ صرفبہتر(72)نفوس تھے یہاں علامہ نے یزداں کے عدد’’72‘‘ کاحوالہ دیا ہے۔(ی-10،ز-7،د-4،ا-1۔ن-50)
ان بلند و بزرگ و برتر شخصیات کی خصوصیات اور شمائل کا احاطہ بہت مشکل ہے بہرحال تھوڑی سی کوشش کی ہے ۔اللہ تبارک تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین