علامہ اقبال کے کلام کا اردو ترجمہ

استادانِ گرامی
ہمیں فارسی کی شدھ بدھ نہیں، ہمیں اقبال کے کلام کی شدھ بدھ نہیں پھر بھی ان کے فارسی کلام کا ترجمہ کرنے کی گستاخی کی ہے۔تصحیح فرمائیے۔
تو دوعالم کا غنی ہے، میں گدا

روزِ محشر کام اک کیجو مرا

ہاں چھپا کر دیجیو مالک مجھے

مصطفےٰ ﷺکے سامنے نامہ مرا

برائے خصوصی توجہ: جناب الف عین استادِ محترم، جناب محمد وارث صاحب، جناب م۔م۔مغلبھائی،

تو غنی از ھر دوعالم من فقیر

روزِ محشر عذر ھائے من پذیر

گر(ور) حسابم را تو بینی ناگزیر

از نگاہِ مصطفےٰ پنہاں بگیر
 

الف عین

لائبریرین
فارسی تو مابدولت کو بھی نہیں آتی۔ جتنی کچھ سمجھ میں آتی ہے، اس کے مطابق تو واقعی بہت خوب ترجمہ ہے۔ سادہ و پرکار۔
 

مغزل

محفلین
محمد خلیل الرحمٰن صاحب شدھ بدھ تو ہمیں بھی بس خال خال ہے ۔
مگر جتنی ہے اس حساب سے کمال منظوم ترجمہ کیا ہے ، سبحان اللہ ۔
مالک ومولیٰ برکتیں عطا فرمائے آمین ، تاخیر کی معذرت
 
خوب ترجمہ کیا ہے آپ نے خلیل صاحب، کیا کہنے جناب، بہت خوب۔

فارسی تو مابدولت کو بھی نہیں آتی۔ جتنی کچھ سمجھ میں آتی ہے، اس کے مطابق تو واقعی بہت خوب ترجمہ ہے۔ سادہ و پرکار۔

محمد خلیل الرحمٰن صاحب شدھ بدھ تو ہمیں بھی بس خال خال ہے ۔
مگر جتنی ہے اس حساب سے کمال منظوم ترجمہ کیا ہے ، سبحان اللہ ۔
مالک ومولیٰ برکتیں عطا فرمائے آمین ، تاخیر کی معذرت

تصحیح​
ہمیں فارسی کی شُد بُد نہیں، ہمیں اقبال کے کلام کی شُد بُد نہیں ، ہمیں شاعری کی بھی کچھ شُد بُد نہیں ،پھر بھی ان کے فارسی کلام کا ترجمہ کرنے کی گستاخی کی ہے۔ البتہ اساتذہ نے جس محبت، خلوص، اپنائیت اور پیار سے تبصرہ فرمایا ہے اسے کچھ ہمارا دل ہی جانتاہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔​
 

مغزل

محفلین
ارے خلیل صاحب کیوں ڈانٹتے ہیں مجھ غریب فاترالعقل کو۔۔ یہ اساتذہ کے ذکر میں میرا کیا دخل ؟؟؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
تو دوعالم کا غنی ہے، میں گدا

روزِ محشر کام اک کیجو مرا

ہاں چھپا کر دیجیو مالک مجھے

مصطفےٰ ﷺکے سامنے نامہ مرا
خلیل الرحمان صاحب اتنے سادہ، پرکار، مصرعہ بہ مصرعہ بلکہ(تقریباً) لفظ بہ لفظ ترجمہ پر مبارک باد قبول کیجئے
اور ہاں! یہ سلسلہ جاری رکھیے گا
شکریہ
 
ارے خلیل صاحب کیوں ڈانٹتے ہیں مجھ غریب فاترالعقل کو۔۔ یہ اساتذہ کے ذکر میں میرا کیا دخل ؟؟؟

م۔م۔مغل بھائی!
استادِ محترم جناب الف عین صاحب ، جناب محمد وارث صاحب اور ان کے بعد محفل کے تمام مستند و معتبر شعراء ہمارے لیے اساتذہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ حضرات جن کا شعری ذوق غضب کا ہے اکثر اپنی ہی آراء کے ذریعے اظہار کرتے ہیں، وہ بھی ہمارے لیے محترم ہیں۔لہٰذا :)
 
خلیل الرحمان صاحب اتنے سادہ، پرکار، مصرعہ بہ مصرعہ بلکہ(تقریباً) لفظ بہ لفظ ترجمہ پر مبارک باد قبول کیجئے
اور ہاں! یہ سلسلہ جاری رکھیے گا
شکریہ

شاکرالقادری بھائی!
بہت عنایت و مہربانی۔ آپ کی توجہ میرے لیے اعزاز ہے۔ جزاک اللہ محترم
 

الف عین

لائبریرین
تکنیکی اعتبار سے ابھی غور کیا تو ایک سقم نظر آیا ہے قوافی کا۔
ان دونوں مصرعوں میں قافیہ کیا ہے؟ کیجو اور نامہ ہم قافیہ نہیں۔ اس کو یوں کیا جا سکتا ہے
روزِ محشر کام یہ کرنا مرا
اور چوتھے مصرع میں ’نامہ‘ کی املا ’ناما‘ سے بدل دو۔

روزِ محشر کام اک کیجو مرا

مصطفےٰ ﷺکے سامنے نامہ مرا
 

مغزل

محفلین
خلیل صاحب آپ سے التماس ہے کہ اپنا مزید کلام ۔۔ طے کردہ لڑی میں شامل کیجے اور باصرہ نوازی پر مشکور ہوں۔۔۔ نیاز مند و مشرب
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ!

کیا ہی عمدہ ترجمہ ہے۔ ہم ایسے لوگوں کے لئے نعمت سے کم نہیں ہے جو فارسی نا آشنا ہیں۔

بہت خوب محترم خلیل الرحمٰن بھائی !

شاد آباد رہیے۔
 

atta

محفلین
فارسی نہیں آ تی لیکن اچھی بہت لگتی ہے.
فارسی کلام کے منظوم تراجم بہت خوب رہے.ماشاءاللہ
 
ما شااللہ اچھا ترجمہ کیا ہے۔ ہم نے اپنی فیس بک کا کور، اس رباعی اور اس کے اردو ترجمہ سے سجا رکھا ہے۔ ترجمہ البتہ اس سے مختلف ہے۔
اے اللہ، تو دو جہانوں کو عطا کرنے والا ہے اور میں فقیر ہوں
روز محشر میرے عذر (میری معذرت) کو پزیرائی بخشنا
اگر میرے نامہ اعمال کا حساب ناگزیر ہو
اسے میرے آقا محمد کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا
936037_562238937184469_1636452115_n.jpg
 
آخری تدوین:
ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہوا۔ ڈیرہ غازی خان کے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے اللہ داد خان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس کا نام محمد رمضان رکھا گیا۔ رمضان ہونہار طالب علم نکلا۔ بی۔ اے کے بعد بی ۔ ٹی کا امتحان پاس کیا اور بطور انگلش ٹیچر سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ طبیعت میں فقیرانہ استغنا بھی تھا اور صوفیانہ بے نیازی بھی ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور سرکار انگلیسیہ کا ملازم ہونے کے باوجود کبھی دیسی لباس ترک نہ کیا۔ چہرہ سنت رسول سے سجا تھا ہمیشہ ہاتھ میں ایک موٹی سوٹی اور کندھے پر بڑا سا تولیہ ڈالے رکھتے۔ فارسی اور اردو کے شعر کہتے ۔ علامہ اقبال کے عشاق میں سے تھے۔ انکے کئی اشعار پہ تضمین کہی جو علامہ نے بہت پسند کی۔ ایک نوجوان، عطا محمد جسکانی سے گہرے لگاؤ کے باعث عطائی تخلص اختیار کیا اور محمد رمضان عطائی کہلانے لگے۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب عطائی ڈیرہ غازی خان کے گورنمنٹ اسکول میں تعینات تھے۔ انہی دنوں ان کے قریبی شناسا مولانا محمد ابراہیم ناگی بھی ڈیرہ غازی خان کے سب جج تھے۔ ابراہیم ناگی ایک درویش منش اور صاحب علم شخصیت تھے۔ مولانا ابراہیم کو علامہ اقبال سے ملاقاتوں کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ ایک دن مولانا ابراہیم لاہور گئے علامہ سے ملاقات ہوئی۔ واپس آئے تو سر شام معمول کی محفل جمی۔ علامہ سے ملاقات کا ذکر چلا تو عطائی کا جنوں سلگنے لگا۔ مولانا نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر عطائی کو دکھایا۔ یہ علامہ کی اپنی تحریر تھی۔ مولانا کہنے لگے۔ لو عطائی ! علامہ صاحب کی تازہ رباعی سنو۔ پھر وہ ایک عجب پر کیف انداز میں پڑھنے لگے۔ تو غنی از ہر دو عالم من فقیر روز محشر عذر ہائے من پذیر ور حسابم را تو بینی ناگزیر از نگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر مولانا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے لیکن محمد رمضان عطائی کی کیفیت روتے روتے دگرگوں ہو گئی۔ اسی عالم وجد میں فرش پر گرے۔ چوٹ آئی اور بے ہوش ہوگئے۔ رباعی ان کے دل پر نقش ہو کے رہ گئی۔ اٹھتے بیٹھتے گنگناتے اور روتے رہے انہی دنوں حج پر گئے۔ خود اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ جب حجاج اوراد و وظائف میں مصروف ہوتے تو وہ زار و قطار روتے اور علامہ کی رباعی پڑھتے رہتے۔ حج سے واپسی پر دل میں ایک عجب آرزو کی کونپل پھوٹی۔ کاش یہ رباعی میری ہوتی یا مجھے مل جاتی یہ خیال آتے ہی علامہ اقبال کے نام ایک خط لکھا آپ سر ہیں فقیر بے سر۔ آپ اقبال ہیں، فقیر مجسم ادبار۔ لیکن طبع کسی صورت کم نہیں پائی انہوں نے علامہ کے اشعار کی تضمین اور اپنے فارسی اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا "فقیر کی تمنا ہے کہ فقیر کا تمام دیوان لے لیں اور یہ رباعی مجھے عطا فرما دیں۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ انہیں علامہ کی طرف سے ایک مختصر سا خط موصول ہوا۔ لکھا تھا: جناب محمد رمضان صاحب عطائی۔ سینئر انگلش ماسٹر۔ گورنمنٹ ہائی اسکول ڈیرہ غازی خان۔ لاہور : 19/ فروری 1937 جناب من: میں ایک مدت سے صاحب فراش ہوں خط و کتابت سے معذور ہوں باقی، شعر کسی کی ملکیت نہیں آپ بلا تکلف وہ رباعی، جو آپ کو پسند آگئی ہے اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ فقط : محمد اقبال ۔ لاہور علامہ نے یہ رباعی اپنی نئی کتاب ارمغان حجاز کے لئے منتخب کر رکھی تھی۔ عطائی کی نذر کر دینے کے بعد انہوں نے اسے کتاب سے خارج کر کے، تقریباً اسی مفہوم کی حامل ایک نئی رباعی کہی جو ارمغان حجاز میں شامل ہے۔ بہ پایاں چوں رسد ایں عالم پیر شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر مکن رسوا حضور خواجہ ما را حساب من زچشم او نہاں گیر (اے میرے رب! روز قیامت) یہ جہان پیر اپنے انجام کو پہنچ جائے اور ہر پوشیدہ تقدیر ظاہر ہو جائے تو اس دن مجھے میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور رسوا نہ کرنا اور میرا نامہ اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے چھپا رکھنا) ایم اے فارسی کا امتحان دینے لاہور گئے تو عطائی ، شکریہ ادا کرنے علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہمراہ جانیوالے چوہدری فضل داد نے تعارف کراتے ہوئے کہا یہ بوڑھا طوطا ایم اے فارسی کا امتحان دینے آیا ہے علامہ ایک کھری جھلنگا چار پائی پر احرام نما سفید چادر اوڑھے لیٹے تھے۔ بولے۔ عاشق کبھی بوڑھا نہیں ہوتا رباعی کا ذکر چل نکلا۔ عطائی نے جذب و کیف سے پڑھنا شروع کیا۔ توغنی از ہر دو عالم علامہ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔ اتنا روئے، اتنا روئے کہ سفید چادر کے پلو بھیگ گئے۔ آخری ملاقات علامہ کے انتقال سے کوئی چار ماہ قبل دسمبر 1937 میں ہوئی۔ انہوں نے علامہ سے کہا سنا ہے جناب کو دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بلاوا آیا ہے علامہ آبدیدہ ہو گئے ۔ آواز بھرا گئی۔ بولے ہاں ! بے شک لیکن جانا نہ جانا یکساں ہے، آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہے، یار صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کا لطف دیدہ طلبگار کے بغیر کہاں۔ عطائی نے کہا جانا ہو تو دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ رباعی ضرور پیش فرمائیے گا۔ جو اب میری ہے علامہ زار و قطار رونے لگے۔ سنبھلے تو کہا عطائی ! اس رباعی کو بہت پڑھا کرو۔ ممکن ہے خدا وند کریم مجھے اسکے طفیل بخش دے۔ 1938 میں علامہ انتقال فرما گئے۔ عرصہ بعد شاہی مسجد کے احاطے میں ان کے مزار کی تعمیر شروع ہوئی تو ہر ہفتے اور اتوار کو ایک مجذوب شخص لاٹھی تھامے مسجد کی سیڑھیوں پر آبیٹھتا اور شام تک موجود رہتا۔ وہ زیر تعمیر مزار پہ نظریں گاڑے ٹک ٹک دیکھتا رہتا۔ کبھی یکایک زاری شروع کر دیتا۔ کبھی طواف کے انداز میں مزار کے چکر کاٹنے لگتا۔ اس کا نام محمد رمضان عطائی تھا ۔ مولانا محمد ابراہیم ناگی کبھی کبھی کہا کرتے ظالم عطائی! کان کنی تو میں نے کی اور گوہر تو اڑا لے گیا۔ بخدا اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ حضرت غریب نواز (علامہ اقبال) اتنی فیاضی کریں گے تو میں اپنی تمام جائیداد دے کر یہ رباعی حاصل کر لیتا اور مرتے وقت اپنی پیشانی پر لکھوا جاتا۔ محمد رمضان عطائی ، سینئر انگلش ٹیچر 1968 میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے اپنی وصیت میں لکھا۔ میرے مرنے پر اگر کوئی وارث موجود ہو تو رباعی مذکور میرے ماتھے پہ لکھ دینا اور میرے چہرے کو سیاہ کر دینا
 
Top