مغزل
محفلین
پشت پہ گھر
بیدل حیدری کے مجموعے سے انتخاب (۱۲ویں صدی کی کلاسیکی شاعری)
دریا نے جب سے چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا
گرمی لگی تو خود سے الگ ہوکے سوگئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا
بیدل لباس ِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
--------------------------------------
وہ ابھی محو خواب ہے بیدل
اور ہوا جاگتی ہے کھڑکی میں
--------------------------------------
بازار اگر ہے گرم تو کرتب کوئی دکھا
سب گاہکوں سے آنکھ بچاکر خرید اسے
--------------------------------------
ترے جانے سے ہر شے میں کمی ہے
بس اک صدمہ زیادہ ہورہا ہے
--------------------------------------
تمام عمر ہی تشریح میں گزر جائے
وہ اختصار جو اس زود گو کی بات میں تھا
--------------------------------------
بارش میں لے کے جاؤں کہاں خستہ جسم کو
گھر سے نہ نکا ل مرے گھر کی چھت مجھے
کالی دوات کون انڈیلے فصیل پر
منظور ہی نہیں ہے لہو کی بچت مجھے
--------------------------------------
جب دل چاہے سو لیتے ہیں
آنکھ اور بخت میں سمجھوتہ ہے
--------------------------------------
میں تو گردن سے ہاتھ دھو بیٹھا
طوق ِ غم توڑنے کی کوشش میں
--------------------------------------
میں کمرے کے اندر ہوں
کمرہ پھر بھی خالی ہے
--------------------------------------
آتا ہوا دکھائی دیا تھا وہ دور سے
پھر یہ ہوا کہ ساتھ نظر نے نہیں دیا
صیقل کیا ہے مجھ کو مری حیرتوں نے خود
یہ آئینہ تمہاری نظر نے نہیں دیا
--------------------------------------
لحاف اوڑھ کے سوتی رہی ہوا بیدل
چراغ جلتا رہا سامنے کی کھڑکی میں
--------------------------------------
آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ
شب کو،کاغذ پہ تری شکل بنانے لگ جائیں
اُس پہ یہ طرفہ تماشا کہ خطوں کو اُس کے
خود ہی محفوظ کریں، خود ہی جلانے لگا جائیں
--------------------------------------
شہرِ دل میں وہ حبس ہے بیدل
جیسے کمرہ دھوئیں سے بھر جائے
--------------------------------------
یہ سوچوں کی مسافت بھی عجب ہے
مرے کاندھے ہیں اور اسباب اس کا
--------------------------------------
رات ہوا کی دستک میں تھی خوشبو کس کے لہجے کی
ایک دفعہ تو بول پڑی تھیں ،سب تصویریں کمرے کی
--------------------------------------
میں نے چھوکر پڑھ لیا چہرہ تیر ا
اب مری آنکھوں سے پٹی کھول دے
--------------------------------------
کچھ تو ہے جو دل دیوانہ ،پتھر برکھا مانگے ہے
یوں لگتا ہے رُت آپہنچی، بند دریچے کُھلنے کی
--------------------------------------
ایک امید ہے رکھتی ہے جو دل کو شاداب
اک دریچہ ہے جو دریا کی طرف کھلتا ہے
--------------------------------------
گھر پہلے پہنچتا ہے ،اب دیکھیے کون اپنے
سورج کو بھی جلدی ہے ،گھر مجھ کو بھی جانا ہے
--------------------------------------
جو، اب کسی کو بھی اُڑتا ہو ا نہ دیکھ سکے
بہت پسند تھیں بچپن میں تتلیاں اُس کو
--------------------------------------
اُس نے کل گاؤں سے جب رخت ِ سفر باندھا تھا
بچہ آغوش میں تھا ،پشت پہ گھر باندھا تھا
یہ جو لوگوں کو اب آواز سے پہچانتا ہے
اس کی ماں نے اسے تعویذ ِ نظر باندھا تھا
--------------------------------------
انتخاب : سید انور جاوید ہاشمی
بیدل حیدری کے مجموعے سے انتخاب (۱۲ویں صدی کی کلاسیکی شاعری)
دریا نے جب سے چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا
گرمی لگی تو خود سے الگ ہوکے سوگئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا
بیدل لباس ِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
--------------------------------------
وہ ابھی محو خواب ہے بیدل
اور ہوا جاگتی ہے کھڑکی میں
--------------------------------------
بازار اگر ہے گرم تو کرتب کوئی دکھا
سب گاہکوں سے آنکھ بچاکر خرید اسے
--------------------------------------
ترے جانے سے ہر شے میں کمی ہے
بس اک صدمہ زیادہ ہورہا ہے
--------------------------------------
تمام عمر ہی تشریح میں گزر جائے
وہ اختصار جو اس زود گو کی بات میں تھا
--------------------------------------
بارش میں لے کے جاؤں کہاں خستہ جسم کو
گھر سے نہ نکا ل مرے گھر کی چھت مجھے
کالی دوات کون انڈیلے فصیل پر
منظور ہی نہیں ہے لہو کی بچت مجھے
--------------------------------------
جب دل چاہے سو لیتے ہیں
آنکھ اور بخت میں سمجھوتہ ہے
--------------------------------------
میں تو گردن سے ہاتھ دھو بیٹھا
طوق ِ غم توڑنے کی کوشش میں
--------------------------------------
میں کمرے کے اندر ہوں
کمرہ پھر بھی خالی ہے
--------------------------------------
آتا ہوا دکھائی دیا تھا وہ دور سے
پھر یہ ہوا کہ ساتھ نظر نے نہیں دیا
صیقل کیا ہے مجھ کو مری حیرتوں نے خود
یہ آئینہ تمہاری نظر نے نہیں دیا
--------------------------------------
لحاف اوڑھ کے سوتی رہی ہوا بیدل
چراغ جلتا رہا سامنے کی کھڑکی میں
--------------------------------------
آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ
شب کو،کاغذ پہ تری شکل بنانے لگ جائیں
اُس پہ یہ طرفہ تماشا کہ خطوں کو اُس کے
خود ہی محفوظ کریں، خود ہی جلانے لگا جائیں
--------------------------------------
شہرِ دل میں وہ حبس ہے بیدل
جیسے کمرہ دھوئیں سے بھر جائے
--------------------------------------
یہ سوچوں کی مسافت بھی عجب ہے
مرے کاندھے ہیں اور اسباب اس کا
--------------------------------------
رات ہوا کی دستک میں تھی خوشبو کس کے لہجے کی
ایک دفعہ تو بول پڑی تھیں ،سب تصویریں کمرے کی
--------------------------------------
میں نے چھوکر پڑھ لیا چہرہ تیر ا
اب مری آنکھوں سے پٹی کھول دے
--------------------------------------
کچھ تو ہے جو دل دیوانہ ،پتھر برکھا مانگے ہے
یوں لگتا ہے رُت آپہنچی، بند دریچے کُھلنے کی
--------------------------------------
ایک امید ہے رکھتی ہے جو دل کو شاداب
اک دریچہ ہے جو دریا کی طرف کھلتا ہے
--------------------------------------
گھر پہلے پہنچتا ہے ،اب دیکھیے کون اپنے
سورج کو بھی جلدی ہے ،گھر مجھ کو بھی جانا ہے
--------------------------------------
جو، اب کسی کو بھی اُڑتا ہو ا نہ دیکھ سکے
بہت پسند تھیں بچپن میں تتلیاں اُس کو
--------------------------------------
اُس نے کل گاؤں سے جب رخت ِ سفر باندھا تھا
بچہ آغوش میں تھا ،پشت پہ گھر باندھا تھا
یہ جو لوگوں کو اب آواز سے پہچانتا ہے
اس کی ماں نے اسے تعویذ ِ نظر باندھا تھا
--------------------------------------
انتخاب : سید انور جاوید ہاشمی