علامہ دانش کے کارنامے (۶۔بھوتوں کی بستی)

بھُوتوں کی بستی
معراج
علّامہ دانش ان دنوں بھوتوں کے متعلق تحقیقات کر رہے تھے۔ اتفاق سے انہی دنوں آسٹریلیا کے اخباروں میں ایک دلچسپ خبر شائع ہوئی۔ وہاں ایک ویران بستی میں بھوتوں نے ڈیرا جما رکھا تھا۔ اس کی تصدیق کئی لوگوں نے کی تھی۔ علّامہ نے ہمیں اخبار کا ایک تراشہ پڑھنے کے لیے دیا۔ اس میں یوں لکھا تھا:
بھُوتوں کی بستی
جنوبی آسٹریلیا میں دریائے کوپر کے کنارے ایک بستی جارج ٹاؤن آباد تھی۔ دریا کے دونوں طرف بہت اونچے اونچے درخت تھے اور اس کی وادی بےحد سرسبز و شاداب تھی۔ لوگوں نے وہاں مویشیوں کے فارم قائم کر رکھے تھے۔ بدقسمتی سے دریا نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا۔ اس کے کنارے بسنے والے گاؤں جارج ٹاؤن کے لوگ پانی کی تلاش میں اپنے گھربار چھوڑ کر دوسری جگہوں میں منتقل ہونے لگے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد یہ بستی بالکل ویران ہوکر رہ گئی۔جو جانور وہاں باقی رہ گئے تھے، وہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے۔ آخر بھوک پیاس سے وہیں مر گئے۔ ہزاروں جانوروں کے ڈھانچے وہاں بکھرے پڑے ہیں۔ ایک خشک تالاب کے ارد گرد سینکڑوں جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ پیاس سے مر گئے تھے۔ان کا گوشت تو کب کا گل سڑ چکا تھا۔ صرف ہڈیوں کے ڈھانچے اور چمڑا رہ گیا تھا۔
بعض مکانات مٹی میں دفن ہوچکے ہیں، بعض گر چکے ہیں لیکن کچھ مکانات ابھی تک صحیح سالم موجود ہیں۔ ان کے رہنے والے جو میز، کرسیاں، کتابیں، کپڑے اور دوسری چیزیں جس طرح چھوڑ کر گئے تھے وہ جوں کی توں موجود ہیں۔ پہلے ان مکانوں میں انسان رہتے بستے تھے، مگر اب وہاں چوہوں، الوّوں اور پہاڑی کوّوں کا بسیرا ہے۔ غرض پورا ماحول بےحد دہشت ناک ہے۔ کچھ عرصے بعد یہ افواہ سنی گئی کہ یہاں بھوتوں نے ڈیرا جما لیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ یہ بھوت چیختے چلاتے ہیں اور انسانوں کی طرح بولتے ہیں۔
کچھ عرصے قبل ایک سفید فام شخص سونے چاندی کی تلاش میں اس بستی میں پہنچا۔ کچھ دنوں بعد وہ گرتا پڑتا واپس ایک آبادی میں پہنچا۔ وہ ڈر کے مارے پاگل سا ہورہا تھا۔ اس نے بہت مشکل سے بھوتوں کے متعلق کچھ بتایا۔ وہ کچھ عرصے بخار میں مبتلا رہ کر چل بسا۔
ایک افسر بہت دلیر آدمی تھا۔وہ اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے وہاں گیا۔اس کا بھی بھوتوں سے واسطہ پڑا۔ بھوتوں نے اس کو اتنا ڈرا دیا کہ وہ بہت دن تک بیمار رہا۔ آخر وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر انگلستان چلا گیا۔
ہمارے اخباری نمائندوں کی ایک جماعت اس خبر کی سچائی معلوم کرنے کے لیے جارج ٹاون پہنچی۔ وہاں کا ماحول بےحد دہشت ناک ہے۔ ان کے وقت تو وہاں بالکل سناٹا طاری رہتا ہے۔ انہوں نے رات کے وقت بھوتوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنیں۔ وہ بھی دہشت زدہ ہو کر وہاں سے واپس لوٹے۔
میں نے اخبار علّامہ کو واپس دے دیا۔
علّامہ نے اخبار کو اپنے بیگ میں رکھا اور بولے، "میرا ارادہ ہے کہ آسٹریلیا جاؤں اور خود ان بھوتوں کے متعلق تحقیقات کروں۔"
اگلے ہفتے ہم آسٹریلیا پہنچے۔ جو اخبار میں لکھا ہوا تھا، وہ حرف بہ حرف درست نکلا۔ ویران اور غیر آباد مکانات دیکھ دیکھ کر وحشت ہونے گی۔ جگہ جگہ ہڈیوں کے ڈھیر اور ڈھانچے دیکھ کر طبیعت اور بھی زیادہ پریشان ہوئی۔ میں نے وہ تالاب بھی دیکھا، جس کے پاس سینکڑوں جانور بھوک پیاس سے مر گئے تھے اور ان کے ڈھانچے ابھی تک پڑے ہوئے تھے۔
دن کا وقت تو جیسے تیسے گذر گیا۔ رات آئی تو ڈر کے مارے میری بری حالت تھی۔ کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا بھوتوں کو دیکھنے کے لیے نہیں چلو گے؟"
میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا، "مجھے معاف ہی رکھیے۔ مجھے بھوتوں سے ملنے کا کوئی شوق نہیں۔"
جب مرشد، آزونا اور علامہ دانش چلے گئے تو اور بھی زیادہ دہشت محسوس ہونے لگی۔ میں جہاز سے باہر نکلا، سوکھی جھاڑیاں اور گھاس پھونس اکھٹی کی اور چائے بنانے لگا۔ کچھ دیر بعد جب میں چائے پی رہا تھا تو کسی نے بہت آہستہ سے لیکن صاف اور واضح آواز میں کہا، "وہ سب مر گئے۔"
میرا رواں رواں خوف سے کھڑا ہوگیا۔ میں نے وہاں سے بھاگ جانا چاہا لیکن میرے پاؤں من من بھر کے ہوگئے تھے۔
پھر کسی نے بہت درد ناک آواز میں کہا، "پانی پانی، اللہ کے لیے مجھے پانی پلادو۔"
جواب میں کوئی قہقہہ مار کر ہنسا۔ پھر کسی نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا، "آہ، وہ سب مر گئے مرگئے مرگئے۔"
میں نے ادھر ادھر دیکھا لیکن وہاں کوئی بھی تو نہ تھا۔ پھر کسی نے میرے سر کے بالکل اوپر چیخ مار کر کہا، "ہائے سب مرگئے، مرگئے۔"
میں نے اوپر نگاہ ڈالی، وہاں کوئی نہیں تھا۔ دور آسمان پر ستارے ٹمٹمارہے تھے۔ مجھے پاگل بنانے کے لیے یہ بہت کافی تھا۔ میں نے خوف اور دہشت سے ایک چیخ ماری اور اپنے ساتھیوں کی تلاش میں دیوانوں کی طرح دوڑا۔ میں نے پوری قوّت سے آواز دی، "تم کہاں ہو؟ مرشد، آزونا، علّامہ۔"
کسی نے بہت قریب سے جواب دیا، "مرگئے، سب مر گئے، مرگئے۔" پھر کوئی سسکیاں لے لے کر رونے لگا۔ میں کمزور اعصاب کا وہمی آدمی نہیں ہوں لیکن اس وقت خوف اور دہشت سے میرا حال بہت برا تھا۔ میں مدد کے لیے چیختا چلاتا ہوا دوڑتا چلا گیا۔ راستے میں ان جانوروں کے ڈھانچوں سے ٹکرا گیا جو تالاب کے کنارے پڑے تھے۔ میں تالاب میں جا گرا اور بہت سے ڈھانچے میرے اوپر آ گرے۔ گرتے وقت میرے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی۔ اس کے بعد میں بےہوش ہوگیا۔
جب مجھے ہوش آیا تو میرے سب ساتھی میرے پاس موجود تھے۔ انہوں نے ہی مجھے تالاب سے نکالا تھا۔ میں نے مختصر لفظوں میں اپنی کہانی سنادی۔ مرشد ہنس کر بولا، "یہ سب تمہارا وہم ہے۔ ہم بھی یہاں بہت دیر سے گھوم پھر رہے ہیں، ہمیں تو کوئی بھوت ملا نہیں۔" اس کی تسلی آمیز باتوں سے میرے دل کو بھی ڈھارس ہوئی۔ میں نے کہا، "تم سب میرے ساتھ چلو۔ پھر خود ہی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ میں سچ کہتا ہوں یا جھوٹ؟"
ہم اس جگہ پہنچے جہاں میں نے چائے بنائی تھی۔ اچانک کسی نے بہت گھٹی گھٹی آواز میں کہا، "پانی پانی، مجھے تھوڑا سا پانی پلادو۔"
کوئی سامنے کے مکان سے قہقہہ مار کر ہنسا، ۔ پھر کسی نے چیخ ماری اور دردناک آواز میں کہا، "سب مرگئے، آہ، مرگئے مرگئے۔"
ہمارا افریقی ملازم تو اچانک ہی بےہوش ہو کر گر پڑا۔ وہ بےچارا بہت دیر سے ہمّت کا مظاہرہ کر رہا تھا لیکن بھوتوں کی چیخ و پکار کی تاب نہ لاسکا۔ میں اس کی تیماداری میں مصروف ہوگیا۔ کافی دیر بعد اسے ہوش آیا۔ مرشد تعجب سے بولا، "یہ بات تو بہت عجیب ہے!"
وہ جلدی سے جہاز میں گھس گیا اور وہاں سے بارہ بور کی رائفل اٹھا لایا۔ علّامہ تیزی سے بولے، "تم کیا کرنا چاہتے ہو؟"
مرشد بولا، "میں صرف یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ درجن بھر گولیاں کھا کر بھوت کیا کہتے ہیں۔"
علّامہ بولے، "بےوقوف مت بنو۔ بھوتوں پر ان گولیوں کا اثر نہیں ہوگا۔"
مرشد بولا، "یہ بھی دیکھا جائے گا۔"
کسی نے اس وقت عین ہمارے سر کے اوپر سے چلا کر کہا، "مرگئے، آہ سب مےگئے۔"
کپتان مرشد آواز کی سمت میں اندھا دھند گولیاں چلانے لگا۔
کسی نے بڑی خوف ناک چیخ ماری لیکن بھوت کا نام و نشان تک نظر نہیں آیا۔ میرے جسم پر ٹھنڈے پسینے کی دھاریں بہنے لگیں۔
کپتان مرشد نے کہا، "میں بھوتوں کو دیکھے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔"
اس نے اپنی بندوق میں گولیاں بھریں اور گاؤں کی طرف چلا۔ میں مرشد کے ساتھ ساتھ ہی رہا۔ راستے میں وہی دہشت ناک آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ کبھی کوئی نزدیک سے بولتا، کبھی آوازیں دور سے آتیں۔ کبھی یوں لگتا کہ بدروحیں ہر طرف منڈلاتی پھر رہی ہوں۔ آخر ہم ان ٹوٹے پھوٹے مکانات تک جا پہنچے۔ کپتان مرشد نے ٹارچ کی روشنی میں ایک مکان کے اندر دیکھا۔ وہاں چوہے، چمگاڈریں اور مکڑی کے جالوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں تھا۔ علّامہ دانش بولے، "تم نے روشنی کر کے بھوتوں کو بھگا دیا ہے۔ اب ذرا اس ٹارچ کو تھوڑی دیر کے لیے بجھادو۔"
کپتان مرشد نے علّامہ کی ہدایت پر عمل کیا اور ٹارچ بجھادی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اندھیرے میں مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔
کوئی پانچ منٹ بعد ہی کوئی ہمارے قریب قہقہہ مار کر ہنسا۔ کپتان مرشد نے اسی سمت میں ٹارچ سے روشنی پھینکی لیکن افسوس ذرا دیر ہوگئی تھی۔ ایک سایہ ہوا میں تیرتا ہوا کھڑکی سے باہر نکل گیا۔مرشد نے فوراً اس طرف ایک فائر داغ دیا۔ باہر سے بہت سی چیخیں اور شور سنائی دیا۔ شاید بھوت ہماری بےبسی کا مذاق اڑا رہے تھے۔
میں نے آہستہ سے کہا، "میرا خیال بہت ہوچکا ہے۔ اب ان بھوتوں کا پیچھا چھوڑ دو۔ واپس چلو۔"
علّامہ بھی میرے ہم خیال تھے لیکن مرشد بہت عزم سے بولا، "واہ جی، اتنا روپیہ پیسہ خرچ کر کے ہم ان بھوتوں سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔ تم میں سے جو کوئی جانا چاہتا ہے، وہ بہت شوق سے واپس جائے۔ میں تو ان بھوتوں سے ملے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔"
علّامہ دانش نے کئی مرتبہ بڑبڑاتے ہوئے کہا، "کہ یہ سب کیا اسرار ہے۔"
مرشد نے مجھ سے کہا، "تم یہ ٹارچ سنبھال کر آگے آگے چلو۔"
میری تو جیسے جان ہی نکل گئی، لیکن مجھے کپتان مرشد کا حکم ماننا پڑا۔ ہم ایک کمرے میں پہنچے۔ وہاں پیانو رکھا ہوا تھا۔جوں ہی میں نے کمرے میں قدم رکھنا چاہا۔ کوئی چیز بہت تیزی سے باہر کی طرف نکلی۔ اس نے بہت زور سے میرے منہ پر چانٹا مارا، میں لڑکھڑا کر گرا اور ساتھ ہی ٹارچ میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر دور جا گری۔
مرشد نے جلدی سے ٹارچ اٹھا کر اس کی روشنی میرے اوپر پھینکی اور پوچھا، "یہ کیا چیز تھی؟"
میں نے ہکلاتے ہوئے کہا، "میں خود نہیں جانتا، بس اتنا ضرور ہوا ہے کہ کسی نے بہت زور سے میرے منہ پر چانٹا مارا ہے۔"
میں نے محسوس کیا کہ میرا چہرہ گیلا ہورہا ہے۔ علّامہ دانش نے ٹارچ کی روشنی میں میرا چہرہ دیکھا اور بولے، "ارے! تمہارے منہ پر تو خون لگا ہوا ہے۔"
مرشد نے جلدی جلدی کپڑے سے میرا منہ پوچھا۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے چہرے پر کوئی زخم نہیں آیا تھا۔
ہم نے کمرے میں قدم رکھا تو ہماری نظریں خون میں لت پت چوہے پر پڑیں۔
مرشد مسکرا کر بولا، "ایک بات تو معلوم ہوگئی۔ وہ یہ کہ تمہارے چہرے پر جو خون لگا ہوا تھا وہ اس چوہے کا تھا۔"
پھر وہ علّامہ سے مخاطب ہوا، "علامہ صاحب! کیا بھوت چوہے بھی کھاتے ہیں؟"
علّامہ دانش جھنجھلا کر بولے، "ارے بھئی مجھے کیا معلوم، بھوت کیا کھاتے ہیں اور کیا نہیں کھاتے! مجھے آج تک کسی بھوت سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔"
کپتان مرشد ہنس کر بولا، "کیا آپ بھوت سے ملنا پسند فرمائیں گے؟"
مجھے محسوس ہوا کہ کپتان مرشد بھوتوں کی حقیقت جان چکے ہیں۔ مرشد نے کہا، "ذرا ایک منٹ ٹھہریے۔"
پھر اس نے ٹارچ میرے ہاتھوں میں تھمادی اور بولا، "جوں ہی میں آواز دوں تم ٹارچ کی روشنی چوہے پر پھینکنا۔ دیکھو، ایک منٹ کی تاخیر بھی کام بگاڑ سکتی ہے۔ بھوت ہاتھ سے نکل جائے گا اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے۔"
اب پھر انتظار کا دور شروع ہوا۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک ہم دم سادھے کھڑے رہے۔ اچانک مرشد نے آواز دی، "ٹارچ جلاؤ، جلدی۔"
میں نے ٹارچ کی روشنی مردہ چوہے پر پھینکی۔ دھائی، مرشد کی بندوق سے گونج دار آواز نکلی۔ ہم دوڑتے ہوئے مکان سے باہر نکلے۔ وہاں مردہ چوہے کے برابر ایک پہاڑی کوّا پرا تھا۔
علّامہ ہنس کر بولے، "تم بھوت مارنے گئے تھے یا پہاڑی کوّے کو؟"
مرشد طنزیہ لہجے میں بولا، "اجی قبلہ، میں نے بھوت پر گولی چلائی تھی اور آپ کا بھوت یہی ہے۔"
مین نے کہا، "اب پہیلیاں تو نہ بھجواؤ۔ مجھے تمہاری باتوں سے الجھن سی ہونے لگی ہے۔"
کپتان مرشد ہنس کر بولا، "ارے بھولے بادشاہ! یہی تو وہ بھوت ہے، جس سے ڈر کر تم بےہوش ہوگئے تھے۔ کیا تم نے پہاڑی کوّوں کو بولتے نہیں سنا؟ سدھائے ہوئے پہاڑی کوّے طوطوں سے زیادہ بہتر اور صاف بول سکتے ہیں۔"
اب ساری بات صاف ہوگئی تھی۔ ہم اپنی حماقتوں پر دل کھول کر ہنسے۔ علّامہ دانش قہقہہ لگا کر بولے، "کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔"
جب ہم جہاز پر پہنچے اس وقت بھی قہقہے لگا رہے تھے۔ آزونا ہمارا حال دیکھ کر بہت فکرمند ہوا۔ وہ سمجھا ہم سب پاگل ہوگئے ہیں۔ اپنی ہنسی پر بہت مشکل سے قابو پا کے مرشد نے آزونا کو سب بات بتادی۔ وہ بھی بھوتوں کی حقیقت جان کر قہقہے لگانے لگا۔ وہ جہاز کے کیبن میں گیا اور چائے بنا کر لایا۔ کافی دیر بعد ہماری ہنسی اور قہقہوں کا طوفان تھما۔
علّامہ بولے، "کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ جسے ہم بےحد پراسرار راز سمجھتے تھے، حقیقت میں وہ کچھ بھی نہ تھا۔ البتہ کچھ باتیں میری سمجھ میں بھی نہیں آئیں۔ پہاڑی کوّا دن کا جانور ہے۔ اس مین کس طرح الوّوں اور چمگادڑوں کی طرح رات میں دیکھنے اور دن میں اندھے پن کی خاصیت پیدا ہوگئی؟ ممکن ہے کبھی کوئی ساٗنسدان اس راز سے پردہ اٹھا دے۔"
اگلے دن ہم ان پہاڑی کوّوں کی تلاش میں نکلے۔ اندھیرے کونوں کھدروں میں ہم نے بہت سے کوّوں کو اونگھتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے دو تین کوّوں کو پکڑ کر روشنی میں لا کر چھوڑ دیا۔ ان کی آنکھیں روشنی میں چندھیا گئیں اور وہ اندھوں کی طرح ہوگئے۔
علّامہ نے کہا، "جب لوگ یہاں آباد ہوئے اور بستیاں بنا کر رہنے لگے تو وہ لوگ یہ کوّے بھی اپنے ساتھ لائے ہوں گے۔ کچھ کوّے لوگوں نے اپنے گھر میں پال رکھے تھے۔ یہ طوطوں کی طرح انسانی آواز کی نقل اتار سکتے ہیں اور بہت جلدی بولنا سیکھ جاتے ہیں۔ جب دریائے کوپر خشک ہوگیا تو لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے۔ شاید دو تین لوگ یہاں کسی وجہ سے رہ گئے۔ وہ پیاس سے مرنے لگے تو کسی نے پکارا، "پانی پانی، اللہ کے واسطے مجھے پانی پلا دو۔" کوئی اور شخص سب لوگوں کی تباہی پر سسکیاں بھر کر رویا ہوگا اور بولا ہوگا، "مرگئے، آہ مرگئے، سب مرگئے۔"
اب اتفاق دیکھیے ان کوّوں نے آخری الفاظ یاد کرلیے۔ وہ یہی الفاظ بار بار دہراتے رہے۔ پھر انہوں نے انڈے دیے اور ان سے بچّے نکلے، انہوں نے بھی یہ سبق یاد کرلیا۔ اس طرح ہوتے ہوتے پہاڑی کوّوں کی ساری آبادی ان الفاظوں کی نقل کرنے لگی۔ ان کوّوں کو ان باتوں کا مطلب تو معلوم نہیں تھا، مگر جس سفید فام شخص نے انہیں سنا، اس کے حواس گم ہوگئے۔ یہی حال اس کے افسر کا ہوا۔"
کپتان مرشد قہقہہ لگا کر بولا، "اور یہی حال تمہارا ہوا۔ آزونا تو خیر سے ہے ہی وہمی۔"
میں نے جھینپ کر کہا، "مجھ ہی پر کیا موقوف ہے، یہاں تو بڑے بڑے پہلوانوں کا پِتّا پانی ہوجاتا ہے۔"
یوں علّامہ دانش کی ہر بات کی تہہ تک پہنچنے کی عادت اور مرشد کی بہادری کے سبب یہ راز سب پر ظاہر ہوگیا۔
 
Top