علامہ کی نظم "آزادیِ افکار" پر ایک کوشش برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی
پہلے تو علامہ کی نظم نقل کر رہا ہوں تاکہ دونوں نظمیں بیک وقت نظر کے سامنے موجود رہیں
آزادی افکار

جو دونیِ فطرت سے نہيں لائق پرواز
اس مرغک بيچارہ کا انجام ہے افتاد

ہر سينہ نشيمن نہيں جبريل اميں کا
ہر فکر نہيں طائر فردوس کا صیاد

اس قوم ميں ہے شوخی انديشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد

گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے ابليس کی ايجاد

ناچیز کی ایک حقیر سی کاوش

پرواز کی قوت جسے بخشی نہ ہو رب نے
وہ دور نہیں حادثوں کی زد سے پرندا

ہر دل نہیں ہوتا ہے فرشتوں کا ٹھکانہ
ہر سوچ کے گھیرے میں نہ جبریل کا کُندا

ہر روز مچلتے ہیں پھر اس قوم میں خطرات
ہر بند سے آزاد ہو جس قوم کا بندا

آدم کے خیالوں سے گو دنیا ہوئی روشن
آزاد خیالی ہے اک ابلیس کا پھندا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اچھی کوشش ہے ۔ پسند آئی مجھے ۔ تا ہم قافیوں میں ضعف ہے پرندہ کندہ اور بندہ ۔ اس میں کلام کی گنجائش ہے لیکن بہر حال ضعف تو ہے۔ البتہ کچھ اسلوب ادائیگی اور نشست کے ملاحظات بھی ہیں ۔
وہ دور نہیں حادثوں کی زد سے پرندا
"حادثوں" کی وجہ سے بحر کی فطری روانی متاثر ہو رہی ہے ۔یہاں حوادث کیا جاسکتا ہے ۔
وہ دورحوادث کی نہیں زد سے پرندا ۔ (اگر چہ یہاں الفا ظ کی ترتیب بدلنی پڑے لیکن مطلب پورا ہو جاتا ہے اور نشست بحر سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے)
ہر سوچ کے گھیرے میں نہ جبریل کا کُندا
کندا سے کیا مراد ہوئی ؟ اور یہاں "نہ" کی نشست اسلوب کو کمزور کر رہی ہے ۔یہ مصرع پہلے مصرع کو فنش نہیں کر رہا۔ اسے دوبارہ کہیں ۔
آدم کے خیالوں سے گو دنیا ہوئی روشن
اس میں "گو" کی وجہ سے مصرع کی بحر ذرا سی متاثر ہو رہی ہے اسے نکالا جاسکتا ہے ۔ آدم کے خیالات سے دنیا ہوئی روشن
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت شکریہ سر
بہت کوشش کے بعد یہ قافیے ڈھونڈ پایا مجھے بھی کندا بطور قافیہ کمزور لگ رہا تھا
ویسے کندا کا معنی فرہنگ آصفیہ میں ہے "پرندے کا بازو"
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
صرف بندا اور پھندا درست قوافی ہیں، کُندا اور پرِندہ درست نہیں
بھائی عاطف کے مشورے صائب ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
قافیہ کی تنگی کی وجہ سے ایک نئے قافیہ کے ساتھ پیش کر رہا ہوں پہلا مصرع کوئی ایک موزوں نہیں لگ رہا تھا اس لیے چار مصرعے لکھ رہا ہوں:)، براہ کرم یہ بتا دیں کہ کون سا مصرع مناسب ہے

حق نے جسے پرواز نہ بخشی وہ پرندہ
کوئی جو ہو پرواز سے محروم پرندہ
پرواز کی قوت جسے بخشی نہ ہو رب نے
طائر اڑا بھی دیں جو نہیں لائقِ پرواز
اس کے لیے صیاد ہے ہر باغ کی ڈالی


ہر سینہِ آدم میں سما سکتا ہے کیسے
کب سوچ کے گھیرے میں ہے جبریلِ اعالی

ہر روز مچلتے ہیں پھر اس قوم میں خطرات
ہر بند سے آزاد جہاں عاجز و عالی

آدم کے خیالات سے دنیا ہوئی روشن
ابلیس کا پھندا ہے اک آزاد خیالی
 

الف عین

لائبریرین
حق نے جسے پرواز نہ بخشی وہ پرندہ
کوئی جو ہو پرواز سے محروم پرندہ
پرواز کی قوت جسے بخشی نہ ہو رب نے
طائر اڑا بھی دیں جو نہیں لائقِ پرواز
اس کے لیے صیاد ہے ہر باغ کی ڈالی
.. پہلا گرامر کے حساب سے درست نہیں
دوسرا رواں نہیں
تیسرا درست
چوتھا بحر سے خارج

ہر سینہِ آدم میں سما سکتا ہے کیسے
کب سوچ کے گھیرے میں ہے جبریلِ اعالی
.. اعالی؟ یہ اعلیٰ کی جمع ہے، صفت کے طور پر استعمال غلط ہے
باقی ٹھیک ہے
 
Top