#علامہ_اقبال_کی_شاعرانہ_عظمت۔ شاعر مشرق کی آج 84ویں برسی

سیما علی

لائبریرین
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی آج 84ویں برسی انتہائی عقیدت و احترام کیساتھ منائی گئی۔۔۔۔
علامہ محمد اقبال نے 1930 میں علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور اپنی شاعری سے برصغیر کی مسلم قوم میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔

#علامہ_اقبال_کی_شاعرانہ_عظمت۔
اقبال ایسے بلند پایہ شاعر اور مفکرِ اسلام ہیں ۔۔
اقبال کی شاعرانہ عظمت جن حوالوں سے ترتیب پاتی ہے ان میں ایک حوالہ اردو غزل کو نئی تخلیقی جہت عطا کرنے کا بھی ہے۔وہ شاعری کو حیات و کائنات کے متعلق ایک خاص نصب العین کے اظہار کا وسیلہ سمجھتے ہیں اور اس اظہار میں اس سلیقہ مندی کو ملحوظ رکھنے کی کوشش پر بھی خاص توجہ رہی جس کے بغیر شاعری کو فنی اعتبار و وقار حاصل نہیں ہوپاتا۔اپنے اس تخلیقی رویہ کا اظہار انھوں نے کچھ اس طور سے کیا ہے
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرف تمنا جسے کہہ نہ سکے روبرو
اقبال شاعری میں برہنہ گفتاری کو مستحسن نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس فن سے وابستہ ان تقاضوں کی تکمیل بھی ان کے پیش نظر تھی جو شاعری کو فن کا مرتبہ عطا کرتی ہے۔ بانگ درا کی غزلوں میں واردات قلب و نظر کی ترجمانی جس روایتی پیرائے میں ہوئی اس میں معاصر شعری ماحول سے اثر پذیری کا انداز نمایاں ہے لیکن اس کے بعد کی غزل کا ارتقائی سفر جن منزلوں سے ہمکنار ہوا وہ ان کی ریاضت فن کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔ ان کی شاعری اور شخصیت کا سرسری مطالعہ بھی اس حقیقت کو واضح کر دیتا ہے کہ وہ زندگی میں تقلید و جمود کی بجائے اجتہاد اور حرکت و عمل کو ترجیح دیتے تھے اور اس سلسلہ میں ان کا مطمح نظر خوب سے خوب تر کی تلاش کے رویہ کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے بڑے واضح طور پر کہا کہ :
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودابھی چھوڑ دے
#ڈاکٹرانورسدید کچھ یوں فرماتے ہیں
’’ اقبال مجموعی طور پر ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان سے اکتسابِ فیض کرنے اور ان سے متاثر ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے ۔ انہوں نے اپنے فکر و نظر سے برِ صغیر میں پورے ایک عہدکومتاثرکیاچنانچہ انہیں بجا طور پر بیسویں صدی کا مجدد اور عہد آفرین شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘
#ڈاکٹر_مولوی_عبدالحق کچھ یوں رقمطراز ہیں
”اقبال برِ صغیر ہی کے نہیں ،بنی نوع انسان کی لازوال تہذیب کے ایک بر گزیدہ مفکر اور شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے“

#ڈاکٹرسیدعابدحسین کچھ یوں رقمطراز ہیں
’’ اِقبال کی شاعری آبِ حیات کا خزانہ ہے جس سے زندگی اور زندہ دلی کے چشمے اُبلتے ہیں۔‘‘
اٹھائے کچھ ورق لالے نے ،کچھ نرگس نے ،کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

آپ نے گلشنِ شعر و ادب کی روش روِش پر ایسے گل بوٹے کھلائے ہیں کہ جن کی بھینی بھینی خوشبو
تا قیامت حضرتِ انسان کے قلوب و دہن کو فرحت بخشتی رہے گی۔ شاید اس کا احساس خود حضرتِ علامہ اقبالؒ کو بھی نہیں تھا ۔اسی لیے عالمِ بے خودی میں بہہ کر گویا ہوئے۔
اِقبال بھی اِقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں مسخر نہیں واللہ نہیں ہے
حضرت ِ علامہ اقبال اپنے افکار و محسوسات کو حروف کی مالا میں پروتے گئے جس کی بدولت ان کا کلام مجموعہ ہائے خصوصیات بن گیا۔
#اقبال_کا_انوکھا_اور_اچھوتا_اندازِ_بیان
حضرتِ علامہ اقبال کا کلام خوبصورت اندازِ بیان کی دلیل ہے ۔ آپ نے نظم کیلئے بھی غزل کا نرم ، شیریں اور حسین لہجہ اختیار کیا ۔ اپنے اس کلام کی خوبی کے بابت آپ خود فرماتے ہیں۔
اندازِ بیاں گرچہ شوخ نہیں ہے شاید
پھر بھی اتر جائے ترے دل میں میری بات
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

دنیائے شعر و ادب میں آپ تمام اساتذہ سے جدا ،منفرد اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔آپ سے پہلے شاعری ایک ہی راستے پر گامزن تھی اور شعراء کے پاس چند گنے چنے فرسودہ موضوعات ہی تھے ، جن پر ہی لب کشائی و جامہ پُرسائی ہو رہی تھی ۔آپ کی شاعری ایونِ ادب میں ایک نئی پر وقار اور با مقصد آواز ہے ۔آپ کا لہجہ ،موضوعات ،اور اندازِ بیان یکسر نرالہ اور نیا ہے
سر عبد القادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں آپ کی شاعری کو واضح طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا ہے ۔
پہلا دور داغ دہلوی کی شوخی اور فکرِ غالب سے آراستہ و پیراستہ ہے ۔
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعده کرتے ہوئے عار کیا تھی

موت یہ میری نہیں اجل کی موت ہے
کیوں ڈروں اس سے کہ مر کر پھر نہیں مرنا مجھے

#فطری_شاعر:

علامہ اقبال کا ظہور بیسویں صدی کے اردو ادب کا ایک اہم واقعہ ہے ۔اقبال کو شعر کہنے کا عطیہ اللہ عزوجل کی خاص عنایت کے طفیل عطا ہوا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تعلیم کے زمانے میں ہی آپ نے اساتذہ کے رنگ میں اشعار کہے ۔نمونہ ملاحظہ ہو:

موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چُن لیے

قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے

آپ نے خود ہی اپنے لیے ایک منفرد راستے کا تعیُن کیا اور پہلی مرتبہ فلسفیانہ خیالات کو اپنی غزل کے سانچے میں ڈھالااور اپنی غزل میں قومی، اسلامی، نفسیاتی، اَخلاقی، سیاسی، تہذیبی اور سماجی موضوعات ۔ داخل کیے۔نمونۂ کلام ملاحظہ ہو۔

فردِ قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
آپ نے امسلمانوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی اپنی شاعری کے ذریعے سوچ ،سمجھ اور پرکھ کا ایک منفرد اپیغام دیا جو ، آج بھی جاری و ساری ہے جس سے آج کا مفکر خوب فیضیاب ہو رہا ہے۔
#صاحبِ_پیغام_شاعر.

مولانا حالی نے جس شاعری کا آغاز کیا تھا اِقبالؔ اُسی کا نقطۂ کمال ہیں ۔

وہ نقیبِ زندگی تھا نعرۂ جبرئیل ؑ تھا

بے حسی کی رات میں احساس کی قِندیل تھا

اقبالؔ اردو ادب کے وہ پہلے شاعر ہیں جو مفکر بھی ہیں اور صاحبِ پیغام بھی۔اسی لئے وہ وجدانی کیفیت میں پکار اُٹھتے ہیں۔

میری نوائے پریشانی کو شاعری نہ سمجھ

کہ میں ہو ں محرم راز درونِ مسیحانہ

آل احمد سرور اپنے نپے تُلے انداز میں فرماتے ہیں!اقبال ؔ نے سب سے پہلے اردو شاعری کو زندگی کے مسائل سے آشکار کیا ۔حالیؔ ،اکبرؔ اور چکبستؔ کا کلام نقشِ اوّل ہے اور حضرتِ اقبال کا کلام نقشِ ثانی۔

#فلسفۂ_خودی
اقبال کے تمام کلام میں اُن کا فلسفۂ خودی غالب ہے ۔ اقبال سے پہلے “خودی ” کے معانی غرور ،تکبر اور عز و ناز کے لیے جاتے تھے،لیکن اقبال نے پہلی مرتبہ اُسے ایک فصیح و بلیغ مفہوم عطا کیا ۔اقبال نے خودی کے معنیٰ “قرب” کے لیے ہیں ۔خودی یقین کی گہرائی ہے ،سوزِ حیات ہے ،ذوقِ تخلیق ہے ،خود آگاہی ہے ،عبادت ہے ۔اسی لیے اقبال تربیتِ خودی کو تعلیم کا پہلا زینہ قرار دیتے ہیں۔ جو نوجوان اس سے نا آشنا ہے اس کی تربیت نا مکمل اور زندگی بے کار ہے ۔
اسی لیے آپ خود سرشاری کی کیفیت میں فرماتے ہیں:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر اُس کی خودی کو
ہو جائے مُلائم تو جدھر چاہے اُدھر پھیر

#ادب_کے_اثرات.

دنیائے شعر و ادب میں آپ تمام اساتذہ سے جدا ،منفرد اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔آپ سے پہلے شاعری ایک ہی راستے پر گامزن تھی اور شعراء کے پاس چند گنے چنے فرسودہ موضوعات ہی تھے!!!!!!

اردو میں اقبال کی تخلیقی زرخیزی کے اہم ترین دور کا اشاریہ ’’بال جبریل‘‘ ہے۔ یہ بات محض اتفاقی نہیں کہ اسی دور میں انہوں نے سب سے زیادہ غزلیں کہیں۔ مسلسل غزلوں کی ترکیب پر مشتمل نظموں سے قطع نظر‘ اس مجموعے میں صرف غزلوں کی تعداد 77ہے۔ ’’بانگ درا‘‘ کی چند غزلوں مثلاً:

گلزار ہست وبودنہ بیگانہ وار دیکھ

کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیوں کر ہوا

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں

الٰہی عقل خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سکھا دے

زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا

چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں

گرچہ تو زندانی اسباب ہے
میں اقبال نے غزل کے جس ذائقے کا احساس دلایا تھا’’بال جبریل‘‘ کی غزلوں تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک واضح شکل اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ اس دور کی غزلیں اکثر ان کی نظم کے مزاج سے زیادہ قریب ہیں۔ یہ دور اقبال کی فکری اور تخلیقی بلوغ کا دور ہے کہ اب اقبال اپنی ادبی روایت کے امکانات کی تسخیر کے بعد‘ بہ ذات خود شعر کی ایک نئی روایت کا سرچشمہ بن چکے تھے۔

#تصوف_کے_اثرات.
اقبال اور تصوف کے رشتے کو سمجھنے کے لئے اقبال کے خطوط ایک اہم ماخذ ہیں۔ ان خطوط میں اقبال نے تصوف کے بارے میں اپنے نظریئے کو واضح کیا ہے ۔ ایک خط میں وہ دوٹوک کہتے ہیں۔
’’ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تصوف وجودی سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب وہوا میں پرورش پائی ہے ۔ ‘‘( اقبال نامہ ص ۳۸ ، ۳۹)
اپنے ایک خط میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’ میرے نزدیک یہ تعلیم قضا غیر اسلامی ہے اور قران کریم کے فلسفے سے اسے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ تصوف کی عمارت اسی ایرانی بیہودگی پر تعمیر کی گئی‘‘ (مطالعات و مکاتیب علامہ اقبال ص ۲۲۹ مورخہ ۱۹ جنوری ۱۹۱۶)
اقبال کہتے ہیں:
تمدن، تصوف، شریعت کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
اقبال کی شاعری کاایک بڑا حصہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جس کو ہم تصوف کے اسی اخلاق وعمل کی تعلیم قرار دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر تزکیہ نفس کے متعلق اقبال کا یہ شعر:
دل سوز سے خالی ہے نظر پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا، کہ تو بے باک نہیں ہے

#فلسفہ_خودی

اقبال کے تمام کلام میں اُن کا فلسفۂ خودی غالب ہے ۔ اقبال سے پہلے “خودی ” کے معانی غرور ،تکبر اور عز وناز کے لیے جاتے تھے،لیکن اقبال نے پہلی مرتبہ اُسے ایک فصیح و بلیغ مفہوم عطا کیا ۔اقبال نے خودی کے معنیٰ “قرب” کے لیے ہیں ۔خودی یقین کی گہرائی ہے ،سوزِ حیات ہے ،ذوقِ تخلیق ہے ،خود آگاہی ہے ،عبادت ہے ۔اسی لیے اقبال تربیتِ خودی کو تعلیم کا پہلا زینہ قرار دیتے ہیں۔ جو نوجوان اس سے نا آشنا ہے اس کی تربیت نا مکمل اور زندگی بے کار ہے ۔

اقبال نے خودی کے اس فلسفہ کے ذریعہ وحد ت الوجود کے اس نظریہ کی تردید کی جو انسان کو تقدیر کا محکوم بناتا ہے جس کے سبب بے عملی اور مسائل حیات کے روبرو سپر اندازی کا رویہ اس کی شخصیت کا جزو بن جاتا ہے۔اقبال کی غزلوں میں خودی کا تصور اس حرکی قوت کا استعارہ ہے جو مشت خاک کو آسمانوں کی سیر کرنے اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔اگر چہ اس تصور کی بسیط ترجمانی بیشتر ان کی نظموں میں ہوئی ہے لیکن غزلوں میں بھی اکثر ایسے اشعار نظر آتے ہیں جن میں اس تصور کو انسانی فضیلت کے سیاق میں پیش کیا گیا ہے۔اقبال کی خودی کا تصور تو اس قدر بلند و بالا ہے کہ جس نے آدم کو فرشتوں سے بھی آگے لے جا کر خدا کے روبرو سوال و جواب کے لائق بنادیا۔جنت سے نکالے جانے کے واقعے کو سزا نہیں بلکہ جزا تصور کرتے ہوئے خدا کو بھی انتظار کراتا ہے لیکن یہ گفتگو اور لہجے کی بیباکی غیر مہذب یاطبیعت پر گراں نہیں گزرتی۔مثلاً:
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سین�ۂ کائنات میں
ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومت عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں
#حقیقت_کی_تلاش
اقبال اپنے آپ کو رومی کا مرید ہندی کہاکرتے تھے اس وجہ سے اقبال سے یہ بعید ہے کہ وہ تصوف کی ہر اچھی بری قدروں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں۔
اقبال کی نظر بہت وسیع تھی۔ انہوں نے مشرق و مغرب کے فلسفہ کو پڑھا تھا۔ بلا شبہہ وہ اردو کے سب زیادہ پڑھے لکھے شاعر تھے ۔ اقبال کے یہاں ردو قبول کا معیار ان کا فلسفہ حرکت وعمل اور فلسفہ خودی تھا۔ اس کے موافق عناصر مشرق و مغرب کے فلسفے میں جہاں بھی ملا اس کو قبول کیا اور مخالف عناصر کو رد کیا۔
جب اقبال ملا اور صوفی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور انہیں لنخ طعن کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد عام صوفی یا ملا نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مراد وہ روایتی صوفی یا ملا ہے تو اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہے ۔ چنانچہ جہاں اقبال نے روایتی صوفی کو لائق ملامت گردانا ہے وہیں روح سے خالی مذہبیت پر وہ اسی طرح چوٹ کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے صوفی پر طنز کیا ہے ۔
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
حیدری فقر ہے ، نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے ۔

#وطن _پرستی.
علامہ اقبال کی ابتدائی میں وہ ایک کٹر وطن پرست شاعر کی حیثیت سے ابھرے۔ جیسے ”ترانہ ہندی ہندوستانی بچوں کا گیت اور’’ صدائے درد وغیرہ۔ اقبال کا دوسرا دور اس وجہ سے اہم ہے کہ ان کے افکار ونظریات میں پختگی آنے لگی۔ اور تہذیب کے معنی کو انہوں نے محسوس کر لیا۔ !وطنیت کا وہ نظریہ جو کہ مغربی اقوام میں موجود تھا اقبال اس کے شدید مخالف تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ جب ’’وطن‘‘ کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہوتا ہے۔ اقبال وطن کو بت بناکر پوجنے کے خلاف تھے اور اسے اسلام کی عالمگیر روح کے منافی خیال کرتے تھے۔ بانگ درا میں شامل نظم ’’وطنیت‘‘ میں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے ان خیالات کا اظہار کیا ہے:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گِر کاشانۂ دین نبویؐ ہے
’صدائے درد‘‘ جو اقبال کی طویل نظم ہے اور ’’بانگ درا‘‘ میں شامل ہے اس نظم میں اقبال نے وطن عزیز کی خراب حالی کا نقشہ کھینچنے کے ساتھ ساتھ اس کے مرض کی تشخیص کی ہے اور اس کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔ انہوں نے بہت اثر انگیز انداز میں جمود و تعطل کے باعث آنے والے دور کی خوفناک تصویر پیش کی ہے اور اہل ہند کو محتاط ہونے کی ترغیب دی ہے:

رلاتا ہے تیرا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
قبال کے ذہنی اور فکری ارتقاء میں یہ بات نظر آتی ہے کہ انہوں نے 1905ء سے 1908ء تک یورپ میں جو قیام کیا اس دوران انہوں نے وطنیت اور قومیت کے مسائل پر غور وفکر کیا اور انہیں محسوس ہوا کہ مسیحیت کا پرچار کرنے والی اقوام آپس میں لڑ جھگڑ رہی ہیں اور مسلمان ممالک بھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ چنانچہ اقبال کا تفکر اس نتیجے پر پہنچا کہ مسلمانوں کو ان کی جداگانہ حیثیت کا احساس دلانا اشد ضروری ہے اور پھر اقبال نے وطنیت کی محدود فضاؤں سے نکل کر عالمگیر قومیت کا پیغام دیا اور یہ پیغام اقبال کے کلام نظم و نثر کا بنیادی عنصر بن گیا۔۔۔۔۔
#رومانویت
یورپ میں قیام کے دوران علامہ محمد اقبال نے حسن وعشق کے معاملات اور محبت کی کیفیات کی دل آویزی سے متاثر رہے " محبت حقیقت حسن پیام حسن و عشق رسال‘‘ ۰ لیکن یہ رومانویت زیادہ دیر تک ان کے ہاں قیام نہ کرسکی پیشکش ایک شاعرانہ تجربہ تھا۔
اقبال کے مزاج اور شخصیت میں خود اعتمادی اور توازن پسندی کی جو شان تھی ، اس نے اقبال کو یاس اور احساس نامرادی کی تلخیوں سے بچا لیا۔ اس کے بجائے ان میں ایک خاص قسم کا سوزوگداز اور عشق کی گرمی پیدا ہوگئی ۔اقبال کا دل اعلیٰ، لطیف اور نازک کیفیات سے آشنا ہوا۔ ان کے ذہن اور فکر کو رنگ و آہنگ نصیب ہوا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے عشق ملت،عشق انسانیت ، عشق رسول ﷺ اور عشق باری تعالیٰ کی تمام ضروری اور حیات بخش منزلیں طے کیں۔۔۔۔

# پیامبری
دوسرے دور کی شاعری میں یورپ کے مشاہدات کا عکس نمایاں ہے۔ یورپ کی ترقی کے پس منظر میں اقبال نے مسلسل جدوجهد حرکت کا مشاہدہ کیا اور اپنے ہم وطنوں کو نظر به زندگی درست کر لینے کی تلقین کی اس کی مثالیں طلبہ علی گڑھ نام ایک نظم "چاند اور تارے" کے نام چاند اور تارے نظم میں جو کوشش ناتمام ساری نظمیں پیغام کی حال ہیں۔ مثلا اقبال کہتے ہیں کہ۔

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور بے
عشق کے درد مند طرز مند کا طرز کلام اور ہے
آئی تھی ، گوہ و همدا راز حیات ہے سکون
کہتا تھا اور ناتواں لطف خرام اور ہے

چلنے والے نکل گئے ہیں
جوہر نے ذرا کچل گئے ہیں
عہد آفرین شاعر:

اقبال اک عہد شناس اور عہد ساز شاعر تھے۔ ان کی شاعری اک مخصوص نظام فکر سے روشنی حاصل کرتی ہے، جو انھوں نے مشرق و مغرب کے سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور روحانی حالات کا گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد مرتب کیا تھا اور محسوس کیا تھا کہ اعلیٰ انسانی قدروں کا جو زوال دونوں جگہ مختلف انداز میں انسانیت کو جکڑے ہوئے ہے اس کا حل ضروری ہے۔ خصوصاً مشرق کی بدحالی ان کو مضطرب رکھتی تھی اور وہ اس کے اسباب سے بھی واقف تھے لہٰذا انھوں نے انسانی زندگی کو سدھارنے اور اسے ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے اپنی شاعری کو وسیلہ بنایا۔ اقبال عظمت آدم کے علمبردار تھے۔ اور وہ کسی بخشی ہوئی جنت کی بجائے اپنے خون جگر سے خود اپنی جنت بنانے کے عمل کو زیادہ امکان پرور اور زیادہ حیات آفریں سمجھے تھے۔ اس کے لئے اس کا نسخہ تجویز کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا ’’اقوام مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہئے کہ زندگی اپنی حویلی میں کسی قسم کا انقلاب نہیں پیدا کر سکتی جب تک اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ پیدا ہو اور کوئی نئی دنیا اک خارجی وجود نہیں حاصل کر سکتی، جب تک اس کا وجود انسانوں کے ضمیر میں متشکّل نہ ہو۔‘‘ وہ مغرب کو روحانی طور پر بیمار تصور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس کی اصلاح اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس کی عقل ہوا و ہوس کی غلامی سے نجات حاصل کرکے ’’ادب خوردۂ دل‘‘ نہ ہو جائے۔ اور اس کے لئے سوز عشق ضروری ہے۔ اقبال کا عشق اردو شاعری اور تصوف کے روایتی عشق سے مختلف ہے۔ وہ ایسے عشق کے قائل تھے جو آرزوؤں میں وسعت پیدا کر کے حیات و کائنات کو مسخر کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ عشق کو عمل سے استحکام ملتا ہے جبکہ عمل کے لئے یقین کا ہونا ضروری ہے اور یقین علم سے نہیں عشق سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ عشق، علم اورعقل کو لازم و ملزوم اور ایک کے بغیر دوسرے کو ادھورا سمجھتے تھے۔

اقبال ہی اردو کے وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ایک عہد پیدا کیا ہے اور اپنے عہد کے ذہن کو ترقی کی سمتوں سے روشناس کرایا ہے۔

اُٹھّو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پِیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو

#مُنظّم_نظامِ_فِکر۔
اقبال کے یہاں ایک منظم نظامِ فکر اور فلسفۂ زندگی موجود ہے ۔خودی ،یقین ، عشق اور عملِ پیہم اُن کے فلسفے کے سب سے نمایاں اور بنیادی عناصر ہیں ۔آپ نے اپنے اشعار میں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والے کو فَقر کا پرتو کہا ہے اور اللہ عزوجل کے احکام پر چلنے والوں کو مومن بتایا ہے ۔ بلندیوں پر اُڑنے والے پرندے کو “شاہین ” کہا ہے ۔یہاں آپ کی مراد مسلم نوجوان ہیں ۔

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا
نِگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اے طائرِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

پلٹنا ، جھپٹنا ، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

الغرض اقبال کی شاعری میں ایک ایسا تنوع ہے جو آج کی نوجوان نسل کو کچھ کر گزرنے کا حؤصلہ بخشتا ہے ۔ساتھ ساتھ ایک کامل مسلمان اور سلجھا ہوا دانشور بھی عطاکرتا ہے ۔
آپ کی شاعری میں فکر و فلسفے کا ایسا گہرا رچاؤ ہے
کہ جب ان کے کلام کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس اعتبار سے بھی ایک بہت عظیم شاعر ہیں ۔
بلا شبہ آپ کے کلام میں روانیت بھی ہے اور متانت بھی ،برجستگی بھی ہے اور شائستگی بھی ،ندرتِ خیال بھی ہے اور جذبات کی مصوری بھی۔آپ کی شاعری میں صنائع و بدائع کا بڑا چنیدہ انتظام و انصرام موجود ہے ۔اسی خصوصیت کی بناء پر آپ کا کلام ایک مومن کے لئیے چنگاری کا اثر رکھتا ہے ۔

#ڈاکٹر_علامہ_اقبال
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
خالہ ! نقل مکانی سے پہلے یا کم از کم بعد میں ایک نظر مضمون خود بھی دیکھ لیا جائے تو اچھا رہتا ہے -

املا کی بہت غلطیاں ہیں -

یہ کونسی زبان ہے :

#ادب_کے_اثرات.
اقبال نے بہت ہی انگریزی نظموں کے خوبصورت ترکھے گئے ہیں۔ پیام میع»، «عشق اور موت اور " رخصت اے بزم جہاں تراجم کی واضح مثالیں ہیں۔ بچوں کی فلموں کے حوالہ سے کا اور بھی ایک پہاڑ اور گلہری ”ایک گائے اور بکری بچے کی دعا ماں کا خواب ہمدردی و غیره میں مغربی شعرا کے کلام سے ماخوذ ہیں ۔ مثلا کوئی ٹینی سن اور ایران وغیرہ کے کلام سے ماخوز ہے۔ انکے علاو چوت و آہنگ اور میت کے بھی مارے گئے جو کہ مغربی شاعری کے زیر اثر تھے۔

#تصوف_کے_اثرات.
اقبال کی ابتدائی شاعری پر ایران کے صوفیانہ تصورات کا اثر بھی ملتا ہے۔ قاری کا پورا بر ایران کی نظروں کے سامنے تھا۔ اس دور کی شاعری میں صوفیان اصورات اگرچہ بالکل ابتدائی اور خام شکل میں ملتے ہیں جو کہ شعوری طور پر اثر تھا۔ تصوف کے منفی تصورات کو بعد میں انہوں نے زبان سے نکال لیا تھا



 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
خالہ ! نقل مکانی سے پہلے یا کم از کم بعد میں ایک نظر مضمون خود بھی دیکھ لیا جائے تو اچھا رہتا ہے -

املا کی بہت غلطیاں ہیں -

یہ کونسی زبان ہے :
بہت شکریہ۔ نشاندہی کا ہماری غلطی ہے پہلے تدوین کرنا چاہیے تھی ۔۔۔درست کہا آپ نے املا کی بہت غلطیاں ہیں 🥲🥲
بس غلطیاں اس چکر میں پوسٹ ہوگئیں شاہ صاحب کہ آپکے بھائی صاحب کو گرم روٹی چاہیے اور اُنکو کھانا دینے میں لگ گئے ہم ورنہ پہلے تدوین کرتے🥲
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
میں بھی یہاں کئی دن سے غلط سلط باتیں پڑھ رہا ہوں اور رمضان میں اپنے اندر صبر پیدا کر رہا ہوں بقول شخصے :

کچھ لوگ کئی لفظ غلط بول رہے ہیں
اصلاح مگر ہم بھی اب اصلا نہ کریں گے

مگر اس تازہ ایجاد کو دیکھ کر ضبط نہ ہو سکا -

غلطیاں ابھی بھی ہیں کسی سیانے کو مضمون دکھا دیں ان شاء الله افاقہ ہوگا-
 
Top