علمِ عروض ۔ سبق نمبر4
آوازیں۔بڑی اور چھوٹی
سیدتفسیراحمد
عابدصاحب داخل ہوے اور کلاس سے کہا۔ آج لکچر کا عنوان ہے’ آوازیں‘۔
اس کےبعد عابد صاحب نےتخت سیاہ پر لکھا۔
آوازیں
بڑی اور چھوٹی
تمام زبانیں آوازوں سے مل کر بنتی ہیں۔ آوازوں کو دوقسموں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔بڑی اور چھوٹی
ایک ۔ آوازوں کا بڑی ہونا اور یا چھوٹا ہونا اس کی اداگی سےظاہر ہوتا ہے۔
دو۔ آوازیں اس طرح ادا کی جائیں کہ بعض آوازوں کےادا کرنےمیں زیادہ زور لگانے کی ضرورت ہواور بعض میں کم۔ اردو کا شمار پہلی قسم میں ہوتا ہے یعنی اردو میں آوازیں بڑی یا چھوٹی سننائی دیتی ہیں۔
چھوٹی آواز میں صرف ایک حرف کی آواز سننائی دے گا۔ بڑی آواز میں دوحروف کی آواز سننائی دے گی۔
جب ہم عروض کہتےہیں تو کان پہلے ع اور رو اور پھر ' ض ' آواز سنتے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لفظ عروض ، ایک چھوٹی، ایک بڑی اور پھرایک چھوٹی آواز سےمل کر بناہے۔ اگر ہم چھوٹی آواز کو چ اور ہڑی آواز کو ب سےظاہر کریں تو یہ علامتی ترتیب ہوگی۔ چ ۔ ب ۔چ ۔ اسطرح لفظ عروضی میں ہم ع رو اور پھر ضی کی آوازیں سنتے ہیں۔ عروضی کی علامتی ترتیب چ ۔ ب ۔ ب ہوگی۔ ان آوازوں کو ہم ' تہجی کےارکان ' یا لفظ کی حرکات ' (syllable) کہتے ہیں۔
اس سےہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ علم عروض اس علم کا نام ہے جس میں زبان اور شعر کا مطالحہ مندرجہ ذیل طریقہ سے کیا جاسکتاہے۔
1۔ آواز کوادا کرتےوقت جو آواز نکلتی ہے وہ چھوٹی ہے یا بڑی ہے؟
2۔ کتنی بڑ ی اوازیں یکجا ہوسکتی ہیں؟
3۔ کتنی چھوٹی آوازیں یکجا ہوسکتی ہیں؟
4۔ اور چھوٹی اور بڑی آوازوں کا بیک وقت اجتماع کس حد تک 5۔اور کس نمونہ پر ممکن ہے؟
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے۔کہ عروض کا بنیادی کام آوازوں کی ترتیب اور انکے نمونوں کامطالحہ ہے۔ کسی لفظ کی آوازوں کواگرعلامتوں کےذریعہ سےظاہر کیا جائےتواس کو الفاظ کا وزن ظاہر کرنا کہا جاتا ہے۔مثلاً عروض کا وزن ہے۔ چ ۔ ب ۔چ ہے۔
جب اس ترتیب کو کسی نمونے کے احاطہ میں ڈال دیا جائے اور اس پر ترکیب کا وزن کو مستقل علامتوں کے ذریعہ ظاہر کی جائے تو اس ترکیب کوتقطین کرنا یا بحر بیان کرنا کہتے ہیں۔
اصول: وہ آوازیں جولکھنےمیں بڑی لگتی ہوں لیکن بولنے اور پڑھنے میں چھوٹی سننائی دیتی ہوں ایسی آوازیں وہ ہیں جن کو آخیر میں ( ا - و - ں - ی - ے - ہ) میں سے کوئی ایک حروف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ مصرہ دیکھے۔
<table cellspacing="0" cellpadding="4" border="1" width="95%"><tr><td>امیدیں غریبوں کی بر لانے والا</td><td> - مولانہ حالی</td></tr></table>
اس میں لفظ کی اور نے باظاہر بڑے لگتے ہیں اور بڑی آواز والے بھی نظر آتے ہیں لیکن پڑھنےمیں دونوں کی' ی اور ے ' دبائی جاتی ہے۔ یعنی اگرچہ ' کی ' اور 'نے' میں دو، دو حروف ساتھ ساتھ لکھےگئے ہیں لیکن پڑھنے میں ایک حرف (ک اور زیر) اور ( ن اور زیر ) کی آواز ادا ہوتی ہے اسطرح اس مصرعہ کی ترکیب کو علا مات کے ذریعہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔اس نقطہ کو مزید صاف کرنے کے لئے اگر ہم کی اور نے کو ان کی ظاہری بڑی شکل میں ہی لکھیں اورعلامتی نقشہ بنائیں تو یوں لکھنا ہوگا۔
غلط علامتی شکل <table cellspacing="0" cellpadding="4" border="1" width="95%"><tr><td>اُم ۔ ی ۔ دیں</td><td>غر ۔ ی ۔ بوں</td><td>کی ۔ بر ۔ لا</td><td>نے۔ وا ۔ لا</td></tr><tr><td> چ ۔ ب ۔ ب </td><td>چ ۔ ب ۔ ب </td><td>ب ۔ ب ۔ ب</td><td>ب ۔ ب ۔ ب</td></tr></table>
آپ اس نقشہ کو پڑھیں تو فوراً معلوم ہو جائے گا کی مصرہ نہ صرف زبان پر رواں نہیں بلکہ ناموضوع بھی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کی اور نے کو مصنوعی طور پر وہ آوازیں دی ہیں جو فظری بول چال کے خلاف ہیں۔ لہذا اس مصرے کی صحیح علامتی شکل وہی ہے جو میں نے پہلے بیان کی۔
صحیح علامتی شکل
<table cellspacing="0" cellpadding="4" border="1" width="95%"><tr><td> اُم ۔ ی ۔ دیں </td><td> غر ۔ی ۔ بوں </td><td>کی ۔ بر ۔ لا </td><td>نے ۔ و ا ۔ لا </td></tr><tr><td> ب ۔ ب ۔ چ </td><td> ب ۔ ب ۔ چ </td><td> ب ۔ ب ۔ چ </td><td> ب ۔ ب ۔ چ</td></tr></table>
ہم نے چ اور ب کی علامت کو استمعال کیا ہے۔ یہ ترکیب استمعال شروع شروع میں آوازں کے کو سمجھانے کی حد تک تو کافی ہے۔ ' لیکن شاعری میں استعمال کرنے کے لئے ایک بہتر نظام کی ضرورت ہے۔ اگرہمارے پاس کچھ ایسے الفاظ موجود ہوں جواردو کے تمام الفاظ اور نمونوں کو علامتی طور پر ادا کر سکیں تو مشکل آسان ہوسکتی ہے۔
خوش قسمتی سے ایسی علامات پرانے زمانے میں عرب کے خلیل بن احمدنےدریافت کر لیں تھیں۔ چناچہ علمِ عروض میں مختلف آوازوں کی ادائیگی کا ایک اور طریقہ استمعال کیا جاتا ہے جس میں فرضی الفاظ استمعال کیئے جاتے ہیں جواردو کی آوازوں کی ترتیب کا تمام ممکن نمونوں کو ظاہر کر سکتے ہیں۔ فرضی الفاظ کو افاعل یا ارکان کہتے ہیں۔
ارکان
1۔ فاعلن
2۔ فعولن
3۔ فاعلا تن
4۔ مستفعلن
5۔ مفاعلین
6۔ فاع لاتن
7۔ مس فاع لاتن
8۔ مفعولاتن
9۔ متفاعلن
10۔ مفاعلتن
ہم ان کا ذکر آئندہ کریں گے۔