مزمل شیخ بسمل
محفلین
پچھلے سبق میں بحر رمل سالم اور محذوف پر گفتگو رہی اب آگے چلتے ہیں۔
محذوف کے بارے میں تو بتا چکا ہوں کے بحر کے آخری اور سالم رکن سے آخری سبب خفیف کم کردینے کا نام حذف ہے، آج اسی بحر کے اسی وزن میں مزید اجازتوں پر بات کرتے ہیں۔
عروض یہ اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی بحر کے آخر میں ہم ایک ساکن یا متحرک حرف کو بڑھا سکتے ہیں۔ ان دونوں بحور کا آپس میں خلط کیا جاسکتا ہے یعنی ایک مصرع بغیر کسی حرف کے اضافے کے اور دوسرا مصرع اس حرف کے ساتھ ۔
مثال آگے آئے گی۔
رمل سالم میں جب ”حذف“ کام کرتا ہے تو آخری رکن فاعلاتن سے ”فاعلن“ رہ جاتا ہے اور وزن بنتا ہے:
”فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن“
اب اگلا زحاف ”قصر“ ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سالم رکن جو سبب خفیف پر ختم ہوتا ہو اس کے سبب خفیف سے آخری حرف گرا کر اس سے پہلے والے کو ساکن کر دیا جائے۔
فاعلاتن میں ”نون“ گر کر ”ت“ ساکن ہوا۔ ”فاعلات“ بسکون آخر بچ گیا۔ اسے ”فاعلان“ سے بدلتے ہیں۔
نوٹ: فاعلن اور فاعلان ایک دوسرے کی جگہ آسکتے ہیں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ایک ساکن یا متحرک حرف آخر میں بڑھایا جاسکتا ہے، یہاں ساکن بڑھے گا۔ مثال غالب کا شعر دیکھیں:
دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ، داغوں کی بہار
اِس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا
پہلے مصرعے کا وزن:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلان
اور دوسرا مصرع:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن (تقطیع آپ خود کریں)
اس کے بعد اگلا زحاف ”کف“ کہلاتا ہے اور کام اسکا یہ ہے کہ اگر سالم رکن میں ساتواں حرف ساکن ہو اور سبب خفیف میں ہو تو اس ساکن کو گرا دیتے ہیں۔ یاد رکھیں شرائط یہ ہے کہ: رکن ”سالم“ ہو، اسکا ساتواں حرف ساکن ہو، اور وہ حرف سبب خفیف کا ہو۔ اب فاعلاتن کی کیفیت دیکھیں:
ف ا ع ل ا ت ن
سالم رکن ہے، سات حروف ہیں ساتواں حرف ”نون“ ہے، اور یہ نون سبب خفیف یعنی ”تن“ میں ہے، اسی نون کو ”کف“ کے زحاف سے گرادینگے۔
فاعلاتُ متحرک ”ت“ سے بچ گیا۔ (واضح رہے کہ ”فاعلان“ اور ”فاعلاتُ“ میں ساکن اور متحرک کا ہی فرق ہے۔ یعنی فاعلان کا آخر ساکن ہے اور فاعلاتُ کا آخر متحرک ہے)
نوٹ: فاعلن، فاعلان اور فاعلاتُ ایک دوسرے کی جگہ آسکتے ہیں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ایک ساکن یا متحرک حرف آخر میں بڑھایا جاسکتا ہے، یہاں متحرک بڑھے گا۔ مثال غالب کا شعر دیکھیں:
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے
پہلا مصرع:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
دوسرا مصرع:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتُ
(ہائے ہائے میں ”ے“ گرے گی اور ”ہاءِ ہاءِ“ تقطیع ہوگا)
گویا بحر رمل کے ان تین اوزان یعنی ”بحررمل مثمن محذوف“، ”بحررمل مثمن مقصور“ اور ”بحررمل مثمن مکفوف“ کا خلط بلا کراہت جائز ہے۔
اشعار برائے مشق:
بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا
شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا
اِس تکلّف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا
گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
منہ نہ کھلنے پرہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا
در پہ رہنے کو کہا، اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول
آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا
کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
مزمل شیخ بسملؔ
محذوف کے بارے میں تو بتا چکا ہوں کے بحر کے آخری اور سالم رکن سے آخری سبب خفیف کم کردینے کا نام حذف ہے، آج اسی بحر کے اسی وزن میں مزید اجازتوں پر بات کرتے ہیں۔
عروض یہ اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی بحر کے آخر میں ہم ایک ساکن یا متحرک حرف کو بڑھا سکتے ہیں۔ ان دونوں بحور کا آپس میں خلط کیا جاسکتا ہے یعنی ایک مصرع بغیر کسی حرف کے اضافے کے اور دوسرا مصرع اس حرف کے ساتھ ۔
مثال آگے آئے گی۔
رمل سالم میں جب ”حذف“ کام کرتا ہے تو آخری رکن فاعلاتن سے ”فاعلن“ رہ جاتا ہے اور وزن بنتا ہے:
”فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن“
اب اگلا زحاف ”قصر“ ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سالم رکن جو سبب خفیف پر ختم ہوتا ہو اس کے سبب خفیف سے آخری حرف گرا کر اس سے پہلے والے کو ساکن کر دیا جائے۔
فاعلاتن میں ”نون“ گر کر ”ت“ ساکن ہوا۔ ”فاعلات“ بسکون آخر بچ گیا۔ اسے ”فاعلان“ سے بدلتے ہیں۔
نوٹ: فاعلن اور فاعلان ایک دوسرے کی جگہ آسکتے ہیں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ایک ساکن یا متحرک حرف آخر میں بڑھایا جاسکتا ہے، یہاں ساکن بڑھے گا۔ مثال غالب کا شعر دیکھیں:
دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ، داغوں کی بہار
اِس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا
پہلے مصرعے کا وزن:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلان
اور دوسرا مصرع:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن (تقطیع آپ خود کریں)
اس کے بعد اگلا زحاف ”کف“ کہلاتا ہے اور کام اسکا یہ ہے کہ اگر سالم رکن میں ساتواں حرف ساکن ہو اور سبب خفیف میں ہو تو اس ساکن کو گرا دیتے ہیں۔ یاد رکھیں شرائط یہ ہے کہ: رکن ”سالم“ ہو، اسکا ساتواں حرف ساکن ہو، اور وہ حرف سبب خفیف کا ہو۔ اب فاعلاتن کی کیفیت دیکھیں:
ف ا ع ل ا ت ن
سالم رکن ہے، سات حروف ہیں ساتواں حرف ”نون“ ہے، اور یہ نون سبب خفیف یعنی ”تن“ میں ہے، اسی نون کو ”کف“ کے زحاف سے گرادینگے۔
فاعلاتُ متحرک ”ت“ سے بچ گیا۔ (واضح رہے کہ ”فاعلان“ اور ”فاعلاتُ“ میں ساکن اور متحرک کا ہی فرق ہے۔ یعنی فاعلان کا آخر ساکن ہے اور فاعلاتُ کا آخر متحرک ہے)
نوٹ: فاعلن، فاعلان اور فاعلاتُ ایک دوسرے کی جگہ آسکتے ہیں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ایک ساکن یا متحرک حرف آخر میں بڑھایا جاسکتا ہے، یہاں متحرک بڑھے گا۔ مثال غالب کا شعر دیکھیں:
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے
پہلا مصرع:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
دوسرا مصرع:
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتُ
(ہائے ہائے میں ”ے“ گرے گی اور ”ہاءِ ہاءِ“ تقطیع ہوگا)
گویا بحر رمل کے ان تین اوزان یعنی ”بحررمل مثمن محذوف“، ”بحررمل مثمن مقصور“ اور ”بحررمل مثمن مکفوف“ کا خلط بلا کراہت جائز ہے۔
اشعار برائے مشق:
بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا
شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا
اِس تکلّف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا
گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا
منہ نہ کھلنے پرہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا
در پہ رہنے کو کہا، اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول
آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا
کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
مزمل شیخ بسملؔ