[align=center]
علم قافیہ
[line]
پروفیسرحمید اللہ شاہ ہاشمی[/align]
تمہید
علم قافیہ
[line]
پروفیسرحمید اللہ شاہ ہاشمی[/align]
تمہید
قافیے، قفو بہ معنے پیروی کرنے کے نکلا ہے، جس کے لغوی معنی “ پیچھے آنے والے“ کے ہیں۔ بقول اخفش قافیہ “ شعر کا آخری کلمہ “ ہے۔ لیکن یہ تعریف جامع نہیں۔ سکاکی کے نزدیک ساکن مقدم سے پہلا حرف مع حرکت قافیہ کہلاتا ہے۔ خلیل کی تعریف یوں ہے۔ “ شعر میں سب سے آخری ساکن سے پہلے جو ساکن آئے اس کے ماقبل متحرک سے آخر تک سب قافیہ ہے“ ۔ جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے یہ تعریف صحیح ہے لیکن ہماری زبان کے معاملے میں یہ درست نہیں بیٹھتی۔ اردو میں قافیہ ان حروف اور حرکات کا مجموعہ ہے۔ جوالفاظ کےساتھ غیرمستقیل طور پرشعر یا مصرعے کے آخر میں باربار آئے۔ یہ مجموعہ کبھی کبھی مہمل معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا کچھ مضائقہ نہیں بالعموم اس پورے لفظ کوجس میں یہ مجموعہ آتا ہے قافیہ کہہ دیتے ہیں۔ چونکہ قافیہ ابیات کے آخر میں واقع ہوتا ہے یا ایک قافیہ دوسرے قافیہ کے پیچھے آتا ہے لہذا اس نام سے موسوم ہوا۔
ہمارے نزدیک قافیہ کی واضع ترتعریف یہ ہے کہ قافیہ وہ مجموعہ ء حروف و حرکات ہے جو اواخرابیات میں دو یا زیادہ لفظوں کی صورت میں بطور وجوب یا استحسان مقرر لایا جاتا ہے۔
قافیے کے بعد جو حرف، کلمہ یا کلمات مستقل طور پر باربار آئیں انہیں ردیف کہتے ہیں۔
ั ہوئے حاضر تو متورم تھے پاؤں، خون جاری تھا
نبی کا دیدہ ہمدرد وقف اشک باری تھا
ั دل کاخوں ہونے کا غم کیا اب سے تھا
سینہ کو بھی، سخت ماتم کب سے تھا
پہلے شعر میں “ تھا “ ردیف ہے اور “ جاری“ “ باری “ قافیے ہیں ۔ دوسرے شعر میں “ سے تھا “ ردیف ہے اور “ اب“ کب “ قوافی۔
غزل اور قصیدے میں قافیہ، مطلع کے دونوں مصرعوں کے آخر میں آتاہے۔ مثنوی کے ہرمصرعے کے آخر اور قطعہ کے مصرع ثانی کے آخر میں۔ غزل اور قصیدے کے باقی اشعار ( ماسوائے مطلع ) میں بھی مصرع ثانی کے آخر میں آتا ہے۔
ั اختلاف کی تین صورتیں ہیں ۔ ( اول ) معنی اور الفاظ مختلف ہوں مثلا درد اور زرد ۔ ( دوم ) الفاظ وہی ہیں، صرف معنی میں اختلاف ہو مثلا باز بمعنی پرندہ شکاری اور بمعنی پھر۔ ( سوم ) صرف لفظی اختلاف ہو مثلا اطراف اور اکناف
ہمارے نزدیک قافیہ کی واضع ترتعریف یہ ہے کہ قافیہ وہ مجموعہ ء حروف و حرکات ہے جو اواخرابیات میں دو یا زیادہ لفظوں کی صورت میں بطور وجوب یا استحسان مقرر لایا جاتا ہے۔
قافیے کے بعد جو حرف، کلمہ یا کلمات مستقل طور پر باربار آئیں انہیں ردیف کہتے ہیں۔
ั ہوئے حاضر تو متورم تھے پاؤں، خون جاری تھا
نبی کا دیدہ ہمدرد وقف اشک باری تھا
ั دل کاخوں ہونے کا غم کیا اب سے تھا
سینہ کو بھی، سخت ماتم کب سے تھا
پہلے شعر میں “ تھا “ ردیف ہے اور “ جاری“ “ باری “ قافیے ہیں ۔ دوسرے شعر میں “ سے تھا “ ردیف ہے اور “ اب“ کب “ قوافی۔
غزل اور قصیدے میں قافیہ، مطلع کے دونوں مصرعوں کے آخر میں آتاہے۔ مثنوی کے ہرمصرعے کے آخر اور قطعہ کے مصرع ثانی کے آخر میں۔ غزل اور قصیدے کے باقی اشعار ( ماسوائے مطلع ) میں بھی مصرع ثانی کے آخر میں آتا ہے۔
ั اختلاف کی تین صورتیں ہیں ۔ ( اول ) معنی اور الفاظ مختلف ہوں مثلا درد اور زرد ۔ ( دوم ) الفاظ وہی ہیں، صرف معنی میں اختلاف ہو مثلا باز بمعنی پرندہ شکاری اور بمعنی پھر۔ ( سوم ) صرف لفظی اختلاف ہو مثلا اطراف اور اکناف