نورالحسن جوئیہ
محفلین
یہ میرے ملک کا المیہ ہے اور میرے ملک کی بدقسمتی بھی کہ میرے ملک کا پڑھا لکھا اور علم کے نور سے روشناس ، اپنی اہمیت سے واقف نہیں ہے۔سکول ، کالج،مدرسہ اور یونیورسٹی کی تعلیم پانے کے باوجود ،تعلیم یافتہ نوجوان کے رویوں میں، باتوں،عادتوں،افکار اور کردار میں اِس قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آسکی ، جس سے سمجھا جائے کہ اس نے واقعی علم حاصل کیا ہے۔میرے ملک کا علم سے روشناس شخص بھی اُسی طرح اصولوں اور ضوابط سے نالاں ہے، جس طرح کہ ان پڑھ۔
اس میں قصور ہرگز علم ، تعلیم کا نہیں بلکہ میرے ملک کے نوجوان کی 'ذہنی اپروچ' کا ہے۔ کمی اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کو اپنی تعلیم اور علم کی اہمیت کا اندازہ نہیں،
جہاں بھی کچھ کہنے کا موقع ملا، یہی درس دیا کہ اپنے سبق اورتعلیمی کیرئیر کے دوران، اپنی اندر علم کی سطح کی بڑھوتری کو محسوس کریں۔ آسان اور واضح لفظوں میں کہی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ علم اور تعلیم کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کریں۔پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ نوجوان خود کو عبث اور فضول محسوس نہ کرے اور اپنی اہمیت کو سمجھے۔ اس کے بعد اپنے طور اطوار، قول و فعل سے ثابت کرے کہ. وہ ایک تعلیم یافتہ انسان ہے۔اگر میرے ملک کا نوجوان اس سطح پہ سوچے تو انشاءاللہ ملک کو بدلنے میں وقت نہیں لگے گا۔
دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں (اقبال)
اس میں قصور ہرگز علم ، تعلیم کا نہیں بلکہ میرے ملک کے نوجوان کی 'ذہنی اپروچ' کا ہے۔ کمی اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کو اپنی تعلیم اور علم کی اہمیت کا اندازہ نہیں،
جہاں بھی کچھ کہنے کا موقع ملا، یہی درس دیا کہ اپنے سبق اورتعلیمی کیرئیر کے دوران، اپنی اندر علم کی سطح کی بڑھوتری کو محسوس کریں۔ آسان اور واضح لفظوں میں کہی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ علم اور تعلیم کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کریں۔پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ نوجوان خود کو عبث اور فضول محسوس نہ کرے اور اپنی اہمیت کو سمجھے۔ اس کے بعد اپنے طور اطوار، قول و فعل سے ثابت کرے کہ. وہ ایک تعلیم یافتہ انسان ہے۔اگر میرے ملک کا نوجوان اس سطح پہ سوچے تو انشاءاللہ ملک کو بدلنے میں وقت نہیں لگے گا۔
دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں (اقبال)