سید عاطف علی
لائبریرین
*حسینہ تم ریاضی ھو*
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
یہ سیٹوں کی تقاطع اور یونین کچھ بتا دو نا
یہ قالب اور الجبرا یہ کیسے لاگ لیتے ہو
جمع تفریق اور تقسیم ضربیں کیسے دیتے ہو
کسی طرح مجھے بھی اُم سائنس سے ملا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھا دو نا
یہاں پہ مستقل کیا ہے تغیر کس کو کہتے ہیں
تغیر کی بغل میں عددی سر کیوں چپکے رہتے ہیں
بڑی پُھرتی سے تم جو mod, median, mean لیتے ہو
سوالوں سے جوابوں کے خزانے چھین لیتے ہو
یہ ناطق غیر ناطق سے جدا کر کے دِکھا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
اِسے اہلِ ادب نے خشک تر مضمون بولا ہے
جو اس سے دل لگا بیٹھا، اُسے مجنون بولا ہے
کہا میں نے ریاضی کا بہت دشمن زمانہ ہے
ریاضی اِک تخیّل ہے یہ شاعر کا فسانہ ہے
کہا اُس نے کہ کچھ مصرعے میرے شاعر سنا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
ہزاروں سال پہلے جبکہ پتھّر کا زمانہ تھا
وہاں موجود نہ کوئی بھی گِنتی کا پیمانہ تھا
زُلیخا تھی نہ یُوسُف تھا، نہ اہرامِ مِصٙر کوئی
پتھر سے توازن تھا جو گِنتی تھی اگر کوئی
کہا اُس نے کئی صدیاں ریاضی کی پیدائش پرلگادونا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
ابھی جاناں بتانے کو جذر مجذور باقی ہیں
کئی بلین ستاروں کے جہاں مفرور باقی ہیں
ابھی تو ابنِ مریم چُھپ کے بیٹھے تھے گلابوں میں
مگر سُن۔لو کہ اِہلِ مصر ماہِر تھے حسابوں میں
بہت تاریخ گہری ہے، ٹریلر ہی دکھا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
"بٙراہم گُپت" کی ایجاد اِک تا نٙو و زیرو ہے
یہاں تو ارشمیدس ایریا ، حجِّم کا ہیرو ہے
ابھی الخوارزمی آ کر جو الجبرا نکالے گا
زمانے بھر کے سب نالائقوں سے بددعا لے گا
جو مشکل ہے یہ الجبرا تو کچھ آساں پڑھا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
کلائی پر تِری جاناں جو کنگن کھنکھناتے ہیں
یہی کنگن ریاضی کے بڑے سرکل بناتے ہیں
تِری زُلفوں کے بل تیری کمر کے ساتھ بنتے ہیں
جو گیلی ہوں تو دلکش پیرابولِک پاتھ بنتے ہیں
مِری زُلفوں سے جو کُچھ بھی بنانا ہے بنا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
تِری آنکھوں میں بھی اِس علمِ فطرت کا اثاثہ ہے
اے میرے دلربا اِن میں سفیّئر اِک شناسا ہے
جو اِک موصول مجھ سے پھول تم نے جان پایا تھا
وہی اینگل محبت کا نگاہوں نے بنایا تھا
مِری خواہش ہے اب تو فیثا غورث بھی پڑھا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
چمکتی ہے تِرے ہونٹوں میں جو دندان کی مالا
یہی وہ پہلی گِنتی تھی جسے انسان نے پالا
تِرے آنچل کی ڈوری پر جو بندیا ہے ستارے ہیں
جو لہرائے ، پلینوں کے، سپیسوں کے نظارے ہیں
وہ بولی میں ریاضی ہوں مجھے خود میں چھپا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
میری جاناں یہ تم سے آج کہنا ہے شفاف آخر
تِرے وعدوں میں کیونکر ہے میعاری انحراف آخر
محبت ہو تو دشمن بھی تناسُب راست ہوتے ہیں
تِرے جیسے حسیں چہرے کِسے برداشت ہوتے ہیں
فکٙر چھوڑو زمانے کی ، مجھے اپنی بنا لو نا
وہ ساحلّ مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا.
(ایک مہربان کی واٹس ایپ عنایت)
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
یہ سیٹوں کی تقاطع اور یونین کچھ بتا دو نا
یہ قالب اور الجبرا یہ کیسے لاگ لیتے ہو
جمع تفریق اور تقسیم ضربیں کیسے دیتے ہو
کسی طرح مجھے بھی اُم سائنس سے ملا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھا دو نا
یہاں پہ مستقل کیا ہے تغیر کس کو کہتے ہیں
تغیر کی بغل میں عددی سر کیوں چپکے رہتے ہیں
بڑی پُھرتی سے تم جو mod, median, mean لیتے ہو
سوالوں سے جوابوں کے خزانے چھین لیتے ہو
یہ ناطق غیر ناطق سے جدا کر کے دِکھا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
اِسے اہلِ ادب نے خشک تر مضمون بولا ہے
جو اس سے دل لگا بیٹھا، اُسے مجنون بولا ہے
کہا میں نے ریاضی کا بہت دشمن زمانہ ہے
ریاضی اِک تخیّل ہے یہ شاعر کا فسانہ ہے
کہا اُس نے کہ کچھ مصرعے میرے شاعر سنا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
ہزاروں سال پہلے جبکہ پتھّر کا زمانہ تھا
وہاں موجود نہ کوئی بھی گِنتی کا پیمانہ تھا
زُلیخا تھی نہ یُوسُف تھا، نہ اہرامِ مِصٙر کوئی
پتھر سے توازن تھا جو گِنتی تھی اگر کوئی
کہا اُس نے کئی صدیاں ریاضی کی پیدائش پرلگادونا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
ابھی جاناں بتانے کو جذر مجذور باقی ہیں
کئی بلین ستاروں کے جہاں مفرور باقی ہیں
ابھی تو ابنِ مریم چُھپ کے بیٹھے تھے گلابوں میں
مگر سُن۔لو کہ اِہلِ مصر ماہِر تھے حسابوں میں
بہت تاریخ گہری ہے، ٹریلر ہی دکھا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
"بٙراہم گُپت" کی ایجاد اِک تا نٙو و زیرو ہے
یہاں تو ارشمیدس ایریا ، حجِّم کا ہیرو ہے
ابھی الخوارزمی آ کر جو الجبرا نکالے گا
زمانے بھر کے سب نالائقوں سے بددعا لے گا
جو مشکل ہے یہ الجبرا تو کچھ آساں پڑھا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
کلائی پر تِری جاناں جو کنگن کھنکھناتے ہیں
یہی کنگن ریاضی کے بڑے سرکل بناتے ہیں
تِری زُلفوں کے بل تیری کمر کے ساتھ بنتے ہیں
جو گیلی ہوں تو دلکش پیرابولِک پاتھ بنتے ہیں
مِری زُلفوں سے جو کُچھ بھی بنانا ہے بنا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
تِری آنکھوں میں بھی اِس علمِ فطرت کا اثاثہ ہے
اے میرے دلربا اِن میں سفیّئر اِک شناسا ہے
جو اِک موصول مجھ سے پھول تم نے جان پایا تھا
وہی اینگل محبت کا نگاہوں نے بنایا تھا
مِری خواہش ہے اب تو فیثا غورث بھی پڑھا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
چمکتی ہے تِرے ہونٹوں میں جو دندان کی مالا
یہی وہ پہلی گِنتی تھی جسے انسان نے پالا
تِرے آنچل کی ڈوری پر جو بندیا ہے ستارے ہیں
جو لہرائے ، پلینوں کے، سپیسوں کے نظارے ہیں
وہ بولی میں ریاضی ہوں مجھے خود میں چھپا دو نا
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا
میری جاناں یہ تم سے آج کہنا ہے شفاف آخر
تِرے وعدوں میں کیونکر ہے میعاری انحراف آخر
محبت ہو تو دشمن بھی تناسُب راست ہوتے ہیں
تِرے جیسے حسیں چہرے کِسے برداشت ہوتے ہیں
فکٙر چھوڑو زمانے کی ، مجھے اپنی بنا لو نا
وہ ساحلّ مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا.
(ایک مہربان کی واٹس ایپ عنایت)