ابن محمد جی
محفلین
علم غیب خاصہ ذات باری ہے
غیب کسے کہتے ہیں ؟ ایسا علم جو انسان کے جاننے کے ذرائع سے پوشیدہ ہو۔وہ غیب ہو گا۔ غیب کا اصل مفہوم کیا ہے؟جسے غیب کہتے ہیں اسے جاننا صرف اﷲ کا خاصہ ہے۔ اگر اسے جاننے کیلئے کوئی ذریعہ درمیان میں آ گیا تو وہ غیب نہیں رہے گا۔جیسے کرکٹ کھیلا جا رہا ہے۔ لیکن ہمیں کیا پتہ کس نے چھکا مارا؟کس نے چوکا مارا؟ اور کس نے گیند پھینکی؟ہم ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔ ایک ذریعہ درمیان میں آ گیاہمیں غیب پہ اطلاع ہو گئی ۔درمیان میں سبب ہے۔اﷲ کا علم اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے کا اسے علم ہے اور درمیان میں کوئی سبب نہیں۔ وہ ذاتی طور پر جانتا ہے اور یہ ہے غیب جو صرف اﷲ جانتا ہے۔غیب مخلوق کے حوالے سے ہے۔لیکن اﷲ کے سامنے ہر چیز حاضر ہے۔اس لئے کہتے ہیں کہ غیب جاننا خاصہ ذات باری ہے۔
دنیا کے مخفی احوال جاننے کے لئے لوگوں نے کچھ تحقیق اور جستجو کی اور چند اندازے بنا لئے ان میں دو طرح سے کام ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو شیطان سے مصاحبت ہو جاتی ہے اور شیطان کچھ نہ کچھ باتیں ان کے دلوں میں ڈالتا رہتا ہے۔قرآن کریم میں آتا ہے (سورۃالانعام 121 ) شیطان اپنے دوستوں سے باتیں کرتے ہیں۔ایک واقعہ کہیں ہوا ایک شیطان نے دوسرے کو بتایا ،اس نے اپنے کسی ساتھی کو بتایا اس نے یہاں بات کر دی کہ فلاں جگہ یہ ہوا ہے۔ لوگوں نے سمجھا یہ بڑا غیب دان ہے۔غیب کی ایک قسم یہ ہے لیکن یہ سارے غیب آسمان کے نیچے نیچے ہیں اور شیطان جس سے بات کرتا ہے اس کا مطلب ہے اس بندے کا کردار بھی شیطانی ہو گا۔اس کا کھانا بھی حلال نہیں ہو گا۔اس کے اعمال بھی کافرانہ ہوں گے۔وہ بدکار اور غلیظ بھی ہو گا۔
دوسری قسم علم جفر،رمل ،دست شناسی اور چہرہ شناسی وغیرہ انسانوں کی ایجاد کرد ہ مشقیں ہیں ۔علم نجوم کیا ہے؟ یہ ایک فن ہے جیسے دست شناسی کہ بعض خاص لکیریں خاص باتوں کی عماض ہوتی ہیں۔اسی طرح ستاروں کی روش بھی بعض باتوں کو ظاہر کرتی ہے۔جیسے نبض کی حرکت حکیم کو مرض کے بارے اندازہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔اگریہاں تک بات رہے تو حرج نہیں ہاں اگر اسی پر بھروسہ کرنے لگے اور اسے موثر بالذات ماننے لگے تو یہ خیال مشرکانہ ہے۔ اﷲ اس سے پناہ میں رکھے۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ ان علوم پر اگر کوئی یقین کر لے تو اس کا اسلام خطرے میں پڑجاتا ہے۔یہ محض اندازے ہیں جس میں غلط اور صحیح دونوں کے ہونے کا احتمال ہے۔یہ حتمی نہیں ہوتے ان سے زندگی کی راہیں مقرر نہیں کی جا سکتیں ہندو راجاؤں میں ان جوتشیوں اور نجومیوں سے ہدایات لینے کا رواج بہت تھا بعد میں ملکی حکمرانوں میں در آیااور اب شایدہی کوئی ایسا پاکستانی حکمران ہو جس نے جوتشی ورملی نہ رکھے ہوئے ہوں ۔آج کے صدر اوروزیراعظم نے اپنے اپنے محلوں میں جبکہ وزرأ نے اپنے نجومیوں اورجوتشیوں کو اعلیٰ ہوٹلوں میں مقیم رکھاہوا ہے۔ان سے راہنمائی لے کر چلتے ہیں جس کا نتیجہ دیکھا جا سکتا ہے ملکی وسائل تباہ ہو رہے ہیں عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں اور ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
ہر نبی دنیا میں جس کام کے لئے مبعوث ہوتا ہے۔اس کے لئے جتنے علوم، قوتوں اور چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے عطا کئے جاتے ہیں۔یہ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ کس نبی کو کتنا غیب بتایا گیا۔یہ مالک جانے اور نبی جانے لیکن جتنے امور غیبیہ پر تمام انبیاء علیہم السلام ،رسل اور اولیاء اﷲ کو مطلع کیا گیا۔ان میں اﷲ کے بعد سب سے زیادہ جاننے والی ہستی محمد رسول اﷲ ﷺ ہیں۔حضورﷺ ہی وہ ہستی ہیں جو ساری انسانیت کے لئے اور تا قیامت سارے زمانوں کے لئے مبعوث کئے گئے۔ان زمانوں کی نسبت،اس انسانی وسعت کی نسبت حضورﷺ کے علوم غیبیہ کی وسعت بھی بے پناہ ہے۔ یہ علم کسی ذریعے سے پہنچتا ہے کشف،الہام،القا،وجدان یا پھر انبیاء کو سب سے مضبوط ذریعہ جو نصیب ہوتا ہے وہ وحی الہٰی کا ہے۔ نبی کا کشف والہام تو کیا نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔لیکن یہ سب علم غیب نہیں کہلائے گا۔اﷲ کی ذات سب سے بڑا غیب ہے۔حضور ﷺ نے کائنات کو اﷲ سے آشنا کر دیا۔فرشتے غیب ہیں ،رسول اﷲ ﷺ نے فرشتوں کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔جنت و دوزخ غائب ہے ہمارے سامنے نہیں ہے۔لیکن حضور ﷺ نے ہر کلمہ گو کو اس کے بارے بتا دیا۔ لہٰذا نبی کا علم اﷲ کا دیا ہوا ہوتا ہے۔آپ اسے علم غیب نہ کہیں۔اسے اطلاع عن الغیب کہیں۔نبی کو غیب عطا کیا جاتاہے،اﷲ کو کوئی بتاتا نہیں،نبی کو بتا دیا جاتا ہے۔یہ فرق ہے اور یہ بڑی مناسب اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔(جاری)
غیب کسے کہتے ہیں ؟ ایسا علم جو انسان کے جاننے کے ذرائع سے پوشیدہ ہو۔وہ غیب ہو گا۔ غیب کا اصل مفہوم کیا ہے؟جسے غیب کہتے ہیں اسے جاننا صرف اﷲ کا خاصہ ہے۔ اگر اسے جاننے کیلئے کوئی ذریعہ درمیان میں آ گیا تو وہ غیب نہیں رہے گا۔جیسے کرکٹ کھیلا جا رہا ہے۔ لیکن ہمیں کیا پتہ کس نے چھکا مارا؟کس نے چوکا مارا؟ اور کس نے گیند پھینکی؟ہم ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔ ایک ذریعہ درمیان میں آ گیاہمیں غیب پہ اطلاع ہو گئی ۔درمیان میں سبب ہے۔اﷲ کا علم اسباب کا محتاج نہیں ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے کا اسے علم ہے اور درمیان میں کوئی سبب نہیں۔ وہ ذاتی طور پر جانتا ہے اور یہ ہے غیب جو صرف اﷲ جانتا ہے۔غیب مخلوق کے حوالے سے ہے۔لیکن اﷲ کے سامنے ہر چیز حاضر ہے۔اس لئے کہتے ہیں کہ غیب جاننا خاصہ ذات باری ہے۔
دنیا کے مخفی احوال جاننے کے لئے لوگوں نے کچھ تحقیق اور جستجو کی اور چند اندازے بنا لئے ان میں دو طرح سے کام ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو شیطان سے مصاحبت ہو جاتی ہے اور شیطان کچھ نہ کچھ باتیں ان کے دلوں میں ڈالتا رہتا ہے۔قرآن کریم میں آتا ہے (سورۃالانعام 121 ) شیطان اپنے دوستوں سے باتیں کرتے ہیں۔ایک واقعہ کہیں ہوا ایک شیطان نے دوسرے کو بتایا ،اس نے اپنے کسی ساتھی کو بتایا اس نے یہاں بات کر دی کہ فلاں جگہ یہ ہوا ہے۔ لوگوں نے سمجھا یہ بڑا غیب دان ہے۔غیب کی ایک قسم یہ ہے لیکن یہ سارے غیب آسمان کے نیچے نیچے ہیں اور شیطان جس سے بات کرتا ہے اس کا مطلب ہے اس بندے کا کردار بھی شیطانی ہو گا۔اس کا کھانا بھی حلال نہیں ہو گا۔اس کے اعمال بھی کافرانہ ہوں گے۔وہ بدکار اور غلیظ بھی ہو گا۔
دوسری قسم علم جفر،رمل ،دست شناسی اور چہرہ شناسی وغیرہ انسانوں کی ایجاد کرد ہ مشقیں ہیں ۔علم نجوم کیا ہے؟ یہ ایک فن ہے جیسے دست شناسی کہ بعض خاص لکیریں خاص باتوں کی عماض ہوتی ہیں۔اسی طرح ستاروں کی روش بھی بعض باتوں کو ظاہر کرتی ہے۔جیسے نبض کی حرکت حکیم کو مرض کے بارے اندازہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔اگریہاں تک بات رہے تو حرج نہیں ہاں اگر اسی پر بھروسہ کرنے لگے اور اسے موثر بالذات ماننے لگے تو یہ خیال مشرکانہ ہے۔ اﷲ اس سے پناہ میں رکھے۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ ان علوم پر اگر کوئی یقین کر لے تو اس کا اسلام خطرے میں پڑجاتا ہے۔یہ محض اندازے ہیں جس میں غلط اور صحیح دونوں کے ہونے کا احتمال ہے۔یہ حتمی نہیں ہوتے ان سے زندگی کی راہیں مقرر نہیں کی جا سکتیں ہندو راجاؤں میں ان جوتشیوں اور نجومیوں سے ہدایات لینے کا رواج بہت تھا بعد میں ملکی حکمرانوں میں در آیااور اب شایدہی کوئی ایسا پاکستانی حکمران ہو جس نے جوتشی ورملی نہ رکھے ہوئے ہوں ۔آج کے صدر اوروزیراعظم نے اپنے اپنے محلوں میں جبکہ وزرأ نے اپنے نجومیوں اورجوتشیوں کو اعلیٰ ہوٹلوں میں مقیم رکھاہوا ہے۔ان سے راہنمائی لے کر چلتے ہیں جس کا نتیجہ دیکھا جا سکتا ہے ملکی وسائل تباہ ہو رہے ہیں عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں اور ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
ہر نبی دنیا میں جس کام کے لئے مبعوث ہوتا ہے۔اس کے لئے جتنے علوم، قوتوں اور چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے عطا کئے جاتے ہیں۔یہ کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ کس نبی کو کتنا غیب بتایا گیا۔یہ مالک جانے اور نبی جانے لیکن جتنے امور غیبیہ پر تمام انبیاء علیہم السلام ،رسل اور اولیاء اﷲ کو مطلع کیا گیا۔ان میں اﷲ کے بعد سب سے زیادہ جاننے والی ہستی محمد رسول اﷲ ﷺ ہیں۔حضورﷺ ہی وہ ہستی ہیں جو ساری انسانیت کے لئے اور تا قیامت سارے زمانوں کے لئے مبعوث کئے گئے۔ان زمانوں کی نسبت،اس انسانی وسعت کی نسبت حضورﷺ کے علوم غیبیہ کی وسعت بھی بے پناہ ہے۔ یہ علم کسی ذریعے سے پہنچتا ہے کشف،الہام،القا،وجدان یا پھر انبیاء کو سب سے مضبوط ذریعہ جو نصیب ہوتا ہے وہ وحی الہٰی کا ہے۔ نبی کا کشف والہام تو کیا نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔لیکن یہ سب علم غیب نہیں کہلائے گا۔اﷲ کی ذات سب سے بڑا غیب ہے۔حضور ﷺ نے کائنات کو اﷲ سے آشنا کر دیا۔فرشتے غیب ہیں ،رسول اﷲ ﷺ نے فرشتوں کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔جنت و دوزخ غائب ہے ہمارے سامنے نہیں ہے۔لیکن حضور ﷺ نے ہر کلمہ گو کو اس کے بارے بتا دیا۔ لہٰذا نبی کا علم اﷲ کا دیا ہوا ہوتا ہے۔آپ اسے علم غیب نہ کہیں۔اسے اطلاع عن الغیب کہیں۔نبی کو غیب عطا کیا جاتاہے،اﷲ کو کوئی بتاتا نہیں،نبی کو بتا دیا جاتا ہے۔یہ فرق ہے اور یہ بڑی مناسب اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔(جاری)