ڈبے سے بچپن کے کچھ 'ڈبہ ہلا' واقعات یاد آگئے۔
گو ان کا برادرم
عرفان سعید کی اس عمدہ پوسٹ سے کوئی تعلق نہیں، لیکن تذکرہ کیے دیتا ہوں۔ تمام احباب سے پیشگی معذرت
عید، شب برات کے موقع پر گھی کے خالی شدہ چھوٹے یا بڑے ڈبے میں سوراخ کر کے اندر کاربائیڈ کی ٹکیہ رکھ کر اسے نم کرنا ، زور زور سے ہلانا اور کسی کاغذ کو آگ لگا کر ڈرتے ڈرتے سوراخ کی طرف کرنا ۔۔۔ واللہ کیا زوردار دھماکہ ہوتا تھا ۔ باری باری سب بچے کرتے تو مقابلہ اس بات پر ہوتا کہ کس کے کیے دھماکے سے ڈبے کو سب سے زیادہ اونچائی حاصل ہوئی۔اور اس شب کے ونر کو 'ڈیکو مکھن ٹافی' انعام میں ملتی ۔
ایک صاحب سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ ٹوکری لٹکانے والی جگہ پر آگ کی چھوٹی سی بھٹی جلائے 'چنا جور گرم' کی صدا لگاتے عموماً شام کو آیا کرتے تھے، ان سے جب چونی، اٹھنی کے چنا جور لیتے تو وہ چنے نکال کر ایک چھوٹے سے ڈبے میں ڈالتے اور پھر اس پر مصالحہ ڈال کر خوب ہلاتے اور ساتھ کچھ گیت بھی گاتے۔ وہ منظر دیکھنے لائق ہوتا تھا۔
پھر جامن بیچنے والا سخت گرم دوپہروں میں ایک ڈبے میں کچھ جامن ڈال کر 'کالے کالے شا جامنو' کی صدا اپنی بھاری بھار کم آوازمیں لگاتا اور ڈبے کو زور زور سے ہلاتا تو ہمارا عموماً یہ مطالبہ ہوتا کہ 'چاچا جی! اک واری فیر' کہ ڈبہ ہلانے اور کالے کالے شا جامنو کی صدا ایک عجیب ہی ترنم لیے ہوتی تھی، جسے سننے اور دیکھنے کا لطف شاید کسی عمدہ سے گانے کو سننے دیکھنے سے بھی کہیں زیادہ تھا۔