علی ارمان کی ایک خوبصورت غزل۔۔وُہ آنکھیں بانٹے گا اور خواب مار ڈالے گا

محمداعظم

محفلین
سفر پہ بھیج کے اسباب مار ڈالے گا
وُہ آنکھیں بانٹے گا اور خواب مار ڈالے گا

بھنور، سراب، بگولے،چراغ، پھول، ہوا
مجھے یہ حلقہءِ احباب مار ڈالے گا

بچا کے دھوپ سے جن کو جوان ہم نے کیا
اب ان درختوں کو سیلاب مار ڈالے گا

تم آ تو جاؤ گے لیکن تمھارے آنے تک
مجھے مرا دل بیتاب مار ڈالے گا

ہر ایک دور میں لگتا ہے ہم کو لکھتے ہوئے
ہمیں کتاب کا یہ باب مارڈالے گا

کسی کو نیند کے پانی میں موت آئے گی
کسی کو دیدہ ءِ بے خواب مار ڈالے گا

کوئی امید نے لٹنا ہے ساحلِ دل پر
کسی سفینے کو گرداب مار ڈالے گا

کسی بھی لو نے اگر سراُٹھایا بستی میں
چراغِ منبر و محراب مار ڈالے گا

میں ایک نغمہءِ تجرید ہوں تحیّر کا
مجھے تعلقِ مضراب مار ڈالے گا
 

شمشاد

لائبریرین
خوبصورت غزل ہے۔ بہت شکریہ شریک محفل کرنے کے لیے۔

اعظم صاحب اردو محفل میں خوش آمدید

اپنا تعارف تو دیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
علی ارمان صاحب خوبصورت شاعر ہیں، فیس بُک پر ہماری ان سے یاد اللہ ہے، اس غزل کی وہاں بھی بہت تعریف ہوئی تھی، واقعی خوبصورت غزل ہے!
 

کاشفی

محفلین
السلام علیکم محمداعظم صاحب۔ بہت ہی خوبصورت غزل شریک محفل کی ہے آپ نے بہت ہی خوب جناب!
 
Top