علی زریون کی "کلاسیک"

یہ اردو زبان کی شاہکار غزل مجھے اردو ویب پر کہیں نہیں ملی سو یہاں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ :D توجہ فرمائیں:

تم ثروت کو پڑھتی ہو
کتنی اچھی لڑکی ہو
بات نہیں سنتی ہو کیوں
غزلیں بھی تو سنتی ہو
کیا رشتہ ہے شاموں سے
سورج کی کیا لگتی ہو
لوگ نہیں ڈرتے رب سے
تم لوگوں سے ڈرتی ہو
میں تو جیتا ہوں تم میں
تم کیوں مجھ پہ مرتی ہو
آدم اور سدھر جائے
تم بھی حد ہی کرتی ہو
کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو

قبلہ علی زریون
 
غالباً ریختہ پر موجود ہے :) ویسے اچھا ہوا موصوف حضرتِ جونؔ کی حیات میں میں بلوغت کو نہیں پہنچے تھے وگرنہ مقطع میں ’’کری‘‘ دیکھ کر شاید جونؔ بھائی وقت سے پہلے داعی اجل کو لبیک کہہ دیتے :)
 
غالباً ریختہ پر موجود ہے :) ویسے اچھا ہوا موصوف حضرتِ جونؔ کی حیات میں میں بلوغت کو نہیں پہنچے تھے وگرنہ مقطع میں ’’کری‘‘ دیکھ کر شاید جونؔ بھائی وقت سے پہلے داعی اجل کو لبیک کہہ دیتے :)
میں نے سمجھا کراچی والے ہم سے زیادہ اہلِ زبان ہونگے کیا ایسا نہیں ہے ؟
 
میں نے سمجھا کراچی والے ہم سے زیادہ اہلِ زبان ہونگے کیا ایسا نہیں ہے ؟
یہ کیسا شعلہ انگیز سوال کردیا بھائی :) گوکہ ہم خود ’’کراچی وال‘‘ ہیں، مگر شہر میں اردو کی عمومی حالت کے حوالے سے ایک لطیفہ سنائے دیتے ہیں
کہتے ہیں لکھنؤ سے کوئی صاحب اپنے عزیزوں سے ملنے کراچی پہنچے۔ ایک بار مٹرگشی کی غرض سے تنہاء باہر نکلے تو واپسی کا راستہ بھول گئے۔ اسی ادھیڑ بن میں ایک بائیک سوار لڑکے کو راستہ پوچھنے کے لئے روک کر کہا
’’بھائی صاحب، آپ کو ایک تکلیف دینا تھی‘‘
لڑکا منہ سے گٹکے کے کی پچکاری نکالتے ہوئے گویا ہوا
’’ابے تکلیف دے کر تو دیکھ، سالے یہیں تیری قبر کھود دوں گا‘‘ :)

ویسے نجانے کیوں ریختہ پر موصوف کی جائے سکونت فیصل آباد لکھی ہوئی ہے، ممکن ہے وہاں کی ہوا کا اثر ہو :)
 
اور پھر ہر شعر تی. پر ختم کردیا
ایسا میرے ساتھ ایک دو بار ہوا قدیم زمانے میں :) مطلعے میں جو قوافی باندھے وہ ایطائے جلی کا شکار تھے۔ اساتذہ نے توجہ دلائی تو مطلع درست کرنے کے لئے یہی ’’ٹِرک‘‘ آزمائ۔ یوں ایطاء سے تو جان چھوٹی مگر باقی غزل کے قوافی کاہلی کے سبب جوں کے توں رہے :)
 
ایسا میرے ساتھ ایک دو بار ہوا قدیم زمانے میں :) مطلعے میں جو قوافی باندھے وہ ایطائے جلی کا شکار تھے۔ اساتذہ نے توجہ دلائی تو مطلع درست کرنے کے لئے یہی ’’ٹِرک‘‘ آزمائ۔ یوں ایطاء سے تو جان چھوٹی مگر باقی غزل کے قوافی کاہلی کے سبب جوں کے توں رہے :)
8d7b67f798121b900eda125cf4e20698.png
 

عرفان سعید

محفلین
یہ کیسا شعلہ انگیز سوال کردیا بھائی :) گوکہ ہم خود ’’کراچی وال‘‘ ہیں، مگر شہر میں اردو کی عمومی حالت کے حوالے سے ایک لطیفہ سنائے دیتے ہیں
کہتے ہیں لکھنؤ سے کوئی صاحب اپنے عزیزوں سے ملنے کراچی پہنچے۔ ایک بار مٹرگشی کی غرض سے تنہاء باہر نکلے تو واپسی کا راستہ بھول گئے۔ اسی ادھیڑ بن میں ایک بائیک سوار لڑکے کو راستہ پوچھنے کے لئے روک کر کہا
’’بھائی صاحب، آپ کو ایک تکلیف دینا تھی‘‘
لڑکا منہ سے گٹکے کے کی پچکاری نکالتے ہوئے گویا ہوا
’’ابے تکلیف دے کر تو دیکھ، سالے یہیں تیری قبر کھود دوں گا‘‘ :)

ویسے نجانے کیوں ریختہ پر موصوف کی جائے سکونت فیصل آباد لکھی ہوئی ہے، ممکن ہے وہاں کی ہوا کا اثر ہو :)
اس کے بالکل متضاد
ابو الکلام آزاد نے جب ایک بار دہقانوں کے وفد سے دریافت کیا کہ "سنائیے، کشت ہائے ویراں پہ نزولِ باراں ہوا کہ نہ ہوا؟"
تو کسانوں نے کھسر پھسر کی کہ مولانا عبادت میں مشغول ہیں، ابھی چلنا چاہیے!
 
اس کے بالکل متضاد
ابو الکلام آزاد نے جب ایک بار دہقانوں کے وفد سے دریافت کیا کہ "سنائیے، کشت ہائے ویراں پہ نزولِ باراں ہوا کہ نہ ہوا؟"
تو کسانوں نے کھسر پھسر کی کہ مولانا عبادت میں مشغول ہیں، ابھی چلنا چاہیے!
یہ لطیفہ پہلے سنا ہوا ہے، مگر ہم نے جو ورژن سنا اس میں کسانوں کے بجائے کچھ سکھ سیاستدانوں کا ذکر تھا :)
 

زوجہ اظہر

محفلین
کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو
عربی میں امرؤ القیس، فارسی میں سعدی، اُردو میں غالب، بنگالی میں ٹیگور، پشتو میں خوشحال خان خٹک اور انگریزی میں شیکسپیئر نے عمدہ سے عمدہ مضامین باندھے لیکن اس پائے کے نہیں جو اکیسویں صدی کے قحط الرجال کے دور میں لائل پور کے ایک بزعمِ خویش شاعر نے اپنے اس شعر میں باندھ ڈالے۔
شعر ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ فرماتے ہیں
کس نے جینز کری ممنوع
پہنو اچھی لگتی ہو
مشکل الفاظ کے معنی:
جینز : ایک خاص قسم کی پتلون جو اہل بصارت کے ہاں لباس اور اہل بصیرت کے ہاں ننگیز ہے۔
کری : معلوم تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سے اس قسم کا صیغۂ ماضی سرزرد ہوا ہے۔
شانِ ورود :
شاعر کی محبوبہ کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جہاں جینز اور اس قسم کے اشتہا انگیز لباس پہننا تاکہ مشتہی نظروں کے منورنجن کا سامان ہوسکے، ممنوع ہے۔ لیکن وہ اپنے پُرکھوں کی روایات اور اپنے پرم پرا سے اختلاف رکھتی ہے۔۔۔ اور چاہتی ہے کہ میں جینز پہنوں لیکن بوجوہ وہ نہیں پہن پارہی ہے۔
تشریح :
جیسا کہ شانِ ورود کے ضمن میں گزرا کہ شاعر کی محبوبہ مخمصے کا شکار ہے کہ وہ جینز پہنے یا نہیں۔۔۔ اسی الجھن کا تذکرہ وہ اپنے ہمدم و ہمراز، اپنے عاشقِ بسمل، اپنے بلما و پیتم سے کر بیٹھتی ہے۔۔۔ یہ سنتے ہی شاعر کے اندر کا علامہ مرغینانی اور ابن ہمام جاگ اٹھتا ہے۔۔۔ تیوری چڑھ جاتی ہے، من ہی من میں "شامی" "عالمگیری" اور نہ جانے کتنی کتبِ فتاویٰ کا استحضار فرما لیتے ہیں اور ایک شانِ مفتیانہ سے بصورتِ شعر ایک فتویٰ جاری کرتے ہیں، جس کا پہلا مصرع ایک تہدید آمیز سوال پر مشتمل ہے کہ
"کس نے جینز کری ممنوع؟ "
جبکہ دوسرے مصرع میں اپنے منصبِ افتاء سے یکسر اتر کر ایک حکم نما درخواست کرتے نظر آتے ہیں کہ "پہنو"۔۔۔۔۔۔
یاد رہے کہ موصوف چونکہ ہمیشہ مدلل بات کرتے ہیں اس لیے حکم جاری کرنے کے متصلاً بعد اس کی علت بھی ان الفاظ کے ساتھ بیان فرماتے ہیں کہ "اچھی لگتی ہو"۔
بلاغت :
پہلا مصرع میں استفہامِ انکاری ہے۔
اور "کری" کا لفظ اس شعر کی جان ہے، شاعر اس کی جگہ کوئی مہذب اور شائستہ لفظ بھی استعمال کر سکتا تھا لیکن انہوں نے یہ گوارا نہیں کیا۔
نوٹ : اس عظیم الشان "فاتوا بسورۃ من مثلہ" قسم کے شعر کہنے کے بعد یہ قوم سے معافی نہیں مانگ رہے، بلکہ داد وصول رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمود ازہر کے قلم سے

نوٹ : مجھے جناب محمود ازہر کون ہیں حوالہ نہیں مل سکا
 
Top