عمران خان،اب آپ کو پلان ’بی‘ کا انتظار ہے؟

سید زبیر

محفلین
عمران خان،اب آپ کو پلان ’بی‘ کا انتظار ہے؟

Posted On Tuesday, September 16, 2014 .....سید عارف مصطفیٰ......

یوں لگتا ہے کہ سوچنے کے کام بھی اب ٹھیکے پہ دیدیئے گئے ہیں ورنہ قوم یہ ضرور سوچتی کہ آخر جب سپریم کورٹ نے دھرنے سے متعلق اپنے حکم نامے میں طاہرالقادری کو ایک غیر متعلق فرد قرار دیکر انہیں اس مہم جوئی کیلئے اسلام آباد جانے سے منع کردیا تھا تو آخر وہ کونسی طاقت تھی کہ جس نے وزیراعظم کو پابند کیا تھا کہ وہ طاہرالقادری کو اسلام آباد جانےاور اودھم مچانے سے نہ روکیں۔

سوچنے کا کام تو یہ بھی تھا کہ گزشتہ برس جب سپریم کورٹ نے طاہرالقادری کویہ آپشن دیا تھا کہ وہ یا تو ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف ختم اورکینیڈین شہریت ترک کرکے پاکستانی سیاست میں حصہ لیں یا اگر کینیڈین شہریت برقرار رکھیں تو یہاں کے معاملات میں دخل نہ دیں ،تو سپریم کورٹ کے اس دوٹوک فیصلےکے باوجود اور کینیڈا کی شہریت کو ترجیح دیئے جانے کے بھی یہ سیاسی گرو گھنٹال پھر اس برس بھی یہاں کیسے سیاسی دھمال ڈال رہے ہیں۔

سوچنے کا کام تو یہ بھی ہے ، یہ بھی ہے، یہ بھی ہے لیکن بہت سارے اور ایسے کاموں کو ابھی رہنے دیتے ہیں بس اسی بات پہ غوروفکر کرلیں کہ اپنے اہداف میں ابتک کی واضح ناکامی کے بعد بھی عمران خان اور طاہرالقادری نواز شریف سے استعفیٰ لینے کے مطالبے پہ بدستور کیوں اڑے ہوئے ہیں ؟

تو چلئے یہاں میں ذرا اپنے دماغ کو زحمت دے لیتا ہوں ۔۔۔ لیکن۔۔۔ جو جواب نکل کر آرہا ہے وہ بڑا خوفناک ہے ! اور وہ یہ ہے کہ دھرنا اسکرپٹ کا پلان’ اے‘ ناکام ہوجانے کے بعد اب پلان بی سامنے آنے والا ہے اور لگتا یہ ہے کہ اب شاید میمو گیٹ اسکینڈل ٹائپ کی کوئی نئی کتھا سامنے لائی جائے۔ اور اسکی روشنی میں غداری کا ایسا الزام چسپاں کردیا جائے کہ شریفوں سے نجات کو قومی سطح پہ کار ثواب ٹھہرادیا جائے۔

یہاں ایک مخمصہ میرا بھی ہے، اور وہ یہ کہ ۔۔۔۔ کیا کروں ، کیا نا کروں۔ میری سوچ بھی یہی ہے کہ ملک میں تبدیلی آنی چاہئے اور اسے باریاں لینے والے روایتی سیاستدانوں کی گرفت سے لازمی نکالنا چاہئے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کام کرنے کے دعویداروں میں بھی مخدوم شاہ محمود ، جہانگیر ترین، خورشید قصوری اور شیخ رشید جیسے لوگ ہیں، خود جن کےخلاف یہ انقلاب آنا چاہئے۔ جوبے حمیتی کی پالیسیاں پرویز مشرف کے دور میں بنائی گئیں اس کے زیادہ تر ذمہ دار یا تو پی ٹی آئی میں براجمان ہیں یا پھر ن لیگ اور پی پی پی میں اور انکے ہوتے ، پی ٹی آئی کسی حقیقی انقلاب کی بنیاد نہیں رکھ سکتی ۔ ان سب کی مونچھوں پہ لال مسجد کے شہداء کا خون بھی لگا ہوا ہےاور گلے میں پنڈی والوں کا طوق زریں بھی ہے۔

یہاں یہ بھی سمجھ لیجئے کہ بات یہ نہیں کہ میں عمران خان کا مخالف ہوگیا ہوں ، بلکہ عالم وحشت میں ہوں کیونکہ انہیں بڑی تیزی سے شیخ رشید کےاس انتقام کا نشانہ بنتے دیکھ رہا ہوں جو ماضی میں انکے ان ریمارکس کا نتیجہ ہے کہ جو انہوں نے چند برس قبل شیخ کے بارے میں ایک ٹاک شو میں دیئے تھے کہ

" میں تو اسے اپنا چپراسی بھی نا لگاؤں"۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب شیخ بہت اونچی ہواؤں میں تھے اور ہردوسرے ٹاک شو میں عمران کیلئے مغلظات کی نئی نئی اقسام ایجاد کرتے نظر آتے تھے۔ اب آپ ذرا غور فرمایئے ۔۔۔ یہ انتہائے زوال نہیں تو اور کیا ہے کہ ملک کی تیسری بلکہ عملاً دوسری بڑی پارلیمانی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود عمران خان کو ایک قطعی غیر پارلیمانی جماعت کے قائد طاہرالقادری کاچھوٹا بنا کر رکھدیا گیا ہے۔ اور ڈی چوک میں اپنے حامیوں کی کثیر تعداد کے غائب ہوجانے کے بعد انہیں کئی دن سے عوامی تحریک کے وابستگان کے ہجوم سے خطاب کرکےاپنی لیڈری کی لاج رکھنی پڑرہی ہے ۔۔۔! کافی دنوں کے بعد البتہ ہفتے کی شام اپنوں کا اچھا خاصا مجمع پھر سے دکھائی دیا جو ان کے اس اعلان کی تشہیر پہ اکٹھا ہوا تھا کہ دھرنے کا ایک ماہ مکمل ہونے پہ وہ اس میں حکومت سے کوئی بہت اہم اور سخت بات کریں گے۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ ہوا کچھ بھی نہیں ! دوسرے دن اتوار کو بھی اس امید پہ کچھ نا کچھ لوگ آ ہی گئے کہ شاید جواہم اور سخت بات گزشتہ روز کہنے سے رہ گئی ہے، آج کہہ دی جائے۔۔۔ لیکن وہاں تو ماضی کی سوبار پیٹی گئی لکیر پھر نئے ڈھنگ سے پیٹ دی گئی۔

عمران خان یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اچھا لیڈر بس ایک حد تک ہی ضدی ہوتا ہے، لیکن وہ زمینی حقائق کو کبھی نظرانداز نہیں کرتا،بلکہ انہی کو مد نظر رکھ کر اپنی چالیں چلتا ہے۔ قائداعظم جیسے اصول پسند رہنما نے بھی1940 کی قرارداد پاکستان کے بعد بھی متحدہ ہندوستان یا وفاق کو برقرار رکھنے کے لئے سب راستے بند نہیں کردیئے تھے ورنہ وہ 1946 میں کیبنٹ مشن پلان کو ہرگز منظور نہ کرتےاور نہ ہی اس سے قبل 1945میں منعقد ہونے والی دو تاریخی شملہ کانفرنسوں میں سہ فریقی مذاکراتی عمل کا حصہ بنتے۔ خان یہ بات اچھی طرح اپنے ذہن میں رکھ لیں کہ وہ فوری اور آناً فاناً زور دار دھکا مارکر انقلاب لاسکنے کے آپشن اب پوری طرح کھوچکے ہیں ۔ بہت بڑے مجمع کی مدد کے بغیر تو یہ پہلے بھی ممکن نہ تھا اور اب تو انکے دسترخوان پہ سے بہت سے لوگ شکم سیر ہوکر اٹھ چکے ، یادش بخیر بارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں صرف 18 گھڑ سواروں کی مدد سے حملہ کرکے ایبک کے جرنیل بختیارالدین خلجی نے بنگال کے حکمران لکشمن سین پر جو قبضہ کرلیا تھا اس میں تو سب سے بڑا پہلو ہی اچانک اورخفیہ کارروائی کا تھا ، اور آپکے کیس میں تو میڈیا کی مہربانی سے اب ایسا کرنا قطعی ممکن ہی نہیں ہے اورپھر اس وقت تو وہاں نہ پارلیمنٹ تھی اور نا ہی کوئی دستور۔

خان صاحب یہ حقیقت بھی اچھی طرح پیش نظر رکھیں کہ ایک ملین لوگوں اور ایک لاکھ موٹر سائیکلوں کو لیکر لاہور پہنچنے کا انکا اپنا دعویٰ بری طرح ، جی ہاں 98 فیصد کی شرمناک حد تک ناکام رہا تھا اور محض ڈیڑھ تا دو فیصد افراد ہی نے انکی صدائے مارچ پہ کان دھرا تھا۔ اور اگر انکے پیچھےخصوصی خاکی ایمپائر کی مدد کی توقع نہیں تھی تو پھر انہیں ایک دانشمند رہنما کے طور پہ اس افسوسناک حقیقت کے سامنے آتے ہی فوری بعد اپنے مطالبات اور ترجیحات کی فہرست پہ نظر ثانی کرلینی چاہئے تھی ، وہ بجائے استعفیٰ کی رٹ لگانے کے، انتخابی اصلاحات اور مڈٹرم الیکشن مانگ لیتے اور ان صائب مطالبات پہ حکومت کو بھی کان دھرتے ہی بنتی، لیکن وہ پھر بھی اپنی استعفائی ضد پہ قائم رہے اور انکی اس بے معنی بالک ہٹ کو دیکھتے ہوئے جاوید ہاشمی کا انکشاف بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔

عمران خان ذرا اس آفاقی سچائی پہ بھی غور کریں کہ بہت کم لوگ ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ جنہیں کسی ناکامی سے دوچار ہونے کے باوجود شرمندگی سے بچنے کیلئے کوئی معقول وجہ ہاتھ لگ پاتی ہے اور انہیں بھی انکی قسمت نے بھی اس ہزیمت سے مکمل برباد ہونے سےباز رکھنے کیلئے پنجاب گیر سیلاب کی صورت ایک ایسا ناگہانی موقع عطا کیا تھا کہ جس کی وجہ سے وہ ناکامی کے باوجود ہیرو بن کر واپس ہوسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے انہوں نے یہ موقع بھی اب تقریباً کھودیا ہے۔ اور اب انکی یہ دھرنائی ہٹ دھرمی لوگوں کے ذہن میں انکی عوام سے محبت کے حوالے سے بڑی تیزی سے شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے اور اگر یہ صورتحال یونہی جاری رہی تو اسے بڑے عوامی غیض و غضب کے مہیب الاؤ میں تبدیل ہونے سے روکا نہیں جاسکےگا۔
 
جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ اور جنرل (ر) حمید گل سے میرے اختلاف کی بنیادی وجہ یہ رہتی ہے کہ وہ داخلی عوامل اور کمزوریوں کی طرف کم توجہ دیتے اور سازشی نظریات پر ضرورت سے زیادہ یقین کرتے ہیںجبکہ میری روش اس سے الٹ ہے۔ میں انگریزی کے اس مقولے کا قائل ہوں کہ A man can not ride your back unless it is bent لیکن اسلام اور پاکستان سے ان دونوں شخصیات کی کمٹمنٹ شک و شبہ سے بالاتر ہے ۔ وہ غلط تجزیہ کرتے ‘ غلط قدم اٹھاتے ‘ سازشی تھیوری پھیلاتے یا تخلیق کرتے ہیں تو بھی پورے خلوص کے ساتھ پاکستان اور اسلام کی محبت میں کرتے ہیں لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ دونوں کی معلومات اور تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ جنرل اسلم بیگ کا شمار دوران ملازمت بھی پڑھنے لکھنے کے شوقین جرنیلوں میں ہوتا تھا اور اب بھی وہ ہمہ وقت اسی شغل میں مگن نظر آتے ہیں۔ جیو نیوز کے لئے میرے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے میرے جیسے میدان صحافت کے طالب علموں کی اس تھیوری کو یقین میں بدل دیا کہ حالیہ دھرنے ایک بڑی عالمی سازش کا حصہ ہیں ‘جس میں کچھ لوگ دانستہ اور کچھ لوگ نادانستہ بری طرح استعمال ہوئے۔اسلم بیگ صاحب کی بیان کردہ یہ سازشی تھیوری ایسی تھیوری ہے جس کا نہ صرف میں قائل ہوں بلکہ ان کے اس انٹرویو سے قبل اس حوالے سے کئی کالم سپردقلم کرچکا ہوں ۔ جنرل بیگ صاحب اس کو خالصتاً بیرونی قوتوں کا مسلط کردہ بحران تصور کرتے ہیں جبکہ میرے نزدیک خارجی کے ساتھ ساتھ بعض داخلی عوامل بھی کارفرما تھے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جماعت اسلامی جیسی جماعتیں جنہیں پاکستان میں ہونے والے ہر قدم کے پیچھے امریکی سازش نظر آتی ہے کو نہ صرف یہ کہ اسلام اور پاکستان کے خلاف اس سازش کا علم نہ ہوسکا بلکہ ان کی ہمدردیاں بھی تحریک انصاف کے ساتھ نظر آئیں ۔ جنرل اسلم بیگ کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے امریکہ کی زیرقیادت عالمی سازش کا حصہ ہیں (گو امریکی حکومت اور سفارت خانے کے ترجمان اس کی پرزور تردید کرچکے ہیں)جن کا مقصد پاکستان میں انتشار پھیلا کر فوج کو اقتدار پر قبضے پر مجبور کرنااور پاکستان کو لبرل اسلام کے ذریعے سیکولر ریاست بنانا ہے ۔ان کا کہنا یہ تھا کہ پرویز مشرف کے سابق ساتھی اور ان کے گروپ کے بعض ریٹائرڈ فوجی افسر بھی اس سازش میں عمران خان اور قادری صاحب کے ساتھ شریک تھے لیکن جنرل راحیل شریف نے فوج کو سیاست سے دور رکھ کر اس سازش کو ناکام بنادیا ۔‘ پچھلے سالوں کے دوران کسی بھی دوسرے لکھاری سے بڑھ کر عمران خان کی جنگ لڑنے والے اور فوج کے مزاج شناس کالم نگاریہارون الرشید صاحب نے بھی اس سازش کا نہ صرف دلائل کے ساتھ تذکرہ کیا بلکہ یہ بھی لکھا کہ 1971 کے بعد یہ پاکستان کے خلاف پہلی بڑی سازش تھی ۔ آج میں چند مزید حقائق کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جن سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس طرح قادری صاحب شعوری اور شاید عمران خان صاحب غیرشعوری طور پر صرف اقتدار کی خواہش میں اس سازش کے اہم کردار بن گئے ہیں ۔

عراق پر قبضے کے بعد 2003میں امریکی صدر بش نے جہادی اسلام کے مقابلے میں لبرل اسلام کو فروغ کردینے کیلئے مسلم ورلڈ آوٹ ریچ (Muslim World Outreach) پروگرام شروع کیا ۔ اس کیلئے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر مختص کئے ۔ اس پروگرام کے تحت جن ممالک پر خصوصی توجہ دینی تھی‘ ان میں پاکستان سرفہرست تھا۔ 2003 میں یہ پروگرام شروع ہوا اور2004 میں علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اچانک اور پراسرار طور پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی حالانکہ 1989 میں سیاست کے آغاز کے بعد وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میںپہنچے تھے ۔ مسلم ورلڈ آوٹ ریچ پروگرام کے تحت امریکہ نے نئے تعلیمی ادارے اور مدرسے کھولنے تھے اور ڈاکٹر قادری کے مخالف کہتے ہیں کہ اگلے تین سالوں میں منہاج القرآن کے تحت پنجاب میں سینکڑوں تعلیمی ادارے قائم کئے گئے جبکہ وہ خود کینیڈا میں مقیم ہوگئے۔

برطانیہ میں مقیم متنازعہ مذہبی عقائد کے حامل اور خانہ کعبہ کو گالیاں دینے والے فتنہ بردار یونس الگوہر (خانہ کعبہ اور پاکستانی سیاسی رہنمائوں کے بارے میں ان کے خرافات کی ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے) کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری اورعمران خان کی حمایت کے اعلان اور پی ٹی آئی کے دھرنے میں ان کے پیروکاروں اور بینرز کی موجودگی حیران کن اور پریشان کن ہے ۔

کچھ عرصہ قبل عمران خان اور طاہرالقادری کو ایک ساتھ ڈیووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں ایک ساتھ بلانے اور پھر دھرنوں کی منصوبہ بندی کے لئے لندن میں ان کی خفیہ ملاقات کرانے ‘ جس کو خان صاحب نے اپنی کور کمیٹی سے بھی چھپا کے رکھا‘ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے ۔

پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے کم وبیش تمام ارکان اور رہنمائوں نے متعلقہ فورمز پر دھرنوں اور استعفوں کی مخالفت کی اور صرف اور صرف شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل جانے پر اصرار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے ۔ واضح رہے کہ امریکیوں نے پاکستان اور افغانستان میں جو صوفی کانفرنس منعقد کرنا تھی‘ افغانستان میں اس کا انتظام رنگین دادفر سپانتا جبکہ پاکستان میں اسےشاہ محمود قریشی نے کرنا تھا۔ ہیلری کلنٹن سے شاہ محمودقریشی کی قربت اور امریکی ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اپنے بیٹے کو تربیت دلوانے کے عمل کو پیش نظر رکھا جائے تو کڑیاں مزید مل جاتی ہیں۔

امریکہ نے پہلی بار پاکستان میں لبرل اور صوفی اسلام کو فروغ دینے کے عمل کا آغاز جنرل پرویز مشرف کی سرکردگی میں کیا تھا۔ تب سے اب تک صوفی کانگریس کے سرپرست چوہدری شجاعت حسین ہیں۔ اب یہ عجیب تقسیم نظر آتی ہے کہ ڈاکٹر قادری صاحب کے ایک طرف یہی چوہدری شجاعت حسین ‘ دوسری طرف پرویز مشرف کے وکیل قصوری نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح عمران خان کوبھی جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے پرویز مشرف کے سابق ساتھیوں کے نرغے میں دے دیا گیا ہے ۔ پرویز مشرف کے دور کے ریٹائرڈ افسران کو بھی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ دونوں کیمپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔ کورٹ مارشل ہونے والے گنڈا پور یا پھر ائرمارشل (ر) شاہد لطیف جیسے طاہرالقادری کے ساتھ لگادئیے گئے ہیں جبکہ بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ اور بریگیڈئر (ر) اسلم گھمن جیسے لوگ عمران خان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خاص شیخ رشید احمد کو عمران خان صاحب اپنا ملازم رکھنے پر بھی راضی نہ تھے لیکن آج نہ صرف وہ ان کے مشیر خاص بن گئے ہیں بلکہ تحریک انصاف کاا سٹیج پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی بجائے ان کو میسر رہتا ہے ۔

اس وقت اسلام آباد میں درجنوں کی تعداد میں برطانیہ ‘ کینیڈا اور امریکہ سے آئے ہوئے خواتین و حضرات مقیم ہیں ۔ ان میں سے بعض تو کبھی کبھار دھرنوں کے کنٹینروں پر نظر آجاتے ہیں لیکن اکثریت ان میں ایسی ہے جو مختلف گیسٹ ہائوسز یا ہوٹلوں میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنمائوں کے ساتھ خلوتوں میں سرگوشیاں کرتی نظر آتی ہے ۔

وہ لبرل اور سیکولر اینکرز اور دانشور جو پچھلے سالوں میں عمران خان کو طالبان خان کہتے تھے اور جن کی شامیں عموماً مغربی سفارتخانوں میں مشروب مغرب سے لطف اندوز ہوتے ہوئےگزرتی ہیں‘ اسوقت نہ صرف عمران خان کے حق میں بھرپور مہم چلارہے ہیں بلکہ مدرسے اور منبر سے اٹھنے والے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو مسیحا کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔ یہ لوگ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی ‘ جے یو پی اور اسی طرح کی دیگر جماعتوں کےتو اس بنیاد پر مخالف تھے اور ہیں کہ وہ سیاست میں اسلام کا نام کیوں لیتے ہیں لیکن اپنی ذات اور سیاست کے لئے بھرپور طریقے سے اسلام کے نام کو استعمال کرنے والے طاہرالقادری ان کے پیارے بن گئے ہیں جبکہ گزشتہ سات سالوں میں اپنی سیاست کو طالبان کی حمایت اور ڈرون حملوں کی مخالفت کی بنیاد پر چمکانے والے عمران خان ان کو اچھے نظرآتے ہیں ۔ عمران خان کی طرف سے ڈرون حملوں کی مخالفت اور طالبان کی حمایت اچانک اور مکمل طور پر ترک کردینے اور لبرل اینکرز اور دانشوروں کی طرف سے اچانک ان کے حامی بن جانے کے بعد شاید اس بات کو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیئے کہ ڈوریں مغرب سے ہل رہی ہیں ۔

ہم جانتے ہیں کہ ایم کیوایم ایک لمبے عرصے تک عمران خان کی نشانہ نمبرون تھی ۔ انہوں نے اپنی جماعت کی خاتون لیڈر کے قتل کاالزام الطاف حسین پر لگایا۔ ان کے خلاف وہ برطانیہ کی عدالتوں تک بھی گئے۔ سوال یہ ہے کہ ایم کیوایم اور تحریک انصاف کی صلح اس وقت پر کس نے اور کیوں کرائی ۔ دوسری طرف میاں نوازشریف ‘ قادری صاحب کے دشمن نمبرون ہیں لیکن جب وہ لاہور میں جہاز سے اتررہے تھے تو انہوں نے پورے پاکستان میں صرف اور صرف میاں نوازشریف کے چہیتے گورنر پنجاب چوہدری سرور کو اپنے اعتماد کا مستحق سمجھا (اگرچہ گورنر چوہدری سرور اس طرح کی سازش میں شمولیت کے حوالے سے بڑی پرجوش تردید کرچکے ہیں)۔ اب چوہدری سرور میں اس کے سوا اور کیا خوبی ہے کہ وہ برطانوی سیٹیزن ہیں اور وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں۔نہ صرف منصوبہ بندی لندن میں ہوئی تھی بلکہ اب تنازعے کو ختم کرنے کے لئے چوہدری سروراسلام آباد آنے کی بجائے الطاف حسین کے پاس لندن جاپہنچے ہیں۔

۔۔۔
سلیم صاٍفی

ربط
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
عراق پر قبضے کے بعد 2003میں امریکی صدر بش نے جہادی اسلام کے مقابلے میں لبرل اسلام کو فروغ کردینے کیلئے مسلم ورلڈ آوٹ ریچ (Muslim World Outreach) پروگرام شروع کیا ۔ اس کیلئے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر مختص کئے ۔ اس پروگرام کے تحت جن ممالک پر خصوصی توجہ دینی تھی‘ ان میں پاکستان سرفہرست تھا۔ 2003 میں یہ پروگرام شروع ہوا اور2004 میں علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اچانک اور پراسرار طور پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی حالانکہ 1989 میں سیاست کے آغاز کے بعد وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میںپہنچے تھے ۔ مسلم ورلڈ آوٹ ریچ پروگرام کے تحت امریکہ نے نئے تعلیمی ادارے اور مدرسے کھولنے تھے اور ڈاکٹر قادری کے مخالف کہتے ہیں کہ اگلے تین سالوں میں منہاج القرآن کے تحت پنجاب میں سینکڑوں تعلیمی ادارے قائم کئے گئے جبکہ وہ خود کینیڈا میں مقیم ہوگئے۔

برطانیہ میں مقیم متنازعہ مذہبی عقائد کے حامل اور خانہ کعبہ کو گالیاں دینے والے فتنہ بردار یونس الگوہر (خانہ کعبہ اور پاکستانی سیاسی رہنمائوں کے بارے میں ان کے خرافات کی ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے) کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری اورعمران خان کی حمایت کے اعلان اور پی ٹی آئی کے دھرنے میں ان کے پیروکاروں اور بینرز کی موجودگی حیران کن اور پریشان کن ہے ۔

کچھ عرصہ قبل عمران خان اور طاہرالقادری کو ایک ساتھ ڈیووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں ایک ساتھ بلانے اور پھر دھرنوں کی منصوبہ بندی کے لئے لندن میں ان کی خفیہ ملاقات کرانے ‘ جس کو خان صاحب نے اپنی کور کمیٹی سے بھی چھپا کے رکھا‘ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے ۔

پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے کم وبیش تمام ارکان اور رہنمائوں نے متعلقہ فورمز پر دھرنوں اور استعفوں کی مخالفت کی اور صرف اور صرف شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل جانے پر اصرار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے ۔ واضح رہے کہ امریکیوں نے پاکستان اور افغانستان میں جو صوفی کانفرنس منعقد کرنا تھی‘ افغانستان میں اس کا انتظام رنگین دادفر سپانتا جبکہ پاکستان میں اسےشاہ محمود قریشی نے کرنا تھا۔ ہیلری کلنٹن سے شاہ محمودقریشی کی قربت اور امریکی ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اپنے بیٹے کو تربیت دلوانے کے عمل کو پیش نظر رکھا جائے تو کڑیاں مزید مل جاتی ہیں۔

امریکہ نے پہلی بار پاکستان میں لبرل اور صوفی اسلام کو فروغ دینے کے عمل کا آغاز جنرل پرویز مشرف کی سرکردگی میں کیا تھا۔ تب سے اب تک صوفی کانگریس کے سرپرست چوہدری شجاعت حسین ہیں۔ اب یہ عجیب تقسیم نظر آتی ہے کہ ڈاکٹر قادری صاحب کے ایک طرف یہی چوہدری شجاعت حسین ‘ دوسری طرف پرویز مشرف کے وکیل قصوری نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح عمران خان کوبھی جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے پرویز مشرف کے سابق ساتھیوں کے نرغے میں دے دیا گیا ہے ۔ پرویز مشرف کے دور کے ریٹائرڈ افسران کو بھی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ دونوں کیمپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔ کورٹ مارشل ہونے والے گنڈا پور یا پھر ائرمارشل (ر) شاہد لطیف جیسے طاہرالقادری کے ساتھ لگادئیے گئے ہیں جبکہ بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ اور بریگیڈئر (ر) اسلم گھمن جیسے لوگ عمران خان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خاص شیخ رشید احمد کو عمران خان صاحب اپنا ملازم رکھنے پر بھی راضی نہ تھے لیکن آج نہ صرف وہ ان کے مشیر خاص بن گئے ہیں بلکہ تحریک انصاف کاا سٹیج پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی بجائے ان کو میسر رہتا ہے ۔

اس وقت اسلام آباد میں درجنوں کی تعداد میںبرطانیہ ‘ کینیڈا اور امریکہ سے آئے ہوئے خواتین و حضرات مقیم ہیں ۔ ان میں سے بعض تو کبھی کبھار دھرنوں کے کنٹینروں پر نظر آجاتے ہیں لیکن اکثریت ان میں ایسی ہے جو مختلف گیسٹ ہائوسز یا ہوٹلوں میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنمائوں کے ساتھ خلوتوں میں سرگوشیاں کرتی نظر آتی ہے ۔ ٭وہ لبرل اور سیکولر اینکرز اور دانشور جو پچھلے سالوں میں عمران خان کو طالبان خان کہتے تھے اور جن کی شامیں عموماً مغربی سفارتخانوں میں مشروب مغرب سے لطف اندوز ہوتے ہوئےگزرتی ہیں‘ اسوقت نہ صرف عمران خان کے حق میں بھرپور مہم چلارہے ہیں بلکہ مدرسے اور منبر سے اٹھنے والے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو مسیحا کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔ یہ لوگ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی ‘ جے یو پی اور اسی طرح کی دیگر جماعتوں کےتو اس بنیاد پر مخالف تھے اور ہیں کہ وہ سیاست میں اسلام کا نام کیوں لیتے ہیں لیکن اپنی ذات اور سیاست کے لئے بھرپور طریقے سے اسلام کے نام کو استعمال کرنے والے طاہرالقادری ان کے پیارے بن گئے ہیں جبکہ گزشتہ سات سالوں میں اپنی سیاست کو طالبان کی حمایت اور ڈرون حملوں کی مخالفت کی بنیاد پر چمکانے والے عمران خان ان کو اچھے نظرآتے ہیں ۔ عمران خان کی طرف سے ڈرون حملوں کی مخالفت اور طالبان کی حمایت اچانک اور مکمل طور پر ترک کردینے اور لبرل اینکرز اور دانشوروں کی طرف سے اچانک ان کے حامی بن جانے کے بعد شاید اس بات کو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیئے کہ ڈوریں مغرب سے ہل رہی ہیں ۔
۔۔۔۔
بشکریہ - فیس بک
آخری سطر یعنی بشکریہ فیس بک نہ ہوتی تو غور کیا جا سکتا تھا :(
 

محمداحمد

لائبریرین
غالباً یہ سلیم صافی کے کالم سے اقتباس ہے۔
قیصرانی بھائی
یہ محترم سلیم صاٍفی صاحب کا کالم ہے۔ پہلا اور آخری پیرا غائب تھا۔ اب وہ بھی شامل کر دیا ہے

ہم "محترم" اور "صاحب" لکھنا بھول گئے تھے۔ :) :)
 
اس کے بغیر تو وزن خراب ہونے سے مصرعہ بحر سے خارج ہو جاتا ہے نا :LOL:
ہاہاہاہا ۔۔۔۔!

نہ صرف مصرعہ بلکہ بندہ بھی "خارج از بحث" ہو جاتا ہے۔ :) :)
بحروں کی بحث اپنی جگہ۔۔۔
گو نواز گو اپنی جگہ۔۔۔
ویسے گو نواز گو کس بحر میں ہے؟؟؟:idontknow:
 

ابن رضا

لائبریرین
یہی سمجھ لیجے۔ :)

یعنی لیز پر لینا۔ :)
اچھا تو یوں فرمائیے نا کہ بھاڑے پہ لی ہے ۔ اب لیز بھی دو طرح کی ہوتی ہے ایک قلیل مدتی اور دوسری طویل مدتی ۔ قلیل مدتی تو جلد واجب الادا ہو جاتی ہے جب کے طویل مدتی تو مدتوں چلتی رہتی ہے گویا یہ بھتے کی ایک مہذب شاخ ہوئی۔:p
 
Top