سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 6 نومبر، 2015
گیارہ اکتوبر 2015ء کوقومی اور صوبائی اسمبلی کےضمنی انتخابات کےلیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے تمام مطالبات منظور کرلیے تھے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور، حلقہ این اے 122 کے امیدوارعلیم خان اور تحریک انصاف کی ٹیم نے بھرپور محنت کی تھی ، اور اگر صرف پانچ فیصدووٹ اور ڈال دیے جاتے تو شایدنتیجہ علیم خان کے حق میں ہوتا، یہ بات طے ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اُسکی حکومت بوکھلا گئی تھی اور اگر کہیں علیم خان کی جگہ عمران خان خود ایاز صادق کے مقابلے میں ہوتے تو ایازصادق کا جیتنا تقریبناً ناممکن ہوتا۔ جیسے جیسے انتخابات کا دن قریب آرہا تھا تحریک انصاف کی ٹیم کا اعتماد بڑھ رہا تھا، چوہدری سرور بے انتہا پُراعتماد تھے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جو ہمیشہ اس حلقہ سے جیتی رہی ہے بوکھلاٹ کا شکار ہو گئی تھی کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ تحریک انصاف حلقہ این اے 122 میں کامیابی کی صورت میں مئی 2013ءکے پورے انتخابی عمل کو دھاندلی زدہ قرار دے کر نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرئے گی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق عمران خان تو انتخابی مہم کے لئے آزاد تھے لیکن نوازشریف یا شہباز شریف کو اجازت نہیں تھی۔ تحریک انصاف کی انتخابی مہم بھرپور محنت اورعمران خان کے جلسوں کے جواب میں سردار ایاز صادق کی مہم کی قیادت حمزہ شہبازشریف کر رہے تھے جبکہ خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی، ماروی میمن اورسرکاری مشنری بھی ایاز صادق کی مہم کا حصہ تھے۔
گیارہ اکتوبر 2015ء کو لاہور کے حلقہ این اے 122 کےضمنی انتخابات کی انتخابی مہم کے دورانپاک فوج نادانستہ طور پراہم کردار اختیار کر گئی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے دونوں امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کا فاہدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف عوامی مہم کے ذریعہ خود کو اسٹیبلشمنٹ موافق ثابت کرنے کی کوشش کرتی نظر آرہی تھیں ۔ ایاز صادق کی ایک غیرایڈٹ شدہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی گئی جس میں وہ فوج کے نام پر ووٹرز سے حمایت مانگ رہےتھے۔ اس پیغام میں ایاز صادق مسلم لیگ (ن) کے ترقیاتی کاموں کی نشاندہی اور آپریشن ضرب عضب و کراچی آپریشن میں کامیابیوں کو بیان کرتے ہوئے رائے دہندگان سے کہتے ہیں کہ اگر وہ فوج کی حمایت کرتے ہیں تو انہیں ووٹ دیں، اُن کے پیغام کا اختتام ان الفاظ پر تھا "افواج پاکستان کا ساتھ دیں، پی ایم ایل (ن) کا ساتھ دیں"۔ تحریک انصاف کی طرف سے ایک پوسٹر جگہ جگہ لگایا گیا جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بنیادی اہمیت دی گئی تھی، پوسٹر میں جنرل راحیل شریف کی تصویر نمایاں تھی اور عمران خان و علیم خان آرمی چیف کے شانہ بشانہ موجود تھے۔ اس پوسٹر نے اینکرز اور تجزیہ کاروں میں بحث مباحثہ شروع کر دیا اور ایسی پبلسٹی کے ذریعہ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے پر سوالات اُٹھنا شروع ہو گئے۔ جب ایاز صادق کے ویڈیو پیغام اورعلیم خان کے پوسٹرپر زیادہ تنقید ہوئی تو دونوں امیدواروں نے یہ کہہ اپنی جان چھڑا لی کہ یہ ہمدردوں اور کارکنوں نے کیا ہے ہم نے نہیں۔
انتخابات سے صرف ایک دن پہلے وزیراعظم نواز شریف خود لاہور میں موجود تھے، قانونی طور پر تو نہیں لیکن اخلاقی طور پر یہ غلط تھا، بہانہ تھا اورنج لائن ٹرین اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے میڈیا سے بات چیت جو ڈھائی گھنٹے جاری رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کے مطابق این اے 122 میں انتخابی مہم ختم ہونے کے بعد شریف برادران کی یہ خاموش مہم تھی۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تحریک انصاف کی جانب سے ردعمل میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان شرمناک گٹھ جوڑ کی مذمت کرتی ہے۔ ٹوئٹس میں مزید کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن پنجاب کے رکن جسٹس (ر) کیانی یا تو اپنی روش تبدیل کریں یا لوگوں کی جانب سے احتساب کے لئے تیار رہیں۔11اکتوبر کو مقابلہ آگے پیچھے چلتا رہا اورآخر میں ایازصادق نے ڈھائی ہزار ووٹوں سے علیم خان پر برتری حاصل کرلی۔ضمنی انتخاب کے سارے عمل کی نگرانی فوج نے کی تھی۔ سی سی ٹی وی کیمرئے بھی کام کرتے رہے۔ تحریک انصاف نے اپنے ہزاروں کارکنوں اور وکیلوں کے زریعے اس انتخابی عمل کی شروع سے آخر تک نگرانی بھی کی۔
ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصا ف کے سربراہ عمران خان صرف احتجاج کو ہی اصل سیاست سمجھتے ہیں ، ا ب حلقہ این اے 122 کے نتیجہ کے بعد وہ پھر دھاندلی کا شور مچارہے ہیں۔ عمران خان کے تمام مطالبے پورے ہونے کےباوجود علیم خان ہار گئے تو عمران خاننے ووٹر لسٹوں میں ردوبدل کا الزام لگادیاجبکہ ان ہی ووٹر لسٹ سے پی پی 147 کی سیٹ پر تحریک انصاف کے شعیب صدیقی جیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اس کا جواب دے چکا ہے، لیکن سابق گورنر چوہدری سرورکی زیرقیادت پی ٹی آئی کی ایک ٹیم ووٹر لسٹوں کی تحقیقات کررہی ہے۔حلقہ این اے 122 کے انتخابات کے بعد لاہورکے علاقے گڑھی شاہو میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا شعیب صدیقی کی جیت سے ثابت ہوگیا کہ 2013ء الیکشن کے دوران دھاندلی ہوئی تھی، قومی اسمبلی کی ایک سیٹ سے کیا فرق پڑتا ہے، تحریک انصا ف نے حلقہ این اے 122سے جیت کر کونسا معرکہ سرکر لینا تھا لیکن ہمارا اصل مقصد انصاف کا نظام لانا ہے۔ حلقہ این اے 122میں دھاندلی کے ثبوت ایک ہفتے کے اندردیں گے، ووٹوں کی منتقلی کی تحقیقات کے بعد احتجاج کا فیصلہ کریں گے۔علیم خان ہارکر بھی جیت گئے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے قدم اکھڑچکے ہیں، علیم خان کا مقابلہ سرکاری مشینری سے تھا۔ وزیر ریلوے حلقے میں موجود ریلوے کالونی میں کیا کررہے تھے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ماروی میمن کی موجودگی بھی دھاندلی کا ثبوت ہے۔
گیارہ اکتوبر کو حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب میں ناکامی کے بعداب عمران خان اس پوزیشن میں بھی نہیں رہے کہ 2015ء تو کیا 2017ء میں بھی انتخابات کا مطالبہ کریں۔ 126 دن کے ناکام دھرنا ہی سیاسی خفت کےلیے کیا کم تھا کہ2013ء کے عام انتخابات کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے جولائی کے آخر میں اپنے فیصلے کا اعلان کیا اورپاکستان تحریک انصاف کے تینوں الزامات مسترد کر دیئے۔ اپنے فیصلے میں جوڈیشل کمیشن نے کہا ہے کہ انتخابات بعض بے ضابطگیوں کے باوجودقانون کے مطابق ہوئے اور منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ تحریک انصاف اور عمران خان الزامات تو بہت لگارہے تھے لیکن جب وقت آیا تو 35پنکچروں سمیت بہت سارئے الزامات جوڈیشل کمیشن کے سامنے لائے ہی نہ گئے۔ بقول عمران خان کہ یہ سب سنی سنائی باتیں تھیں جن کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا۔ گزشتہ ڈھائی سال سے عمران خان کی پوری سیاست 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔ عمران خان جو پہلے 2014ء اور پھر 2015ء میں انتخابات کا اعلان کرتے رہے ہیں ، اب ایک ٹی وی چینل پر یہ فرمارہے تھے کہ انتخابات تو 2018ء میں ہوں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ ڈھائی تین سال تک خیبر پختونخواکو اپنی تمام تر توجہ کا مرکز بنائیں گے، اور صوبے میں ایک ارب درخت لگایں گے،تاکہ خیبر پختونخوا کو 2018ء کے انتخابات میں باقی تین صوبوں کے سامنے ماڈل کے طور پر پیش کرسکیں۔
ایک ارب درخت لگانے کی سوچ اچھی ہے لیکن ایک اخبار نویس نے کیلکولیٹر پر حساب لگایا اور بتایا کہ تین برس میں ایک ہزار پچانوے دِن ہوتے ہیں، اس حساب سے روزانہ 9 لاکھ 13 ہزار 247 درخت لگانے پڑیں گے (فی گھنٹہ 38 ہزار 52 درخت)۔ کیا عملاً یہ ممکن ہوگا؟ جبکہ خیبر پختونخوا کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اُن کے صوبے میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے دکھانے کے لئے عملاً کچھ بھی نہیں اور کرپشن نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی کام ہوگا تب کرپشن ہوگی۔ جہاں سترفیصد فنڈ استمال ہی نہ کیے گے ہوں، وہاں کرپشن کتنی ہوگی؟ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور رہنماوں کو عمران خان کا شکرگذارہونا چاہیے کہ وہ اپنی ناکام پالیسیوں اور عوام میں مشکلات بڑھانے کے باوجود صرف عمران خان کی گذشتہ ڈھائی سال کی سیاست اور تحریک انصاف کی کمزور اپوزیشن کی وجہ سے مضبوط حکمراں بننے بیٹھے ہیں، پیپلز پارٹی اور باقی سیاسی جماعتیں کرپشن اور اپنی لیڈر شپ کی غلط پالسیوں کی وجہ سے اپنے وجود کو بچانے میں مصروف ہیں، اسلیے حکمرانوں کو اس وقت اگر کسی سے خوف ہے تو وہ تحریک انصاف ہی ہے۔ اور یہ خوف جب ہی قایم رہ سکتا ہے جب تحریک انصاف ایک فعال اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے حکومت کی خراب کارکردگی کو اپنا نشانہ بنائے، تحریک انصاف حکومت کو یاد دلائے کہ وہ عوام سے کیا وعدئے کرکے اقتدار میں آئی ہے۔
تحریک انصاف اورعمران خان کے پاس اب صرف دو سال کا وقت بچا ہے کچھ کرنے کےلیے، اب بھی موقع ہے کہ عمران خان اور اُنکے ساتھی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کریں اور ایک بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں، جبکہ دوسری طرف وہ اور اُنکے ساتھی صوبہ خیبر پختون خواہ کے عوام کے مسائل حل کرکے اپنے وعدوں کے مطابق عام عوام کی زندگی میں تبدیلی لےکر آیں ، کسی جلسے میں یہ کہہ دینے سے عوام کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تبدیلی آگئی ہے جبتک حقیقی تبدیلی نہ آجائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب تحریک انصاف اس طرف دھیان دئے ۔ تحریک انصاف اورعمران خان کا شروع سے ہی یہ کہنا ہے کہ وہ ملک میں انصاف کا نظام لانا چاہتے ہیں، یہ پوری قوم کی خواہش بھی ہے لیکن دھاندلی دھاندلی کا شور مچانے سے انصاف کا نظام نہیں آئے گا۔
عمران خان اور انصاف کا نظام
تحریر: سید انور محمود
ایک اخباری خبر کے مطابق چیف الیکشن کمشنرسردار رضا خان نے عمران خان کو ملاقات کے لیے وقت دینے سے معذرت کرلی۔ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے ملاقات کے لیے پانچ نومبر کی صبح کا وقت مانگا تھا تاکہ حلقہ این اے 122کے ضمنی انتخابات میں دھاندلی اور بلدیاتی انتخابات سے متعلق اپنے تحفظات سے چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کرسکیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے عمران خان کو مبینہ انتخابی دھاندلی کے شواہد تحریری طور پر جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ آج سارادن مختلف میٹنگز اور کورٹ سماعت میں مصرورف ہونگے اس لیے عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت سے ملاقات آج (پانچ نومبر) ممکن نہیں ہے۔گیارہ اکتوبر 2015ء کوقومی اور صوبائی اسمبلی کےضمنی انتخابات کےلیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے تمام مطالبات منظور کرلیے تھے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور، حلقہ این اے 122 کے امیدوارعلیم خان اور تحریک انصاف کی ٹیم نے بھرپور محنت کی تھی ، اور اگر صرف پانچ فیصدووٹ اور ڈال دیے جاتے تو شایدنتیجہ علیم خان کے حق میں ہوتا، یہ بات طے ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اُسکی حکومت بوکھلا گئی تھی اور اگر کہیں علیم خان کی جگہ عمران خان خود ایاز صادق کے مقابلے میں ہوتے تو ایازصادق کا جیتنا تقریبناً ناممکن ہوتا۔ جیسے جیسے انتخابات کا دن قریب آرہا تھا تحریک انصاف کی ٹیم کا اعتماد بڑھ رہا تھا، چوہدری سرور بے انتہا پُراعتماد تھے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جو ہمیشہ اس حلقہ سے جیتی رہی ہے بوکھلاٹ کا شکار ہو گئی تھی کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ تحریک انصاف حلقہ این اے 122 میں کامیابی کی صورت میں مئی 2013ءکے پورے انتخابی عمل کو دھاندلی زدہ قرار دے کر نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرئے گی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق عمران خان تو انتخابی مہم کے لئے آزاد تھے لیکن نوازشریف یا شہباز شریف کو اجازت نہیں تھی۔ تحریک انصاف کی انتخابی مہم بھرپور محنت اورعمران خان کے جلسوں کے جواب میں سردار ایاز صادق کی مہم کی قیادت حمزہ شہبازشریف کر رہے تھے جبکہ خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی، ماروی میمن اورسرکاری مشنری بھی ایاز صادق کی مہم کا حصہ تھے۔
گیارہ اکتوبر 2015ء کو لاہور کے حلقہ این اے 122 کےضمنی انتخابات کی انتخابی مہم کے دورانپاک فوج نادانستہ طور پراہم کردار اختیار کر گئی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے دونوں امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کا فاہدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف عوامی مہم کے ذریعہ خود کو اسٹیبلشمنٹ موافق ثابت کرنے کی کوشش کرتی نظر آرہی تھیں ۔ ایاز صادق کی ایک غیرایڈٹ شدہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی گئی جس میں وہ فوج کے نام پر ووٹرز سے حمایت مانگ رہےتھے۔ اس پیغام میں ایاز صادق مسلم لیگ (ن) کے ترقیاتی کاموں کی نشاندہی اور آپریشن ضرب عضب و کراچی آپریشن میں کامیابیوں کو بیان کرتے ہوئے رائے دہندگان سے کہتے ہیں کہ اگر وہ فوج کی حمایت کرتے ہیں تو انہیں ووٹ دیں، اُن کے پیغام کا اختتام ان الفاظ پر تھا "افواج پاکستان کا ساتھ دیں، پی ایم ایل (ن) کا ساتھ دیں"۔ تحریک انصاف کی طرف سے ایک پوسٹر جگہ جگہ لگایا گیا جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بنیادی اہمیت دی گئی تھی، پوسٹر میں جنرل راحیل شریف کی تصویر نمایاں تھی اور عمران خان و علیم خان آرمی چیف کے شانہ بشانہ موجود تھے۔ اس پوسٹر نے اینکرز اور تجزیہ کاروں میں بحث مباحثہ شروع کر دیا اور ایسی پبلسٹی کے ذریعہ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے پر سوالات اُٹھنا شروع ہو گئے۔ جب ایاز صادق کے ویڈیو پیغام اورعلیم خان کے پوسٹرپر زیادہ تنقید ہوئی تو دونوں امیدواروں نے یہ کہہ اپنی جان چھڑا لی کہ یہ ہمدردوں اور کارکنوں نے کیا ہے ہم نے نہیں۔
انتخابات سے صرف ایک دن پہلے وزیراعظم نواز شریف خود لاہور میں موجود تھے، قانونی طور پر تو نہیں لیکن اخلاقی طور پر یہ غلط تھا، بہانہ تھا اورنج لائن ٹرین اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے میڈیا سے بات چیت جو ڈھائی گھنٹے جاری رہی۔ پاکستان تحریک انصاف کے مطابق این اے 122 میں انتخابی مہم ختم ہونے کے بعد شریف برادران کی یہ خاموش مہم تھی۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تحریک انصاف کی جانب سے ردعمل میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان شرمناک گٹھ جوڑ کی مذمت کرتی ہے۔ ٹوئٹس میں مزید کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن پنجاب کے رکن جسٹس (ر) کیانی یا تو اپنی روش تبدیل کریں یا لوگوں کی جانب سے احتساب کے لئے تیار رہیں۔11اکتوبر کو مقابلہ آگے پیچھے چلتا رہا اورآخر میں ایازصادق نے ڈھائی ہزار ووٹوں سے علیم خان پر برتری حاصل کرلی۔ضمنی انتخاب کے سارے عمل کی نگرانی فوج نے کی تھی۔ سی سی ٹی وی کیمرئے بھی کام کرتے رہے۔ تحریک انصاف نے اپنے ہزاروں کارکنوں اور وکیلوں کے زریعے اس انتخابی عمل کی شروع سے آخر تک نگرانی بھی کی۔
ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصا ف کے سربراہ عمران خان صرف احتجاج کو ہی اصل سیاست سمجھتے ہیں ، ا ب حلقہ این اے 122 کے نتیجہ کے بعد وہ پھر دھاندلی کا شور مچارہے ہیں۔ عمران خان کے تمام مطالبے پورے ہونے کےباوجود علیم خان ہار گئے تو عمران خاننے ووٹر لسٹوں میں ردوبدل کا الزام لگادیاجبکہ ان ہی ووٹر لسٹ سے پی پی 147 کی سیٹ پر تحریک انصاف کے شعیب صدیقی جیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اس کا جواب دے چکا ہے، لیکن سابق گورنر چوہدری سرورکی زیرقیادت پی ٹی آئی کی ایک ٹیم ووٹر لسٹوں کی تحقیقات کررہی ہے۔حلقہ این اے 122 کے انتخابات کے بعد لاہورکے علاقے گڑھی شاہو میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا شعیب صدیقی کی جیت سے ثابت ہوگیا کہ 2013ء الیکشن کے دوران دھاندلی ہوئی تھی، قومی اسمبلی کی ایک سیٹ سے کیا فرق پڑتا ہے، تحریک انصا ف نے حلقہ این اے 122سے جیت کر کونسا معرکہ سرکر لینا تھا لیکن ہمارا اصل مقصد انصاف کا نظام لانا ہے۔ حلقہ این اے 122میں دھاندلی کے ثبوت ایک ہفتے کے اندردیں گے، ووٹوں کی منتقلی کی تحقیقات کے بعد احتجاج کا فیصلہ کریں گے۔علیم خان ہارکر بھی جیت گئے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے قدم اکھڑچکے ہیں، علیم خان کا مقابلہ سرکاری مشینری سے تھا۔ وزیر ریلوے حلقے میں موجود ریلوے کالونی میں کیا کررہے تھے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ماروی میمن کی موجودگی بھی دھاندلی کا ثبوت ہے۔
گیارہ اکتوبر کو حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب میں ناکامی کے بعداب عمران خان اس پوزیشن میں بھی نہیں رہے کہ 2015ء تو کیا 2017ء میں بھی انتخابات کا مطالبہ کریں۔ 126 دن کے ناکام دھرنا ہی سیاسی خفت کےلیے کیا کم تھا کہ2013ء کے عام انتخابات کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے جولائی کے آخر میں اپنے فیصلے کا اعلان کیا اورپاکستان تحریک انصاف کے تینوں الزامات مسترد کر دیئے۔ اپنے فیصلے میں جوڈیشل کمیشن نے کہا ہے کہ انتخابات بعض بے ضابطگیوں کے باوجودقانون کے مطابق ہوئے اور منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ تحریک انصاف اور عمران خان الزامات تو بہت لگارہے تھے لیکن جب وقت آیا تو 35پنکچروں سمیت بہت سارئے الزامات جوڈیشل کمیشن کے سامنے لائے ہی نہ گئے۔ بقول عمران خان کہ یہ سب سنی سنائی باتیں تھیں جن کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا۔ گزشتہ ڈھائی سال سے عمران خان کی پوری سیاست 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔ عمران خان جو پہلے 2014ء اور پھر 2015ء میں انتخابات کا اعلان کرتے رہے ہیں ، اب ایک ٹی وی چینل پر یہ فرمارہے تھے کہ انتخابات تو 2018ء میں ہوں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ ڈھائی تین سال تک خیبر پختونخواکو اپنی تمام تر توجہ کا مرکز بنائیں گے، اور صوبے میں ایک ارب درخت لگایں گے،تاکہ خیبر پختونخوا کو 2018ء کے انتخابات میں باقی تین صوبوں کے سامنے ماڈل کے طور پر پیش کرسکیں۔
ایک ارب درخت لگانے کی سوچ اچھی ہے لیکن ایک اخبار نویس نے کیلکولیٹر پر حساب لگایا اور بتایا کہ تین برس میں ایک ہزار پچانوے دِن ہوتے ہیں، اس حساب سے روزانہ 9 لاکھ 13 ہزار 247 درخت لگانے پڑیں گے (فی گھنٹہ 38 ہزار 52 درخت)۔ کیا عملاً یہ ممکن ہوگا؟ جبکہ خیبر پختونخوا کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اُن کے صوبے میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے دکھانے کے لئے عملاً کچھ بھی نہیں اور کرپشن نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی کام ہوگا تب کرپشن ہوگی۔ جہاں سترفیصد فنڈ استمال ہی نہ کیے گے ہوں، وہاں کرپشن کتنی ہوگی؟ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور رہنماوں کو عمران خان کا شکرگذارہونا چاہیے کہ وہ اپنی ناکام پالیسیوں اور عوام میں مشکلات بڑھانے کے باوجود صرف عمران خان کی گذشتہ ڈھائی سال کی سیاست اور تحریک انصاف کی کمزور اپوزیشن کی وجہ سے مضبوط حکمراں بننے بیٹھے ہیں، پیپلز پارٹی اور باقی سیاسی جماعتیں کرپشن اور اپنی لیڈر شپ کی غلط پالسیوں کی وجہ سے اپنے وجود کو بچانے میں مصروف ہیں، اسلیے حکمرانوں کو اس وقت اگر کسی سے خوف ہے تو وہ تحریک انصاف ہی ہے۔ اور یہ خوف جب ہی قایم رہ سکتا ہے جب تحریک انصاف ایک فعال اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے حکومت کی خراب کارکردگی کو اپنا نشانہ بنائے، تحریک انصاف حکومت کو یاد دلائے کہ وہ عوام سے کیا وعدئے کرکے اقتدار میں آئی ہے۔
تحریک انصاف اورعمران خان کے پاس اب صرف دو سال کا وقت بچا ہے کچھ کرنے کےلیے، اب بھی موقع ہے کہ عمران خان اور اُنکے ساتھی قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کریں اور ایک بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کریں، جبکہ دوسری طرف وہ اور اُنکے ساتھی صوبہ خیبر پختون خواہ کے عوام کے مسائل حل کرکے اپنے وعدوں کے مطابق عام عوام کی زندگی میں تبدیلی لےکر آیں ، کسی جلسے میں یہ کہہ دینے سے عوام کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تبدیلی آگئی ہے جبتک حقیقی تبدیلی نہ آجائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب تحریک انصاف اس طرف دھیان دئے ۔ تحریک انصاف اورعمران خان کا شروع سے ہی یہ کہنا ہے کہ وہ ملک میں انصاف کا نظام لانا چاہتے ہیں، یہ پوری قوم کی خواہش بھی ہے لیکن دھاندلی دھاندلی کا شور مچانے سے انصاف کا نظام نہیں آئے گا۔