انصار عباسی ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ دنیا بھر میں قومی سطح پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے لوگوں کو صحافی ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر اسی طرح اپنے تجزیوں اور تبصروں کی مدد سے مشورے دیا کرتے ہیں جن کے جواب میں یہ کوئی نہیں کہتا کہ فلاں کون ہوتا ہے فلاں کو مشورہ دینے والا!انصار عباسی کون ہوتا ہے عمران جیسے بڑے لیڈر کو مشورے دینے والا؟
مجھے کم از کم آپ جیسے شخص اس طرح کی بات کی توقع نہیں تھی۔ خیر، قانون اور سیاسیات کے طلبہ اس نکتے سے اچھی طرح واقف ہیں کہ عدلیہ کے وقار کا کسی منتخب شدہ پارلیمانی رکن سے کوئی مقابلہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ عمران خان جس تصادم کی بنیاد رکھ رہے ہیں اس سے نہ تو عدلیہ کا کوئی نقصان ہوگا اور نہ ہی عدالتوں کے وقار میں کوئی کمی آئے گی، البتہ عمران خان اپنی انا اور جذباتیت کی وجہ سے خود کو سیاسی خودکشی کی طرف لے جائیں گے۔انسان کو اپنے قول کا پکا ہونا چاہیے اور حق پر ڈٹے رہنا چاہیے۔ یہ دو نمبری کالم نگار عمران کو بلی بننے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایک unelected شخص کے سامنے ایک مشہور قومی لیڈر کیوں معافی مانگے جب اس نے کوئی غلطی بھی نہیں کی ہے۔
سپریم کورٹ اپنے آپے سے کافی عرصے سے باہر ہو رہی ہے۔
آپ پاکستان کے سماجی و سیاسی منظرنامے سے آگاہ ہوتے تو شاید آپ کی رائے کچھ اور ہوتی۔عمران خان غلطی سے پاکستان میں پیدا ہو گیا ورنہ پاکستان والوں کو صرف اور صرف شریف اور زرداری جیسے "غیر جذباتی" اور بے حس لوگوں کی ضرورت ہے۔
نظامی بھائی، یہ متنازعہ بیان 26، 29 اور 30 جولائی کی پریس کانفرنسوں کے دوران دئیے گئے تھے۔ عدالت میں انہیں تحریری شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہیں کوئی کاپی ملتی ہے تو یہاں پیش کرتا ہوں۔کیا تحریری شکل میں عمران خان کے اُس متنازعہ بیان کا متن مل سکتا ہے جو انہوں نے عدلیہ کے بارے میں کہا؟
اگر آپ صحت مند بحث کرنا چاہتے ہیں تو عمران خان کی شخصیت کے حصار سے باہر آئیے۔صرف عا طف بٹ صا حب ہی علیم و فہیم اور فراست سے بھر پور ہیں۔
مجھے کم از کم آپ جیسے شخص اس طرح کی بات کی توقع نہیں تھی۔ خیر، قانون اور سیاسیات کے طلبہ اس نکتے سے اچھی طرح واقف ہیں کہ عدلیہ کے وقار کا کسی منتخب شدہ پارلیمانی رکن سے کوئی مقابلہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ عمران خان جس تصادم کی بنیاد رکھ رہے ہیں اس سے نہ تو عدلیہ کا کوئی نقصان ہوگا اور نہ ہی عدالتوں کے وقار میں کوئی کمی آئے گی، البتہ عمران خان اپنی انا اور جذباتیت کی وجہ سے خود کو سیاسی خودکشی کی طرف لے جائیں گے۔
ذیشان بھائی، اگر آپ کی یہ دلیل مان لی جائے تو پھر حالیہ انتخابات میں نون لیگ نے تحریکِ انصاف سے تقریباً دو گنا ووٹ حاصل کیے ہیں اور ان کی مرکز اور ایک صوبے میں پوری اور دوسرے صوبے میں جزوی حکومت ہے، لہٰذا نواز شریف کو چاہئے کہ عدالتِ عظمیٰ کے سارے جج صاحبان کو صبح سویرے شاہراہِ دستور پر بلا کر لیتروں سے مارا کرے کہ ظاہر ہے اس وقت مقننہ اور انتظامیہ تو اس کے ہاتھ میں ہیں ناں۔جمہوریت کے تین ستونوں پارلیمنٹ، عدلیہ اور ایگزیکٹیو میں سے کوئی بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرے گا تو یہ جمہوریت کو نقصان پہنچائے گا۔ عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے لیکن یہ تین میں سے ایک ستون ہے پوری بلڈنگ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے عدلیہ کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان کی ایلیٹ میں ایک ذہنیت پائی جاتی ہے کہ عوام کبھی بھی صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ جاہل، گنوار اور ان پڑھ ہے۔ اور یہ جو لیڈر الیکٹ کرتی ہے وہ بھی انہی کی طرح چور اچکے اور لفنٹر ہوتے ہیں۔ جب کہ ہم نے تو انگریزی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور ہم بہت بڑی چیز ہیں اور ہم عوام کا برا بھلا خوب جانتے ہیں۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے طرح طرح سےعوامی لیڈران کو کبھی فوج اور کبھی جوڈیشری کے ذریعے مطعون کیا جاتا ہے۔ ان کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ اور ہر طرح سے undermine کیا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں اس کیس پر۔ عمران خان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے- اس کی پارٹی نے پچھلے الیکشن میں 75 لاکھ سے زائد ووٹ لئے اور ملک کے ایک صوبے میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔
ہائر جوڈیشری کی کارکردگی بھی سب پر عیاں ہے۔ لوئر کورٹس میں انہوں نے کیا اصلاحات کی ہیں؟ لوگوں کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لئے کیا کیا اقدامات لئے گئے؟ کیا یہ اپنے ججوں کو independent کر سکے کہ بلا خوف و ہراس فیصلہ دے سکیں؟ کیا رشوت خوری کے کلچر کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ چند ایک ہائر پروفائل کیسز میں اگر انہوں نے اچھے فیصلے کئے تو اس سے ان کو کلین چٹ مل جاتی ہے کیا؟ سوو موٹو ایکشن کا بے دریغ اور اپنی مرضی سے استعمال نے انصاف کی فراہمی کا مذاق بنا دیا ہے۔ selective justice بھی نا انصافی ہی ہے۔
میں پی ٹی آئی کا نہ رکن رہا ہوں اور نہ ہی ان سے کوئی خاص ہمدردی رکھتا ہوں۔ عمران خان کی بھی کچھ باتوں سے مجھے اختلاف ہے۔ لیکن یہ مجھے معلوم ہے کہ عمران ایک صاف انسان ہے۔ اور اس معاملے میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ اور بالکل حق پر ہے۔
آپ عدلیہ اور انتظامیہ کی ذمہ داریوں کو خلط ملط کررہے ہیں۔عدالت فیصلہ دیتی ہے، مہینوں اُس پر عمل نہیں ہوتا۔ کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
عدالت فیصلہ دیتی ہے، لیکن عمل درامد نہ ہونے کی سینکڑوں تاویلات پیش کی جاتی ہیں، کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
عدالت میں مقدمہ زیرِ سماعت ہوتا ہے، تفتیشی افسران کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے، کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
گواہوں کو عدالت پہنچنے سے پہلے ہی اُڑا دیا جاتا ہے، کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
ایسے میں عدالت کتنی فعال رہ جاتی ہے۔
اگر کوئی شخص عدالت پر ایک تنقیدی جملہ کہہ دے تو اُس پر توہینِ عدالت کا کیس ڈال دیا جاتا ہے۔ کیا پچھلی حکومت پورے پانچ سال توہینِ عدالت نہیں کرتی رہی۔
ٹھیک ہے عمران خان کو ذاتی انا چھوڑ دینی چاہیے لیکن چیف جسٹس کو بھی چاہیے کہ وہ زیادہ اہم کاموں پر توجہ دیں۔ اگر عدالتیں عمدہ کام کریں اور ملک میں انصاف کا دور دورہ ہو تو لوگ ازخود (دل سے) عدالتوں کی عزت و تکریم کریں گے اور اتنی عزت دیں گے کہ سنبھالے نہیں سنبھلے گی۔
ذیشان بھائی، اگر آپ کی یہ دلیل مان لی جائے تو پھر حالیہ انتخابات میں نون لیگ نے تحریکِ انصاف سے تقریباً دو گنا ووٹ حاصل کیے ہیں اور ان کی مرکز اور ایک صوبے میں پوری اور دوسرے صوبے میں جزوی حکومت ہے، لہٰذا نواز شریف کو چاہئے کہ عدالتِ عظمیٰ کے سارے جج صاحبان کو صبح سویرے شاہراہِ دستور پر بلا کر لیتروں سے مارا کرے کہ ظاہر ہے اس وقت مقننہ اور انتظامیہ تو اس کے ہاتھ میں ہیں ناں۔
ایک انگریزی محاورے کے مطابق دو غلطیاں مل کر کسی ایک صحیح چیز کو جنم نہیں دے سکتیں۔ عدلیہ میں خرابیاں ہیں تو انہیں ٹھیک کرنے کے طریقے بھی موجود ہیں۔ مقننہ اور انتظامیہ کو محض ٹیلیویژن مذاکروں اور اخباری کانفرنسوں کے لئے تو نہیں رکھا گیا، انہیں چاہئے کہ جہاں خرابیاں دکھائی دیتی ہیں ان کی اصلاح کے لئے قانون سازی کریں اور پھر اس پر عملدرآمد بھی کروائیں۔ کیا وجہ ہے کہ عدلیہ اور بیوروکریسی میں پائی جانے والی خرابیوں کا اول تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا اور اگر ذکر کیا جاتا ہے تو ان خرابیوں کی اصلاح کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے؟ اب آپ اپنے صوبے خیبرپختونخوا کی مثال ہی دیکھ لیجئے کہ گشتی عدالتوں یعنی موبائل کورٹس کا جو سلسلہ یو این ڈی پی کی مالی و تکنیکی امداد سے شروع کیا گیا ہے، کیا انتظامیہ کی اعانت کے بغیر اس منصوبے کا پایہء تکمیل کو پہنچنا ممکن تھا؟
عمران خان صاف انسان ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انہیں عدلیہ پر الزام تراشی کا اجازت نامہ دیدیا جائے۔ کل جسٹس افتخار محمد چودھری نے سماعت کے دوران حوالہ دیا کہ عدالتِ عظمیٰ نے عمران خان کی پٹیشن پر یوسف رضا گیلانی کو پارلیمانی رکنیت سے نااہل قرار دیا تھا حالانکہ اس وقت کے اٹارنی جنرل کئی بار درخواست کر چکے تھے کہ عدالت اس معاملے میں نہ پڑے۔ اس صورتحال میں عمران خان کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر پتہ ہے کہ عدلیہ کا وقار کیا ہے اور اس کے بارے میں کس طرح کی زبان نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔