عمران خان اپنی انا پر قابو پائیں۔۔۔ (تبصرہ: انصار عباسی)

عاطف بٹ

محفلین
187.gif
 

عاطف بٹ

محفلین
انصار عباسی کون ہوتا ہے عمران جیسے بڑے لیڈر کو مشورے دینے والا؟
انصار عباسی ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ دنیا بھر میں قومی سطح پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے لوگوں کو صحافی ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر اسی طرح اپنے تجزیوں اور تبصروں کی مدد سے مشورے دیا کرتے ہیں جن کے جواب میں یہ کوئی نہیں کہتا کہ فلاں کون ہوتا ہے فلاں کو مشورہ دینے والا!
 

سید ذیشان

محفلین
انسان کو اپنے قول کا پکا ہونا چاہیے اور حق پر ڈٹے رہنا چاہیے۔ یہ دو نمبری کالم نگار عمران کو بلی بننے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایک unelected شخص کے سامنے ایک مشہور قومی لیڈر کیوں معافی مانگے جب اس نے کوئی غلطی بھی نہیں کی ہے۔
سپریم کورٹ اپنے آپے سے کافی عرصے سے باہر ہو رہی ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
انسان کو اپنے قول کا پکا ہونا چاہیے اور حق پر ڈٹے رہنا چاہیے۔ یہ دو نمبری کالم نگار عمران کو بلی بننے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایک unelected شخص کے سامنے ایک مشہور قومی لیڈر کیوں معافی مانگے جب اس نے کوئی غلطی بھی نہیں کی ہے۔
سپریم کورٹ اپنے آپے سے کافی عرصے سے باہر ہو رہی ہے۔
مجھے کم از کم آپ جیسے شخص اس طرح کی بات کی توقع نہیں تھی۔ خیر، قانون اور سیاسیات کے طلبہ اس نکتے سے اچھی طرح واقف ہیں کہ عدلیہ کے وقار کا کسی منتخب شدہ پارلیمانی رکن سے کوئی مقابلہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ عمران خان جس تصادم کی بنیاد رکھ رہے ہیں اس سے نہ تو عدلیہ کا کوئی نقصان ہوگا اور نہ ہی عدالتوں کے وقار میں کوئی کمی آئے گی، البتہ عمران خان اپنی انا اور جذباتیت کی وجہ سے خود کو سیاسی خودکشی کی طرف لے جائیں گے۔
 

عؔلی خان

محفلین
عمران خان غلطی سے پاکستان میں پیدا ہو گیا ورنہ پاکستان والوں کو صرف اور صرف شریف اور زرداری جیسے "غیر جذباتی" اور بے حس لوگوں کی ضرورت ہے۔ :)
 

عاطف بٹ

محفلین
عمران خان غلطی سے پاکستان میں پیدا ہو گیا ورنہ پاکستان والوں کو صرف اور صرف شریف اور زرداری جیسے "غیر جذباتی" اور بے حس لوگوں کی ضرورت ہے۔ :)
آپ پاکستان کے سماجی و سیاسی منظرنامے سے آگاہ ہوتے تو شاید آپ کی رائے کچھ اور ہوتی۔
 

عاطف بٹ

محفلین
کیا تحریری شکل میں عمران خان کے اُس متنازعہ بیان کا متن مل سکتا ہے جو انہوں نے عدلیہ کے بارے میں کہا؟
نظامی بھائی، یہ متنازعہ بیان 26، 29 اور 30 جولائی کی پریس کانفرنسوں کے دوران دئیے گئے تھے۔ عدالت میں انہیں تحریری شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہیں کوئی کاپی ملتی ہے تو یہاں پیش کرتا ہوں۔
 

سید ذیشان

محفلین
مجھے کم از کم آپ جیسے شخص اس طرح کی بات کی توقع نہیں تھی۔ خیر، قانون اور سیاسیات کے طلبہ اس نکتے سے اچھی طرح واقف ہیں کہ عدلیہ کے وقار کا کسی منتخب شدہ پارلیمانی رکن سے کوئی مقابلہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ عمران خان جس تصادم کی بنیاد رکھ رہے ہیں اس سے نہ تو عدلیہ کا کوئی نقصان ہوگا اور نہ ہی عدالتوں کے وقار میں کوئی کمی آئے گی، البتہ عمران خان اپنی انا اور جذباتیت کی وجہ سے خود کو سیاسی خودکشی کی طرف لے جائیں گے۔

جمہوریت کے تین ستونوں پارلیمنٹ، عدلیہ اور ایگزیکٹیو میں سے کوئی بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرے گا تو یہ جمہوریت کو نقصان پہنچائے گا۔ عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے لیکن یہ تین میں سے ایک ستون ہے پوری بلڈنگ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے عدلیہ کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان کی ایلیٹ میں ایک ذہنیت پائی جاتی ہے کہ عوام کبھی بھی صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ جاہل، گنوار اور ان پڑھ ہے۔ اور یہ جو لیڈر الیکٹ کرتی ہے وہ بھی انہی کی طرح چور اچکے اور لفنٹر ہوتے ہیں۔ جب کہ ہم نے تو انگریزی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور ہم بہت بڑی چیز ہیں اور ہم عوام کا برا بھلا خوب جانتے ہیں۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے طرح طرح سےعوامی لیڈران کو کبھی فوج اور کبھی جوڈیشری کے ذریعے مطعون کیا جاتا ہے۔ ان کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ اور ہر طرح سے undermine کیا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں اس کیس پر۔ عمران خان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے- اس کی پارٹی نے پچھلے الیکشن میں 75 لاکھ سے زائد ووٹ لئے اور ملک کے ایک صوبے میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔
ہائر جوڈیشری کی کارکردگی بھی سب پر عیاں ہے۔ لوئر کورٹس میں انہوں نے کیا اصلاحات کی ہیں؟ لوگوں کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لئے کیا کیا اقدامات لئے گئے؟ کیا یہ اپنے ججوں کو independent کر سکے کہ بلا خوف و ہراس فیصلہ دے سکیں؟ کیا رشوت خوری کے کلچر کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ چند ایک ہائر پروفائل کیسز میں اگر انہوں نے اچھے فیصلے کئے تو اس سے ان کو کلین چٹ مل جاتی ہے کیا؟ سوو موٹو ایکشن کا بے دریغ اور اپنی مرضی سے استعمال نے انصاف کی فراہمی کا مذاق بنا دیا ہے۔ selective justice بھی نا انصافی ہی ہے۔
میں پی ٹی آئی کا نہ رکن رہا ہوں اور نہ ہی ان سے کوئی خاص ہمدردی رکھتا ہوں۔ عمران خان کی بھی کچھ باتوں سے مجھے اختلاف ہے۔ لیکن یہ مجھے معلوم ہے کہ عمران ایک صاف انسان ہے۔ اور اس معاملے میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ اور بالکل حق پر ہے۔
 

عؔلی خان

محفلین
میں عمران خان کی شخصیت کے "حصار" سے نہ صرف "باہر" ہوں بلکہ پاکستان سے بھی گذشتہ ربع صدی سے باہر ہوں۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی مخلص لوگوں کی قدر نہیں کی جاتی اور عمران خان ان مخلص لوگوں میں سے ایک ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
عدالت فیصلہ دیتی ہے، مہینوں اُس پر عمل نہیں ہوتا۔ کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
عدالت فیصلہ دیتی ہے، لیکن عمل درامد نہ ہونے کی سینکڑوں تاویلات پیش کی جاتی ہیں، کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
عدالت میں مقدمہ زیرِ سماعت ہوتا ہے، تفتیشی افسران کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے، کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
گواہوں کو عدالت پہنچنے سے پہلے ہی اُڑا دیا جاتا ہے، کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
ایسے میں عدالت کتنی فعال رہ جاتی ہے۔

اگر کوئی شخص عدالت پر ایک تنقیدی جملہ کہہ دے تو اُس پر توہینِ عدالت کا کیس ڈال دیا جاتا ہے۔ کیا پچھلی حکومت پورے پانچ سال توہینِ عدالت نہیں کرتی رہی۔

ٹھیک ہے عمران خان کو ذاتی انا چھوڑ دینی چاہیے لیکن چیف جسٹس کو بھی چاہیے کہ وہ زیادہ اہم کاموں پر توجہ دیں۔ اگر عدالتیں عمدہ کام کریں اور ملک میں انصاف کا دور دورہ ہو تو لوگ ازخود (دل سے) عدالتوں کی عزت و تکریم کریں گے اور اتنی عزت دیں گے کہ سنبھالے نہیں سنبھلے گی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
26 جولائی کا بیان جو 27 جولائی روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوا اس کے اقتباسات
  • عام انتخابات میں عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے متنازع کردار کی وجہ سے ہمیں شدید تحفظات لاحق ہیں۔
  • موجودہ عدلیہ اور الیکشن کمشنر کی زیر نگرانی انتخابات میں ملکی تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی۔
28 جولائی کا بیان جو 29 جولائی روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوا ، اس کے اقتباسات
  • 11 مئی کے الیکشن میں ریٹرنگ افسروں نے بدترین دھاندلی کی۔
  • چیف جسٹس نیوٹرل نہ رہے تو سڑکوں پر نکلیں گے
  • جہاں تک صدارتی الیکشن کا تعلق ہے تو مجھے عدلیہ کے کردار پر کوئی اعتراض نہیں ، الیکشن کمیشن پر اعتراض ہے
  • ہمیں چیف جسٹس آف پاکستان سے انصاف کی امید ہے لیکن اگر ہمیں یقین ہوگیا کہ وہ نیوٹرل امپائر نہیں ہے اور ایک ٹیم کی حمایت کر رہے ہیں تو تحریک انصاف پوری طاقت کے ساتھ سڑکوں پر ہوگی
  • عام انتخابات میں دھاندلی کے اصل ذمہ دار الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ ہیں کیونکہ سپریم کورٹ کے مقرر کردہ ریٹرنگ آفیسرز نے ہی دھاندلی کروائی ہے۔
30 جولائی کا بیان جو روزنامہ ایکسپریس میں 31 جولائی کو شائع ہوا ، اس کے اقتباسات
  • عدلیہ اور الیکشن کمیشن دونوں 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کرانے میں ملوث ہیں۔
  • تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں صرف چار انتخابی حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات سے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے درخواست دائر کر رکھی ہے جس پر آج تک سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا جب کہ الیکشن کمیشن بھی اس سلسلے میں کوئی تعاون نہیں کر رہا ، ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کس چیز کو چھپا رہے ہیں ، پورے ملک میں تاثر عام ہے کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن نے مل کر کھیل کھیلا ہے۔
یکم اگست ، بریکنگ نیوز ، چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو گئے
الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق فخر الدین جی ابراہیم صدارتی انتخابات کے شیدول کو تبدیل کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن پر شدید تنقید کے بعد کافی دل برداشتہ ہو گئے تھے اور صدارتی انتخابات کے انعقاد کے ایک روز بعد انہوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنر نے سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی انتخابات چھ اگست کے بجائے 30 جولائی کو کرانے کے فیصلے پر کمیشن کے اجلاس میں بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
آن لائن کے مطابق فخر الدین جی ابراہیم کی اہلیہ نے بھی استعفی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ صدارتی انتخاب کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے فخر الدین پر شدید دباو تھا اور ان پر کڑی تنقید کی جارہی تھی جس کی وجہ سے وہ کافی پریشانی سے دوچار تھے اور ان محرکات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اس عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
فخر الدین جی ابراہیم پر عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے الزامات لگا کر پی پی پی ، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں نے شدید تنقید کی تھی ، صدارتی انتخاب کی تاریخ میں تبدیلی کے معاملہ پر بھی انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

یکم اگست : عدلیہ کے خلاف تقاریر : عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس ، کل سپریم کورٹ میں طلبی
 
آخری تدوین:

حاتم راجپوت

لائبریرین
اعلیٰ عدلیہ اپنا وقار کھو چکی ہے۔۔ افتخار چوہدری کا اپنا دامن تو ارسلان افتخار کیس کے بعد سے ہی داغدار ہو چکا ہے، اس کے علاوہ کئی بدنام زمانہ دہشتگرد جن کی موت کی سزا مقرر ہو چکی ہے،انہیں پھانسی نہ لگانے کے احکام بھی چیف جسٹس نے ہی جاری کیے تھے تا کہ پہلے بنوں ، اب ڈی آئی خان جیل اور مستقبل میں بھی ایسے ہی کئی جیسے واقعات ہوں اور دہشتگرد دعائیں دیتے فرار ہوں اور مزید خون خرابہ کریں۔
بہت سے دہشتگرد جو کہ خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں، اُنہیں انصاف کے نام پر عدلیہ اپنی تحویل میں لے رہی ہے تا کہ ان کے ساتھ بھی یہی ڈرامہ دہرایا جا سکے۔
میڈیا کرپشن کے واضع کیس کو خارج کر دیا گیا۔
ایک آدمی پر ہوئے تشدد پر سو مو ٹو لینے والی عدلیہ، اہل تشیع حضرات کے بے دریغ قتل عام پر درخواستوں پر بھی آج تک نوٹس نہیں لے پائی۔۔۔
اور یہ شخص مملکتِ خدا داد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔۔ بہت خوب۔
 

عاطف بٹ

محفلین
جمہوریت کے تین ستونوں پارلیمنٹ، عدلیہ اور ایگزیکٹیو میں سے کوئی بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرے گا تو یہ جمہوریت کو نقصان پہنچائے گا۔ عدلیہ کا کردار بہت اہم ہے لیکن یہ تین میں سے ایک ستون ہے پوری بلڈنگ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے عدلیہ کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان کی ایلیٹ میں ایک ذہنیت پائی جاتی ہے کہ عوام کبھی بھی صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ جاہل، گنوار اور ان پڑھ ہے۔ اور یہ جو لیڈر الیکٹ کرتی ہے وہ بھی انہی کی طرح چور اچکے اور لفنٹر ہوتے ہیں۔ جب کہ ہم نے تو انگریزی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور ہم بہت بڑی چیز ہیں اور ہم عوام کا برا بھلا خوب جانتے ہیں۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے طرح طرح سےعوامی لیڈران کو کبھی فوج اور کبھی جوڈیشری کے ذریعے مطعون کیا جاتا ہے۔ ان کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ اور ہر طرح سے undermine کیا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں اس کیس پر۔ عمران خان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے- اس کی پارٹی نے پچھلے الیکشن میں 75 لاکھ سے زائد ووٹ لئے اور ملک کے ایک صوبے میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔
ہائر جوڈیشری کی کارکردگی بھی سب پر عیاں ہے۔ لوئر کورٹس میں انہوں نے کیا اصلاحات کی ہیں؟ لوگوں کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لئے کیا کیا اقدامات لئے گئے؟ کیا یہ اپنے ججوں کو independent کر سکے کہ بلا خوف و ہراس فیصلہ دے سکیں؟ کیا رشوت خوری کے کلچر کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ چند ایک ہائر پروفائل کیسز میں اگر انہوں نے اچھے فیصلے کئے تو اس سے ان کو کلین چٹ مل جاتی ہے کیا؟ سوو موٹو ایکشن کا بے دریغ اور اپنی مرضی سے استعمال نے انصاف کی فراہمی کا مذاق بنا دیا ہے۔ selective justice بھی نا انصافی ہی ہے۔
میں پی ٹی آئی کا نہ رکن رہا ہوں اور نہ ہی ان سے کوئی خاص ہمدردی رکھتا ہوں۔ عمران خان کی بھی کچھ باتوں سے مجھے اختلاف ہے۔ لیکن یہ مجھے معلوم ہے کہ عمران ایک صاف انسان ہے۔ اور اس معاملے میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ اور بالکل حق پر ہے۔
ذیشان بھائی، اگر آپ کی یہ دلیل مان لی جائے تو پھر حالیہ انتخابات میں نون لیگ نے تحریکِ انصاف سے تقریباً دو گنا ووٹ حاصل کیے ہیں اور ان کی مرکز اور ایک صوبے میں پوری اور دوسرے صوبے میں جزوی حکومت ہے، لہٰذا نواز شریف کو چاہئے کہ عدالتِ عظمیٰ کے سارے جج صاحبان کو صبح سویرے شاہراہِ دستور پر بلا کر لیتروں سے مارا کرے کہ ظاہر ہے اس وقت مقننہ اور انتظامیہ تو اس کے ہاتھ میں ہیں ناں۔
ایک انگریزی محاورے کے مطابق دو غلطیاں مل کر کسی ایک صحیح چیز کو جنم نہیں دے سکتیں۔ عدلیہ میں خرابیاں ہیں تو انہیں ٹھیک کرنے کے طریقے بھی موجود ہیں۔ مقننہ اور انتظامیہ کو محض ٹیلیویژن مذاکروں اور اخباری کانفرنسوں کے لئے تو نہیں رکھا گیا، انہیں چاہئے کہ جہاں خرابیاں دکھائی دیتی ہیں ان کی اصلاح کے لئے قانون سازی کریں اور پھر اس پر عملدرآمد بھی کروائیں۔ کیا وجہ ہے کہ عدلیہ اور بیوروکریسی میں پائی جانے والی خرابیوں کا اول تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا اور اگر ذکر کیا جاتا ہے تو ان خرابیوں کی اصلاح کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے؟ اب آپ اپنے صوبے خیبرپختونخوا کی مثال ہی دیکھ لیجئے کہ گشتی عدالتوں یعنی موبائل کورٹس کا جو سلسلہ یو این ڈی پی کی مالی و تکنیکی امداد سے شروع کیا گیا ہے، کیا انتظامیہ کی اعانت کے بغیر اس منصوبے کا پایہء تکمیل کو پہنچنا ممکن تھا؟
عمران خان صاف انسان ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انہیں عدلیہ پر الزام تراشی کا اجازت نامہ دیدیا جائے۔ کل جسٹس افتخار محمد چودھری نے سماعت کے دوران حوالہ دیا کہ عدالتِ عظمیٰ نے عمران خان کی پٹیشن پر یوسف رضا گیلانی کو پارلیمانی رکنیت سے نااہل قرار دیا تھا حالانکہ اس وقت کے اٹارنی جنرل کئی بار درخواست کر چکے تھے کہ عدالت اس معاملے میں نہ پڑے۔ اس صورتحال میں عمران خان کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر پتہ ہے کہ عدلیہ کا وقار کیا ہے اور اس کے بارے میں کس طرح کی زبان نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
عدالت فیصلہ دیتی ہے، مہینوں اُس پر عمل نہیں ہوتا۔ کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
عدالت فیصلہ دیتی ہے، لیکن عمل درامد نہ ہونے کی سینکڑوں تاویلات پیش کی جاتی ہیں، کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
عدالت میں مقدمہ زیرِ سماعت ہوتا ہے، تفتیشی افسران کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے، کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
گواہوں کو عدالت پہنچنے سے پہلے ہی اُڑا دیا جاتا ہے، کوئی توہینِ عدالت نہیں ہوتی۔
ایسے میں عدالت کتنی فعال رہ جاتی ہے۔

اگر کوئی شخص عدالت پر ایک تنقیدی جملہ کہہ دے تو اُس پر توہینِ عدالت کا کیس ڈال دیا جاتا ہے۔ کیا پچھلی حکومت پورے پانچ سال توہینِ عدالت نہیں کرتی رہی۔

ٹھیک ہے عمران خان کو ذاتی انا چھوڑ دینی چاہیے لیکن چیف جسٹس کو بھی چاہیے کہ وہ زیادہ اہم کاموں پر توجہ دیں۔ اگر عدالتیں عمدہ کام کریں اور ملک میں انصاف کا دور دورہ ہو تو لوگ ازخود (دل سے) عدالتوں کی عزت و تکریم کریں گے اور اتنی عزت دیں گے کہ سنبھالے نہیں سنبھلے گی۔
آپ عدلیہ اور انتظامیہ کی ذمہ داریوں کو خلط ملط کررہے ہیں۔
فیصلہ دینا عدلیہ کا کام ہے، عملدرآمد کرنا انتظامیہ کا!
عدلیہ کے کسی فیصلے پر عملدرآمد کے رستے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو انتظامیہ اسے واضح کردیتی ہے، آپ سے جھوٹی تاویل کہہ لیں مگر عدلیہ گلی، محلوں، سڑکوں، دفاتر اور دیگر جگہوں پر جا کر معاملات کا جائزہ نہیں لے سکتی، ان کاموں کے لئے اسے بہرطور انتظامیہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تفتیشی افسر کے قتل پر عدلیہ نوٹس لے سکتی مگر قتل کی تفتیش اور دیگر معاملات پھر انتظامیہ کے ہاتھ میں ہی ہوں گے۔
گواہوں کو بحفاظت عدالت تک لانا اور گھر پہنچانا عدلیہ کا کام نہیں ہے۔

پچھلی حکومت کے دو وزرائے اعظم کو عدالت میں جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔

عدالتیں اگر کچھ غلط کررہی ہیں تو مقننہ اور انتظامیہ کے لوگ پارلیمان اور دفاتر میں ائیر کنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوا لینے کے لئے نہیں آتے، انہیں چاہئے کہ قانون سازی کر کے ان خرابیوں کو دور کریں جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
ذیشان بھائی، اگر آپ کی یہ دلیل مان لی جائے تو پھر حالیہ انتخابات میں نون لیگ نے تحریکِ انصاف سے تقریباً دو گنا ووٹ حاصل کیے ہیں اور ان کی مرکز اور ایک صوبے میں پوری اور دوسرے صوبے میں جزوی حکومت ہے، لہٰذا نواز شریف کو چاہئے کہ عدالتِ عظمیٰ کے سارے جج صاحبان کو صبح سویرے شاہراہِ دستور پر بلا کر لیتروں سے مارا کرے کہ ظاہر ہے اس وقت مقننہ اور انتظامیہ تو اس کے ہاتھ میں ہیں ناں۔
ایک انگریزی محاورے کے مطابق دو غلطیاں مل کر کسی ایک صحیح چیز کو جنم نہیں دے سکتیں۔ عدلیہ میں خرابیاں ہیں تو انہیں ٹھیک کرنے کے طریقے بھی موجود ہیں۔ مقننہ اور انتظامیہ کو محض ٹیلیویژن مذاکروں اور اخباری کانفرنسوں کے لئے تو نہیں رکھا گیا، انہیں چاہئے کہ جہاں خرابیاں دکھائی دیتی ہیں ان کی اصلاح کے لئے قانون سازی کریں اور پھر اس پر عملدرآمد بھی کروائیں۔ کیا وجہ ہے کہ عدلیہ اور بیوروکریسی میں پائی جانے والی خرابیوں کا اول تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا اور اگر ذکر کیا جاتا ہے تو ان خرابیوں کی اصلاح کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے؟ اب آپ اپنے صوبے خیبرپختونخوا کی مثال ہی دیکھ لیجئے کہ گشتی عدالتوں یعنی موبائل کورٹس کا جو سلسلہ یو این ڈی پی کی مالی و تکنیکی امداد سے شروع کیا گیا ہے، کیا انتظامیہ کی اعانت کے بغیر اس منصوبے کا پایہء تکمیل کو پہنچنا ممکن تھا؟
عمران خان صاف انسان ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انہیں عدلیہ پر الزام تراشی کا اجازت نامہ دیدیا جائے۔ کل جسٹس افتخار محمد چودھری نے سماعت کے دوران حوالہ دیا کہ عدالتِ عظمیٰ نے عمران خان کی پٹیشن پر یوسف رضا گیلانی کو پارلیمانی رکنیت سے نااہل قرار دیا تھا حالانکہ اس وقت کے اٹارنی جنرل کئی بار درخواست کر چکے تھے کہ عدالت اس معاملے میں نہ پڑے۔ اس صورتحال میں عمران خان کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر پتہ ہے کہ عدلیہ کا وقار کیا ہے اور اس کے بارے میں کس طرح کی زبان نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی کہ اگر کسی کو بھاری اکثریت ملے تو وہ عدلیہ کا چھترول کرے- نواز شریف نے پہلے بھی یہ کاروائی کی تھی اور اگر اب کرے گا تو میں عدلیہ کا ساتھ دوں گا۔ جس طرح میں نے میڈیا والے دھاگے میں کہا کہ آزادی اور مادر پدر آزادی میں فرق ہوتا ہے۔ یہاں پر عدلیہ مجھے دوسری والی کیٹیگری میں دکھائی دے رہی ہے۔
 
Top