جاسم محمد
محفلین
عمران خان بہترین بیورو کریٹس کی ٹیم تشکیل دے رہے ہیں
اسلام آباد (انصار عباسی) پی ٹی آئی کی حکومت میں کچھ معاملات کے حوالے سے تنازعات اور ہزیمت کا باعث بننے والی باتیں اپنی جگہ لیکن عمران خان کی حکومت میں ایک سب سے اچھی اور بڑی بات یہ ہے کہ وہ وفاقی سطح پر بہترین بیوروکریٹس پر مشتمل ٹیم تشکیل دے رہے ہیں۔ منگل کو اہم عہدوں پر تقرریوں کا دوسرا مرحلہ تھا، وزیراعظم نے اپنی انتظامیہ میں اہم عہدوں ایسے بیوروکریٹس کو دیے جو بہترین ساکھ اور قابلیت کیلئے مشہور ہیں۔ عمران خان نے پولیس سروس آف پاکستان کے گریڈ 22؍ کے افسر ڈاکٹر محمد سلیمان کو سویلین جاسوس ادارے انٹیلی جنس بیورو کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا۔ ڈاکٹر سلیمان کو گریڈ 22؍ پر ترقی دی گئی تھی اور اسی سال سابق وزیراعظم شاہد عباسی نے آفتاب سلطان کی ریٹائرمنٹ پر انہیں ڈی جی آئی بی مقرر کیا تھا۔ تاہم، ڈی جی آئی بی مقرر کیے جانے کے چند ہفتے بعد ہی ان کا تبادلہ کرتے ہوئے نگراں حکومت نے انہیں نیکٹا میں مقرر کر دیا۔ عمران خان اب انہیں ان کی ساکھ اور تجربے کی بنیاد پر واپس لائے ہیں۔ ڈاکٹر سلیمان گریڈ 22؍ میں ترقی اور ڈی جی مقرر کیے جانے سے قبل خیبرپختونخوا میں آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر تھے۔ آئی بی میں کام کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیمان خان نے خیبرپختونخوا میں انسداد دہشت گردی اور کائونٹر انٹیلی جنس کے کئی کامیاب آپریشنز کیے، آئی بی نے یہ آپریشنز دیگر سیکورٹی ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کیے۔ ایک اور قابل افسر ڈاکٹر جہانزیب خان ہیں جنہیں فخرِ ڈی ایم جی (موجودہ پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس) گروپ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جہانزیب کو ایف بی آر کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر جہانزیب نے طویل عرصہ تک شہباز شریف کے ماتحت کام کیا ہے۔ انہوں نے پنجاب میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور وہ بنوں اور ایبٹ آباد کے ڈپٹی کمشنر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے پیرس میں کمرشل قونصلر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ وہ پنجاب میں چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور توانائی کے شعبے میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری (یہ عہدہ شہباز شریف نے قائم کیا تھا تاکہ توانائی کے بحران سے نمٹا جا سکے) کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ سیکریٹری ہیلتھ اور سیکریٹری لائیو اسٹاک پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔ پنجاب میں سی پیک کے پروجیکٹس کی کامیابی کے پیچھے ڈاکٹر جہانزیب کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ چیئرمین پلاننگ تھے۔ انہوں نے پنجاب میں سیکریٹری خزانہ کے طور پر بھی کام کیا ہے اور انہوں نے ہی پنجاب ریونیو اتھارٹی کا ادارہ قائم کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ انہوں نے پنجاب میں اپنی چھاپ چھوڑی لیکن ان کا تعلق پشاور سے ہے۔ وہ کاروبار کے حامی (Business Friendly) اور اصلاح پسند ہیں اور شاید اسی وجہ سے انہیں چیئرمین ایف بی آر کا عہدہ دیا گیا ہے۔ سرکاری ذرائع کا اصرار ہے کہ ایف بی آر کو باہر سے آنے والے کسی افسر کی ضرورت ہے جو ادارے کو ہلا کر رکھ دے۔ عمران خان چند برسوں میں ہی موجودہ آمدنی میں 8؍ ہزا ارب روپے تک اضافہ چاہتے ہیں۔ سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ، ’’دیکھتے ہیں جہانزیب خان یہ کرسکتے ہیں۔‘‘ ایک اور تقرر 22؍ گریڈ کے پولیس سروس گروپ کے مہر خالق داد لک کا کیا گیا ہے۔ بیوروکریسی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مہر خالق کا انتخاب بہت اچھا فیصلہ ہے۔ لک سینئر ترین پی ایس پی افسر ہیں۔ ذریعے کے مطابق، انتہائی حد تک ایماندار شخص کی حیثیت سے انہیں آئی جی پنجاب لگانا چاہئے تھا لیکن کوئی سیاست دان ایسا نہیں کرے گا اور ان کی موجودگی میں پاک پتن جیسے واقعات کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا جس کی وجہ سے صوبائی پولیس کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ داد لک کا پس منظر انٹیلی جنس کا ہے اور وہ زبردست پولیس والے ہیں جس کی وجہ سے وہ نیکٹا کے سربراہ کی حیثیت سے بالکل ٹھیک انتخاب ہیں۔ تاہم، حکومت سے توقع ہے کہ وہ داد لک کو نیکٹا کو دوبارہ فعال کرنے کی اجازت دے گی تاکہ یہ انسداد دہشت گردی کی موثر ایجنسی ثابت ہو سکے۔
اسلام آباد (انصار عباسی) پی ٹی آئی کی حکومت میں کچھ معاملات کے حوالے سے تنازعات اور ہزیمت کا باعث بننے والی باتیں اپنی جگہ لیکن عمران خان کی حکومت میں ایک سب سے اچھی اور بڑی بات یہ ہے کہ وہ وفاقی سطح پر بہترین بیوروکریٹس پر مشتمل ٹیم تشکیل دے رہے ہیں۔ منگل کو اہم عہدوں پر تقرریوں کا دوسرا مرحلہ تھا، وزیراعظم نے اپنی انتظامیہ میں اہم عہدوں ایسے بیوروکریٹس کو دیے جو بہترین ساکھ اور قابلیت کیلئے مشہور ہیں۔ عمران خان نے پولیس سروس آف پاکستان کے گریڈ 22؍ کے افسر ڈاکٹر محمد سلیمان کو سویلین جاسوس ادارے انٹیلی جنس بیورو کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا۔ ڈاکٹر سلیمان کو گریڈ 22؍ پر ترقی دی گئی تھی اور اسی سال سابق وزیراعظم شاہد عباسی نے آفتاب سلطان کی ریٹائرمنٹ پر انہیں ڈی جی آئی بی مقرر کیا تھا۔ تاہم، ڈی جی آئی بی مقرر کیے جانے کے چند ہفتے بعد ہی ان کا تبادلہ کرتے ہوئے نگراں حکومت نے انہیں نیکٹا میں مقرر کر دیا۔ عمران خان اب انہیں ان کی ساکھ اور تجربے کی بنیاد پر واپس لائے ہیں۔ ڈاکٹر سلیمان گریڈ 22؍ میں ترقی اور ڈی جی مقرر کیے جانے سے قبل خیبرپختونخوا میں آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر تھے۔ آئی بی میں کام کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیمان خان نے خیبرپختونخوا میں انسداد دہشت گردی اور کائونٹر انٹیلی جنس کے کئی کامیاب آپریشنز کیے، آئی بی نے یہ آپریشنز دیگر سیکورٹی ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کیے۔ ایک اور قابل افسر ڈاکٹر جہانزیب خان ہیں جنہیں فخرِ ڈی ایم جی (موجودہ پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس) گروپ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جہانزیب کو ایف بی آر کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر جہانزیب نے طویل عرصہ تک شہباز شریف کے ماتحت کام کیا ہے۔ انہوں نے پنجاب میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور وہ بنوں اور ایبٹ آباد کے ڈپٹی کمشنر بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے پیرس میں کمرشل قونصلر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ وہ پنجاب میں چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور توانائی کے شعبے میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری (یہ عہدہ شہباز شریف نے قائم کیا تھا تاکہ توانائی کے بحران سے نمٹا جا سکے) کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ سیکریٹری ہیلتھ اور سیکریٹری لائیو اسٹاک پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔ پنجاب میں سی پیک کے پروجیکٹس کی کامیابی کے پیچھے ڈاکٹر جہانزیب کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ چیئرمین پلاننگ تھے۔ انہوں نے پنجاب میں سیکریٹری خزانہ کے طور پر بھی کام کیا ہے اور انہوں نے ہی پنجاب ریونیو اتھارٹی کا ادارہ قائم کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ انہوں نے پنجاب میں اپنی چھاپ چھوڑی لیکن ان کا تعلق پشاور سے ہے۔ وہ کاروبار کے حامی (Business Friendly) اور اصلاح پسند ہیں اور شاید اسی وجہ سے انہیں چیئرمین ایف بی آر کا عہدہ دیا گیا ہے۔ سرکاری ذرائع کا اصرار ہے کہ ایف بی آر کو باہر سے آنے والے کسی افسر کی ضرورت ہے جو ادارے کو ہلا کر رکھ دے۔ عمران خان چند برسوں میں ہی موجودہ آمدنی میں 8؍ ہزا ارب روپے تک اضافہ چاہتے ہیں۔ سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ، ’’دیکھتے ہیں جہانزیب خان یہ کرسکتے ہیں۔‘‘ ایک اور تقرر 22؍ گریڈ کے پولیس سروس گروپ کے مہر خالق داد لک کا کیا گیا ہے۔ بیوروکریسی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مہر خالق کا انتخاب بہت اچھا فیصلہ ہے۔ لک سینئر ترین پی ایس پی افسر ہیں۔ ذریعے کے مطابق، انتہائی حد تک ایماندار شخص کی حیثیت سے انہیں آئی جی پنجاب لگانا چاہئے تھا لیکن کوئی سیاست دان ایسا نہیں کرے گا اور ان کی موجودگی میں پاک پتن جیسے واقعات کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا جس کی وجہ سے صوبائی پولیس کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ داد لک کا پس منظر انٹیلی جنس کا ہے اور وہ زبردست پولیس والے ہیں جس کی وجہ سے وہ نیکٹا کے سربراہ کی حیثیت سے بالکل ٹھیک انتخاب ہیں۔ تاہم، حکومت سے توقع ہے کہ وہ داد لک کو نیکٹا کو دوبارہ فعال کرنے کی اجازت دے گی تاکہ یہ انسداد دہشت گردی کی موثر ایجنسی ثابت ہو سکے۔