عبدالقیوم چوہدری
محفلین
( بامحاورہ اردو ترجمہ:مترجم: صوفی نعمان ریاض)
میزبان (زینب بداوی) : آپ کو یہ یقین کیونکر ہے کہ آپ کے پاس وہ مہارت اور تجربہ موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے آپ پاکستان جیسے بڑی آبادی والے، متنوع اور پیچیدہ ملک کا نظام چلا سکتے ہیں؟
عمران خان: پاکستان کے ساتھ جو مسئلہ ہے وہ دراصل بالکل وہی مسئلہ جو دنیا کے تقریبا تمام ترقی پذیر ممالک کو درپیش ہے، اور وہ مسئلہ ہے اچھی گورننس کا، اچھی گورننس نا ہونے کی وجہ سے ہی ہم لوگ ابھی تک ناکام ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادارے کمزور ہیں اور کمزور ریاستی اداروں کی وجہ سے ہی ہم لوگ ملکی سطح پر اتنا ریونیو اکٹھا نہیں کر پاتے کہ ہم اپنے لوگوں کو ترقی یافتہ بنا سکیں، مختصراً دو بڑے مسئلے ہیں۔ ایک تو ریاستی اداروں کی بحالی اور دوسرا ریونیو اکٹھا کرنا تاکہ ہم اپنے لوگوں پر، ان کی تعلیم، صحت اور صاف پانی وغیرہ پر پیسہ خرچ کر سکیں۔
میزبان : آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ آپ ایک درست آدمی ہیں جو یہ تمام تبدیلیاں پاکستان میں لاسکتے ہیں اور وہ مسائل حل کرسکتے ہیں جن کے بارے میں ہر بندہ جانتا ہے کہ وہ پاکستان کو لاحق ہیں؟
عمران خان: اچھا، اس لیے کہ جو دوسری دو سیاسی جماعتیں ہیں جو پچھلے تیس سال سے اقتدار میں آنے کی باریاں لگا رہی ہیں وہ ناکام ہو گئیں۔ ان کی حکومتوں میں پاکستانی ادارے کمزور ہوئے، پاکستان کی اعلی عدالت میں ہمارے سابق وزیر اعظم پر کیس چلتا رہا، چیف جسٹس نے عدالت میں کہا کہ پاکستانی ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔
میزبان: آپ بات کر رہے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی جس کے چیئرمین اس وقت بلاول زرداری ہیں اور مسلم لیگ ن کی جو کہ حکمران جماعت تھی جس کے سابق وزیراعظم نواز شریف کا آپ حوالہ دے رہے ہیں۔ دیکھیں ہو سکتا ہے کہ اُن کی آپ کی نظر میں کوئی وقعت نا ہو، آپ ان سے مطمئن نا ہوں لیکن اس کا مطلب ہم یہ نہیں لے سکتے کہ آپ بہر حال پاکستان میں اچھی گورننس کے لیے ایک موزوں انسان ہیں، کیونکہ ایک مصدقہ عوامی گیلپ سروے کے مطابق آپ کی جماعت تحریک انصاف کی مقبولیت اور محنت کے حق میں لوگوں نے 24 فیصد وو ٹ دیے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے 36 فیصد ووٹ دیے۔ لہذا آپ نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا پہاڑ ہے آپ کے آگے جو آپ کو عبور کرنا ہے۔
عمران خان: دیکھیں یہ گمراہ کن سروے ہیں، ان پر نا جائیں، اگر آپ انگلینڈ میں ڈیوڈ کیمرون کا الیکشن دیکھیں تو آپ کو یاد ہوگا کہ اس وقت یہ سوچا جا رہا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی دونوں ایک جتنے ووٹ لیں گے لیکن پھر آپ نے دیکھا کہ کیمرون نے ایک لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کی۔ اس وقت یہ سروے ایسا ظاہر کر سکتا ہے، لیکن جب الیکشن کا وقت آتا ہے اور جب الیکشن میں جماعتیں اپنے منشور لے کر لوگوں کے ساتھ سامنے آتی ہیں تو اس وقت حالات ایک نیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ اور مجھے یہ یقین ہے کہ یہ وہ وقت ہے جب میری پارٹی تحریک انصاف لینڈ سلائیڈ سے جیت سکتی ہے۔
میزبان: لیکن دیکھیں، مجھے یہ بات واضح کر نے دیں کہ آپ یہ عوامی سروے وغیرہ کو تو غلط کہہ سکتے ہیں، لیکن آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب میں اگر اکثریت حاصل نا کر پائے تو آپ قومی الیکشن نہیں جیت سکتے، پاکستان کی آدھی آبادی تو ہے ہی وہاں پر اور پاکستان کا اہم ترین صوبہ بھی یہی ہے، ذرا یہ بتائیں کہ ابھی چند ماہ پہلے فروری میں، وہاں ضمنی انتخابات میں آپ کی پارٹی بری طرح ہاری ہے، زیادہ پرانی بات نہیں ابھی یہ گزشتہ فروری میں، خان صاحب یہ آپ کے لیے اچھی بات نہیں۔
عمران خان : زینب، دیکھیں، اگر آپ کو ہماری، یعنی پاکستان کی تاریخ کا پتہ ہو تو آپ دیکھیں گی کہ پاکستان میں ضمنی انتخاب ہمیشہ وہ جماعت جیتتی ہے جو اقتدار میں ہو۔ جب ن لیگ اپوزیشن میں تھی 2002سے 2007 کے درمیان تو وہ بھی مسلم لیگ ق سے سارے ضمنی انتخابات میں ہاری تھی لیکن عام انتخاب میں جیت گئی اور یہی سب پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ہوا۔ اس لیے ضمنی انتخاب بھی کوئی اچھا معیار نہیں ہے کسی جماعت کی مقبولیت پرکھنے کا، ہاں لیکن ضمنی انتخاب ایک پارٹی کے مقبول ہونے کی طرف اشارہ کر سکتا ہے، آپ بالکل ذرا یہ دیکھیں کہ کچھ عرصہ پہلے کے سرویز کا نتیجہ دیکھا جائے تو تحریک انصاف بہت نیچے تھی لیکن اگر ابھی آپ دوبارہ کوئی سروے کروا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تحریک انصاف غالباً مسلم لیگ ن کی سطح پر ہے۔
میزبان: اچھا، ویسے ابھی تک اپنے کو سسٹم سے باہر کا بندہ بنا کر پیش کیا ہے جو ایک ایسے سسٹم کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جو آپ کے کہنے کے مطابق غیر منصفانہ اور کرپٹ ہے، آپ ایک نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں لیکن آپ کی اپنی سوچ، ارادوں، پالیسیوں میں ایسا کیا مختلف ہے؟ وہ تو ویسا ہی لگتا ہے جو باقی پارٹیاں کہہ رہی ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کا سلوگن تو پیپلز پارٹی کا ہے اور آپ ویسا ہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ تو آپ میں ایسی کیا مختلف چیز ہے؟
عمران خان: اچھا، دیکھیں جو پہلے والی دو جماعتیں ہیں ان کی پالیسیز اور منصوبوں نے امیروں کو امیر اور غریبوں کو غریب کیا ہے، اس لیے امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق پچھلے تیس برس میں بڑھ گیا ہے، اس وقت ہمارے پاس امیروں کا ایک چھوٹا سا جزیرہ اور غریبوں کا ایک بہت بڑا سمندر ہے۔ اور یہ فرق مزید بڑھ رہا ہے صرف ان دونوں جماعتوں کی پالیسیز کی وجہ سے۔
اچھا اب ہم کیوں مختلف ہیں؟ تو میں وہی بات دوبارہ کروں گا کہ ہم واحد جماعت ہیں جو سیاسی ادارے بنا سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ مشکل کام پولیس کے ادارے کو بحال کرنا ہے۔ لیکن کے پی میں، یعنی پختونخوا، یہ پختونخوا وہ صوبہ ہے جس میں ہماری جماعت پانچ سال بر سر اقتدار رہی۔ یہ وہ صوبہ ہے کہ جس کے بارے میں ہر عوامی سروے کہتا ہے کہ سب سے اچھی پولیس خیبر پختونخوا کی ہے۔
وجہ یہی ہے کہ ہم نے اسے غیر سیاسی کر دیا، میرٹ پر نوکریاں دیں۔ اب یہ ایک بہترین ادارہ ہے، 2013 تک پولیس کا ادارہ ویسے ہی طالبان نے دہشتگردی نے تباہ کر دیا تھا سب سے زیادہ یہ ادارہ نشانہ بنا، لیکن اب یہ بہترین ادارہ ہے۔ جرائم اور دہشت گردی کم ہوئے ہیں۔ جو جماعتیں ادارے تباہ کردیتی ہیں وہ کبھی دوبارہ وہ ادارے نہیں بنا سکتیں۔
میزبان: آپ اپنے صوبے خیبر پختونخوا کے ریکارڈ کی بات کرتے ہیں، خورشید شاہ (قائد حزب اختلاف ) کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس ایک نادر موقع تھا کہ اپنا ایجنڈا مکمل طور پر خیبر پختونخوا میں متعارف کرواتا لیکن عمران خان ناکام رہا۔ خان کہتا ہے کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں دے گا لیکن وہ اپنے دور میں پانچ ہزار نوکریاں بھی نہیں دے سکا۔ بات تو صحیح ہے۔
عمران خان: ایک بات ہے بس، خیبر پختونخوا پاکستان کے سب صوبوں میں واحد صوبہ ہے جو کسی جماعت کو دوسری بار موقع نہیں دیتا، وہ صرف ایک بار موقع دیتا ہے، جیسے ایم ایم اے کو ایک بار 2002 میں موقع ملا لیکن بعد میں فارغ ہو گئی۔
میزبان (بات کاٹتے ہوئے ): ؛میرا پوائنٹ یہ ہے کہ آپ کےپاس اپنا ایجنڈا ثابت کرنے کا بہترین موقع تھا، آپ نے نہیں کیا۔ یہ بتائیں کہ کیوں نہیں؟
عمران خان: میں، میں وہی بتانے کی کوشش کررہا ہوں، میں اسی طرف آ رہا ہوں، اچھا اب، عوامی نیشنل پارٹی کو بھی ایک موقع ملا، فارغ ہو گئی۔ خورشید شاہ کو مت سنیں، ایسا کہنا تو ان کی مجبوری ہے۔ اب آج، خیبر پختونخوا کے سارے سروے آپ دیکھیں کہ۔ ۔ ۔
(اینکر نے پھربات کاٹ دی)
میزبان: آپ نے کتنی جابز پیدا کیں اپنے صوبے میں؟ کیا آپ نے نئی یونیورسٹی بنائی وہاں؟ کیا آپ نے نیا ہسپتال بنایا پختونخوا میں؟
عمران خان: سب سے پہلے تو آپ اگر سارے سروے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ تحریک انصاف کے ووٹ آج ڈبل ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے منشور کے وعدے پورے کیے ورنہ لوگ کیوں کہیں گے کہ وہ دوبارہ تحریک انصاف کو ووٹ دینگے؟ تو یہ ہے وہ معیار بجائے اس کے کہ آپ دیکھیں اپوزیشن کیا کہہ رہی ہے۔
پختونخوا تمام انسانی ترقیاتی شعبوں میں سب سے آگے ہے، حالیہ گیرالڈ سروے کے مطابق پختونخوا صحت میں سب سے آگے ہے۔ قانونی ادارے بہتر ہیں، پولیس نمبر ون ہے، ماحول، ماحول کی تو بات ہی نا کریں، پہلی دفعہ پاکستان کی تاریخ میں کسی صوبے نے ایک ارب درخت لگائے ہیں۔
میزبان: اچھا، لیکن کیا آپ نے نئی یونیورسٹی بنائی خیبر پختونخوا میں؟ کیا آپ نے نیاہسپتال بنایا خیبر پختونخوا میں؟ کیا آپ نے جابز پیدا کیں وہاں جو آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ پاکستان میں پیدا کریں گے؟
عمران خان : خیبر پختونخوا میں غربت آدھی رہ گئی ہے۔ سب سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کے پی وہ صوبہ تھا جس پر دہشتگردی کے خلاف جنگ کاسب سے زیادہ اور برا اثر پڑا۔ یہ تباہ ہو چکا تھا۔ اس کی 70 فیصد انڈسٹری بند ہو چکی تھی۔ باقی سارے صوبوں میں کل ملا کر 99 بڑے دہشتگردانہ حملے ہوئے تھے جبکہ کے پی اور فاٹا میں 200 حملے ہوئے، صرف ایک اکیلے کے پی میں، کے پی تباہ ہو چکاتھا۔
میزبان: مجھے کنفیوز کر دیاہے آپ نے خان جی، میں پوچھ کچھ رہی ہو آپ سیکورٹی صورتحال لے کر بیٹھ گئے ہیں، دیکھیں میں آپ سے سماجی پالیسی کے بارے میں بات کر نا چاہ رہی ہوں۔ آپ نے غربت اور عدم مساوات پر بہت باتیں کی ہیں نا؟ اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ اپنے طور پر اپنی الیکشن کمپین میں تو یہ بات بہت کہتے ہیں کہ ”ایک مہذب معاشرہ اونچے اور خوبصورت گھروں سے نہیں بنتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ چھوٹے چھوٹے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں کیسے رہتے ہیں؟ جبکہ خود آپ ایک خوبصورت ولا نما محل، یا محل نما ولے میں رہتے ہیں جو پہاڑیوں میں اسلام آباد کے پاس ہے اور اس کی قیمت کئی ملین امریکن ڈالرز تک ہوسکتی ہے۔ اور یہ بات آپ پیغام کے منافی ہے، کیا نہیں ہے ایسا؟
عمران خان: دیکھیں زینب، میں کسی بھی گھر میں رہتا ہوں۔ اگر وہ گھر میں نے قانونی طریقے سے ٹیکس ادا شدہ پیسوں سے بنایا ہے اور مجھے پسند ہے وہاں رہنا تو وہ میرا مسئلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے دل میں لوگوں کی محبت نہیں، میں نے جو کیا ہے وہ سنیں، میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ رفاہی کام کرتا ہوں، میں نے کینسر ہسپتال بنایا جو پاکستان کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ ہے، ایک دوسرا کینسر ہسپتال بنایا، جہاں 75 فیصد کینسر کے مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔
(اینکر نے دوبارہ بات کاٹ دی)
میزبان : لیکن کیا آپ اس بات پر شرمندہ نہیں ہوتے کہ آپ خود ایک کئی ملین ڈالر کے محل میں رہتے ہیں لیکن آپ بات جھونپڑ پٹی کے غریبوں کی کرتے ہیں؟
عمران خان :یہ گھر میں نے اپنے لندن فلیٹ کو بیچ کر بنایا تھا جو میں نے اپنے کرکٹ کھیلنے والے دور میں بنایا تھا۔ یہ گھر اس فلیٹ سے مہنگا نہیں ہے جو میں نے کینسنگٹن میں بیچا تھا۔ اور میں یہ بھی بتا دوں کہ میں نے یہ سپریم کورٹ میں ثابت کر دیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو پتہ ہے یا نہیں کہ مجھے بھی سپریم کورٹ میں یہ بتانا پڑا تھا کہ میرے پاس اس گھر کے لیے پیسے کہاں سے آئے۔ کیونکہ اس وقت وزیر اعظم سے یہ پوچھا جا رہا تھا۔
میزبان: اچھا آپ کی ذاتی رہائش گاہ کے موضوع سے آگے چلتے ہیں۔ ۔ ۔
عمران خان: دیکھیں اس بنی گالہ والے گھر کی قیمت کل ملا کر اس ایک فلیٹ جتنی۔ ۔ ۔
میزبان: اوکے آپ نے یہ خوب واضح کر دیا ہے۔ اچھا اب سیکورٹی اور مسلح فورسز وغیرہ کے بارے میں بات کرتے ہیں، ایک بات جو ایک الزام مسلسل آپ پر لگایا جاتا ہے، جیسا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اکثر آپ کے بارےمیں کہتی ہیں کہ آپ پاکستانی آرمی کی ایک کٹھ پتلی ہیں، فوج کا ایک مہرہ ہیں۔ کیا آپ واقعی ہیں؟
عمران خان : واہ، مریم نواز کو یہ بات کہنا زیب نہیں دیتا، اس کے اپنے والد کو ضیاء الحق نےسب کچھ بنایا تھا۔ ضیاء الحق کی آمریت نے بنایا تھا۔
میزبان: لیکن دیکھیں مجھے یہ بھی پوچھنا ہے کہ جب 1999میں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تو آپ نے اسے اچھا کہا ظاہر ہے آپ نے اس کے خلاف اتنی لمبی کمپین چلائی، حتی کہ اس وقت آپ نے یہ تک کہا کہ آپ کو اگر جنرل مشرف حکومت میں شمولیت کی دعوت دیں تو آپ قبول کریں گے۔
عمران خان: یہ غلط ہے میں نے ایسا نہیں کہا حالانکہ آفر تھی مجھے لیکن میں واحد سیاسی راہنما تھا جس نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ اسی جنرل پرویز مشرف نے مجھے جیل میں ڈال دیا تھا اور میں واحد سیاسی لیڈر ہوں جسے جنرل پرویز مشرف نے جیل میں ڈالا تھا۔
میزبان: اچھا ٹھیک ہے آپ نے ریکارڈ درست کر دیا، لیکن ابھی کچھ اور باتیں ایسی ہیں جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت حساس باتیں ہیں مثال کے طور پر آپ کے بارے میں یہ جو کچھ کہا جا تا ہے کہ آپ پاکستان آرمی کی کٹھ پتلی ہیں، اس کا تعلق انسانی حقوق سے بھی ہے مثال کے طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل 2017۔ 2018 رپورٹ کے مطابق سیکورٹی فورسز انسانی حقوق کی خلاف ورزی مثال کے طور پر تشدد، ماورائے عدالت قتل، حبس بے جا میں قید رکھنا، افراد کو لاپتہ کر دینا وغیرہ کی جاتی رہیں۔ کیا آپ کو ان معاملات پر روشنی نہیں ڈالنی چاہیے؟ کیا آپ کو ان باتوں کا دھیان نہیں کرنا چاہیے؟ بجائے اس کے کہ آپ کہتے رہیں کہ دیکھو ہم نے کے پی میں سیکورٹی فورسز کو بحال کر دیا ہے اور یہ کر دیا وہ کر دیا۔
عمران خان : اچھا میں ایک پوائنٹ ذرا کلیئر کر دوں۔ آپ نے کہا کہ مریم نے کہا ہے کہ مجھے فوج لائی ہے، اوہ میرے پیچھے 22 سالوں کی کوشش ہے۔ اس کے والد کو کوئی نہیں جانتا تھا، انہیں فوج نے اٹھایا اور وزیر اعظم وزیر اعلی بنا دیا، میں تو 22 سال سے کوشش کر رہا ہوں۔ اور اگر کوئی آپ کو بتائے کہ 29 اپریل کو پاکستان میں ایک بہت بڑی ریلی نکلی، تاریخی ریلی جس میں کوئی پانچ لاکھ لوگ نکل آئے۔
جب آپ کے ساتھ لوگ ہوتے ہیں تو آپ کو کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جیسے کہ نواز شریف کو آرمی لے کر آئی تھی۔ لوگ نہیں لائے۔ اچھا ایک تو یہ بات، دوسری بات یہ کہ آرمی اپنے چیف پر انحصا ر کرتی ہے، جنرل ضیاء کی آرمی اور تھی، مشرف کی آرمی اور تھی، اب باجوہ کی آرمی اور ہے۔ لہذا میں مشرف کی آرمی کی مخالفت کرتا ہوں کیونکہ قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کا حامی نہیں تھا۔
میزبان: اچھا اب آپ موجودہ آرمی چیف پر آگئے ہیں اور آپ نے ان کے حوالے سے اپنا موقف واضح کیا ہے۔ اب میں ایک اور بات۔
عمران خان: (بات کاٹتے ہوئے) لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ جنرل باجوہ کیوں بہتر ہے۔
میزبان: دیکھیں میں جنرل باجوہ کے حوالے سے کوئی تنقید نہیں کرنے والی میں بس یہ چاہتی ہو ں کہ آپ مزید کچھ بولیں فوج میں موجود ان عقابی عناصر کے بارے میں اور ان کی حرکتوں کے بارے میں جو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق انہوں نے کیں۔
عمران خان: دیکھیں میں نے پاکستانی آرمی کو قبائلی علاقوں میں بھیجنے کی مخالفت کی، کیوں؟ کیونکہ جب بھی آپ رہائشی اور آباد علاقوں میں فوج بھیجتے ہیں تو وہاں ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ کیونکہ آرمی وہاں کسی اور آرمی سے لڑنے نہیں جا رہی وہ گاؤں ہیں، وہاں لوگ رہتے ہیں، میں جنرل باجوہ کو اچھا کیوں کہہ رہا ہوں؟ کیونکہ وہ پاکستانی تاریخ میں پہلا فوجی سربراہ ہے جس نے خاص طور پر کہا ہے کہ وہ جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے، آئین کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور وہ، وہ سارا گند صاف کرنا چاہتا ہے جو جنرل مشرف کے قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔
میزبان: وضاحت کے لئے شکریہ، اب ایک اور بات جو بلاول بھٹو نے آپ کے بارے میں کی آپ دراصل طالبان کے ہی بچھڑے ہوئے بھائی ہیں۔ کیا آپ پاکستانی طالبان کو کسی بھی شکل میں پسند کرتے ہیں؟
عمران خان: دیکھیں بلاول کو معاف کیا جاسکتا ہے، چھوڑیں اسے، اسے پتہ ہی نہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ پاکستانی سیاست میں پیرا شوٹ سے آیا ہے، میں نے پاکستانی فوج کی قبائلی علاقوں میں جانے پر مذمت کی۔ اس وجہ سے مجھے طالبان کا حامی سمجھا گیا۔ یہ دراصل جارج بش قسم کی چیز تھی کہ یا تو آپ ایک طرف ہوتے ہیں یا دوسری طرف، یعنی اگر آپ دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں شامل نہیں تو آپ دہشتگردوں کے ساتھ ہیں۔ تو یہ معصومانہ اور احمقانہ سی بات ہے۔
میزبان: اچھا تو پھر یہ بتائیں کہ طالبان کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟ کیونکہ جون 2002 میں آپ نے ورکرز کنوینشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ طالبان کے نظام انصاف سے بہت متاثر اور مطمئن ہیں اور آپ طاقت میں آنے کے بعد ملک میں طالبان والا نظام انصاف ہی رائج کریں گے۔
عمران خان : مجھے بتانے دیں کہ طالبان کا نظام انصاف کیسا ہے کیا ہے۔ یہ وہ نظام تھا جو کہ پشتون کے قبائلی علاقوں میں تھا اور یہ کیا ہے؟ ہر علاقے کی ایک ہر گاؤں کی ایک جیوری ہوتی ہے، وہ معاملات کو سنتی ہے، لوگوں کو مفت انصاف ملتا ہے۔ غریب کو انصاف تک رسائی ملتی ہے، کچھ دیر کے لیے طالبان کو بھول جائیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے اس دہشتگردی کے خلاف جنگ سے پہلے تک سب سے زیادہ پر امن علاقے تھے۔ وجہ کیا تھی؟ انصاف تک رسائی، کہ جیوری ہر گاؤں کی ہوتی تھی، وہ دونوں فریقین کو سنتی تھی اور انصاف کرتی تھی۔ اور وہ علاقے جرائم سے پاک تھے۔
میزبان: کیا آپ نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہے عمران؟ کیونکہ یہ بات آپ نے 2002 میں کی، جبکہ 2014 میں انہی پاکستانی طالبان نے پشاور سکول پر حملہ کیا جس میں قریبا 145 لوگوں کو جن میں تقریباً سب بچے ہی تھے قتل کیا۔ ملالہ پر بھی پاکستانی طالبان نے قاتلانہ حملہ کیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے آپ کو اپنا نمائندہ بننے کا بھی کہا لیکن آپ نے انکار کر دیا کہ آپ اپنا نمائندہ خود منتخب کریں لیکن میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ایسا لگتا ہے جیسے وہ آپ کو پسند کر تے ہیں۔
عمران خان : زینب، 2002 میں کوئی پاکستانی طالبان نہیں تھے۔ اور جب میں نے وہ بات کی تھی وہ افغان طالبان کے بارے میں تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خانہ جنگی کے شکار تباہ شدہ افغانستان کو پرامن بنا دیا تھا۔ اگر آپ ملا ضعیف کی کتاب ”لونگ ود طالبان“ پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ انہوں نے ایسا پشتون نظام انصاف پر عمل کر کے کیا تھا جو ایک جرگہ سسٹم ہے۔ اس سے امن آیا تھا۔
سنہ 2002 میں پاکستانی طالبان وجود نہیں رکھتے تھے۔ پاکستانی طالبان 2006 میں بنے، اور میں ایک بار پھر بتاتا چلوں کہ آج ہمارے پاس پختونخوا میں وہی پولیس کا نظام ہے، جس میں ایک جیوری ہوتی ہے اور لوگ انصاف تک رسائی رکھتے ہیں اور یہ بہت مقبول ہے کیونکہ غریب لوگ وکیل تک رسائی نہیں رکھتے۔
میزبان: کیا آپ پاکستانی طالبان سے اب بات کرتے ہیں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ معاملات طے کر سکتے ہیں؟
عمران خان: وزیرستان آپریشن کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ طالبان کو افغانستان میں دھکیلا جا چکا ہے۔ اب پاکستان میں مشکل سے کوئی جنگجو موجود ہے۔ ہمیں دراصل اب داعش سے اصل مسئلہ ہے کیونکہ یہ افغانستان میں پاکستانی سرحدوں پر موجود ہے۔ اور مستقبل میں زیادہ خطرہ داعش سے ہے۔
میزبان : اچھا اب دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتےہوئے میں امریکہ کو لے کر کچھ بات کرنا چاہوں گی کیونکہ آپ کی جماعت کی جانب سے امریکہ مخالف جذبات کافی دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ شیریں مزاری نے پچھلے دنوں کہا کہ جو بھی امریکہ کا دوست ہے وہ غدار ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو 60 سالوں تقریبا 67 بلین ڈالرز دیے۔ مانا کہ زیادہ تر جنگی امداد کی مد میں دیے گئے۔ ظاہر ہے امریکہ آپ کے لیے بہت سخی ثابت ہوا ہے تو آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔ کیا آپ امریکہ مخالف ہیں؟
عمران خان : پہلی بات تو یہ کہ شیریں مزاری کے اپنے نظریات اور سوچ ہیں اور ہر سیاسی جماعت میں یہ سب ہوتا ہے، متضاد سوچیں ہوتی ہیں۔ لیکن مجھے اسے واضح کرنے دیں کہ پاکستان اور امریکہ کو دوست بننا ہوگا، امریکہ سپر پاور ہے، لیکن جو بات ہمیں دکھ دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ افغان معاملات کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ جبکہ ہم وہ ملک ہیں جس نے امریکہ کی جنگ قربانی کا بکرا بنا کر 70 ہزار سے زائد لوگ شہید کروائے، ہماری معیشت کو 100 ارب ڈالر ز سے زیادہ کا نقصان پہنچا کیونکہ جنرل مشرف نے ہمیں ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جو ہماری جنگ نہیں تھی۔ اور میں نے اس کی مخالفت کی، اور آخر میں ہمیں پھر ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور ہمیں غلط طور پر امریکہ کی افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا۔
میزبان : کیا اب آپ امریکہ مخالف ہیں؟
عمران خان : اگر میں پاکستانی حکومت کی پالیسیز کی مخالفت کرتا ہوں تو کیا میں پاکستان مخالف ہوں؟ اگر آپ امریکہ میں حکومت کی کسی پالیسی کی مخالفت کرتی ہیں تو کیا آپ اینٹی امریکہ ہیں۔
میزبان : اچھا تو اب آخر کار میں آپ کے سامنے یہ بات لے آئی ہو ں آپ کی ذاتی زندگی نے گزشتہ کچھ عرصہ میں بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ جیسا کہ آپ کی تین شادیاں، جیسے امیرزادی جمائمہ، اور گلیمرس ٹی وی ہوسٹ ریحام سے شادی، کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ آپ کے پیروکاروں میں آپ کا جو ایک بڑا پرہیزگار ٹائپ امیج ہوتا ہے اسے تھوڑا سا داغدار کرتی ہیں؟
عمران خان : نہیں دیکھیں، ذاتی زندگیوں میں بہت سے مسائل ہوتے ہیں، بہت سی چیزیں ہمیں متاثر کرتی ہیں۔ میں بھی اسی قسم کے حالات میں رہا ہوں۔ یہ میری تیسری شادی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ پبلک کا اس سے کوئی تعلق بنتا ہے۔
میزبان : عمران خان آپ کا بے حد شکریہ۔
عمران خان: شکریہ۔
ربط
میزبان (زینب بداوی) : آپ کو یہ یقین کیونکر ہے کہ آپ کے پاس وہ مہارت اور تجربہ موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے آپ پاکستان جیسے بڑی آبادی والے، متنوع اور پیچیدہ ملک کا نظام چلا سکتے ہیں؟
عمران خان: پاکستان کے ساتھ جو مسئلہ ہے وہ دراصل بالکل وہی مسئلہ جو دنیا کے تقریبا تمام ترقی پذیر ممالک کو درپیش ہے، اور وہ مسئلہ ہے اچھی گورننس کا، اچھی گورننس نا ہونے کی وجہ سے ہی ہم لوگ ابھی تک ناکام ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادارے کمزور ہیں اور کمزور ریاستی اداروں کی وجہ سے ہی ہم لوگ ملکی سطح پر اتنا ریونیو اکٹھا نہیں کر پاتے کہ ہم اپنے لوگوں کو ترقی یافتہ بنا سکیں، مختصراً دو بڑے مسئلے ہیں۔ ایک تو ریاستی اداروں کی بحالی اور دوسرا ریونیو اکٹھا کرنا تاکہ ہم اپنے لوگوں پر، ان کی تعلیم، صحت اور صاف پانی وغیرہ پر پیسہ خرچ کر سکیں۔
میزبان : آپ کیوں سمجھتے ہیں کہ آپ ایک درست آدمی ہیں جو یہ تمام تبدیلیاں پاکستان میں لاسکتے ہیں اور وہ مسائل حل کرسکتے ہیں جن کے بارے میں ہر بندہ جانتا ہے کہ وہ پاکستان کو لاحق ہیں؟
عمران خان: اچھا، اس لیے کہ جو دوسری دو سیاسی جماعتیں ہیں جو پچھلے تیس سال سے اقتدار میں آنے کی باریاں لگا رہی ہیں وہ ناکام ہو گئیں۔ ان کی حکومتوں میں پاکستانی ادارے کمزور ہوئے، پاکستان کی اعلی عدالت میں ہمارے سابق وزیر اعظم پر کیس چلتا رہا، چیف جسٹس نے عدالت میں کہا کہ پاکستانی ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔
میزبان: آپ بات کر رہے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی جس کے چیئرمین اس وقت بلاول زرداری ہیں اور مسلم لیگ ن کی جو کہ حکمران جماعت تھی جس کے سابق وزیراعظم نواز شریف کا آپ حوالہ دے رہے ہیں۔ دیکھیں ہو سکتا ہے کہ اُن کی آپ کی نظر میں کوئی وقعت نا ہو، آپ ان سے مطمئن نا ہوں لیکن اس کا مطلب ہم یہ نہیں لے سکتے کہ آپ بہر حال پاکستان میں اچھی گورننس کے لیے ایک موزوں انسان ہیں، کیونکہ ایک مصدقہ عوامی گیلپ سروے کے مطابق آپ کی جماعت تحریک انصاف کی مقبولیت اور محنت کے حق میں لوگوں نے 24 فیصد وو ٹ دیے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے 36 فیصد ووٹ دیے۔ لہذا آپ نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا پہاڑ ہے آپ کے آگے جو آپ کو عبور کرنا ہے۔
عمران خان: دیکھیں یہ گمراہ کن سروے ہیں، ان پر نا جائیں، اگر آپ انگلینڈ میں ڈیوڈ کیمرون کا الیکشن دیکھیں تو آپ کو یاد ہوگا کہ اس وقت یہ سوچا جا رہا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی دونوں ایک جتنے ووٹ لیں گے لیکن پھر آپ نے دیکھا کہ کیمرون نے ایک لینڈ سلائیڈ فتح حاصل کی۔ اس وقت یہ سروے ایسا ظاہر کر سکتا ہے، لیکن جب الیکشن کا وقت آتا ہے اور جب الیکشن میں جماعتیں اپنے منشور لے کر لوگوں کے ساتھ سامنے آتی ہیں تو اس وقت حالات ایک نیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ اور مجھے یہ یقین ہے کہ یہ وہ وقت ہے جب میری پارٹی تحریک انصاف لینڈ سلائیڈ سے جیت سکتی ہے۔
میزبان: لیکن دیکھیں، مجھے یہ بات واضح کر نے دیں کہ آپ یہ عوامی سروے وغیرہ کو تو غلط کہہ سکتے ہیں، لیکن آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب میں اگر اکثریت حاصل نا کر پائے تو آپ قومی الیکشن نہیں جیت سکتے، پاکستان کی آدھی آبادی تو ہے ہی وہاں پر اور پاکستان کا اہم ترین صوبہ بھی یہی ہے، ذرا یہ بتائیں کہ ابھی چند ماہ پہلے فروری میں، وہاں ضمنی انتخابات میں آپ کی پارٹی بری طرح ہاری ہے، زیادہ پرانی بات نہیں ابھی یہ گزشتہ فروری میں، خان صاحب یہ آپ کے لیے اچھی بات نہیں۔
عمران خان : زینب، دیکھیں، اگر آپ کو ہماری، یعنی پاکستان کی تاریخ کا پتہ ہو تو آپ دیکھیں گی کہ پاکستان میں ضمنی انتخاب ہمیشہ وہ جماعت جیتتی ہے جو اقتدار میں ہو۔ جب ن لیگ اپوزیشن میں تھی 2002سے 2007 کے درمیان تو وہ بھی مسلم لیگ ق سے سارے ضمنی انتخابات میں ہاری تھی لیکن عام انتخاب میں جیت گئی اور یہی سب پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ہوا۔ اس لیے ضمنی انتخاب بھی کوئی اچھا معیار نہیں ہے کسی جماعت کی مقبولیت پرکھنے کا، ہاں لیکن ضمنی انتخاب ایک پارٹی کے مقبول ہونے کی طرف اشارہ کر سکتا ہے، آپ بالکل ذرا یہ دیکھیں کہ کچھ عرصہ پہلے کے سرویز کا نتیجہ دیکھا جائے تو تحریک انصاف بہت نیچے تھی لیکن اگر ابھی آپ دوبارہ کوئی سروے کروا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تحریک انصاف غالباً مسلم لیگ ن کی سطح پر ہے۔
میزبان: اچھا، ویسے ابھی تک اپنے کو سسٹم سے باہر کا بندہ بنا کر پیش کیا ہے جو ایک ایسے سسٹم کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جو آپ کے کہنے کے مطابق غیر منصفانہ اور کرپٹ ہے، آپ ایک نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں لیکن آپ کی اپنی سوچ، ارادوں، پالیسیوں میں ایسا کیا مختلف ہے؟ وہ تو ویسا ہی لگتا ہے جو باقی پارٹیاں کہہ رہی ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کا سلوگن تو پیپلز پارٹی کا ہے اور آپ ویسا ہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ تو آپ میں ایسی کیا مختلف چیز ہے؟
عمران خان: اچھا، دیکھیں جو پہلے والی دو جماعتیں ہیں ان کی پالیسیز اور منصوبوں نے امیروں کو امیر اور غریبوں کو غریب کیا ہے، اس لیے امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق پچھلے تیس برس میں بڑھ گیا ہے، اس وقت ہمارے پاس امیروں کا ایک چھوٹا سا جزیرہ اور غریبوں کا ایک بہت بڑا سمندر ہے۔ اور یہ فرق مزید بڑھ رہا ہے صرف ان دونوں جماعتوں کی پالیسیز کی وجہ سے۔
اچھا اب ہم کیوں مختلف ہیں؟ تو میں وہی بات دوبارہ کروں گا کہ ہم واحد جماعت ہیں جو سیاسی ادارے بنا سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ مشکل کام پولیس کے ادارے کو بحال کرنا ہے۔ لیکن کے پی میں، یعنی پختونخوا، یہ پختونخوا وہ صوبہ ہے جس میں ہماری جماعت پانچ سال بر سر اقتدار رہی۔ یہ وہ صوبہ ہے کہ جس کے بارے میں ہر عوامی سروے کہتا ہے کہ سب سے اچھی پولیس خیبر پختونخوا کی ہے۔
وجہ یہی ہے کہ ہم نے اسے غیر سیاسی کر دیا، میرٹ پر نوکریاں دیں۔ اب یہ ایک بہترین ادارہ ہے، 2013 تک پولیس کا ادارہ ویسے ہی طالبان نے دہشتگردی نے تباہ کر دیا تھا سب سے زیادہ یہ ادارہ نشانہ بنا، لیکن اب یہ بہترین ادارہ ہے۔ جرائم اور دہشت گردی کم ہوئے ہیں۔ جو جماعتیں ادارے تباہ کردیتی ہیں وہ کبھی دوبارہ وہ ادارے نہیں بنا سکتیں۔
میزبان: آپ اپنے صوبے خیبر پختونخوا کے ریکارڈ کی بات کرتے ہیں، خورشید شاہ (قائد حزب اختلاف ) کہتے ہیں کہ عمران خان کے پاس ایک نادر موقع تھا کہ اپنا ایجنڈا مکمل طور پر خیبر پختونخوا میں متعارف کرواتا لیکن عمران خان ناکام رہا۔ خان کہتا ہے کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں دے گا لیکن وہ اپنے دور میں پانچ ہزار نوکریاں بھی نہیں دے سکا۔ بات تو صحیح ہے۔
عمران خان: ایک بات ہے بس، خیبر پختونخوا پاکستان کے سب صوبوں میں واحد صوبہ ہے جو کسی جماعت کو دوسری بار موقع نہیں دیتا، وہ صرف ایک بار موقع دیتا ہے، جیسے ایم ایم اے کو ایک بار 2002 میں موقع ملا لیکن بعد میں فارغ ہو گئی۔
میزبان (بات کاٹتے ہوئے ): ؛میرا پوائنٹ یہ ہے کہ آپ کےپاس اپنا ایجنڈا ثابت کرنے کا بہترین موقع تھا، آپ نے نہیں کیا۔ یہ بتائیں کہ کیوں نہیں؟
عمران خان: میں، میں وہی بتانے کی کوشش کررہا ہوں، میں اسی طرف آ رہا ہوں، اچھا اب، عوامی نیشنل پارٹی کو بھی ایک موقع ملا، فارغ ہو گئی۔ خورشید شاہ کو مت سنیں، ایسا کہنا تو ان کی مجبوری ہے۔ اب آج، خیبر پختونخوا کے سارے سروے آپ دیکھیں کہ۔ ۔ ۔
(اینکر نے پھربات کاٹ دی)
میزبان: آپ نے کتنی جابز پیدا کیں اپنے صوبے میں؟ کیا آپ نے نئی یونیورسٹی بنائی وہاں؟ کیا آپ نے نیا ہسپتال بنایا پختونخوا میں؟
عمران خان: سب سے پہلے تو آپ اگر سارے سروے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ تحریک انصاف کے ووٹ آج ڈبل ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے منشور کے وعدے پورے کیے ورنہ لوگ کیوں کہیں گے کہ وہ دوبارہ تحریک انصاف کو ووٹ دینگے؟ تو یہ ہے وہ معیار بجائے اس کے کہ آپ دیکھیں اپوزیشن کیا کہہ رہی ہے۔
پختونخوا تمام انسانی ترقیاتی شعبوں میں سب سے آگے ہے، حالیہ گیرالڈ سروے کے مطابق پختونخوا صحت میں سب سے آگے ہے۔ قانونی ادارے بہتر ہیں، پولیس نمبر ون ہے، ماحول، ماحول کی تو بات ہی نا کریں، پہلی دفعہ پاکستان کی تاریخ میں کسی صوبے نے ایک ارب درخت لگائے ہیں۔
میزبان: اچھا، لیکن کیا آپ نے نئی یونیورسٹی بنائی خیبر پختونخوا میں؟ کیا آپ نے نیاہسپتال بنایا خیبر پختونخوا میں؟ کیا آپ نے جابز پیدا کیں وہاں جو آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ پاکستان میں پیدا کریں گے؟
عمران خان : خیبر پختونخوا میں غربت آدھی رہ گئی ہے۔ سب سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کے پی وہ صوبہ تھا جس پر دہشتگردی کے خلاف جنگ کاسب سے زیادہ اور برا اثر پڑا۔ یہ تباہ ہو چکا تھا۔ اس کی 70 فیصد انڈسٹری بند ہو چکی تھی۔ باقی سارے صوبوں میں کل ملا کر 99 بڑے دہشتگردانہ حملے ہوئے تھے جبکہ کے پی اور فاٹا میں 200 حملے ہوئے، صرف ایک اکیلے کے پی میں، کے پی تباہ ہو چکاتھا۔
میزبان: مجھے کنفیوز کر دیاہے آپ نے خان جی، میں پوچھ کچھ رہی ہو آپ سیکورٹی صورتحال لے کر بیٹھ گئے ہیں، دیکھیں میں آپ سے سماجی پالیسی کے بارے میں بات کر نا چاہ رہی ہوں۔ آپ نے غربت اور عدم مساوات پر بہت باتیں کی ہیں نا؟ اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ اپنے طور پر اپنی الیکشن کمپین میں تو یہ بات بہت کہتے ہیں کہ ”ایک مہذب معاشرہ اونچے اور خوبصورت گھروں سے نہیں بنتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ چھوٹے چھوٹے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں کیسے رہتے ہیں؟ جبکہ خود آپ ایک خوبصورت ولا نما محل، یا محل نما ولے میں رہتے ہیں جو پہاڑیوں میں اسلام آباد کے پاس ہے اور اس کی قیمت کئی ملین امریکن ڈالرز تک ہوسکتی ہے۔ اور یہ بات آپ پیغام کے منافی ہے، کیا نہیں ہے ایسا؟
عمران خان: دیکھیں زینب، میں کسی بھی گھر میں رہتا ہوں۔ اگر وہ گھر میں نے قانونی طریقے سے ٹیکس ادا شدہ پیسوں سے بنایا ہے اور مجھے پسند ہے وہاں رہنا تو وہ میرا مسئلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے دل میں لوگوں کی محبت نہیں، میں نے جو کیا ہے وہ سنیں، میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ رفاہی کام کرتا ہوں، میں نے کینسر ہسپتال بنایا جو پاکستان کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ ہے، ایک دوسرا کینسر ہسپتال بنایا، جہاں 75 فیصد کینسر کے مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔
(اینکر نے دوبارہ بات کاٹ دی)
میزبان : لیکن کیا آپ اس بات پر شرمندہ نہیں ہوتے کہ آپ خود ایک کئی ملین ڈالر کے محل میں رہتے ہیں لیکن آپ بات جھونپڑ پٹی کے غریبوں کی کرتے ہیں؟
عمران خان :یہ گھر میں نے اپنے لندن فلیٹ کو بیچ کر بنایا تھا جو میں نے اپنے کرکٹ کھیلنے والے دور میں بنایا تھا۔ یہ گھر اس فلیٹ سے مہنگا نہیں ہے جو میں نے کینسنگٹن میں بیچا تھا۔ اور میں یہ بھی بتا دوں کہ میں نے یہ سپریم کورٹ میں ثابت کر دیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو پتہ ہے یا نہیں کہ مجھے بھی سپریم کورٹ میں یہ بتانا پڑا تھا کہ میرے پاس اس گھر کے لیے پیسے کہاں سے آئے۔ کیونکہ اس وقت وزیر اعظم سے یہ پوچھا جا رہا تھا۔
میزبان: اچھا آپ کی ذاتی رہائش گاہ کے موضوع سے آگے چلتے ہیں۔ ۔ ۔
عمران خان: دیکھیں اس بنی گالہ والے گھر کی قیمت کل ملا کر اس ایک فلیٹ جتنی۔ ۔ ۔
میزبان: اوکے آپ نے یہ خوب واضح کر دیا ہے۔ اچھا اب سیکورٹی اور مسلح فورسز وغیرہ کے بارے میں بات کرتے ہیں، ایک بات جو ایک الزام مسلسل آپ پر لگایا جاتا ہے، جیسا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اکثر آپ کے بارےمیں کہتی ہیں کہ آپ پاکستانی آرمی کی ایک کٹھ پتلی ہیں، فوج کا ایک مہرہ ہیں۔ کیا آپ واقعی ہیں؟
عمران خان : واہ، مریم نواز کو یہ بات کہنا زیب نہیں دیتا، اس کے اپنے والد کو ضیاء الحق نےسب کچھ بنایا تھا۔ ضیاء الحق کی آمریت نے بنایا تھا۔
میزبان: لیکن دیکھیں مجھے یہ بھی پوچھنا ہے کہ جب 1999میں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تو آپ نے اسے اچھا کہا ظاہر ہے آپ نے اس کے خلاف اتنی لمبی کمپین چلائی، حتی کہ اس وقت آپ نے یہ تک کہا کہ آپ کو اگر جنرل مشرف حکومت میں شمولیت کی دعوت دیں تو آپ قبول کریں گے۔
عمران خان: یہ غلط ہے میں نے ایسا نہیں کہا حالانکہ آفر تھی مجھے لیکن میں واحد سیاسی راہنما تھا جس نے ایسا نہیں کیا۔ بلکہ اسی جنرل پرویز مشرف نے مجھے جیل میں ڈال دیا تھا اور میں واحد سیاسی لیڈر ہوں جسے جنرل پرویز مشرف نے جیل میں ڈالا تھا۔
میزبان: اچھا ٹھیک ہے آپ نے ریکارڈ درست کر دیا، لیکن ابھی کچھ اور باتیں ایسی ہیں جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت حساس باتیں ہیں مثال کے طور پر آپ کے بارے میں یہ جو کچھ کہا جا تا ہے کہ آپ پاکستان آرمی کی کٹھ پتلی ہیں، اس کا تعلق انسانی حقوق سے بھی ہے مثال کے طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل 2017۔ 2018 رپورٹ کے مطابق سیکورٹی فورسز انسانی حقوق کی خلاف ورزی مثال کے طور پر تشدد، ماورائے عدالت قتل، حبس بے جا میں قید رکھنا، افراد کو لاپتہ کر دینا وغیرہ کی جاتی رہیں۔ کیا آپ کو ان معاملات پر روشنی نہیں ڈالنی چاہیے؟ کیا آپ کو ان باتوں کا دھیان نہیں کرنا چاہیے؟ بجائے اس کے کہ آپ کہتے رہیں کہ دیکھو ہم نے کے پی میں سیکورٹی فورسز کو بحال کر دیا ہے اور یہ کر دیا وہ کر دیا۔
عمران خان : اچھا میں ایک پوائنٹ ذرا کلیئر کر دوں۔ آپ نے کہا کہ مریم نے کہا ہے کہ مجھے فوج لائی ہے، اوہ میرے پیچھے 22 سالوں کی کوشش ہے۔ اس کے والد کو کوئی نہیں جانتا تھا، انہیں فوج نے اٹھایا اور وزیر اعظم وزیر اعلی بنا دیا، میں تو 22 سال سے کوشش کر رہا ہوں۔ اور اگر کوئی آپ کو بتائے کہ 29 اپریل کو پاکستان میں ایک بہت بڑی ریلی نکلی، تاریخی ریلی جس میں کوئی پانچ لاکھ لوگ نکل آئے۔
جب آپ کے ساتھ لوگ ہوتے ہیں تو آپ کو کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جیسے کہ نواز شریف کو آرمی لے کر آئی تھی۔ لوگ نہیں لائے۔ اچھا ایک تو یہ بات، دوسری بات یہ کہ آرمی اپنے چیف پر انحصا ر کرتی ہے، جنرل ضیاء کی آرمی اور تھی، مشرف کی آرمی اور تھی، اب باجوہ کی آرمی اور ہے۔ لہذا میں مشرف کی آرمی کی مخالفت کرتا ہوں کیونکہ قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کا حامی نہیں تھا۔
میزبان: اچھا اب آپ موجودہ آرمی چیف پر آگئے ہیں اور آپ نے ان کے حوالے سے اپنا موقف واضح کیا ہے۔ اب میں ایک اور بات۔
عمران خان: (بات کاٹتے ہوئے) لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ جنرل باجوہ کیوں بہتر ہے۔
میزبان: دیکھیں میں جنرل باجوہ کے حوالے سے کوئی تنقید نہیں کرنے والی میں بس یہ چاہتی ہو ں کہ آپ مزید کچھ بولیں فوج میں موجود ان عقابی عناصر کے بارے میں اور ان کی حرکتوں کے بارے میں جو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق انہوں نے کیں۔
عمران خان: دیکھیں میں نے پاکستانی آرمی کو قبائلی علاقوں میں بھیجنے کی مخالفت کی، کیوں؟ کیونکہ جب بھی آپ رہائشی اور آباد علاقوں میں فوج بھیجتے ہیں تو وہاں ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ کیونکہ آرمی وہاں کسی اور آرمی سے لڑنے نہیں جا رہی وہ گاؤں ہیں، وہاں لوگ رہتے ہیں، میں جنرل باجوہ کو اچھا کیوں کہہ رہا ہوں؟ کیونکہ وہ پاکستانی تاریخ میں پہلا فوجی سربراہ ہے جس نے خاص طور پر کہا ہے کہ وہ جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے، آئین کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور وہ، وہ سارا گند صاف کرنا چاہتا ہے جو جنرل مشرف کے قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔
میزبان: وضاحت کے لئے شکریہ، اب ایک اور بات جو بلاول بھٹو نے آپ کے بارے میں کی آپ دراصل طالبان کے ہی بچھڑے ہوئے بھائی ہیں۔ کیا آپ پاکستانی طالبان کو کسی بھی شکل میں پسند کرتے ہیں؟
عمران خان: دیکھیں بلاول کو معاف کیا جاسکتا ہے، چھوڑیں اسے، اسے پتہ ہی نہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ پاکستانی سیاست میں پیرا شوٹ سے آیا ہے، میں نے پاکستانی فوج کی قبائلی علاقوں میں جانے پر مذمت کی۔ اس وجہ سے مجھے طالبان کا حامی سمجھا گیا۔ یہ دراصل جارج بش قسم کی چیز تھی کہ یا تو آپ ایک طرف ہوتے ہیں یا دوسری طرف، یعنی اگر آپ دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں شامل نہیں تو آپ دہشتگردوں کے ساتھ ہیں۔ تو یہ معصومانہ اور احمقانہ سی بات ہے۔
میزبان: اچھا تو پھر یہ بتائیں کہ طالبان کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟ کیونکہ جون 2002 میں آپ نے ورکرز کنوینشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ طالبان کے نظام انصاف سے بہت متاثر اور مطمئن ہیں اور آپ طاقت میں آنے کے بعد ملک میں طالبان والا نظام انصاف ہی رائج کریں گے۔
عمران خان : مجھے بتانے دیں کہ طالبان کا نظام انصاف کیسا ہے کیا ہے۔ یہ وہ نظام تھا جو کہ پشتون کے قبائلی علاقوں میں تھا اور یہ کیا ہے؟ ہر علاقے کی ایک ہر گاؤں کی ایک جیوری ہوتی ہے، وہ معاملات کو سنتی ہے، لوگوں کو مفت انصاف ملتا ہے۔ غریب کو انصاف تک رسائی ملتی ہے، کچھ دیر کے لیے طالبان کو بھول جائیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقے اس دہشتگردی کے خلاف جنگ سے پہلے تک سب سے زیادہ پر امن علاقے تھے۔ وجہ کیا تھی؟ انصاف تک رسائی، کہ جیوری ہر گاؤں کی ہوتی تھی، وہ دونوں فریقین کو سنتی تھی اور انصاف کرتی تھی۔ اور وہ علاقے جرائم سے پاک تھے۔
میزبان: کیا آپ نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہے عمران؟ کیونکہ یہ بات آپ نے 2002 میں کی، جبکہ 2014 میں انہی پاکستانی طالبان نے پشاور سکول پر حملہ کیا جس میں قریبا 145 لوگوں کو جن میں تقریباً سب بچے ہی تھے قتل کیا۔ ملالہ پر بھی پاکستانی طالبان نے قاتلانہ حملہ کیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے آپ کو اپنا نمائندہ بننے کا بھی کہا لیکن آپ نے انکار کر دیا کہ آپ اپنا نمائندہ خود منتخب کریں لیکن میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ایسا لگتا ہے جیسے وہ آپ کو پسند کر تے ہیں۔
عمران خان : زینب، 2002 میں کوئی پاکستانی طالبان نہیں تھے۔ اور جب میں نے وہ بات کی تھی وہ افغان طالبان کے بارے میں تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خانہ جنگی کے شکار تباہ شدہ افغانستان کو پرامن بنا دیا تھا۔ اگر آپ ملا ضعیف کی کتاب ”لونگ ود طالبان“ پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ انہوں نے ایسا پشتون نظام انصاف پر عمل کر کے کیا تھا جو ایک جرگہ سسٹم ہے۔ اس سے امن آیا تھا۔
سنہ 2002 میں پاکستانی طالبان وجود نہیں رکھتے تھے۔ پاکستانی طالبان 2006 میں بنے، اور میں ایک بار پھر بتاتا چلوں کہ آج ہمارے پاس پختونخوا میں وہی پولیس کا نظام ہے، جس میں ایک جیوری ہوتی ہے اور لوگ انصاف تک رسائی رکھتے ہیں اور یہ بہت مقبول ہے کیونکہ غریب لوگ وکیل تک رسائی نہیں رکھتے۔
میزبان: کیا آپ پاکستانی طالبان سے اب بات کرتے ہیں؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ معاملات طے کر سکتے ہیں؟
عمران خان: وزیرستان آپریشن کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ طالبان کو افغانستان میں دھکیلا جا چکا ہے۔ اب پاکستان میں مشکل سے کوئی جنگجو موجود ہے۔ ہمیں دراصل اب داعش سے اصل مسئلہ ہے کیونکہ یہ افغانستان میں پاکستانی سرحدوں پر موجود ہے۔ اور مستقبل میں زیادہ خطرہ داعش سے ہے۔
میزبان : اچھا اب دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتےہوئے میں امریکہ کو لے کر کچھ بات کرنا چاہوں گی کیونکہ آپ کی جماعت کی جانب سے امریکہ مخالف جذبات کافی دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ شیریں مزاری نے پچھلے دنوں کہا کہ جو بھی امریکہ کا دوست ہے وہ غدار ہے۔ امریکہ نے پاکستان کو 60 سالوں تقریبا 67 بلین ڈالرز دیے۔ مانا کہ زیادہ تر جنگی امداد کی مد میں دیے گئے۔ ظاہر ہے امریکہ آپ کے لیے بہت سخی ثابت ہوا ہے تو آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔ کیا آپ امریکہ مخالف ہیں؟
عمران خان : پہلی بات تو یہ کہ شیریں مزاری کے اپنے نظریات اور سوچ ہیں اور ہر سیاسی جماعت میں یہ سب ہوتا ہے، متضاد سوچیں ہوتی ہیں۔ لیکن مجھے اسے واضح کرنے دیں کہ پاکستان اور امریکہ کو دوست بننا ہوگا، امریکہ سپر پاور ہے، لیکن جو بات ہمیں دکھ دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ افغان معاملات کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ جبکہ ہم وہ ملک ہیں جس نے امریکہ کی جنگ قربانی کا بکرا بنا کر 70 ہزار سے زائد لوگ شہید کروائے، ہماری معیشت کو 100 ارب ڈالر ز سے زیادہ کا نقصان پہنچا کیونکہ جنرل مشرف نے ہمیں ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جو ہماری جنگ نہیں تھی۔ اور میں نے اس کی مخالفت کی، اور آخر میں ہمیں پھر ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور ہمیں غلط طور پر امریکہ کی افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا۔
میزبان : کیا اب آپ امریکہ مخالف ہیں؟
عمران خان : اگر میں پاکستانی حکومت کی پالیسیز کی مخالفت کرتا ہوں تو کیا میں پاکستان مخالف ہوں؟ اگر آپ امریکہ میں حکومت کی کسی پالیسی کی مخالفت کرتی ہیں تو کیا آپ اینٹی امریکہ ہیں۔
میزبان : اچھا تو اب آخر کار میں آپ کے سامنے یہ بات لے آئی ہو ں آپ کی ذاتی زندگی نے گزشتہ کچھ عرصہ میں بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ جیسا کہ آپ کی تین شادیاں، جیسے امیرزادی جمائمہ، اور گلیمرس ٹی وی ہوسٹ ریحام سے شادی، کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ آپ کے پیروکاروں میں آپ کا جو ایک بڑا پرہیزگار ٹائپ امیج ہوتا ہے اسے تھوڑا سا داغدار کرتی ہیں؟
عمران خان : نہیں دیکھیں، ذاتی زندگیوں میں بہت سے مسائل ہوتے ہیں، بہت سی چیزیں ہمیں متاثر کرتی ہیں۔ میں بھی اسی قسم کے حالات میں رہا ہوں۔ یہ میری تیسری شادی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ پبلک کا اس سے کوئی تعلق بنتا ہے۔
میزبان : عمران خان آپ کا بے حد شکریہ۔
عمران خان: شکریہ۔
ربط