'عمران خان کنٹینر سے اتریں اور وزیراعظم بنیں'

لاک ڈاؤن مسلط کرنے والی ایلیٹ کلاس کون ہے، بلاول بھٹو
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 01 مئ 2020




5eac0fb52be91.png

بلاول بھٹو کراچی میں پریس کانفرنس کررہے تھے—فوٹو:ڈان نیوز


پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کورونا وائرس کے خلاف اقدامات پر وفاقی حکومت پر عدم تعاون کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن میں توسیع کا اعلان وفاقی وزیر نے خود کیا تھا تو کیا یہ ایلیٹ کلاس ہیں۔

کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر کے ہمرا پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو نے کہا کہ 'اس مرض کا خطرہ سب سے زیادہ غریب عوام کو ہے، لیاری میں زیادہ متاثرین ہیں لیکن وفاق کی جانب سے کوئی تعاون فراہم نہیں کیا جارہا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اب تک صوبائی حکومتیں 90 فیصد کام اپنے زور پر کر رہی ہیں، آج تک وفاقی حکومت کی طرف سے ٹیسٹ کی صلاحیت بڑھانے، صحت کا نظام بہتر کرنے اور ریلیف آپریشن، معیشت کو سنبھالنے کے لیے ہمارے صوبے کو ایک پیسہ نہیں ملا ہے'۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 'وفاق نے تمام ذمہ داری صوبوں پر ڈال رکھی ہے اور خود کیا کام کرنے کو تیار ہے؟ کیا ذمہ داری نبھانے کو تیار ہے؟ وفاق کا خرچ دفاع اور ہمارا پیسہ قرضوں کی ادائیگی میں جاتا ہے لیکن اس وقت نہ تو کوئی جنگ لڑنی ہے اور نہ ہی قرضوں پر زور دینا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم سب نے مل کر اس وبا کے خلاف لڑنا ہے، صوبائی حکومتیں اپنے وسائل خرچ کررہی ہیں لیکن وفاق کیا مدد کرنے کو تیار ہے؟ جب کوئی صوبہ وفاق سے ہسپتال کے بستروں میں اضافے اور ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں مدد کے لیے بات کرتا ہے تو اس کا مطلب آپ پر تنقید نہیں ہے بلکہ آپ سے درخواست کررہے ہیں کہ مدد کریں'۔

وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہ ایک قومی اور انسانی بحران ہے، اس کا مقابلہ کوئی صوبہ، کوئی یونین کونسل اور کوئی میئر اکیلا نہیں کرسکتا ہے'۔

انہوں نے کہ 'یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارا وزیراعظم اس بحران کے دوران دن میں کوئی اور بیان دیتا ہے اور رات کو کوئی اور بیان دیتا ہے'۔

'لاک ڈاؤن میں توسیع کا اعلان وفاقی وزیر نے کیا'
بلاول بھٹو نے وزیراعظم کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ کون سی ایلیٹ ہے جس نے ہم پر لاک ڈاؤن عائد کردیا ہے'۔

ان کہنا تھا کہ 'اس وقت 9 مئی تک جو لاک ڈاؤن ہے جس کی توسیع ای سی سی کے حالیہ اجلاس میں خیبر پختونخوا اور پنجاب حکومت کی تجویز پر کی گئی ہے اور اس کا اعلان بھی وفاقی وزیر نے کیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'تو کیا یہ ایلیٹ ہے جنہوں نے ہم پر لاک ڈاؤن مسلط کیا ہے، ہمارے وزیراعظم کو کون سمجھائے گا کہ آپ کنٹینر پر نہیں ہیں اور ہم مشکل ترین قومی بحران کا سامنا کررہے ہیں اس لیے کنٹینر سے اترو اور اپنا کام کرو'۔

یہ بھی پڑھیں:سندھ نے 3 ہسپتالوں کو کورونا مریضوں پر پلازما تھراپی کے ٹرائل کی اجازت دے دی

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 'جب ہمارے عوام اس مرض کے باعث خطرے میں ہیں اور غریب عوام متاثر ہوتے ہیں تو حکومت کی طرف دیکھتے ہیں کہ ہماری مدد کریں گے'۔

وزیراعظم عمران خان کے بیانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اس طرح کے بیانات سے کورونا کے خلاف ہماری تمام کوششوں اور حکمت عملی کو نظر انداز کیا جاتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں نے شروع میں کہا تھا کہ ہمیں ایک محاذ پر کورونا کے خلاف لڑنا ہے اور دوسرے محاذ پر اپنی معیشت کو سنبھالنا ہے لیکن دونوں محاذوں پر وفاقی حکومت ناکام رہی ہے'۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ 'وفاقی حکومت ٹیسٹ کی صلاحیت بڑھانے کے لیے نہ ہماری مدد کرنے کو تیار ہے، ہمارے لیب کی صلاحیت بڑھانے کو تیار ہے، نہ ہمارے آئسولیشن سینٹر، قرنطینہ مراکز اور ہسپتالوں میں اضافہ کرنے کو تیار ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہماری معیشت سنبھالنے اور دہاڑی دار طبقے کو ریلیف پہنچانے کو بھی وہ تیار نہیں ہیں، زرعی پیکج کا اعلان کیا تھا جو ابھی تک نہیں آیا، فوڈ سیکیورٹی اس ملک میں سب سے اہم ذمہ داری ہے'۔

'ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں اٹھارویں ترمیم پر بات کرتے ہیں'
بلاول بھٹو نے کہا کہ 'یہی لوگ اٹھارویں ترمیم پر بات کرتے ہیں لیکن اپنی کوئی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر وزیر اعظم خود دلچسپی نہیں لے رہا ہے اور اسلام آباد کا وزیراعظم رہنا چاہتا ہے تو پھر اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا'۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ 'آج بھی ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت کو ہمارا ساتھ دینا پڑے گا اور ہر صوبے کو ٹیسٹ کی صلاحیت بڑھانے کے لیے تعاون کرنا پڑے گا'۔

کوورونا وائرس کے ٹیسٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'سندھ کے سوا تمام صوبوں میں ٹیسٹ کرنے کی تعداد میں کمی آئی ہے اس کی وجہ یہ ہے سندھ 90 فیصد اپنے طور پر ٹیسٹ کا نظام چلارہا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وفاقی حکومت کو تمام صوبوں کی صحت کے نظام، لاک ڈاؤن میں نرمی یا ختم کرنے کے لیے مدد کرنی چاہیے'۔

مزید پڑھیں:لاک ڈاؤن کے باعث معاشی سرگرمیاں متاثر ہونے سے مزدور طبقہ مشکلات کا شکار

لاک ڈاؤن کی پالیسی پر ان کا کہنا تھا کہ 'اگر مکمل لاک ڈاؤن بھی کریں تب بھی ہمارے ہسپتالوں پر زور آئے گا اور لاک ڈاؤن میں نرمی کرتے ہیں تو اس سے زیادہ دباؤ ہوگا اور اگر لاک ڈاؤن بالکل ختم کرتے ہیں تو بہت زیادہ دباؤ آئے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت قیادت وزیراعظم نے کرنا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو ہماری مخالفت تو نہ کریں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر آپ صحت کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں دے سکتے ہیں تو کم ازکم لوگو ں کو اتنا تو کہیں کہ گھروں میں رہیں جو عالمی ادارہ صحت کے بیانیے کو نظرانداز نہیں کریں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا اس وبا سے باہر نکلے گی تو ہر ملک کے انتظامات کے بارے میں لکھا جائے گا تو کیا ہم وہ واحد ملک ہونا چاہتے ہیں جو ڈاکٹروں، طبی عملے اور اپنے غریبوں کو ریلیف نہیں پہنچایا۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ 'پاکستان نے ہر بحران کا سامنا کیا ہے اور اس سے نکلا ہے، بھارت اور افغانستان کے درمیان میں رہ جی رہے ہیں، ہم نے دہشت گردی کو ختم کیا ہے اور اب اس بیماری کا مقابلہ بھی کرسکتے ہیں'۔

'وفاقی حکومت کے پاس مالی استعداد ہے'
بلاول بھٹو نے کہا کہ 'وفاقی حکومت کے پاس اب مالی مواقع ہیں اور کورونا کے نام پر ان کو یہ مالی موقع ملا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک، جی 20 ممالک اور سب سے زیادہ تیل کی قیمتوں میں کمی سے اب آپ کے مالی استعداد ہے'۔

یہ بھی پڑھیں:مکمل لاک ڈاؤن کا فارمولا پاکستان اور امریکا جیسے ممالک میں ناکام ہوگیا، شبلی فراز

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ 'آپ یہ پیسہ کہاں خرچ کرنا چاہتے ہیں، خرچ کرنا ہے تو ہمارے ڈاکٹراور پیرامیڈیکل اسٹاف پر خرچ کرو اور دہاڑی دار کے ہاتھ میں اب پیسہ دو'۔

انہوں نے کہا کہ یہ پی پی پی کے مطالبات تھے اور صوبائی حکومت کی جانب سے ریلیف دیتے رہیں گے

بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیراعظم کام کریں اور وزیراعظم بن کر دکھائیں ورنہ خود استعفیٰ دے کر چلے جائیں، اس وقت پاکستان اس وبا کے علاوہ کسی اور طرف توجہ نہیں دے سکتا ہے۔

یوم مئی کا پیٖغام دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ڈاکٹر، پیرامیڈیکس اور دیگر کوسلام پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر کے ہمرا پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو نے کہا کہ 'اس مرض کا خطرہ سب سے زیادہ غریب عوام کو ہے، لیاری میں زیادہ متاثرین ہیں لیکن وفاق کی جانب سے کوئی تعاون فراہم نہیں کیا جارہا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اب تک صوبائی حکومتیں 90 فیصد کام اپنے زور پر کر رہی ہیں، آج تک وفاقی حکومت کی طرف سے ٹیسٹ کی صلاحیت بڑھانے، صحت کا نظام بہتر کرنے اور ریلیف آپریشن، معیشت کو سنبھالنے کے لیے ہمارے صوبے کو ایک پیسہ نہیں ملا ہے'۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ 'وفاق نے تمام ذمہ داری صوبوں پر ڈال رکھی ہے اور خود کیا کام کرنے کو تیار ہے؟ کیا ذمہ داری نبھانے کو تیار ہے؟ وفاق کا خرچ دفاع اور ہمارا پیسہ قرضوں کی ادائیگی میں جاتا ہے لیکن اس وقت نہ تو کوئی جنگ لڑنی ہے اور نہ ہی قرضوں پر زور دینا ہے'۔
بلاول زرداری کو معلوم ہونا چاہئے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سے صوبوں میں لاک ڈاؤن اور اس سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے نبٹنے کی آئینی ذمہ داری صوبائی حکومت پر آتی ہے۔ ملک کے دیگر صوبے اپنے اپنے طور پر معاشی پیکیجز دے رہے ہیں لیکن سندھ حکومت وفاق کی طرف دیکھ رہی ہے۔ آپ 18ویں ترمیم واپس لیں تاکہ آپ کے حصہ کی ذمہ داری بھی وفاقی حکومت اٹھائے یا دیگر صوبوں کی طرح سندھ حکومت کے بجٹ سے عوام کو معاشی ریلیف فراہم کریں۔
18 ویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوار ڈ کے تحت وفاق سے پیسے لینے ہوں تو میٹھا میٹھا۔ اور جب اس پیسے سے عوام کو ریلیف دینا ہو تو کڑوا کڑوا نہیں چلے گا۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ خود بھگتیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
Impossible! Irreversible reaction.
اپوزیشن کا تقاضا بس اتنا سا ہے کہ عمران خان کنٹینر سے اترے اور ان کے ساتھ ہاتھ ملا لے۔ Impossible! Irreversible reaction.
عمران خان نے 22 سال جدوجہد اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کیلئے نہیں کی تھی۔ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے سے بہتر ہے وہ کنٹینر پر ہی اکیلا اور ڈٹ کر کھڑا رہے۔
 
Top