عمران خان کی آرمی پبلک سکول آمد پر والدین کا احتجاج
عزیز اللہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
سکول کے باہر موجود مظاہرین نے شدید احتجاج کیا اور ’گو عمران گو‘ کے نعرے لگائے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی پشاور میں طالبان کے حملے کا نشانہ بننے والے آرمی پبلک سکول آمد کے موقع پر اس حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین نے احتجاج کیا ہے۔
16 دسمبر 2014 کو اس سکول پر طالبان کے حملے میں 134 طلبا سمیت 143 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت کے چیئرمین اپنی اہلیہ اور صوبائی قیادت کے ہمراہ بدھ کی صبح جب اس واقعے کے تقریباً ایک ماہ بعد سکول پہنچے اور طلبا اور کچھ والدین سے ملاقات کی۔
اس دوران کچھ والدین نے ان سےگلے شکوے کیےاور کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے صوبے میں کچھ نہیں کیا اور ان کی بچوں کی ہلاکت پر سیاست کی جا رہی ہے۔
عمران خان کی آمد کے موقع پر سکول کے باہر موجود مظاہرین نے شدید احتجاج کیا اور ’گو عمران گو‘ کے نعرے لگائے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے مشکل وقت میں تو انھیں تنہا چھوڑ دیا اور واقعے کے ایک ماہ بعد وہاں کیا کرنے آئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے احتجاج میں شریک ایک والد نے کہا کہ یہ احتجاج اس لیے نہیں کیا گیا کہ ’ہم کوئی معاوضہ مانگ رہے ہیں ہمیں اپنے بچوں کے خون کا حق چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے بچے شہید ہوئے ہیں۔ ہم سب سر پہ کفن باندھ کر یہاں کھڑے ہوئے ہیں، ہم اپنے بچوں کے سامنے سرجھکا کر نہیں سر اٹھا کر جائیں گے، چاہے ہمیں کوئی مارے چاہے وہ جو کوئی بھی ہے۔‘
بچوں کو شہید ہوئے اب تک ایک مہینہ بھی پورا نہیں ہوا اور عمران خان نے شادی رچا لی ہے۔ ہمارے دلوں پہ چھریاں چل رہی ہیں اور آپ نے آرام سے شادی کر لی۔
مظاہرے میں شریک خاتون
موقع ہر موجود ایک خاتون کا کہنا تھا کہ عمران خان کیسے ان بچوں کے والدین کا ساتھ دینے کی بات کرتے ہیں کہ جب انھیں اپنی خوشیاں اتنی عزیز تھیں کہ ان کا غم بھول گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’بچوں کو شہید ہوئے اب تک ایک مہینہ بھی پورا نہیں ہوا اور عمران خان نے شادی رچا لی ہے۔ ہمارے دلوں پہ چھریاں چل رہی ہیں اور آپ نے آرام سے شادی کر لی۔‘
والدین کا کہنا تھا کہ وہ صرف عمران خان نہیں بلکہ نواز شریف اور دیگر رہنماؤں کو بھی یہاں نہیں آنے دیں گے کیونکہ یہ سب ان کے بچوں پر سیاست کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لوگ وی آئی پیز کی طرح آتے ہیں زمین پر پاؤں بھی نہیں رکھتے انھیں کیا معلوم کہ زمین پر رہنے والے کس حال میں ہیں۔‘
مظاہرین کے احتجاج کی وجہ سے عمران خان کو سکول کے عقبی دروازے سے باہر لے جایا گیا۔
اس موقع پر مشتعل والدین نے عمران خان اور وزیراعلیٰ کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور اس موقع پر دھکم پیل بھی ہوئی تاہم پولیس نے عمران خان کا دو درجن سے زیادہ گاڑیوں پر مشتمل قافلہ وہاں سے نکلوا دیا۔
’حوصلہ بڑھانے آیا تھا‘
احتجاج میں شامل والدین کا شکوہ تھا کہ عمران خان نے ان کے بچوں کی ہلاکت کا ایک ماہ گذرنے سے پہلے ہی شادی رچا لی
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کرنے والوں میں والدین تو شامل تھے تاہم ایک دو لوگ ایسے تھے جو سیاسی لگ رہے تھے۔
عمران خان نے پریس کانفرنس کے آغاز میں بتایا کہ آرمی پبلک سکول میں بچوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا تاہم اس سے قبل باہر موجود والدین نے احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ گاڑی سے اتر کر نیچے گئے اور والدین سے پوچھا کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟
’آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ میں گاڑی سے اتر کر ان کے پاس گیا پوچھنے کے لیے کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں ان میں والدین بھی تھے لیکن ایک دو لوگ مجھے ماں باپ نہیں لگے وہ سیاسی تھے۔‘
تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا کہ وہ 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول آنا چاہ رہے تھے لیکن انھیں کہا گیا کہ وہ بعد میں آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا مقصد خوف پھیلانے کا نہیں بلکہ میرا آنے کا مقصد یہ تھا کہ خوف دور کیا جائے۔‘ عمران خان نے کہا کہ وہ ایک پیغام دینا چاہتے تھے کہ دہشت گردی سے ڈرتے نہیں ہیں اور وہ والدین کا حوصلہ بڑھانے آئے تھے انھوں نے ہمارا حوصلہ بڑھایا۔
احتجاج منصوبہ بندی کے مطابق کیا گیا
ادھر صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ احتجاج منصوبہ بندی کے مطابق کیا گیا کیونکہ سکول کے اندر تو بچوں اور والدین نے عمران خان کا والہانہ استقبال کیا اور تحریک انصاف کے حق میں نعرہ بازی کی۔
انھوں نے کہا کہ میڈیا صرف باہر کے مناظر دکھا رہا ہے جبکہ سکول کے اندر بڑی تعداد میں بچوں نے عمران خان کا والہانہ استقبال کیا اور عمران خان نے بچوں کے ساتھ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزارا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آرمی سکول کی انتظامیہ نے میڈیا کو اندر کیمرے لے جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔
مشتاق غنی نے کہا کہ کسی بھی پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہے اور آئندہ وہ کسی بھی لیڈر کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں ہونے دیں گے
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ والدین کے احتجاج کو کسی پارٹی کی سازش قرار نہیں دینا چاہیے۔
میاں افتخار حسین نے کہا کہ اگر والدین احتجاج کر رہے تھے تو انھیں تسلی دی جانی چاہیے تھیں ان پر تشدد نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔
عزیز اللہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
سکول کے باہر موجود مظاہرین نے شدید احتجاج کیا اور ’گو عمران گو‘ کے نعرے لگائے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی پشاور میں طالبان کے حملے کا نشانہ بننے والے آرمی پبلک سکول آمد کے موقع پر اس حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین نے احتجاج کیا ہے۔
16 دسمبر 2014 کو اس سکول پر طالبان کے حملے میں 134 طلبا سمیت 143 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت کے چیئرمین اپنی اہلیہ اور صوبائی قیادت کے ہمراہ بدھ کی صبح جب اس واقعے کے تقریباً ایک ماہ بعد سکول پہنچے اور طلبا اور کچھ والدین سے ملاقات کی۔
اس دوران کچھ والدین نے ان سےگلے شکوے کیےاور کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے صوبے میں کچھ نہیں کیا اور ان کی بچوں کی ہلاکت پر سیاست کی جا رہی ہے۔
عمران خان کی آمد کے موقع پر سکول کے باہر موجود مظاہرین نے شدید احتجاج کیا اور ’گو عمران گو‘ کے نعرے لگائے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے مشکل وقت میں تو انھیں تنہا چھوڑ دیا اور واقعے کے ایک ماہ بعد وہاں کیا کرنے آئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے احتجاج میں شریک ایک والد نے کہا کہ یہ احتجاج اس لیے نہیں کیا گیا کہ ’ہم کوئی معاوضہ مانگ رہے ہیں ہمیں اپنے بچوں کے خون کا حق چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے بچے شہید ہوئے ہیں۔ ہم سب سر پہ کفن باندھ کر یہاں کھڑے ہوئے ہیں، ہم اپنے بچوں کے سامنے سرجھکا کر نہیں سر اٹھا کر جائیں گے، چاہے ہمیں کوئی مارے چاہے وہ جو کوئی بھی ہے۔‘
بچوں کو شہید ہوئے اب تک ایک مہینہ بھی پورا نہیں ہوا اور عمران خان نے شادی رچا لی ہے۔ ہمارے دلوں پہ چھریاں چل رہی ہیں اور آپ نے آرام سے شادی کر لی۔
مظاہرے میں شریک خاتون
موقع ہر موجود ایک خاتون کا کہنا تھا کہ عمران خان کیسے ان بچوں کے والدین کا ساتھ دینے کی بات کرتے ہیں کہ جب انھیں اپنی خوشیاں اتنی عزیز تھیں کہ ان کا غم بھول گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’بچوں کو شہید ہوئے اب تک ایک مہینہ بھی پورا نہیں ہوا اور عمران خان نے شادی رچا لی ہے۔ ہمارے دلوں پہ چھریاں چل رہی ہیں اور آپ نے آرام سے شادی کر لی۔‘
والدین کا کہنا تھا کہ وہ صرف عمران خان نہیں بلکہ نواز شریف اور دیگر رہنماؤں کو بھی یہاں نہیں آنے دیں گے کیونکہ یہ سب ان کے بچوں پر سیاست کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لوگ وی آئی پیز کی طرح آتے ہیں زمین پر پاؤں بھی نہیں رکھتے انھیں کیا معلوم کہ زمین پر رہنے والے کس حال میں ہیں۔‘
مظاہرین کے احتجاج کی وجہ سے عمران خان کو سکول کے عقبی دروازے سے باہر لے جایا گیا۔
اس موقع پر مشتعل والدین نے عمران خان اور وزیراعلیٰ کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور اس موقع پر دھکم پیل بھی ہوئی تاہم پولیس نے عمران خان کا دو درجن سے زیادہ گاڑیوں پر مشتمل قافلہ وہاں سے نکلوا دیا۔
’حوصلہ بڑھانے آیا تھا‘
احتجاج میں شامل والدین کا شکوہ تھا کہ عمران خان نے ان کے بچوں کی ہلاکت کا ایک ماہ گذرنے سے پہلے ہی شادی رچا لی
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کرنے والوں میں والدین تو شامل تھے تاہم ایک دو لوگ ایسے تھے جو سیاسی لگ رہے تھے۔
عمران خان نے پریس کانفرنس کے آغاز میں بتایا کہ آرمی پبلک سکول میں بچوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا تاہم اس سے قبل باہر موجود والدین نے احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ گاڑی سے اتر کر نیچے گئے اور والدین سے پوچھا کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟
’آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ میں گاڑی سے اتر کر ان کے پاس گیا پوچھنے کے لیے کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں ان میں والدین بھی تھے لیکن ایک دو لوگ مجھے ماں باپ نہیں لگے وہ سیاسی تھے۔‘
تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا کہ وہ 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول آنا چاہ رہے تھے لیکن انھیں کہا گیا کہ وہ بعد میں آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا مقصد خوف پھیلانے کا نہیں بلکہ میرا آنے کا مقصد یہ تھا کہ خوف دور کیا جائے۔‘ عمران خان نے کہا کہ وہ ایک پیغام دینا چاہتے تھے کہ دہشت گردی سے ڈرتے نہیں ہیں اور وہ والدین کا حوصلہ بڑھانے آئے تھے انھوں نے ہمارا حوصلہ بڑھایا۔
احتجاج منصوبہ بندی کے مطابق کیا گیا
ادھر صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ احتجاج منصوبہ بندی کے مطابق کیا گیا کیونکہ سکول کے اندر تو بچوں اور والدین نے عمران خان کا والہانہ استقبال کیا اور تحریک انصاف کے حق میں نعرہ بازی کی۔
ہم کوئی معاوضہ مانگ رہے ہیں ہمیں اپنے بچوں کے خون کا حق چاہیے۔۔۔ہمارے بچے شہید ہوئے ہیں۔ ہم سب سر پہ کفن باندھ کر یہاں کھڑے ہوئے ہیں، ہم اپنے بچوں کے سامنے سرجھکا کر نہیں سر اٹھا کر جائیں گے، چاہے ہمیں کوئی مارے چاہے وہ جو کوئی بھی ہے۔
مظاہرے میں شریک ایک شخص
انھوں نے ایک ہنگامی اخباری کانفرنس میں کہا کہ ہجوم عمران خان کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھا صرف مسلم لیگ نواز اور عوامی نیشنل پارٹی کے آٹھ سے دس افراد نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی جسے ذرائع ابلاغ احتجاج کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔مظاہرے میں شریک ایک شخص
انھوں نے کہا کہ میڈیا صرف باہر کے مناظر دکھا رہا ہے جبکہ سکول کے اندر بڑی تعداد میں بچوں نے عمران خان کا والہانہ استقبال کیا اور عمران خان نے بچوں کے ساتھ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزارا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آرمی سکول کی انتظامیہ نے میڈیا کو اندر کیمرے لے جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔
مشتاق غنی نے کہا کہ کسی بھی پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہے اور آئندہ وہ کسی بھی لیڈر کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں ہونے دیں گے
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیرِ اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ والدین کے احتجاج کو کسی پارٹی کی سازش قرار نہیں دینا چاہیے۔
میاں افتخار حسین نے کہا کہ اگر والدین احتجاج کر رہے تھے تو انھیں تسلی دی جانی چاہیے تھیں ان پر تشدد نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔