عمران خان کے احتجاج نے وزیراعظم نواز شریف کو کمزور کردیا ہے۔

لندن (ویب ڈیسک) عمران خان کے احتجاج نے وزیراعظم نواز شریف کو کمزور کردیا ہے۔ نواز شریف کے کمزور ہونے کی اس صورتحال کا فوج کو فائدہ ہوا۔ برطانوی جریدے ”اکانومسٹ“ نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف کی بدقسمتی کہ ان کے بھارتی ہم منصب ان سے تعاون نہیں کریں گے کیونکہ بھارت کے قوم پرست وزیراعظم نریندری مودی نے بھانپ لیا ہے کہ ان کے عوام پاکستان کے خلاف سخت پالیسی چاہتے ہیںلہٰذا انہوں نے اگست میں امن مذاکرات ختم کردئیے اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی سرحد پر بھارتی فوج کو فری ہینڈ دے دیا۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان نواز شریف کو اقتدار سے نکال کرنئے انتخابات چاہتے ہیں یا فوج کی حمایت یافتہ ٹیکنو کریٹ کی حکومت یا وہ خود وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تاہم نواز شریف کے ساتھ پارلیمنٹ ہے اور فوج بھی جمہوریت کو معطل کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی جس سے عمران خان بپھرے نظر آتے ہیں۔ جریدہ لکھتا ہے کہ ایسی صورت بھی نہیں کہ عمران کی وسیع پیمانے پر مقبولیت ہے۔ پول بتاتے ہیں کہ انہیں 18 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں، تاہم قومی سطح پر ان کی اپیل زوال پذیر ہے۔ عمران کرشماتی ہیں لیکن سمجھوتوں کے لئے انتہائی کم صلاحیت کے مالک ہیں۔ نواز شریف کے قریبی ساتھی نے بتایا کہ ابتدائی دنوں میں نواز شریف کسی بھی پالیسی پر فوج سے مشورہ نہیں کیا کرتے تھے۔ مئی میں مودی کی حلف برداری میں جانے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا۔ انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے پر اصرار کیا۔ تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ ایسے غلبہ کی صورتحال ختم ہوگئی۔ نواز شریف کے کمزور ہونے سے فوج کو فائدہ ہوا۔ جریدہ لکھتا ہے کہ کیا نواز شریف فوج کے ساتھ واضح تصادم سے گریز کرسکتے ہیں؟ وہ مشرف کے خلاف مقدمہ چلائیں گے۔ خارجہ اور سلامتی پالیسی کو چھوڑنے پر مزاحمت کریں گے۔ مشرف کے مقدمے کی سماعت اور عمران خان کے احتجاج سے نومبر اہم موڑ ثابت ہوگا۔ جریدہ لکھتا ہے کہ اگر واہگہ حملے کا محل وقوع دیکھا جائے توبھارتیوں پر اس کا شک جاسکتا ہے مگر زیادہ تر امکان عسکریت پسندوں کا ہے، پنجاب میں ہی ایک اور چھوٹا مگر ہولناک واقعہ کوٹ رادھا کشن کا سامنے آیا۔ دونوں حملے نواز شریف کی مستحکم حکمرانی کی صلاحیت پر شکوک کا اظہار ہیں۔ وزیراعظم کے قریبی ساتھی بھی تشویش میںمبتلا ہیں کہ ان کی بڑی کامیابی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر انہیں برقرار رکھنا ہوگا۔
یہ دراصل اکانومسٹ کی خبر ہے جو یہاں موجود ہے۔
 
اس خبر میں ایک نوٹ کرنے والی یہ ہے کہ نواز کی اقتدار پر گرفت تو کمزور ہوئی لیکن عوامی مقبولیت میں کمی نہیں ہوئی جبکہ دوسری ترجیح ہونے کی حیثیت ختم ہونے سے دوسرے لفظوں عمران کی مقبولیت میں کمی نظر آرہی ہے۔
میرا خیال ہے کہ دھرنے کے دوران عمران نے اپنا ایک ایسا تاثر چھوڑا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران ایسا انسان ہے جس پر سنجیدہ معاملات میں انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لئے جو لوگ عمران کو نواز کے بعد دوسری ترجیح سمجھتے تھے اب اسے دوسری ترجیح نہیں سمجھتے۔
 
Top