عمران خان کے بیان کے بعد بھارتی سیاست میں ہلچل، اپوزیشن کی مودی پر چڑھائی

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کے بیان کے بعد بھارتی سیاست میں ہلچل، اپوزیشن کی مودی پر چڑھائی
198878_6372050_updates.jpg

وزیراعظم پاکستان کے بیان کو بھارتی اپوزیشن جماعتیں پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ فوٹو: فائل
نئی دہلی: وزیراعظم عمران خان کے بیان کے بعد بھارت میں اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت کو ہدف بنالیا اور بھارت میں ایک نئی بحث چڑھ گئی۔

غیرملکی ادارے رائٹر کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے غیرملکی صحافیوں کو انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ اگر بھارت کے انتخابات میں کانگریس کے مقابلے میں نریندر مودی کی جماعت کامیاب ہوئی تو کشمیر کے مسئلے پر امن مذاکرات میں پیش رفت کا امکان ہے۔

وزیراعظم پاکستان کے اس بیان کو بھارتی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بی جے پی کے خلاف استعمال کرتے ہوئے نریندر مودی اور ان کی جماعت پر 'پاکستان کی زبان' بولنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجیوالا نے ٹوئٹر بیان میں کہا کہ پاکستان سرکاری طور پر مودی کا اتحادی بن چکا ہے، مودی کو ووٹ دینے کا مطلب پاکستان کو ووٹ دینا ہے۔

کانگریس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ نریندر مودی کے پہلے نواز شریف دوست تھے اور اب عمران خان ہیں، خفیہ بات سامنے آگئی ہے۔

عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ہر شخص عمران خان کے بیان پر سوال اٹھا رہا ہے۔

یاد رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) کے انتخابات 7 مراحل میں ہوں گے جس کا باقاعدہ آغاز کل 20 ریاستوں میں پولنگ سے ہونے جارہا ہے۔

جن ریاستوں میں کل پولنگ ہوگی ان میں آندھرا پردیش، ارونچل پردیش، آسام، بہار، چتھیس گڑھ، مہاراشٹرا، مقبوضہ جموں کشمیر، مانیپور، میگھالایا، میزورام، ناگالینڈ، اودیشا، سکم، تلنگانا، اترپردیش، اترکھنڈ، مغربی بنگال، آندامن، لکشدویپ اور ترائپورا شامل ہیں۔

بھارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 18 اپریل کو 13 ریاستوں، تیسرے مرحلے میں 23 اپریل کو 14 ریاستوں میں پولنگ ہوگی اور آخری ساتویں مرحلے میں 19 مئی کو 8 ریاستوں میں پولنگ ہوگی۔
 

فرقان احمد

محفلین
عمران خان صاحب کا یہ بیان دراصل حقیقت کے عین مطابق ہے؛ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ ہندوستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے تناظر میں وہاں پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہونا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ بات اب پرانی ہو چکی اور اس کا ذکر آڈوانی نے اپنی خود نوشت میں بھی کیا ہے کہ 1998ء میں بی جے پی کے واجپائی کی حکومت بننے سے کچھ سال پہلے کسی برٹش سفارتکار نے آڈوانی سے بات کی تھی اور کہا تھا کہ کشمیر کا کوئی حل ڈھونڈنے کا بہترین موقع وہ ہو سکتا ہے جب ہندوستان میں دائیں بازو کی سخت گیر جماعت (بھاج پا) کی حکومت ہو اور پاکستان میں فوجی حکومت ہو۔ اس بات کو دیگر لوگوں نے بھی بیان کیا ہے اور بہت حد تک یہ بات صحیح ہے لیکن یہ موقع واجپائی اور جنرل مشرف نے آگرہ سمٹ میں گنوا دیا تھا اور اس کو ضائع کرنے میں بھی شاید آڈوانی ہی کا ہاتھ سب سے زیادہ تھا۔ دیکھتے ہیں دوبارہ یہ موقع کب ملتا ہے۔

بہرحال، عمران خان نے درست بات کی ہے۔
 

شکیب

محفلین
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پولز کے مطابق مودی کے جیتنے کے واضح امکانات موجود ہیں :)
کون سے پول؟ سوشل میڈیا کے؟
سب خریدا ہوا ہے۔
پول تو پلوامہ کے بعد بھی ہوا تھا جس میں کوئی پچھتر اسی فیصد"عوام" پاکستان سے جنگ چاہ رہی تھی۔ جیسے یہ معاملات پولنگ ہی سے حل ہونے والے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان کے بیان کے بعد بھارتی سیاست میں ہلچل، اپوزیشن کی مودی پر چڑھائی
198878_6372050_updates.jpg

وزیراعظم پاکستان کے بیان کو بھارتی اپوزیشن جماعتیں پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ فوٹو: فائل
نئی دہلی: وزیراعظم عمران خان کے بیان کے بعد بھارت میں اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت کو ہدف بنالیا اور بھارت میں ایک نئی بحث چڑھ گئی۔

غیرملکی ادارے رائٹر کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے غیرملکی صحافیوں کو انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ اگر بھارت کے انتخابات میں کانگریس کے مقابلے میں نریندر مودی کی جماعت کامیاب ہوئی تو کشمیر کے مسئلے پر امن مذاکرات میں پیش رفت کا امکان ہے۔

وزیراعظم پاکستان کے اس بیان کو بھارتی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بی جے پی کے خلاف استعمال کرتے ہوئے نریندر مودی اور ان کی جماعت پر 'پاکستان کی زبان' بولنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجیوالا نے ٹوئٹر بیان میں کہا کہ پاکستان سرکاری طور پر مودی کا اتحادی بن چکا ہے، مودی کو ووٹ دینے کا مطلب پاکستان کو ووٹ دینا ہے۔

کانگریس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ نریندر مودی کے پہلے نواز شریف دوست تھے اور اب عمران خان ہیں، خفیہ بات سامنے آگئی ہے۔

عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ہر شخص عمران خان کے بیان پر سوال اٹھا رہا ہے۔

یاد رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) کے انتخابات 7 مراحل میں ہوں گے جس کا باقاعدہ آغاز کل 20 ریاستوں میں پولنگ سے ہونے جارہا ہے۔

جن ریاستوں میں کل پولنگ ہوگی ان میں آندھرا پردیش، ارونچل پردیش، آسام، بہار، چتھیس گڑھ، مہاراشٹرا، مقبوضہ جموں کشمیر، مانیپور، میگھالایا، میزورام، ناگالینڈ، اودیشا، سکم، تلنگانا، اترپردیش، اترکھنڈ، مغربی بنگال، آندامن، لکشدویپ اور ترائپورا شامل ہیں۔

بھارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 18 اپریل کو 13 ریاستوں، تیسرے مرحلے میں 23 اپریل کو 14 ریاستوں میں پولنگ ہوگی اور آخری ساتویں مرحلے میں 19 مئی کو 8 ریاستوں میں پولنگ ہوگی۔

پتہ نہیں عمران خان نے کیا سوچ کر کہا ہے، لیکن بات ٹھیک ہے اور اکثریت مذاکرات ہی کی حامی ہے۔
رہی دوسری پارٹیوں کی بات تو اب الیکشن کے وقت اتنا تو ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری بات، یہ خبر لکھنے والے/ترجمہ کرنے والے کون لوگ ہیں۔ اکثر آپ کی شیئر کردہ خبروں میں شہروں کے نام الف کے اضافے کے ساتھ دیکھتا ہوں تو بڑی کوفت ہوتی ہے۔ مہاراشٹر کو مہاراشٹرا ، بنگلور کو بنگلورو۔۔۔
رام مندر کو بھی شاید راما مندر لکھتے ہوں۔ :پ
 

محمد وارث

لائبریرین
دوسری بات، یہ خبر لکھنے والے/ترجمہ کرنے والے کون لوگ ہیں۔ اکثر آپ کی شیئر کردہ خبروں میں شہروں کے نام الف کے اضافے کے ساتھ دیکھتا ہوں تو بڑی کوفت ہوتی ہے۔ مہاراشٹر کو مہاراشٹرا ، بنگلور کو بنگلورو۔۔۔
رام مندر کو بھی شاید راما مندر لکھتے ہوں۔ :پ
یہ ویسی ہی غلطی ہے جو ہندی بولنے والے، ظفر کو 'جپھر'، پھر کو 'فِر'، مزاج کو 'مجاج' وغیرہ کہہ کر کرتے ہیں۔ ویسے انگلش لکھتے ہوئے بھی ان ہندی الاصل الفاظ کے آخر میں ایک اضافی 'اے' لگایا جاتا ہے۔ ہندی میں تو شاید یہ آدھی حرکت ہے لیکن انگریزی اردو میں آ کر اے اور الف سے بدل جاتی ہے۔ :)
 

سید عمران

محفلین
یہ ویسی ہی غلطی ہے جو ہندی بولنے والے، ظفر کو 'جپھر'، پھر کو 'فِر'، مزاج کو 'مجاج' وغیرہ کہہ کر کرتے ہیں۔ :)
ہاہاہاہا۔۔۔
یہ وہی غلطی ہے جو ہمارے ایک سینئر میمن اکاؤنٹنٹ کرتے تھے۔۔۔
ایک دن اچانک کہنے لگے پتا ہے ’’سوجا سیا‘‘ ہے۔۔۔
مجال ہے جو ہم ککھ وی سمجھے ہوں۔۔۔
کئی مرتبہ پوچھا، کئی مرتبہ بتایا۔۔۔
مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔
تب ایک اور سینئر کولیگ پاس سے گزرے، سارا ماجرا سن کر معمہ حل کیا اور بتایا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ’’شجاع شیعہ‘‘ ہے۔۔۔
شجاع ہم سے پہلے اس دفتر میں کام کرتے تھے!!!
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
 

شکیب

محفلین
یہ ویسی ہی غلطی ہے جو ہندی بولنے والے، ظفر کو 'جپھر'، پھر کو 'فِر'، مزاج کو 'مجاج' وغیرہ کہہ کر کرتے ہیں۔ ویسے انگلش لکھتے ہوئے بھی ان ہندی الاصل الفاظ کے آخر میں ایک اضافی 'اے' لگایا جاتا ہے۔ ہندی میں تو شاید یہ آدھی حرکت ہے لیکن انگریزی اردو میں آ کر اے اور الف سے بدل جاتی ہے۔ :)
اسی کی طرف اشارہ تھا۔ یہ اردو ترجمہ کرنے والوں کا انگریزی کے اضافی اے کو برقرار رکھنا پہلی بار دیکھا ہے۔
ہندی والوں کے لطیفے تو کسی اور لیول کے ہیں، لیکن ان پر ہنسا جا سکتا ہے۔ اردو والوں پر البتہ ہنسی نہیں آتی افسوس ہوتا ہے، اپنی زبان جو ٹھہری۔
ہندی والا مزاج کو مجاج کہتا ہے، اور اردو والا مجاز کہہ کر چار چاند لگا دیتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اسی کی طرف اشارہ تھا۔ یہ اردو ترجمہ کرنے والوں کا انگریزی کے اضافی اے کو برقرار رکھنا پہلی بار دیکھا ہے۔
ہندی والوں کے لطیفے تو کسی اور لیول کے ہیں، لیکن ان پر ہنسا جا سکتا ہے۔ اردو والوں پر البتہ ہنسی نہیں آتی افسوس ہوتا ہے، اپنی زبان جو ٹھہری۔
ہندی والا مزاج کو مجاج کہتا ہے، اور اردو والا مجاز کہہ کر چار چاند لگا دیتا ہے۔
جب کہ میں یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ انگریزی میں بھی اضافی اے کہاں سے آ جا تا ہے، کیا یہ سنسکرت ہندی حروف علت کا مزاج ہے یا انگریزی والوں کا "مجاز" ہے!
 

شکیب

محفلین
ہاہاہاہا۔۔۔
یہ وہی غلطی ہے جو ہمارے ایک سینئر میمن اکاؤنٹنٹ کرتے تھے۔۔۔
ایک دن اچانک کہنے لگے پتا ہے ’’سوجا سیا‘‘ ہے۔۔۔
مجال ہے جو ہم ککھ وی سمجھے ہوں۔۔۔
کئی مرتبہ پوچھا، کئی مرتبہ بتایا۔۔۔
مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔
تب ایک اور سینئر کولیگ پاس سے گزرے، سارا ماجرا سن کر معمہ حل کیا اور بتایا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ’’شجاع شیعہ‘‘ ہے۔۔۔
شجاع ہم سے پہلے اس دفتر میں کام کرتے تھے!!!
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
کالج میں ایک دوست بہار سے تھا۔ وہاں اردو والوں کو چھوڑ کر شاید ہی کوئی ش کا تلفظ کر سکتا ہو۔
میرے ای میل میں موجود نک نیم (شیکس) کو آنجناب س سے ادا کرتے تھے۔
:notlistening:
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے تو انگریزی ہی کی خر دماغی لگتی ہے۔
جب کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ کچھ حروف ہی کا چکر ہے جسے صحیح طور پر صرف اہلِ زبان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جیسے اردو والے ب کو بے کہتے ہیں مگر عربی والے با کہتے اسی طرح ہندی میں بھی کچھ حروف کو ایسے ہی تلفظ کیا جاتا ہے جیسے میم کو ما، کاف کو کا وغیرہ۔ یہ آخری حرکت جو مجھے میم اور کاف کے ساتھ الف کی لگ رہی ہے وہ کچھ آدھی پونی سی حرکت ہے جو الف کی آواز اور زبر کی حرکت میں کہیں گم ہے اور اسے صحیح ادا ہندی اہلِ زبان ہی کر سکتے ہیں، انگریزی والے جب میم کو رام کے اختتام پر ما کے طور پر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ اے کی شکل میں ظاہر ہو کر Rama بن جاتا ہے اور اردو والوں کے لیے انگریزی سے راما ۔ آپ کا تعلق چونکہ ہندی سے بھی رہا ہوگا اسی لیے اہلِ زبان کے ساتھ ساتھ آپ بھی پہچان جاتے ہیں کہ کس اسم یا لفظ کے اختتام پر اصلی الف ہے اور کس کے اختتام پر محض حرف تہجی کی مختصر و پوشیدہ سی حرکت ہے لیکن دوسروں کے لیے اسے پہچاننا ناممکن سا ہے۔
 

فلسفی

محفلین
ہاہاہاہا۔۔۔
یہ وہی غلطی ہے جو ہمارے ایک سینئر میمن اکاؤنٹنٹ کرتے تھے۔۔۔
ایک دن اچانک کہنے لگے پتا ہے ’’سوجا سیا‘‘ ہے۔۔۔
مجال ہے جو ہم ککھ وی سمجھے ہوں۔۔۔
کئی مرتبہ پوچھا، کئی مرتبہ بتایا۔۔۔
مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔
تب ایک اور سینئر کولیگ پاس سے گزرے، سارا ماجرا سن کر معمہ حل کیا اور بتایا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ’’شجاع شیعہ‘‘ ہے۔۔۔
شجاع ہم سے پہلے اس دفتر میں کام کرتے تھے!!!
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
آپ کی بات سے یاد آیا کہ میرے خالہ زاد بھائی کی جدہ میں موبائل فون کی دکان تھی۔ مارکیٹ میں بہت سے بنگالی بھی تھے۔ ایک دن ایک بنگالی دوست دکان پر آیا اور افسردہ انداز میں کہنے لگا کہ "سیریا کا بادساہ مر گیا"
بھائی نے فورا ٹی وی پر لوکل نیوز چینل لگایا، نیٹ پر سرچ کیا لیکن کہیں "سیریا کے بادشاہ" کی کوئی خبر نہیں تھی۔ بھائی نے اس سے پوچھا کہ اسے کیسے پتا کہ "سیریا کا بادشاہ مر گیا ہے"۔ تب وہ ہاتھ پکڑ کر بھائی کو دوکان سے باہر لے گیا اور ایک کونے میں چڑیا کے بچے کی لاش دکھا کر بولا "یہ دیکھو، سیریا کا بادساہ مر گیا" :D
 

زیک

مسافر
جب کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ کچھ حروف ہی کا چکر ہے جسے صحیح طور پر صرف اہلِ زبان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جیسے اردو والے ب کو بے کہتے ہیں مگر عربی والے با کہتے اسی طرح ہندی میں بھی کچھ حروف کو ایسے ہی تلفظ کیا جاتا ہے جیسے میم کو ما، کاف کو کا وغیرہ۔ یہ آخری حرکت جو مجھے میم اور کاف کے ساتھ الف کی لگ رہی ہے وہ کچھ آدھی پونی سی حرکت ہے جو الف کی آواز اور زبر کی حرکت میں کہیں گم ہے اور اسے صحیح ادا ہندی اہلِ زبان ہی کر سکتے ہیں، انگریزی والے جب میم کو رام کے اختتام پر ما کے طور پر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ اے کی شکل میں ظاہر ہو کر Rama بن جاتا ہے اور اردو والوں کے لیے انگریزی سے راما ۔ آپ کا تعلق چونکہ ہندی سے بھی رہا ہوگا اسی لیے اہلِ زبان کے ساتھ ساتھ آپ بھی پہچان جاتے ہیں کہ کس اسم یا لفظ کے اختتام پر اصلی الف ہے اور کس کے اختتام پر محض حرف تہجی کی مختصر و پوشیدہ سی حرکت ہے لیکن دوسروں کے لیے اسے پہچاننا ناممکن سا ہے۔
Schwa deletion کا معاملہ ہے
 
Top