عمران کا پلان سی اور حکومتی مشکلات میں اضافہ

زرقا مفتی

محفلین
x1419694_96712475.jpg.pagespeed.ic.22hJQmxJ5X.jpg
 

منقب سید

محفلین
شہر بند کرنے کے اعلان کی تشریح تو کی جا چُکی ہے۔ باقی حکومت واقعی اس وقت شدید دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔ جہاں تک تعلق ہے ان عناصر کے متعلق سوال کا جو حکومت اور خان کے مابین محاذ آرائی چاہتے ہیں تو یہ دونوں طرف کے مشیر ہی ہیں۔ انتخابات میں انتظامی کوتاہیاں تو انتخابات کے دوران ہی سامنے آ گئی تھیں لیکن تب سے اب تک نہ ان کو دور کرنے کی کوشش کی گئی نہ ہی ان کوتاہیوں کے ذمہ داران کا تحقیقات کے ذریعے تعین کیا گیا۔ ایم کیو ایم کی پس پردہ حمایت والی بات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔
 
لگتا تو یوں ہے کہ بڑے شہروں کو بند کرنے کا اعلان خود عمران کی حمایت بڑے شہروں میں کم کر دے گا۔ اس کی ایک دلیل تو کل یوں سامنے آئی کہ شاہ محمود قریشی نے وضاحت کردی کہ یہ ہڑتال کی کال نہیں ہے۔ بلکہ تحریک انصاف سڑکوں پر احتجاج ریکارڈ کرائے گی۔ لیکن اپنا کاروبار اور معمولات زندگی بند کرنا تو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
جس طرح 30 نومبر کو عمران نے شہر بند کرنے کی حکومت کو دھمکی دی تھی ایسے لگتا تھا کہ عمران کوئی بہت بڑا ڈان ہے جو شہر بند کرنے آرہا ہے۔ اس کو کسی نے پسند نہیں کیا ۔
 
تاجروں کی ناپسندیدگی،تحریک انصاف کومکمل شٹ ڈائون سے پیچھے ہٹنا پڑا
اسلام آباد (طارق بٹ)چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اتوار کو ریلی میں مختلف شہروں اور پورے ملک کو مکمل بند کرنے کا اعلان کیا مگر ایک ہی دن بعد کچھ سوچ کران کے نائب شاہ محمود قریشی نے بیان دیا کہ احتجاج کا مطلب شٹر ڈائون نہیں بلکہ مرکزی شاہراہوں کو بلاک کرنا ہے۔ بات بالکل واضح ہے کہ تحریک انصاف میں ذہنی الجھن کی خامی بہت گہری ہوگئی ہے۔ ان کے سابق صدر جاوید ہاشمی نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے فیصلے اس کے چیئرمین کے اعلان سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ 16 دسمبرکہ جس روز عمران خان نے ملک بھر کو بند کردینے کی کال دی تھی، وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک بڑا ہی المناک دن ہے۔ اس دن سقوطِ ڈھاکہ ہوا تھا۔ یہ یومِ سوگ ہے۔ دراصل عمران خان ان تین صنعتی، کاروباری اور تجارتی مراکزکو بند کرانا چاہتے ہیں جہاں 2013ء کے عام انتخابات میں جن نشستوں پر پی ٹی آئی اے کے امیدوار جیتے تھے، ان کی کارکردگی غیر تسلی بخش خیال کی جاتی ہے۔ اگر گزشتہ پارلیمانی انتخابات یا تازہ انتخابی مشق سے رہنمائی لی جائے تو دو جماعتیں، مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ لاہور، فیصل آباد اور کراچی کے اضلاع اور شہروں پر حکمرانی کررہی ہیں جن کا انتخاب عمران خان نے شٹر ڈائون کے لئے کیا ہے۔ تاہم یہ اہم حقیقت ہے کہ گو کہ پی ٹی آئی ان علاقوں سے دو وفاقی نشستیں جیت سکتی ہے۔ اس نے کثیر تعداد میں ووٹ لئے تھے مگر 2013ء کے الیکشن میں وہ ن لیگ اور ایم کیو ایم سے کم تھے۔ خیال یہ ہے کہ جاری احتجاج سے تحریک انصاف اپنی طاقت بڑھا لے گی۔ قومی اسمبلی کی لاہور کی 13 نشستوں میں سے 2013ء کے الیکشن میں پی ٹی ائی صرف ایک نشست جیت سکی تھی جبکہ دیگر تمام پر ن لیگ نے فتح حاصل کی تھی۔ فیصل آباد کی تمام گیارہ نشستیں ن لیگ کے حصے میں آئی تھیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح کراچی سے تحریک انصاف صرف ایک نشست جیت سکی تھی دیگر ایم کیو ایم نے جیتی تھیں۔ شٹ ڈائون سے چھوٹی اور بڑی دکانیں اور سڑکوں پر موجود تمام گاڑیوں کی بندش جُڑی ہوتی ہے۔ کسی کو یہ بات پسند ہو یا نہ ہو، یہ ایک حقیقت ہے کہ چھوٹے تاجروں کی اکثریت جن کے پاس زیادہ تر کاروبار ہے، وہ ن لیگ کو سپورٹ کرتے ہیں۔ عمران کو یہ احساس ہی نہیں کہ وہ اس طبقے میں بہت مقبول نہیں ہیں۔ تاجراپنے کاروبار میں خلل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ بات پی ٹی آئی قیادت کے ذہن پرغالب آئی جس سے انہیں مکمل شٹرڈائون کے فیصلے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ عمران خان کی شٹ ڈائون کی چاروں کالیں عام دنوں میں آرہی جب تاجر اور دیہاڑی داری کے محنت کش اپنی روزی روٹی کے لئے گھر سے نکلے ہوں گے وہ اس دن کوئی بھی خلل پسند نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی صرف دو ہفتے میں اپنے ’’پلان سی‘‘ پر عملدرآمد چاہتی ہے، یہ وقت اس قسم کے مظاہرے کے لئے بہت کم ہے۔ یہ چیزاس بات کو واضح کرتی ہے کہ عمران خان بہت جلدی میں ہیں کہ نوازشریف حکومت ان کے مطالبات کے سامنے جھک جائیں۔ حکومت نے پی ٹی آئی کے مطالبات پر سخت موقف اپناتے ہوئے واضح کیا کہ پی ٹی آئی جب تک تنقید اور غلیظ زبان بند نہیں کرتی اس سے دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے اس کے نتیجے میں ایک ہی روز بعد مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ اس بات پر بار بارزور دیا گیا ہے کہ تنازع کو حل کرنے کے لئے مذاکرات ہی واحد آپشن ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اتوار کو ریلی سے خطاب میں عمران خان نے کسی حد تک تحمل دکھایا اوروزیراعظم نوازشریف اورسابق صدر آصف زرداری کے خلاف چند ایک سخت جملوں کے سوا الفاظ کے انتخاب پر قابو رکھا۔ شاید اس کی وجہ اپنے خلاف ٹی وی پر چلنے والی اشتہاری مہم بھی ہو۔ تاہم اگر عمران خان میں واقعتاً ایسی تبدیلی آگئی ہے تو یہ قابل ستائش ہے۔
 

منقب سید

محفلین
عمران کے اپنے اندازگفتگو سے تو لگتا ہے کہ عمران کا اپنا مزاج بھی بہت جارحانہ ہے :)
برادر انداز تو میاں صاحب کا بھی جارحانہ ہوا کرتا تھا جب وہ اپوزیشن ہوا کرتے تھے بس فرق اس بات کا ہے کہ تب غیر پارلیمانی الفاظ میڈیا پر رپورٹ نہیں ہوتے تھے اور اب جب سے ایسے الفاظ رپورٹ ہونے شروع ہوئے ہیں ہر ایک کا منہ کھُل گیا ہے ۔ خیر ایوان کی راہداریوں میں آوارہ گردی نے اتنا تو سکھا ہی دیا کہ جس بھی مشیر پر کسی سیاستدان کا زیادہ دار و مدار ہوتا ہے وہی مشیر اس سیاستدان کی قبر اپنے ہاتھوں کھود دیتا ہے۔ آج تک جتنے بھی مشیر دیکھے انہیں بطور طفیلیا ہی چمٹا پایا ہے سیاستدانوں کے ساتھ۔ وفاقی دارالحکومت کے اعلیٰ ترین اشرافیہ جو کہ عرف عام میں "کنگ میکر" کہلاتے ہیں وہ ہی ان مشیروں کے اصل ان داتا ہوتے ہیں اور ان کنگ میکرز ہی کی وساطت سے مشیر رکھے اور نکالے جاتے ہیں۔ باقی طارق بٹ کے تجزیے کی بات تو برادر لاہور اور کراچی کا تو علم نہیں تاہم فیصل آباد کے کچھ مقامی تاجروں اور سیاستدانوں سے دھرنوں سے کچھ ماہ قبل ملاقات ہوئی تو وہاں کی فضاء اب ن لیگ کے لئے ویسی سازگار نہیں جیسی پہلے ہوا کرتی تھی۔ وہاں کے مقامی افراد گو کہ ن لیگ کی حکومت سے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے نالاں ہیں لیکن ان سے اگر سوال کیا جائے کہ آئندہ ووٹ کسے ڈالو گے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ گنے چُنے ناموں کے علاوہ اور کوئی نہیں جسے ووٹ دیا جائے۔ تاہم اب دھرنوں نے اتنا تو کر دیا کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی سُنی گئی اور ان کی بھی کچھ وقعت ہو گئی ورنہ اس سے قبل انہیں بھی گھاس نہیں ڈالی جاتی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک کافی طاقتور ایم این اے ایک یونیورسٹی کے سپورٹس کوٹے میں اپنے پی اے کی بہن کا ایڈمیشن نہیں کروا سکا۔ اس کے علاوہ ایک کافی چہیتے ایم پی اے صاحب کو پنجاب پولیس میں اے ایس آئی کی بھرتی کے دوران 3 نام فائنل لسٹ میں ڈلوانے کے لئے لاہور کے ان گنت چکر لگانے کے بعد بھی ناکام و نامراد رکھا گیا اور آخری دن ساڑھے سات لاکھ روپے فی کس کے حساب سے ان میں سے دو نوجوانوں نے خود لاہور جا کر نقد رقم دے کر اپنے نام ڈلوا لئے۔ یہ فقط الزام تراشی نہیں دونوں واقعات کا میں عینی شاہد ہوں۔
 
بس فرق اس بات کا ہے کہ تب غیر پارلیمانی الفاظ میڈیا پر رپورٹ نہیں ہوتے تھے اور اب جب سے ایسے الفاظ رپورٹ ہونے شروع ہوئے ہیں ہر ایک کا منہ کھُل گیا ہے
جب دوسرے سینئر سیاستدانوں نے طاقتور میڈیا کے ہوتے ہوئے اپنی زبان کو لگام دینا سیکھ لیا ہے تو عمران کو زبان سنبھالنے سے کس نے منع کیا ہے؟ :)
کپتان صاحب خود بھی ماشآاللہ 60 سے اوپر کے ہیں۔ :)
یہ حقیقت ہے کہ ایک کافی طاقتور ایم این اے ایک یونیورسٹی کے سپورٹس کوٹے میں اپنے پی اے کی بہن کا ایڈمیشن نہیں کروا سکا۔ اس کے علاوہ ایک کافی چہیتے ایم پی اے صاحب کو پنجاب پولیس میں اے ایس آئی کی بھرتی کے دوران 3 نام فائنل لسٹ میں ڈلوانے کے لئے لاہور کے ان گنت چکر لگانے کے بعد بھی ناکام و نامراد رکھا گیا اور آخری دن ساڑھے سات لاکھ روپے فی کس کے حساب سے ان میں سے دو نوجوانوں نے خود لاہور جا کر نقد رقم دے کر اپنے نام ڈلوا لئے۔ یہ فقط الزام تراشی نہیں دونوں واقعات کا میں عینی شاہد ہوں۔
ان دونوں واقعات میں اگر یہ صاحبان سفارش سے اپنا کام کرانا چاہتے تھے ۔ تو افسوس ناک بات ہے ۔ اور اگر اے ایس آئی رشوت دیکر بھرتی ہوا تو پھر انتہائی افسوس ناک۔
اگر ان دونوں کے غیر قانونی کام نہیں ہوئے مگر اور چہیتوں کے ہورہے ہیں تو حکومت کے لئے شرم کا مقام ہے۔ پھر تو خادم پنجاب اور وزیر اعظم کو بتانا پرے گا کہ میرٹ پر عمل کے دعوے کہاں گئے!!
 

منقب سید

محفلین
جب دوسرے سینئر سیاستدانوں نے طاقتور میڈیا کے ہوتے ہوئے اپنی زبان کو لگام دینا سیکھ لیا ہے تو عمران کو زبان سنبھالنے سے کس نے منع کیا ہے؟ :)
کپتان صاحب خود بھی ماشآاللہ 60 سے اوپر کے ہیں۔ :)
زبان کے معاملے میں بات خان کی پارٹی والے ہی کر سکتے ہیں برادر اس معاملے میں مجھے ہر اس شخص سے اختلاف ہے جو کسی بھی پارٹی ادارے یا مسلک سے تعلق رکھتا ہو اور غلط زبان کا استعمال کرے۔
ان دونوں واقعات میں اگر یہ صاحبان سفارش سے اپنا کام کرانا چاہتے تھے ۔ تو افسوس ناک بات ہے ۔ اور اگر اے ایس آئی رشوت دیکر بھرتی ہوا تو پھر انتہائی افسوس ناک۔
اگر ان دونوں کے غیر قانونی کام نہیں ہوئے مگر اور چہیتوں کے ہورہے ہیں تو حکومت کے لئے شرم کا مقام ہے۔ پھر تو خادم پنجاب اور وزیر اعظم کو بتانا پرے گا کہ میرٹ پر عمل کے دعوے کہاں گئے!!
جی کچھ ایسا ہی ہے اور میرٹ پر عمل کی وجہ سے ان کے کام نہیں رُکے بلکہ گھاس نہ پڑنے کی وجہ سے ان کے کام نہیں ہوئے۔ جن مخصوص چہیتوں کے کام ہو رہے ہیں ان تک عام آدمی کی اپروچ کا ذریعہ "بابا جی کی تصویر والا کاغذ" ہی ہے۔ مذکورو دونوں نوجوانوں نے رقم ایسے ہی ایک چہیتے کے ذریعے جمع کروائی۔ گذشتہ سال کی ایجوکیٹرز کی بھرتیوں میں میرٹ کی دھجیاں اُڑانے پر ایک ای ڈی اور اور ڈی سی او صاحب کی انکوائری بھی چل رہی ہے کیونکہ معاملہ عدالت میں چلا گیا تھا۔ اگر عدالت میں نہ جاتا تو اس سال بھی ضلعی طور پر بھرتیوں کی لسٹیں لاہور سے ہی فائنل ہو کر آنی تھیں۔
 

arifkarim

معطل
اور سیریز چلتے چلتے 2018 آجائے گا۔
پچھلے الیکشن کا تب تک احتساب ہوگا تو اگلا الیکشن آئے گا نا جناب! :)

جس کے بعد الیکشن میں ن لیگ، پی پی اور دوسری جماعتیں اپنا پلان اے پیش کرینگی عوام کو۔ کہ ہم نے پانچ سال کچھ نا کچھ کیا مگر عمران نے سارا وقت پلان چلانے میں ضائع کر دیا۔
کچھ نہ کچھ تو واقعی کیا۔ ادھر عمران نے دھرنا دیا۔ اور تیل کی قیمتیں نیچے آگئیں۔ :)
ادھر عمران نے تنقید کی اور ادھر بجلی اور گیس کے نرخ کم ہو گئے :)

تو فیصلہ آپ کریں۔ آپ کو کار کردگی چاہئے یا احتجاجی پلان۔
یہ نون لیگ کی کونسی کارکردگی کی بات ہو رہی ہے؟ یاد رہے کہ پُل اور موٹروے کارکردگی کے زمرے میں نہیں آتے۔ جمہوری کارکدگی good governance کو کہتے ہیں اور یہ دیکھنے کیلئے آپکو ناروے آنا ہوگا۔ کویت جیسے آمر ملک میں بیٹھ کر جمہوریت اور کاکرکردگی کا درس نہ دیں :)

پھر عوام فیصلہ کرینگے :)
کہ دھاندلی کیسے کرنی ہے؟ :)

برادر انداز تو میاں صاحب کا بھی جارحانہ ہوا کرتا تھا جب وہ اپوزیشن ہوا کرتے تھے بس فرق اس بات کا ہے کہ تب غیر پارلیمانی الفاظ میڈیا پر رپورٹ نہیں ہوتے تھے اور اب جب سے ایسے الفاظ رپورٹ ہونے شروع ہوئے ہیں ہر ایک کا منہ کھُل گیا ہے
کیا گھس بیٹھئے، نائٹ کلبز، گھوری مارنا وغیرہ پارلیمانی الفاظ ہیں جنہیں ہمنے بکثرت پارلیمان کے جوائنٹ سیشن میں سنا؟ :)

جب دوسرے سینئر سیاستدانوں نے طاقتور میڈیا کے ہوتے ہوئے اپنی زبان کو لگام دینا سیکھ لیا ہے تو عمران کو زبان سنبھالنے سے کس نے منع کیا ہے؟
عمران تو زبان کے تیر برسا کر پوری نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو ننگا کر رہا ہے جبکہ حکومت وقت کروڑوں روپے کے اشتہارات ٹیکس کے پیسوں سے دکھا کر بھی تحریک انصاف کو ننگا نہ کر سکی۔ ہاشمی کا مہرہ بھی کام نہ آیا۔ باغی کے ’’انکشافات‘‘ داغی بن گئے اور عمران عوام میں مزید مقبول ہو گیا۔ یقیناً عزت و ذلت خدا دیتا ہے۔ اشتہارات نہیں :)

ویسے میں ذاتی طور پہ پیٹرول پرائس میں کمی کا کریڈٹ خان صاحب کو دیتا ہوں ۔ (y)
تیل کی عالمی مانڈی کتنے میں بکی؟ :)

دو سپر پاورز اور دو تیل نکالنے والے ممالک کی سرد جنگ چل رہی ہے۔۔۔ کون سے خان صاحب جی
یہ سوپر پاورز اور تیل نکالنے والے ممالک کتنے میں بکے؟ :)

جی کچھ ایسا ہی ہے اور میرٹ پر عمل کی وجہ سے ان کے کام نہیں رُکے بلکہ گھاس نہ پڑنے کی وجہ سے ان کے کام نہیں ہوئے۔
پاکستان میں میرٹ کا مطلب ہے: پہلے میں، پہلے میں :)

ایٹ لیسٹ عمراں خان ایک مستقل تھریٹ تو بنا ہوا ہے ناں ؟؟؟؟
اپنے لئے؟ :)

دعا سمجھیں یا بد دعا ۔ عمران خان یا کوئی بھی جو مستقل آپ کے سر پر سوار رہے گا تو لا محالہ آپ کو ڈلیور کرنا پڑے گا۔ :)
کیا ڈلیور کروانا ہے؟ فی الحال قوم بچوں کی بے لگام ڈلیوری میں مصروف ہے :)

عمران میں لاکھ برائیاں ہونگی مگر آ ج کے سیاسی پنڈت یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ اب حکومت پہلے جیسی آسان نہیں رہی ۔ اب کچھ نہ کچھ ڈیلیور کرنا ہی پڑے گا چاہے کوئی بھی ہو۔
عمران حکومت چلنے دیگا تو کچھ ڈلیور ہوگا نا۔ :) ابھی تک تو حکومت کو عمران چلا رہا ہے جیسے معیشت ڈوبتی ہے تواسکا دھرنا ذمہ دار۔ عالمی منڈی میں تیل کے نرخ کم ہونے پر پاکستانی تیل کی قیمتیں کم ہوئی تو وہاں عمران کا قصور۔ بجلی کے بل نہیں بڑھ سکے تو وہاں اسکی سول نافرمانی اور بل جلانے کی تحریک کا نتیجہ۔ وغیرہ وغیرہ۔ پس ثابت ہوا کہ اسوقت ملک میں بھاری مینڈیٹ سے جیتی ہوئی نون لیگ نہیں بلکہ 30 مستعفی سیٹوں سے برخاستہ تحریک انصاف حکومت کر رہی ہے :) حکومت میں تو اتنی بھی قوت باقی نہیں کہ انسداد دہشت گرد عدالت کے وارنٹ پر عمران خان یعنی دہشت گرد اعلیٰ کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کر سکے :)

لیکن ایسی اپوزیشن نہیں چاہئے کہ جو ریاستی اداروں پر حملہ کرے ، سٹیج پر چڑھ کر اخلاقیات کا جنازہ نکال دے اور اپنے مشکوک الزامات کی بنا پر غیر آئینی طریقہ اختیارکرے۔ ڈان بن کر شہر بند کرنے کی دھمکیاں دے۔ اور یہ دھمکیاں دے کہ ہم حکومت چلنے ہی نہیں دیں گے یعنی حکومت کوئی اچھا کام کرنا چاہے تو اس قابل بھی نہیں رہے گی۔
دھرنا شروع ہونے سے قبل جو حکومت وقت نے ماڈل ٹاؤن، لاہور میں اچھے اور پیارے پیارے کام کئے تھے پہلے انکو تو ووٹ میں کیش کروالے پھر آگے کا سوچیں گے :)

مجھے ایسی ہی اپوزیشن اور میڈیا چاہئے جو حکومت کے پیچھے لگا رہے اور کرپشن کو بے نقاب کرے اور حکومت کو عوام کے خوش کرنے اقدامات پر مجبور کرتا رہے۔ اور اگر حکومت اچھا کار کرے تو اس کو سراہے بھی۔
کرپشن کو بے نقاب کرنے کیلئے آپکا نورا-کشتی سرٹیفائیٹ نیب کا ادارہ تو کئی سالوں سے موجود ہے۔ اسکام کیلئے میڈیا اور اپوزیشن کی کیا ضرورت ہے۔ نیب زرداری اور نواز کی کرپشن پکڑے اور انہیں جیل میں ڈال دے۔ لیکن جب تک مک مکا برقرار ہے وہ ایسا کریں گے نہیں :)

جب مشرف نے آکر سب کی چھٹی کرا دی تب ان قومی سیاستدانوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ مخالفت ایک حد میں رہ کرنی چاہئے تو انہوں نے مثاق جمہوریت تشکیل دیا اور رولز آف گیمز سیٹ کئیے۔
رولز آف گیمز میں یہ بھی درج تھا کہ نواز شریف 2008 کے الیکشنز کا بائیکاٹ کریں گے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں موصوف نے یہی فرمایا تھا۔ اور پھر سب کو دغا دیکر الیکشن لڑ لیا :)

بہرحال میں یہ کہتا ہوں کہ اپوزیشن مخالفت لازمی کرے مگر ریاست کو نقصان پہنچانے کی حد تک نا جائے۔ سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس موقع ہے کہ آپ اپنے صوبے میں کارکردگی دکھا کر اپنی قابلیت ثابت کر سکتے ہیں تو اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔
پنجاب میں نون لیگ کی ایسی کونسی گیدڑھ سنگی قابلیت ہے جو چھٹی بار انکو بھاری مینڈیٹ کیساتھ ’’منتخب‘‘ کیا گیا؟ تمام تر ترقیاتی و تعمیراتی کام تو شمالی پنجاب، لاہور کے گردو نواح میں ہوتے ہیں ہر نون لیگی دور میں۔ پھر پنجاب بھر سے اتنے زیادہ ووٹ کیسے مل جاتے ہیں؟ :)
 
Top