محمود احمد غزنوی
محفلین
قرض کی پیتے تھے مئے، اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔۔۔
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔۔۔
فضول بات میں نے مندرجہ ذیل جملے کی وجہ سے کہا تھا ۔یہ فضول بات نہیں تھی۔ کسی دور میں پیپلز پارٹی کے پاس ایسے لوگ تھے جو ہر غلط بات کی بھی اپنی طرف سے تاویل پیش کر دیتے تھے کہ ایسا ہوا ہوگا۔ یا یہ وجہ ہوگی۔ اس طرح اب کوئی کہے نہ کہے ن کے ورکر ہر غلط کام کی تاویل پیش کرنے میں پیش رہتے ہیں۔
خیر فضول ہے تو فضول ہی سہی۔ ان تمام فضول لوگوں کے فضول سیاسی بصیرت ناموں سے ہزارہا درجہ بہتر ہے جو پاکستان کو چھوڑے نام نہاد پاکستانی کہلواتے یہاں پر بسنے والوں کے لئے فضول میں سر درد کا سامان ہر وقت کئے رکھتے ہیں۔
کیا آپ نے کسی غیر جانبدار وکیل سے معلوم کیا ہے کہ کیا انتخابی وعدوں پر جھوٹ بولنے کا یا آرٹیکل 62، 63 کااطلاق ہوتا ہے؟کوئی دوسرا کرے تو پھر ایسا ہوتا۔۔۔ اب تو بات حضرت گنجوی شاہی محلے والے کی ہے۔
اس کی غیر جانبداری کا سرٹیفکیٹ آپ کے پاس جمع کرواؤں یا سکین کر کے پوری محفل کی خدمت میں پیش کروں۔ اور باقی سارے کام کیا یہاں آرٹیکل کے مطابق ہو رہے ہیں جو ان دو کے پیچھے میں ہلکان ہوتا رہوں۔فضول بات میں نے مندرجہ ذیل جملے کی وجہ سے کہا تھا ۔
کیا آپ نے کسی غیر جانبدار وکیل سے معلوم کیا ہے کہ کیا انتخابی وعدوں پر جھوٹ بولنے کا یا آرٹیکل 62، 63 کااطلاق ہوتا ہے؟
انتخابی وعدے کو جھوٹ نہیں کہا جاسکتا عدالت میں، یہ تو سب کو پتہ ہوتا ہے کہ سیاستدان اپنا عوامی بھلائی کا منصوبہ بتا رہا ہے۔ اور منصوبے کو جھوٹ نہیں کہ سکتے ہاں اس پر بدنیتی کا اطلاق کا سکتا ہے کہ اس نے صرف عوام کو خوش کرنے کے لئے ایسا منصوبہ بتایا حقیقتاً اس کی ایسی نیت نہیں تھی۔
مہربانی کرکے مجھے یاد دلا دیں آپ مجھ سے کس جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی ہمت کی بات کر رہے ہیں؟اس کی غیر جانبداری کا سرٹیفکیٹ آپ کے پاس جمع کرواؤں یا سکین کر کے پوری محفل کی خدمت میں پیش کروں۔ اور باقی سارے کام کیا یہاں آرٹیکل کے مطابق ہو رہے ہیں جو ان دو کے پیچھے میں ہلکان ہوتا رہوں۔
بیرون ملک کے وکیل سے زیادہ غیر جانبدار کون ہوگا۔ ذرا تصدیق بھی خود ہی کروا لیں۔ جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی بھی ہمت نہیں۔ تاویلیں تراشنے پر کمر بستہ ہیں۔
بالکل بہتر ہوتا ہے۔ بلکہ لطف کی بات یہ ہے کہ آپ کو فتوی بھی مل گیا ہے کہ اگر آپ اپنے مفاد کی خاطر جھوٹا وعدہ کر لیں۔ تو وہ جھوٹ نہیں کہلائے گا۔ بلکہ بدنیتی پر محمول کیا جائے گا۔یعنی بد نیت شخص
جھوٹے شخص سے بہتر ہوتا ہے۔
دودھ کی نہریں بہنے کا تو امکان نہیں البتہ اس دفعہ حکمرانوں کا انداز مجھے نواز کے پہلے دور حکومت جیسا لگ رہا ہے۔ جب معیشت کو سنبھالا گیا تھا اس دفعہ بھی معیشت کافی حد تک سنبھلی لگتی ہے لیکن ابھی تک عوام کو اس کے ثمرات نہیں ملے۔ اللہ کرے ثمرات بھی عوام کو ملیں تب ہی صحیح معنوں میں جمہوریت اور نواز کی حکومت مستحکم ہونگی
آپ ذرا مجھے بتا دیجئے عمران اور نواز کو ایک طرف رکھ کر۔ کیا انتخابی وعدوں کو پورا نا کرنے کی صورت میں عدالت یہ فیصلہ دے سکتی ہے کہ چونکہ اس سیاستدان نے انتخابی وعدہ پورا نہیں کیا لہذا اس پر آرٹیکل 62، 63 کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ نا اہل قرار پاتا ہے۔ ؟یعنی بد نیت شخص
جھوٹے شخص سے بہتر ہوتا ہے۔
برا تو مجھے بھی لگتا ہے ظاہر ہے یہ طریقے اداروں اور جمہوریت کو مستحکم کرنے والے تو نہیں۔ میں نے خواجہ سعد رفیق کے ایک کوارڈینیٹر سے کہا تھا کہ ن لیگ کو ادارے کی طرح کیوں نہیں چلایا جاتا ؟ تو اس کے جواب کا خلاصہ تھا کہ یہ ہمارا سیاسی کلچر نہیں البتہ اس رویے کا شکوہ اسے بھی تھا
میرا سارا زور نواز حکومت کو مستحکم کرنے پر نہیں ۔ جمہوریت (بمعنی عوامی حکومت) کو مستحکم کرنے پر ہے۔
نواز حکومت مستحکم ہونے کی بات میں نے ان کو نصیحت کرتے ہوئے کہی ہے۔ یعنی اگر جمہوریت مستحکم ہوگی تب ہی آپ کی حکومت مستحکم ہوگی
آپ ذرا مجھے بتا دیجئے عمران اور نواز کو ایک طرف رکھ کر۔ کیا انتخابی وعدوں کو پورا نا کرنے کی صورت میں عدالت یہ فیصلہ دے سکتی ہے کہ چونکہ اس سیاستدان نے انتخابی وعدہ پورا نہیں کیا لہذا اس پر آرٹیکل 62، 63 کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ نا اہل قرار پاتا ہے۔ ؟
یاد رہے کہ انتخابی وعدے سارے ہی سیاستدان کرتے ہیں ، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ سیاست چلتی ہی عوام کو ایسے وعدے کرکے اور خواب دکھا کر ہے
امید کی وجہ سے ہی تو ووٹ دیا تھا۔ لوگ امید کی بنا پر ہی پسندید جماعت کو ووٹ دیتے ہیں۔کیا آپ کو اُمید ہے کہ عوام کو ثمرات ملیں گے؟
میری مراد لیپ ٹاپ اور دیگر سستی شہرت کے پروجیکٹس سے نہیں ہے۔
1- میں آپ سے متفق ہوں کہ انتخابی تقاریر اور وعدوں کی بعد میں باز پرس ہونی چاہئے۔ لیکن اس باز پرس کا حق عوام کو ہے ۔ آپ نے عدالت کے بارے میں میرے سوال کا جواب نہیں دیااگر میرا ذاتی خیال پوچھتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ انتخاب سے پہلے کی ساری تقاریر ریکارڈ ہونی چاہیے اور بعد میں اس سلسلے میں باز پرس بھی ہونی چاہیے۔
یعنی آپ (لئیق احمد) مطمئن ہیں؟؟؟
اور شوباز اور اس کے ڈین اے شدہ بیٹے کئ کتنے نطفہ ناتحقیق اولادیں اس کا فیصلہ کون نالائق کرے گابہرحال اب عمران برا پھنس گیا ہے۔
ایک اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن نے عمران کے کاغذات ارسلان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر اس میں سیتا وائٹ کی بیٹی کا ذکر نہ ہوا تو عمران 62، 63 کی بنیاد پر نااہل ہوجاوے گا 14 اگست سے پہلے ہی شاید
اس تھریڈ میں رائے شماری کے مطابق 87 فی ص کی رائے ہے کہ عمران وہ کام نہیں کرسکتا جس کا دعوی کرتا ہے۔
پچھلے چار سال کے دوران کئی دعوے کیے اور اس سے منحرف ہوگیا۔ حتی یہ کہ جن کے خلاف مقدمے کا کہہ رہا تھا ان سے اتحاد پر بھی تیار ہے کچھ شرائط پر۔ یعنی 180 درجہ کا انحراف۔
اس بات کو اور اس کی پچھلی زندگی کو مدنظر رکھیں تو یہی خیال ائے گا کہ جو کچھ یہ کہہ رہا ہے کہ میں یہ کردوں گا وہ کردوں گا صرف جھوٹ ہے اور اس شخص کا مطمع نظر صرف اقتدار ہے۔ اس اقتدارکی خاطر یہ 180 درجے ٹرن بھی لے گا۔
لڑائی جھگڑا کرنے کا مشورہ میں نہیں دے رہا۔
پوائنٹ یہ ہے کہ عمران حالات بدلنے کے ساتھ اپنا موقف بدل لیتا ہے۔ وہ جسے پہلے دھشت گرد کہتا تھا اب ان سے گلےملنے کو تیار ہے۔ یعنی اس کا وژن یا تو دیانت دارانہ نہیں ہے یا مفاد پرستانہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ شخص لیڈر کی خوبی نہیں رکھتا۔
موقف بدل سکتے ہیں۔ مگر لیڈر کا موقف بدلنے کے بعد ڈائریکشن اور نکھر جاتی ہے اور عوام کو اور فائدے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر قائد اعظم محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے بہت حامی تھے بعد میں ان کو پتہ چلا کہ ہندو مسلم اتحاد نہیں ہوسکتا اور مسلمان ایک الگ قوم کے طور پر ہی رہ سکتے ہیں۔ موقف بدل گیا مگر ایل لاجک پر۔ فائدہ مسلم عوام کو۔
عمران اس کے بلکل الٹ ہے۔ اسکو یہ سمجھ ہی نہ اسکا کہ ایم کیوایم اسکی اتحادی ہوسکتی ہے۔ شہرت حاصل کرنے کے لیے الطاف کے خلاف مہم شروع کی ۔ یہ بھی نہ دیکھ سکا کہ الطاف تو امریکہ کا پٹھو ہے۔ بالاخر ہار کے بیٹھ گیا۔ بہت بعد میں کیانی کے اشارے پر یا پاشا کی شہہ پر الطاف کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھارہا ہے۔ ایسا ادمی کیا لیڈر ہوسکتا ہے۔ یہ تو ایجنٹ کا کام ہے۔