عمر رضی اللہ تعالٰٰی کا ایمان لانا اقباس شاہنامہ اسلام

راجہ صاحب

محفلین
حضرت عمر کے ایمان لانے کا بیان

دشمنان دین میں نبی کے قتل کی تجویزیں

عمر ابن خطاب اس تک ایمان نہ لائے تھے
حجاب کفر میں‌ تھے دامن حق میں‌ نہ آئے تھے

غیور و صائب الرائے بہادر تیغ افگن تھے
مگر سچے نبی کے اور مسلمانوں کے دشمن تھے

غریبوں‌ حق پرستوں کو ازیت دیتے رہتے تھے
مسلماں ان کے ہاتھوں سے ہزاروں‌ رنج سہتے تھے

جناب حضرت حمزہ بھی جب ایمان لے آئے
تزلزل پڑ گیا باطل میں‌ اہل مکہ گھبرائے

مسلمانوں کی روز افزاں ترقی سے لگے ڈرنے
نبی کو قتل کر دینے کی تجویزیں لگے کرنے

کوئی بولا غضب ہے ، اپنی طاقت گھٹتی جاتی ہے
کہ دنیا دین آبائی سے پیچھے ہٹتی جاتی ہے

یہی حالت رہی تو ایک دن ایسا بھی آئے گا
ہُبُل کے واسطے کوئی چڑھاوا بھی نا لائے گا

کوئی بولا یہ مذہب پھیلنے سے رک نہیں‌ سکتا
محمد زندہ ہیں جب تک یہ جھگڑا چُک نہیں‌ سکتا

کہا بوجہل نے دیکھو یہ نرمی کا نتیجہ ہے
پکارا بو لہب میں کیا کروں میرا بھتیجا ہے​

(ابو لہب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن تھا جب آنحضرت تبلیغ کے لئے جاتے تو یہ پیچھے سے پکارتا لوگوں یہ دیوانہ ہے اس کی باتوں میں نہ آنا)
 

راجہ صاحب

محفلین
عمر نبی کے قتل کا بیڑا اٹھاتے ہیں


عمر بولے یہ قصہ ہی چکا دیتا ہوں‌ میں‌ جا کر
کہ دیتا ہوں‌ تمھیں سر ہادی اسلام کا لا کر

بدی کے غلغلے اس محفل حق پوش میں‌ اٹھے
عمر نے کھینچ لی تلوار پورے جوش سے اٹھے

چلے اس زندگی نجش جہاں کے قتل کرنے کو
تمنائے مکان ولا مکاں‌ کے قتل کرنے کو

نعیم اک مرد عاقل سے ہوئی مٹ بھیڑ رستے میں
وہ بولے آج کیا ہے تم نظر آتے ہو غصے میں

کہا میں قتل کرنے جا رہا ہوں اس پیمبر کو
کہ جس نے ڈال رکھا ہے مصیبت میں‌ عرب بھر کو

وہ بولے تم کو گھر کا حال بھی معلوم ہے بھائی
کہ ہے اسلام کی حامی تمھاری اپنی ماں‌ جائی

تمھارے گھر میں بستا ہے خدا کا نام مدت سے
کہ بہنوئی تمھارا لا چکا اسلام مدت سے

یہ سن کر اور بھی غیظ و غضب طوفان پر آئے
عمر تلوار کھینچے اپنے بہنوئی کے گھر آئے

غضب ٹوٹا عمر دہلیز پر جس وقت چڑھتے تھے
وہ دونوں حضرت خباب سے قرآن پڑھتے تھے

عمر داخل ہوئے جب گھر کے اندر سخت غصے میں
سنی آہٹ تو فوراَ چھپ گئے خباب پردے میں

کہا کیا پڑھ رہے تھے تم وہ بولے تم سے کیا مطلب!
کہا دونوں مسلماں ہوچکے ہو جانتا ہوں سب !

بہن بہنوئی کو آخر عمر نے اس قدر مارا
کہ زخموں سے نکل کر خون کی بہنے لگی دھارا

بہن بولی عمر ! ہم کو اگر تو مار بھی ڈالے
شکنجوں‌ میں کسے یا بوٹیاں‌ کتوں سے نچوالے

نعیم بن عبداللہ حضرت عمر ہی کے خاندان کے ایک معزز شخص تھے ( سیرت النبی )
حضرت خباب بن الارت بنی تمیم میں‌ سے تھے جاہلیت میں‌ غلام بنا کر فروخت کر دئیے گئے تھے ام ابمار نے خرید لیا تھا یہ ان دنوں ایمان لائے تھے جب آنحضرت ارقم کے گھر میں‌ موجود تھے اور اس وقت تک صرف چھ سات شخص ایمان لا چکے تھے آپؓ نے اسلام کی محبت میں‌ طرح‌ طرح کی تکلیفیں اٹھائی تھیں ان کوگرم ریت پر لٹا کر سینے پر پتھر رکھ دئے جاتے تھے ان کی پشت ان صدمات سے برص کے سفید داغوں کی طرح‌ بالکل سفید پڑ چکی تھی ( سیرت النبی )
حضرت عمر کے بہنوئی کا نام سعید بن زید تھا اور بہن کا نام فاطمہ بنت خطاب ( مصنف )
 

راجہ صاحب

محفلین

مگر ہم اپنے دینِ ِ حق سے ہرگزپھر نہیں سکتے!
بلندی معرفت کی مل گئی ہے گِر نہیں سکتے!

دہن سے نامِ ِحق آنکھوں سے آنسو،منہ سے خوں جاری
عمر کے دل پر اس نقشے سے عبرت ہوگئی طاری

کہااچھا دکھاؤمجھ کو وہ آیاتِ قرآنی
سمجھ رکھاہے جن کو تم نے ارشاداتِ ربانی

بھن بولی بغیرِ غسل اس کو چھو نہیں سکتے
یہ سن کر اور حیرت چھاگئی منہ رہ گئے تکتے

اُٹھے اور غسل کرکے لے لیا قرآن ہاتھوں میں
اسی کے ساتھ آئی دولتِ ایمان ہوتھوں میں


فاطمہ نے قرآن کے اجزالاکر سامنے رکھ دئیے ،عمرنے اٹھاکردیکھاتویہ سورت تھی؛
سَبَّحَ لِلّہ مَافِی السِّمٰوٰتِ وَالْاَرْض آسمان وزمین میں جوکچھ ہے خداکی تسبیح پڑھتاہے۔اورخداہی
ِ وَھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِی ْمُں(پ٢٧الحدید ع آیت١) غالب حکمت والاہے۔

ایک ایک لفظ پران کا دل مرعوب ہوتاجاتایہاں تک کہ جب اس آیت پرپہنچے
آمِنُوْابِاللّہِ وَرَسُوْلِہ خداپر اور اس کے رسول پع ایمان لے آؤ
تو بے اختیارپُکاراٹھے؛:
اَشْھَدُاَنْ لّااِلٰہَ اِلّااللّہُ وَاَشْھَدُاَنَّ میں گواہی دیتاہوں کہ خداکے سوا کوئی معبود نہیں،اور یہ کہ محمدۖ
مُحَمّدًارَّسُوْلْ اللّٰہِ اللہ کے رسول ہیں۔
 

راجہ صاحب

محفلین


حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایمان

کلامِ ِ پاک کو پڑھتے ہی ١آنسو ہوگئے جاری
خدائے واحدوقدّوس کی ہیبت ہوئی طاری

وہ دل سخت وہ سخت دل جو آہن وفولادکا دل تھا
مُسلمانوںکے حق میں جو کسی جلّاد کا دل تھا

شعاعِِ ِنورنے اس دل کویکسر موم کرڈالا
ہوئی تسکین بہ نکلا قدیمی کفرکاچھالا

اُڑی کافور کی صورت سیاہی رنگِ باطل کی
یکا یک آج روشن ہوگئیں گہرائیاں دل کی

اسی عالم میں اُٹّھے جانبِ کوہِ صفادوڑے
نکل کرنرغہ شیطاں سے جیسے پارسادوڑے


 

راجہ صاحب

محفلین

عمر آستانہ نبوت پر


رسول اللہ تھے اُس سم مقیمِ ِخانہ ارقم
حضوری میں جنابِ حمزہ وبوبکرتھے ہمدم

نحیف وناتواں کُچھ اوراہل اللہ بیٹھے تھے
خداپرتکیہ تھا سرکارِ عالی جاہ بیٹھے تھے

عمر آئے مسلّح،آکے دروازے پہ دی دستک
اسی انداز میں تھے ہاتھ میں تلوارتھی اب تک

صحابہ نے جونہی سُوراخ میں سے جھانک کردیکھا
چمک تلوار کی آئی نظرروئے عمردیکھا

صحابہ کوہُوئی تشویش ان کے رنگِ ظاہرسے
عمرکادبدبہکچھ کم نہ تھااِک فوجِ قاہرسے

رسُول اللّہ سے آکرعرض کی اِک طرفہ ساماں ہے
عمر درپرکھڑے ہیں ہاتھ میں شمشیرِبرّاں ہے

کہاحمزہ نے جاؤجس طرح آتاہے آنے دو
اسے اندربلاؤ جس طرح آتاہے آنے دو

ادب ملحوظ رکھے گاتوخاطر سے بٹھائیں گے
نمونہ اس کوہم خُلقِ ِمحمّددکھائیں گے

اگرنیت نہیں اچھی تو اس کو قتل کردوں گا
اسی کی تیغ سے سر کاٹ کرچھاتی پردھردُوں گا

رسول اللّہ سن کر مسکرائے اورفرمایا
بُلالودیکھ لیں کس دُھن میں ہے ابنِ خطاب آیا

عمر داخل ہوئے گھر میں تواُٹّھے حضرتِ والا
ہُواضَوریزسرِّشاخِ ِ طُوبیٰ پرقدِبالا

کہا چادر کا دامن کھینچ کراے عُمرکیاہے؟
چلاتھاآج کس نیت سے کس نیّت سے آیاہے؟

عُمرکے جسم پر اِک کپکپی ہوگئی طاری
وہیں سرجُھک گیا آنکھوں سے آنسوہوگئے جاری

ادب سے عرض کی حاضرہواہوں سرجھکانے کو
خُداپراوررسولِ پاک پرایمان لانے کو

یہ کہنا تھا کہ ہرجانب صدائے مرحبا گونجی
فضا میں نعرہ اللّہ اکبرکی صداگونجی



ارقم کامکان کوہ ِصفا کی تلیٹی پرتھا۔اوررسول اللہ ۖوہاں پناہگزین تھے(سیرت النبیۖ) حضرت عمر سے پہلے پچاس کے قریب آدمی ایمان لاچکے تھے ،عرب کے مشہور بہادر سیدالشہداء حضرت حمزہ بھی مسلمان ہوچکے تھے ،تاہم مسلمان اپنے فرائض مذہبی ادانہیں کرسکتے تھے ،کعبہ میں نماز اداکرنا تو گویاناممکن ہی تھا لیکن حضرت عمر کے ایمان سے حالت بدل گئی ۔
انھوں نے علانیہ اسلام کا اظہار کیا،کافروں نے شدت کے ساتھ مخالفت کی لیکن وہ ثابت قدم رہے،یہاں تک کہ مسلمانوں کو ساتھ لیجاکرنماز اداکی ۔ابن ہشام اس واقعہ کوعبداللّہ بن مسعود کی زبانی اس طرح لکھتاہے کہ عمراسلام لائے توقریش سے لڑے ،یہاں تک کہ کعبے میں نماز پڑھی ،اوران لوگوں کے ساتھ ہجوم نے بھی پڑھی۔(مصنف)
 
Top