عمر شریف کو کس کا ڈر تھا؟

سیما علی

لائبریرین

عمر شریف کو کس کا ڈر تھا؟​

04/10/2021 محمد حنیف

لندن کی ایک سرد اور حسین شام تھی۔ ایم کیو ایم کے الطاف بھائی کے ولیمے کی تقریب تھی اور کراچی سے آئے ہوئے عمر شریف کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا۔ ان کے خوف سے پسینے چھوٹ رہے تھے اور وہ میرا ہاتھ چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔
الطاف بھائی سے ذاتی تعلق کبھی نہیں رہا، کراچی میں تھے تو صحافت ان کی دھمکیوں کی زد میں رہتی تھی۔ ان کی پریس کانفرنس میں بھی سرجھکا کر بیٹھتے تھے کہ کہیں نظر میں نہ آ جائیں۔ افطار کی دعوت پر بہانہ کر دیتے تھے اور جب ان کے لڑکے فون پر گالی دے کر کہتے تھے تمھارے دفتر کا پتہ ہے تو دفتر کو تالا لگا کر گھر چلے جاتے تھے۔
لیکن لندن میں جب ان کے ولیمے کا کارڈ ملا تو ساتھیوں نے کہا صحافت اور سیاست گئی بھاڑ میں، ہم کراچی والے ولیمہ تو دشمن کا بھی نہیں چھوڑتے۔ سب نے اپنے ریشمی پاجامے نکالے اور بچوں سمیت بدھائی دینے پہنچ گئے۔ محل نما شادی ہال میں سیکیورٹی بہت زیادہ تھی۔ ہال کے اندر داخل ہو کر باہر جانے کی ممانعت تھی۔ سگریٹ پینے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ایک بزرگ کے مشورے اور معاونت سے ایک بازو والا دروازہ ڈھونڈا اور اس میں پیر پھنسا کر آدھے اندر اور آدھے باہر ہو اپنی علتیں پوری کرنے لگے۔ ایک گاڑی آ کر رکی اور اس میں سے عمر شریف برآمد ہوئے۔ میرے اندر ایک دم وہ احترام جاگا جو کسی بڑے سیلبرٹی یا خاندانی بزرگ کو دیکھ کر جاگ جاتا ہے۔ میں نے سگریٹ بجھائی، آگے بڑھا اور جھک کر پھر نجانے کیوں عمر بھائی کہہ کر سلام کیا۔
ویلکم ٹو لندن عمر بھائی۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا، ادھر ادھر دیکھا، ان کے ہاتھ پسینے سے شرابور تھے۔ انھوں نے کہا مجھے بھائی کے پاس لے چلو اور دیکھو میرا ہاتھ نہیں چھوڑنا۔ میں نے بتانے کی کوشش کی کہ میں الطاف بھائی کا لڑکا نہیں، میں خود ایک مہمان ہوں۔ انھوں نے کہا جو کوئی بھی ہو سٹیج تک میرا ہاتھ نہیں چھوڑنا۔

میں نے کراچی میں میڈیا کے سیٹھوں سے لے کر ایم کیو ایم کے منحرفین میں سب کو الطاف حسین سے خوفزدہ ہوتے دیکھا تھا لیکن میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سٹیج پر کھڑے ہو کر ہر طاقتور کی کراچی کی زبان میں پتلون اتارنے والا عمر شریف بھی کسی سے اتنا خوفزدہ ہو سکتا ہے۔
پھر ایک ساتھی نے سمجھایا کہ عمر شریف کراچی کا جم پل تھا اس کی زبان، اس کا فن اس کے لطیفے، اس کی جگتیں کراچی کے غریب محلوں کی گلیوں میں گندھی ہوئی تھیں۔
پھر وہ اپنی شہرت کے عروج پر کراچی چھوڑنے کو کیوں مجبور ہوا۔ ایک زمانے میں کراچی سے باہر رہنے والے شاید شہر کو دو لوگوں کی وجہ سےجانتے تھے ایک الطاف حسین اور دوسرا عمر شریف۔ ایک اپنے ایک حکم سے شہر بند کروا دیتا تھا اور دوسرا ایک ایسا ڈرامہ لکھتا کہ مہینوں کھڑکی توڑ رش لیتا تھا۔ ہر بڑے کامیڈین کی طرح عمر شریف کا مزاح بھی کراچی کے حالات کی پیداوار تھا۔
اب شہر کا سب سے مشہور فنکار شہر کے سب سے بڑے سیاسی فنکار کا مذاق نہیں اڑا سکتا تو کیا کرتا۔ کچھ امن عامہ کے مسائل بھی تھے لیکن اگر آپ کراچی کے سٹیج پر چڑھ کر ایم کیو ایم کا مذاق نہیں اڑا سکتے، الطاف حسین کی نقل نہیں کر سکتے، تو پھر اس شہر کو چھوڑنا اچھا۔
پاکستان کی تاریخ میں بہت کم فنکار ہوں گے جنھوں نے ایک شہر سے بھاگ کر دوسرے شہر میں اپنا مقام بنایا ہو۔ لاہور میں لالو کھیت کے مزاح کو کون سمجھتا۔ اس لیے انھوں نے پنجابی سیکھی، پنجابی کامیڈی کی کئی صنفوں کو اپنے ڈراموں میں لیا اور خود اپنا تھیٹر کھول کر کئی سال تک جلاوطنی میں رہ کر خود اپنے آپ پر ہی ہنستے رہے اور پنجابیوں کو ہنساتے رہے۔ یہ کام انھوں نے قومی یکجہتی کا درس دینے والی حکومت کی سرپرستی میں نہیں کیا اور نہ ان کے پیچھے کوک سٹوڈیو جیسا محب وطن کاروباری ادارہ تھا۔ اپنے فن کے بل بوتے پر اور اسی عوام کے ساتھ جو سو دو سو روپے کا ٹکٹ خرید کر دو گھنٹے کے لیے اپنے دکھڑے بھلانا چاہتے تھے۔
الطاف بھائی کا ولیمہ عمر شریف کے لیے دشمنوں کے درمیان ایک شام کا منظر تھا۔ پاکستان کا ہر بڑا فنکار موجود تھا اور الطاف بھائی کی نظر پڑنے سے پہلے یہ بتانا ضروری تھا کہ وہ خود اپنے پلے سے ٹکٹ لے کر بھائی کی خوشیوں میں شریک ہونے آیا ہے۔ (الطاف بھائی شاید پہلے سیاستدان تھے جن کی غائبانہ تقریب ولیمہ چوبیس ملکوں میں منائی گئی)۔ عمر شریف نے الطاف بھائی کو شادی کی مبارکباد دی، پھر شادی کے بارے میں کچھ گھسے پٹے لطیفے سنائے اور کسی اور کا ہاتھ پکڑ کر کھسک لیے۔
کراچی کا سب سے بڑا فنکار عمر شریف چلا گیا۔ کراچی کا دوسرا بڑا فنکار خود ایسا گھسا پٹا لطیفہ بن چکا ہے کہ اس کا غائبانہ ولیمہ کھانے والے بھی نہیں ہنستے۔
 

سیما علی

لائبریرین
شاہ صاحب ہمیں یہ رائٹر بہت پسند ہیں ۔۔۔خاص طورپر انکی A Case of Exploding Mangoes
part historical fiction, part mystery. ... Zia and intelligence officers in the ISI (Pakistan's leading intelligence
اب تو سناُ ہے اُردو ایڈیشن بھی آگیا ہے ۔۔ہمارے بیٹے کے بھی پسندیدہ جرنلسٹ ہیں ۔۔۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عمر شریف کے علاوہ اور بہت سارے لوگ بھی "بھائی" کے ڈر سے کراچی بلکہ پاکستان چھوڑ کر چلےگئے بلکہ انہیں جانا پڑا ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک غدار بدمعاش اور اس کے ٹولے نے ایک عرصے تک پورے شہر کو یرغمال بنائے رکھا ۔ اللّٰہ ان ظالموں سے انتقام لے اور انہیں ذلیل و رسوا کرے!
 

یاسر شاہ

محفلین
اللّٰہ ان ظالموں سے انتقام لے اور انہیں ذلیل و رسوا کرے!
آمین۔
افتخار عارف کے اشعار میں بھی اشارے ملتے ہیں کراچی کو چھوڑنے کے اسباب کے:

تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
 

سیما علی

لائبریرین
عمر شریف کے علاوہ اور بہت سارے لوگ بھی "بھائی" کے ڈر سے کراچی بلکہ پاکستان چھوڑ کر چلےگئے بلکہ انہیں جانا پڑا ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک غدار بدمعاش اور اس کے ٹولے نے ایک عرصے تک پورے شہر کو یرغمال بنائے رکھا ۔ اللّٰہ ان ظالموں سے انتقام لے اور انہیں ذلیل و رسوا کرے!
آمین ۔
عرضیاں ساری نظر میں ہیں رجز خوانوں کی
سب خبر ہے ہمیں کیوں ، کوئی نہیں لکھے گا

شہر آشُوب کے لکھنے کو جگر چاہیے ہے
میں ہی لکھوں تو لکھوں، کوئی نہیں لکھے گا

بے اثر ہوتے ہُوئے حرف کے اِس موسم میں
کیا کہُوں،کس سے کہُوں، کوئی نہیں لکھے گا
افتخار عارف

دربدر ہو کے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے
وہ ترے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں

کوئی تو شہرِ تذبذب کے ساکنوں سے کہے
نہ ہو یقین تو پھر معجزہ نہ مانگے کوئی!!!!!
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
عطاءالحق قاسمی لکھتے ہیں:

"جون بیحد بلکہ غیر ضروری حد تک پڑھے لکھے انسان تھے۔ عالمانہ گفتگو پر آتے تو علم کے موتی بکھیرتے چلے جاتے، ایک دن جب علم کے موتیوں کا ڈھیر لگ گیا اور گفتگو ختم ہونے کو نہیں آرہی تھی تو میں نے جون کو مخاطب کرکے کہا ’’جون بھائی آپ کو ایک لطیفہ سناؤں؟‘‘
اس پر اہل محفل نے مجھے گھور کر دیکھا مگر جون نے کہا ’’الحق تم ان جاہلوں کی پروا نہ کرو، لطیفہ سناؤ‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا جون بھائی لطیفہ شروع کرنے سے پہلے میں نے ختم کر دیا، میں درمیان میں ذرا سی بریک چاہتا تھا کہ مجھے علمی بدہضمی محسوس ہونے لگی تھی۔ اب آپ دوبارہ شروع ہو جائیں‘‘
مگر اس کے بعد دوبارہ کیا شروع ہونا تھا، محفل ہی اجڑ گئی، سو جون دوبارہ وہی جون بن گئے، جن کی اداؤں نے مجھے ان کا اسیر کیا ہوا تھا۔
اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ جون ایلیا محض شاعر تھے، خوش ادا تھے تو وہ بھول جائے، سب نے جون کا ایک روپ کراچی کے مشاعرے میں دیکھا، جو ایم کیو ایم کی اشیرباد سے ہو رہا تھا،
میں اتفاق سے جون بھائی کے قریب بیٹھا تھا۔ مشاعرے کے دوران ایم کیو ایم کے ایک لیڈر اسٹیج پر آئے اور سامعین کے علاوہ شعراء نے بھی اپنی نشستوں سے اٹھ کر موصوف کا استقبال کیا مگر جون بھائی نہ صرف بیٹھے رہے بلکہ کچھ بڑبڑاتے بھی محسوس ہوئے، دوسرے لیڈر کی آمد پر بھی جب یہ ڈرامہ ہوا تو جون کیلئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہوگیا،
انہوں نے قدرے بلند آواز میں کہا’’ یہ کیا گھٹیاپا ہے؟ بس قیامت کا منظر تھا جو میں نے دیکھا، کچھ کارکن جون کی طرف بڑھے مگر اس سے پہلے ایک شاعر نے (نام یاد نہیں) جون بھائی کو بغل میں دبایا اور بھاگ نکلا۔



میں اس روز شرم سے پانی پانی ہوگیا اور یہ سوچ کر جان سی نکل گئی کہ کہیں رستے میں ظالموں نے میرے جون بھائی کو نہ گھیر لیا ہو مگر اللہ کا شکر ہے، کہ اس شیر جوان نے جس نے جون کو ’’اغوا‘‘ کیا تھا،
ایک مشن امپوسیبل کو مشن پوسیبل بنا دیا اور اس حوالے سے آخر میں ایک ہولناک انکشاف، جس کے با رے میں آج بھی سوچ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ یہ کہ پاکستان بھر سے آئے ہوئے شعراء کو جس اسٹیج پر بٹھایا گیا تھا، عین اس کے نیچے بارود کے ڈھیر بچھے ہوئے تھے مگر لعنت ہے مجھ پر کہ ایک صحافی کے طور پر میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر بارود کو کوئی ماچس کی تیلی دکھا دیتا تو اس روز اخبارات کے نیوز ایڈیٹرز کو کتنی بڑی خبر لیڈ کا زیادہ انتظار کئے بغیر مل جاتی۔"
 

یاسر شاہ

محفلین

ایم کیو ایم کو استاد جون کی بد دعا ہے​

By اسرار قیصرانی On Feb 15, 2018
1992ء میں پاکستان کے بڑے شہر کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے علاقے میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ ملک کے نامی گرامی شعراء حضرات سٹیج پر براجمان تھے۔ اچانک ایک صاحب اپنے باڈی گارڈز کے ساتھ ہال میں داخل ہوتا ہے، ہال میں افراتفری پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہر بندہ بھائی کو سلام کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے لیکن ایک شخص اپنی مستی میں مگن بیٹھا رھتا ہے۔ یہ بات بھائی اور اس کے گارڈز کو ناگوار گزرتی ہے کہ اس شہر میں کوئی بندہ ان کو نظر انداز کرنے کی جرات کرے۔ ایک بندہ چیختا ہے، ‘اس حرام زادے کو اٹھا کر باہر پھینک دو۔’ بھائی کے باڈی گارڈز اس باغی شخص پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور یہ مست باغی اپنے جوتے ہال میں چھوڑ کر جاتا ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں پاکستان کے نامور شاعر جون ایلیا اور90ء کی دہائی میں کراچی میں دہشت کی علامت سمجھے جانے والے عظیم احمد طارق کی۔ ویسے تو اس عشرے میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جب متحدہ قومی موومنٹ کے بھائیوں نے شہر کے شرفاء کی چوارہوں کے بیچ میں درگت بنائی لیکن یہ واقعہ ان واقعات سے کچھ مختلف تھا اور اس واقعہ کے بعد حالات پھر کبھی بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔ اس واقعہ سے پہلے تک ایم کیو ایم اپنے عروج کی طرف گامزن تھی اور اس کے بعد زوال کا جو سلسلہ شروع ہوا، لگتا ہے اب یہ اپنے آخری مراحل میں ہے۔
معروف شاعر جون ایلیا ویسے تو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں لیکن ان کا ایم کیو ایم کے ساتھ کچھ گہرا رشتہ تھا۔ جون ایلیا کاخاندان جو کہ خود بھارت سے ہجرت کر کے آیا تھا ایم کیو ایم کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے جون ایلیا کے بڑے بھائی رئیس امرہوی متحدہ کے تین فکری بانیوں میں سے ایک تھے۔ جب الطاف حسین امریکی شہر لاس اینجلس کی سڑکوں پر ٹیکسی چلا رہے تھے تو یہ فکری بانی، عظیم احمد طارق ڈاکٹر عمران فاروق کے ساتھ مل کر مہاجر سٹوڈنٹس فیڈریشن کو سیاسی جماعت میں تبدیل کرنے میں مصروف تھے، جس میں بعد میں الطاف حسین، آفاق احمد اور عامر خان بھی شامل ہو گئے۔
جب عظیم احمد طارق نے اپنے اس محسن کی پٹائی کرائی تو ٹھیک اس کے دو دن بعد ایم کیوایم کے خلاف آپریشن کا آغاز ہو گیا اور کراچی شہر ایم کیو ایم پر تنگ ہو گیا، کچھ قیادت باہر گئی تو کچھ زیر زمین چلی گئی۔ آپریشن کے آٹھ ماہ بعد جب عظیم احمد طارق منظر عام پر آیا تو اس کے ہاتھو ں میں اب کی بار جو الم بغاوت تھا وہ اپنی ہی جماعت کی قیادت کے خلاف تھا۔ اس نے الطاف حسین اور آفاق احمد سے علیحدگی کا اعلان کردیا اور اپنی علیحدہ پارٹی کے ہوم ورک پر کام شروع کر دیا لیکن اس کو کچھ عرصے بعد ہی قتل کر دیا گیا، جب وہ رات کے وقت اپنے سسرال میں سو رہا تھا۔
ڈاکٹر عمران فاروق کو بھی لندن کی گلیوں میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ الطاف حسین کے انجام کا تو سب کو پتہ ہے لیکن جو ایم کیو ایم کی باقیات بچی تھی اب اس پر قبضہ کے لیے جو لڑائی چل رہی ہے اس کو آپ روزانہ ٹی وی پر دیکھتے ہوں گے۔
اس ساری بحث کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ گلشن اقبال مشاعرے واقعہ کے بعد ایم کیو ایم کو بانی خاندان کے چشم وچراغ جون ایلیا کی بد دعا لگی۔ اس دن کے بعد حالات پھر کبھی بھی پہلے جیسے نہیں رہے اور اس دن سے شروع ہونے والا زوال اب آخری مراحل میں ہے۔ آخر میں جون ایلیا صاحب کا وہ شعر جو شاید انھوں نے ایم کیو ایم کے مستقبل کو مد نظر رکھ کر ہی لکھا تھا۔
کہیں باہر سے نہیں گھر سے اٹھا ہے فتنہ
شہر میں اپنے ہی دفتر سے اٹھا ہے فتنہ
 

علی وقار

محفلین
میرے خیال میں الطاف حسین دہشت اور خوف کی علامت تھا مگر ایسا کیوں ہوا؟ یہ پس منظر دیکھ لینا از بس ضروری ہے تاکہ ہم کسی گروہ یا طبقے کے ساتھ زیادتی کے مرتکب نہ ہوں؛ یہ الگ معاملہ ہے کہ کسی گروہ یا طبقے کے پاس یہ جواز نہیں کہ چونکہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ اس کا بدلہ عامۃ الناس سے لیں گے۔

///
پس منظر
///
بھٹو کے نافذ کردہ کوٹہ سسٹم کے شدید مخالف اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے ممتاز افراد بھی سندھ کی اُردو بولنے والی شہری آبادی سے تعلق رکھتے تھے۔ اختر رضوی اور رئیس امروہوی کی طرح اس شہری آبادی کے ایک بڑے حصے کا خیال تھا کہ کوٹہ سسٹم جیسی ناانصافیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ سندھ کی اُردو بولنے والی آبادی کی اپنی کوئی سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔تب اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے ممتاز شہریوں نے ہی دراصل کراچی کے نوجوانوں کو اپنی سیاسی نمائندہ سیاسی تنظیم بنانے کا خیال پیش کیا اور تنظیم سازی کا ایندھن (یعنی سیاسی مواد اور تربیت) فراہم کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار بھی ان دونوں نے ہی ادا کیا۔

17 ستمبر 1953 کو کراچی میں پیدا ہونے والے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے کمپری ہینسیو ہائی سکول عزیز آباد سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1974 میں میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملنے پر اسلامیہ سائنس کالج سے مائیکرو بیالوجی میں بی ایس سی کیا۔ جس کے بعد انھوں نے کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ فارمیسی میں داخلہ لے لیا۔یہاں وہ پہلے طلبا تنظیم ’نیشنل سٹوڈینٹس ایکشن کمیٹی‘ کے جنرل سیکریٹری اور پھر صدر رہے۔کوٹہ سسٹم کی وجہ سے پائی جانے والی شدید بے چینی، احساس محرومی، مایوسی اور رئیس امروہوی اور اختر رضوی جیسے بزرگ اہل دانش کی رہنمائی نے الطاف حسین اور اُن کے ساتھیوں میں طلبا کی تنظیم آل پاکستان مہاجر سٹوڈینٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کی داغ بیل ڈالنے کا جذبہ بیدار کیا۔بالآخر 11 جون 1978 کو الطاف حسین نے اپنے ساتھیوں عظیم احمد طارق، عمران فاروق، سلیم شہزاد، طارق جاوید، طارق مہاجر، ایس ایم طارق وغیرہ کے ساتھ اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی۔15 اپریل 1985 کو جنرل ضیا کی حکومت کو مارشل لا کی سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والے صوبہ سندھ میں زبردست سیاسی حمایت حاصل کرنے کا شاندار موقع تب ملا جب کراچی کے وسطی علاقے ناظم آباد کی چورنگی پر ٹریفک کے ایک حادثے میں سرسید گرلز کالج کی ایک طالبہ (بشریٰ زیدی) کی جان چلی گئی۔طالبہ کی ہلاکت پر شروع ہونے والا احتجاج شام تک لسانی رنگ اختیار کر گیا اور اُردو بولنے والے شہریوں کا احتجاج پبلک ٹرانسپورٹ کے (زیادہ تر) پشتون مالکان کے خلاف محاذ کی صورت میں ڈھل گیا۔طالبہ کی ہلاکت نے کوٹہ سسٹم اور شہری آبادی کی محرومیوں کی پہلے ہی سے موجود دیگر وجوہات کی وجہ جاری لسانی کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔تب ’مہاجر نعرے‘ کو وہ سیاسی مقبولیت ملنے لگی جس کی توقع نہ تو خود اے پی ایم ایس او کو تھی اور نہ مخالفین کو۔اسی اثنا میں الطاف حسین امریکہ سے واپس آ گئے۔

اس ماحول میں الطاف حسین کو مخالفین کی جانب سے بزور جامعہ کراچی سے نکال دیا گیا اور یہی وہ وقت تھا جب اُردو بولنے والے افراد کی آبادیوں میں اے پی ایم ایس او (یا مہاجر سیاست) کا جادو سر چڑھ کر بولنا شروع ہوا۔مہاجر آبادیوں اور اردو بولنے کی اکثریت رکھنے والوں کے علاقوں اور محلوں کی سطح پر کارنر میٹنگز، علاقائی جلسوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔مختلف محلوں سے اٹھنے والے یہ جذبات اور اثرات تعلیمی اداروں میں بھی نمایاں ہونے لگے۔شہر کے کم و بیش ہر محلے کی طرح ہر تعلیمی ادارے میں بھی اے پی ایم ایس او کی پذیرائی اور مقبولیت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ طلبا جوق در جوق اے پی ایم ایس او میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔اُردو بولنے والی برادری میں الطاف حسین، ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او کی حمایت 'جنون' کی شکل اختیار کرنے لگی۔

///

بعد کے واقعات ہمارے سامنے کے ہیں کہ کیا ہوا؟ چونکہ اس بڑے گروہ یا طبقے کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا سو اُن کا ردعمل اسی قدر شدت کے ساتھ سامنے آیا اور بعد میں الطاف حسین نے تو تمام حدیں پار کر دیں اور دہشت و خوف کی علامت بن گیا۔مگر جب تک ہم اسباب پر غور نہ کریں گے، محض الطاف حسین کو رگیدنے اور برا بھلا کہنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
آمین۔
افتخار عارف کے اشعار میں بھی اشارے ملتے ہیں کراچی کو چھوڑنے کے اسباب کے:

تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
شاہ صاحب دیکھیے عارف صاحب دل نکال کے رکھ دیتے ہیں ۔۔۔ہمیں آج تک اپنے ایک سئینر کے جملے یاد ہیں جب اُِنھوں نے ہمیں ایم کیوایم کے جھنڈے کے رنگ کی چوڑیاں پہنے دیکھا ۔۔تو کہنے لگے بیٹا اسکا بننا اتنا خطرناک نہیں ہے اسکا ٹوٹنا کراچی کے لئے بے حد خطرناک و دردناک ہوگا اور اُنکی کہی بات کو وقت نے ثابت کیا ۔۔۔اُنکا تعلق بہار سے تھا پروردگار مغفرت فرمائے ۔۔آمین۔۔۔۔
گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
جو دل میں ہے اب اسکا تذکرہ کرنا پڑے گا
نتیجہ کربلا سے مختلف ہو، یا وہی ہو
مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا
وہ کیا منزل، جہاں راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر ایک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
لہو دینے لگی ہے چشمِ خوں بستہ، سو اس بار
بھری آنکھوں میں خوابوں کو رہا کرنا پڑے گا
مبادا قصۂ اہلِ جنوں ناگفتہ رہ جائے
نئے مضمون کا لہجہ نیا کرنا پڑے گا
درختوں پہ ثمر آنے سے پہلے آئے تھے پھول
پھلوں کے بعد کیا ہو گا، پتہ کرنا پڑے گا
گنوا بیٹھے تَری خاطر اپنے مِہر و مہتاب
بتا اب اے زمانے! اور کیا کرنا پڑے گا

افتخار عارف
 
Top