عمر کو نقدِ جان سمجھا تھا

عظیم

محفلین




عمر کو نقدِ جان سمجها تها
مَیں زمیں آسمان سمجها تها

اِک یقیں کی لپیٹ میں تها مَیں
اور تیرا گُمان سمجها تها

مَر مِٹا آج تو یہ آیا یاد
خُود کو اِک سخت جان سمجها تها

میں سمجهتا پِهرا زمانے کو
اور مجھ کو زمان سمجها تها

میرے مُنہ میں جو اِک شرر سا ہے
کب سے اِس کو زبان سمجها تها

اپنے اِس رینگنے پهسلنے کو
عقل کی اِک اُڑان سمجها تها

میں تِری یاد کو ہی دُنیا اور
تیری قربت جہان سمجها تها

کیا سمجھ بوجھ تهی مجهے اپنی
جب تمہاری زبان سمجها تها

میں کسی دَشت کا مسافر ہُوں
لامکاں کو مکان سمجها تها

رات بیٹها کِیا بہت گریہ
رات اپنا بَیان سمجها تها

تها عظیم اپنا ہی تهکایا مَیں
آپ اپنی تهکان سمجها تها





 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین

خُود کو اپنے ہی جال میں دیکها
خواب ایسا خیال میں دیکها

میں نے خُوشیوں کا دَور بهی اپنے
تیرے حُزن و ملال میں دیکها

جب بهی دِیدار کو نظر تڑپی
تجھ کو اپنے کمال میں دیکها

کیسا حسن و جمال مَیں نے اور
ایک حسن و جمال میں دیکها

ہجر بهی دے سکا نہ وہ مرنا
مر جو تیرے وصال میں دیکها

اِک وہی شخص ہی نظر آیا
جهانک جب بھی خیال میں دیکها

جب بهی دیکها عظیم آئینہ
اپنے ماضی کو حال میں دیکها



پوری ہانڈی ( غزل ) ہی صاف کردی میں
ایک کنکر جو دال میں دیکها









 
آخری تدوین:

جنید عطاری

محفلین
عمر کو نقدِ جان سمجها تها
فرش کو آسمان سمجها تها

اپنے اِس رینگنے پهسلنے کو؟
اپنے تئیں اک اُڑان سمجها تها

میں تِری یاد کو ہی دُنیا اور
تیری قربت جہان سمجها تها

مجھے اس شعر سے اپنے اشعار یاد آ گئے، جو مشقً لکھے تھے۔

مذہبِ عشق کی شریعت میں
تم صریحاً حلال تھیں جانم

جز تمھارے سبھی کو چھوڑ دیا
کہ تم اہل و عیال تھیں جانم

باقی۔
کوششِ کارِ استراحت کو (آرام کی کوشش کے لیے کوئی فعل کرنا)
مدتوں کی تهکان سمجها تها

رات بیٹها کِیا بہت گریہ
رات اپنا بَیان سمجها تها
(گریہ تو رونا دھونا، آہ و بکا کرنا ہوتا ہے، اور اک رات میں گریہ زاری سے کیا بیاں ہوا، کیا اخذ کیا گیا؟)

ابہام بہت زیادہ ہیں عظیم، شعر کے دونوں مصرعوں کو یُوں ترتیب دیں کہ پہلا سوالیہ ہو تو دُوسرا جواب، پہلا الفاظ، دُوسرا متضاد، یا کوئی جوڑ پیدا کریں،
جیسے آئنے کا جوڑ، عکس، صُورت سے ہے۔
چمن کا گُلوں سے، کانٹوں سے۔
آسمان کا بلندی سے، جلالت سے

باقی مصرعوں کی بُنت ٹھیک ہے مگر فصیح نہیں ہیں، مگر کوشش اچھی کی ہے۔ مشق کرتے رہو، بہت خیال رکھو
 

عظیم

محفلین
عمر کو نقدِ جان سمجها تها
فرش کو آسمان سمجها تها

اپنے اِس رینگنے پهسلنے کو؟
اپنے تئیں اک اُڑان سمجها تها

میں تِری یاد کو ہی دُنیا اور
تیری قربت جہان سمجها تها

مجھے اس شعر سے اپنے اشعار یاد آ گئے، جو مشقً لکھے تھے۔

مذہبِ عشق کی شریعت میں
تم صریحاً حلال تھیں جانم

جز تمھارے سبھی کو چھوڑ دیا
کہ تم اہل و عیال تھیں جانم

باقی۔
کوششِ کارِ استراحت کو (آرام کی کوشش کے لیے کوئی فعل کرنا)
مدتوں کی تهکان سمجها تها

رات بیٹها کِیا بہت گریہ
رات اپنا بَیان سمجها تها
(گریہ تو رونا دھونا، آہ و بکا کرنا ہوتا ہے، اور اک رات میں گریہ زاری سے کیا بیاں ہوا، کیا اخذ کیا گیا؟)

ابہام بہت زیادہ ہیں عظیم، شعر کے دونوں مصرعوں کو یُوں ترتیب دیں کہ پہلا سوالیہ ہو تو دُوسرا جواب، پہلا الفاظ، دُوسرا متضاد، یا کوئی جوڑ پیدا کریں،
جیسے آئنے کا جوڑ، عکس، صُورت سے ہے۔
چمن کا گُلوں سے، کانٹوں سے۔
آسمان کا بلندی سے، جلالت سے

باقی مصرعوں کی بُنت ٹھیک ہے مگر فصیح نہیں ہیں، مگر کوشش اچھی کی ہے۔ مشق کرتے رہو، بہت خیال رکھو

بہت شکریہ ۔

رات بیٹھا کِیا بہت ماتم
رات اپنا بیان سمجھا تھا ۔
 
آخری تدوین:

جنید عطاری

محفلین
وقت ہوا تو مجھ سے خلوت میں بات کرنا، میں اس پر سیر حاصل بحث کروں گا، علم البیان دقیق ہے، مگر آ گیا تو سمجھو زبان کے انداز و بیان کو زیر کر لیا۔

کوشش کرو کہ مکمل الفاظ لکھو، جیسے یہ تو، میں تھا، تو تھا وغیرہ سے صوت بے ڈھنگا ہو جاتا ہے مگر اس میں

فاعلن فاعلن مفاعیلن یا فاعلاتن مفاعلن فعلن جیسے بھی بحر کو پڑھتے ہو،

کام کرنا ہمیں نہیں آتا۔۔ یہ جلدی میں کہہ دیا ہے، سمجھانا مقصود ہے کہ مصرع جتنا عام بول چال سے قریب ہو گا، اُتنا فصیح ہو گا، اور جتنا فصیح ہو گا اُتنا بیان میں وزن دار ہو گا، سو بلاغت کا عین بھی ہو گا۔ کچھ سمجھ نہ آیا ہو تو پُوچھ سکتے ہو۔ بقیہ۔۔۔
 

جنید عطاری

محفلین
سسکیوں کو، گِلے کو، نالے کو
درد کا ترجمان سمجھا تھا ۔

اب کچھ سمجھ آتا ہے؟

پہلے مصرع میں بیک وقت تین حالتوں کا ذکر ہے، سسکیاں، پہلے سرد سی آہ میں لپٹی سسکیاں، پھر گلہ و شکوہ پھر نالہ و فریاد
دوسرے میں ان سب کو درد کا ترجمان سمجھا تھا، اب یہ سمجھ آ رہا ہے۔
 

عظیم

محفلین


نگاہیں پهیرنا گهبرانا میرا
اترنا آپ کا مرجانا میرا

ہوا اک کهیل اس 'اندازنیں' کا
لگا کر دل یہاں پچهتانا میرا


 
آخری تدوین:
Top