مصنف کا تعارف عنایت اللہ (مرحوم)

معظم جاوید

محفلین
عنایت اللہ (مرحوم) (Inayatullah)​
305691_406245769446287_2081361543_n.jpg
پاکستان کے مشہور و معروف مصنف عنایت اللہ (مرحوم) کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ جب بھی تاریخی ناولوں کا ذکر ہو تو ان کا نام فورا ذہن میں آجاتاہے۔ اور اک بت شکن پیدا ہوا، شمشیر بے نیام، دمشق کے قید خانے میں، اور نیل بہتا رہا، ستارہ جو ٹوٹ گیا!، حجاز کی آندھی، اندلس کی ناگن، فردوس ابلیس جیسے کئی ناول ان کے قلم سے وجود میں آئے۔ اس کے علاوہ طاہرہ، میں کسی بیٹی نہیں اور اس نے کہا، جیسے معاشرتی ناولوں نے شہرہ آفاق پذیرائی پائی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاک آرمی سے فارغ شدہ یہ شخص آگے چل کر ایسی عظیم تخلیقات جنم دے گا۔ عنایت اللہ آرمی ملازمت سے فراغت کے بعد علم و ادب سے منسلک ہوئے۔ سیارہ ڈائجسٹ میں مجلس مشاورت سنبھالی اور بے شمار کہانیاں اور مضامین لوگوں کی نذر کئے۔ بعد میں اپنا ذاتی ڈائجسٹ حکایت کے نام سے شروع کیا۔ لکھاریوں اور سرمایے کی کمی کو یوں پورا کیا کہ خود ہی کئی قلمی ناموں سے ڈائجسٹ کے اوراق سجا دئیے۔ ان کے قلمی ناموں میں احمدیار خان کا نام بے حد مقبول ہوا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ احمدیارخان محض ایک قلمی نام تھا جو عنایت اللہ نے اپنی جرم وسزا کی کہانیوں کیلئے تجویز کیا تھا۔سن ستر کی دہائی میں شکاریات کی کہانیوں کا بڑا شہرہ تھا۔ لوگ بڑی دلچسپی سے شیر و چیتے کے شکار کی کہانیاں پڑھتے تھے۔ عنایت اللہ نے اس سلسلے کو روایتی شکل میں ڈھالا اور صابر حسین راجپوت کے نام سے متعدد شکاریات کی کہانیاں لکھیں۔ ان کہانیوں میں اعلیٰ نسل کتوں کے ساتھ چوہدریوں اور وڈیروں کے شکار کی داستانیں اور حیرت انگیز معلومات موجود ہیں۔ عنایت اللہ چونکہ گہرے اور زمانہ شناس شخص تھے، اس لئے انہوں نے نوجوان نسل کی اصلاح احوال کیلئے ایک سلسلہ شروع کیا جس میں نام نہاد حکیموں اور نوسربازوں کے شعبدوں کا حال کھولا۔ دین کی طرف رغبت اور سچا مسلمان بننے کی ترغیبات پیدا کیں۔ شعبہ نفسیات بھی ان کی زندگی کا اہم حصہ رہا۔ انہوں نے نفسیات کی پیچیدگیوں میں الجھے بغیر اپنے معاشرتی لحاظ و اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’میم الف‘‘ کے نام سے متعدد مضامین لکھے۔ جو ان کی زندگی میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے۔ ان میں نئی زندگی، جیو اور جینے دو، مقناطیسی شخصیت بے حد مقبول ہوئیں۔ سابق فوجی ہونے کی حیثیت سے انہوں نے فوجیوں کی خدمات اور مسائل پر بھی توجہ دی اور بے شمار کہانیوں میں انہیں عوام سے متعارف کرایا۔ بی آر بی بہتی رہی، پرچم اُڑتا رہا، بدر سے باٹا پور تک جیسی بے شمار کتب منظر پر آئیں۔ تینتیس سال تک علم ادب کی بھرپور خدمت کے بعدسنہ 1999 میں 79 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے۔ (ان للہ و انا الیہ راجعون) اردو ادب میں ان کا نمایاں مقام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان سے محبت کرنے والے ان کی مغفرت کیلئے دعاگو رہیں گے۔​
معظم جاوید بخاری​
 

تلمیذ

لائبریرین
بالکل درست فرمایا آپ نے بخاری صاحب۔' حکایت ' اپنے وقت میں ایک نہایت مقبول رسالہ تھا اور ہماری نسل کے قارئین اس کے باقاعدہ قاری تھے۔ ۶۵ اور ا۷کی جنگوں کے واقعات کو جس طرح انہوں نے حکایت میں چھاپا، دوسرے رسالے کم ہی اس مقام تک پہنچے تھے۔
اللہ تعالےٰ انہیں غریق رحمت کرے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ معظم صاحب۔ میں نے اس مراسلے کو مطالعہ کتب فورم میں منتقل کر دیا ہے۔ کتب اور مصنفین سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے لیے یہ درست فورم ہے۔
اگر مجھے درست یاد پڑتا ہے تو عنایت اللہ مرحوم کے ایک ناول پر مبنی ٹی وی سیریل بھی نشر ہوئی تھی جس کا بنیادی خیال تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے واقعات تھے۔
 

رمان غنی

محفلین
@معظم بھائی ! میں عنایت اللہ صاحب کو گوگل میں سرچ کر کر کے تھک چکا تھا۔ آج آپ نے میرے دل کی بات سن لی :)
بہت بہت شکریہ !!!
 

معظم جاوید

محفلین
شاہد جمیل (مرحوم) ------ شاہد بن عنایت اللہ
21742_404329142971283_1796442218_n.jpg
شاہد جمیل پاکستان کے نامور مصنف و ناول نگار عنایت کے اکلوتے فرزند تھے۔ والد کی زندگی میں ان کا رہن سہن شہزادوں جیسا رہا۔ نہایت مخلص اور ہمدرد طبع کے انسان تھے، کسی کی مجبوری یا مصیبت کا سن کر یوں مضطرب ہو جاتے جیسے وہ انہی پر ٹوٹ پڑی ہو۔ ماہنامہ حکایت کے تمام ممبران ان سے خصوصی محبت رکھتے تھے۔ وہ اپنے والد سے چوری اپنے ملازمین کی شاہانہ امداد و دادرسی کیا کرتے تھے۔ والدین کے لاڈلے تھے کیونکہ وہ تین بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ ان کی خوش مزاجی کے باعث لوگ جلد ان کے دوست بن جاتے تھے، بسا اوقات وہ اپنی نرم طبعی کے باعث خودغرض اور مطلبی دوستوں سے دھوکا بھی کھا جاتے۔ والد کی زندگی میں ماہنامہ حکایت سے وابستہ ہوئے اور ان کی وفات کے بعد باقاعدہ حکایت کی ادارت سنبھالی۔ اس دور میں کئی مالی نقصانات سے دوچار ہوئے اور نوبت یہاں پہنچ گئی کہ مکتبہ داستان کی کتب دوسرے اداروں کو فروخت کرنا پڑیں۔ پانچ سال کے مشکل دور میں انہوں نے حکایت کو پوری ذمہ داری سے جاری رکھا۔ 1999 سے لیکر 2007 تک ان کے لکھے ہوئے حکایت کے اداریوں میں ملکی حالات اور اخلاقی بدتری پر گہری نظر اور دلی رنج و غم کا بخوبی احساس ہوتا ہے۔ وہ عمدہ لکھاری بھی تھے۔ انہوں نے فریب مسلسل کے عنوان سے ایک معاشرتی ناول تحریر کیا جسے پڑھنے والوں نے بے حد سراہا۔ متعدد کہانیاں اور مفید مضامین تحریر کئے۔ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ تحریر کی خداداد صلاحیت خدا کی عطا کردہ خاص نعمت ہوتی ہے۔ میرا ان کے ساتھ ذاتی تعلق تھا۔ میری دو سلسلہ وار تاریخی کہانیوں کو شائع کرنے میں ان کا دست شفقت نمایاں رہا۔ انسانیت کے جذبوں سے معمور شاہد جمیل 25 اپریل 2007 کو ہمیں چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں مہلت نہیں ملی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ ماہنامہ حکایت کو تیسری نسل نے سنبھال لیا اور اب ان کا نوجوان بیٹا وقاص شاہد حکایت کی ادارت کے فرائض نبھا رہا ہے۔
معظم جاوید بخاری​
 

معظم جاوید

محفلین
عارف محمود --------- مدیر حکایت ڈائجسٹ لاہور
68411_413212798749584_615962943_n.jpg
عنایت اللہ کی زندگی میں یوں تو بہت سارے لوگ آئے، جن میں بعض کو بعد میں بے تحاشا شہرت بھی ملی مگر ایک شخص ایسا بھی ہے جو حقیقی معنوں میں نہ صرف عنایت اللہ کا شاگرد ثابت ہوا بلکہ اسے ان کا جانشین کہا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ جی ہاں! یہ شخص عارف محمود تھا جو عنایت اللہ کی زندگی میں ماہنامہ حکایت سے وابستہ ہوا اور اس کی حیثیت معاون مدیر کی رہی۔ حکایت میں چھپنے والی تمام تحریروں کی نوک پلک درست کرنا اور طرز تحریر میں جاذبیت پیدا کرنا عارف محمود کا کام رہا۔ عنایت اللہ مرحوم کے بعد بے شمار لوگوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ اب حکایت کی چھٹی ہوئی، جلد ہی اسے بند کر دیا جائے گا کیونکہ یہ ’’ون مین شو‘‘ ڈائجسٹ تھا۔ مگر ان حسدوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ شاہد جمیل کے زیرانتظام اور عارف محمود کی ادارت میں ماہنامہ حکایت نے اپنا سفر جاری رکھا۔ شاہد جمیل کی وفات کے بعد حکایت کی تمام تر ذمہ داری عارف محمود کے کندھوں پر آن پڑیں۔ جنہیں انہوں نے بخوبی احسن نبھایا۔ عارف محمود درحقیقت ایک گمنام مصنف ہیں جنہیں اپنے نام کی شہرت سے کوئی غرض نہیں رہی۔ 1999 کے بعد حکایت میں شائع ہونے والے قلمی ناموں احمدیارخان، محبوب عالم اور صابرحسین راجپوت کی کہانیاں انہی کے قلم سے ضبط تحریر میں آئیں۔ عارف محمود کی جرم وسزا کی کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’پیار کی صلیب پر‘‘ احمدیار خان کے نام سے شائع ہو چکا ہے اور لوگوں نے انہیں بے حد پسند کیا۔ ان کی دیگر جرم سزا پر مشتمل کہانیوں کے چار مجموعے ابھی زیرطبع ہیں۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ حکایت میں شائع ہونے والا تاریخی ناول ’’خراساں کا عقاب‘‘ بھی درحقیقت عارف محمود کا ہی شاہکار ہے جسے انہوں نے ایک نوجوان مصنف وحید اختر کے نام پر وقف کر دیا تھا۔ گذشتہ تین دہائیوں سے مسلسل اردو ادب کی خدمت کرنے والا یہ شخص نہایت نفیس الطبع اور بے لوث جذبات سے معمور ہے۔ دعا ہے کہ ان کے قلم سے نکلنے والی تحریروں کو ان کا نام بھی ملتا رہے۔
معظم جاوید بخاری​
 

حفیظ عاصم

محفلین
الحمداللہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جو عنائت اللہ اور شاہدعظیم سے مل چکے ہیں۔عنائت اللہ نہائت ملنسار انسان تھے اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت دے ۔وہ ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ تھے۔ میں جب بھی ان کے پاس مکتبہ داستان گیا وہ اپنا کام چھوڑ کر مجھ سے باتیں کرنے لگتے۔ اس وقت جو لوگ حکائت پڑھتے تھے وہ حکائت ضائع نہیں کرتے تھے میرے پاس آج بھی ان کے کچھ حصے موجود ہیں
 
Top