معظم جاوید
محفلین
عنایت اللہ (مرحوم) (Inayatullah)
پاکستان کے مشہور و معروف مصنف عنایت اللہ (مرحوم) کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ جب بھی تاریخی ناولوں کا ذکر ہو تو ان کا نام فورا ذہن میں آجاتاہے۔ اور اک بت شکن پیدا ہوا، شمشیر بے نیام، دمشق کے قید خانے میں، اور نیل بہتا رہا، ستارہ جو ٹوٹ گیا!، حجاز کی آندھی، اندلس کی ناگن، فردوس ابلیس جیسے کئی ناول ان کے قلم سے وجود میں آئے۔ اس کے علاوہ طاہرہ، میں کسی بیٹی نہیں اور اس نے کہا، جیسے معاشرتی ناولوں نے شہرہ آفاق پذیرائی پائی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاک آرمی سے فارغ شدہ یہ شخص آگے چل کر ایسی عظیم تخلیقات جنم دے گا۔ عنایت اللہ آرمی ملازمت سے فراغت کے بعد علم و ادب سے منسلک ہوئے۔ سیارہ ڈائجسٹ میں مجلس مشاورت سنبھالی اور بے شمار کہانیاں اور مضامین لوگوں کی نذر کئے۔ بعد میں اپنا ذاتی ڈائجسٹ حکایت کے نام سے شروع کیا۔ لکھاریوں اور سرمایے کی کمی کو یوں پورا کیا کہ خود ہی کئی قلمی ناموں سے ڈائجسٹ کے اوراق سجا دئیے۔ ان کے قلمی ناموں میں احمدیار خان کا نام بے حد مقبول ہوا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ احمدیارخان محض ایک قلمی نام تھا جو عنایت اللہ نے اپنی جرم وسزا کی کہانیوں کیلئے تجویز کیا تھا۔سن ستر کی دہائی میں شکاریات کی کہانیوں کا بڑا شہرہ تھا۔ لوگ بڑی دلچسپی سے شیر و چیتے کے شکار کی کہانیاں پڑھتے تھے۔ عنایت اللہ نے اس سلسلے کو روایتی شکل میں ڈھالا اور صابر حسین راجپوت کے نام سے متعدد شکاریات کی کہانیاں لکھیں۔ ان کہانیوں میں اعلیٰ نسل کتوں کے ساتھ چوہدریوں اور وڈیروں کے شکار کی داستانیں اور حیرت انگیز معلومات موجود ہیں۔ عنایت اللہ چونکہ گہرے اور زمانہ شناس شخص تھے، اس لئے انہوں نے نوجوان نسل کی اصلاح احوال کیلئے ایک سلسلہ شروع کیا جس میں نام نہاد حکیموں اور نوسربازوں کے شعبدوں کا حال کھولا۔ دین کی طرف رغبت اور سچا مسلمان بننے کی ترغیبات پیدا کیں۔ شعبہ نفسیات بھی ان کی زندگی کا اہم حصہ رہا۔ انہوں نے نفسیات کی پیچیدگیوں میں الجھے بغیر اپنے معاشرتی لحاظ و اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’میم الف‘‘ کے نام سے متعدد مضامین لکھے۔ جو ان کی زندگی میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے۔ ان میں نئی زندگی، جیو اور جینے دو، مقناطیسی شخصیت بے حد مقبول ہوئیں۔ سابق فوجی ہونے کی حیثیت سے انہوں نے فوجیوں کی خدمات اور مسائل پر بھی توجہ دی اور بے شمار کہانیوں میں انہیں عوام سے متعارف کرایا۔ بی آر بی بہتی رہی، پرچم اُڑتا رہا، بدر سے باٹا پور تک جیسی بے شمار کتب منظر پر آئیں۔ تینتیس سال تک علم ادب کی بھرپور خدمت کے بعدسنہ 1999 میں 79 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے۔ (ان للہ و انا الیہ راجعون) اردو ادب میں ان کا نمایاں مقام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان سے محبت کرنے والے ان کی مغفرت کیلئے دعاگو رہیں گے۔
معظم جاوید بخاری