محمد اطھر طاھر
محفلین
محبتوں کے حسین گلشن کو،
جانے کس کی نظر لگی تھی،
عداوتوں کی بغاوتوں کی،
آگ جیسے بھڑک چکی تھی،
وفا نظروں سے گر چکی تھی،
خون آنکھوں میں اتر چکا تھا،
تو بدگمانی میں گھر چکا تھا،
واہموں میں اُتر چکا تھا،
الہام جیسے کہ ہو رہے تھے،
کہ قیامت ہے آن پہنچی،
بہاریں تڑپ رہی تھیں،
ہوائیں چیخ رہی تھیں،
خزائیں بپھرتی آ رہی تھیں،
پتے بلکتے جا رہے تھے،
اور تم کے بٹتے جا رہے تھے،
پیچھے ہٹتے جارہے تھے،
رفاقتوں کے وہ سارے موسم،
تیرے قدموں میں پڑے تھے،
پھول کلیاں ہاتھ جوڑے،
سانس روکے گھٹنے ٹیکے،
تیرے آگے جھکی کھڑی تھیں،
بیلیں پھولوں کو گود لے کر،
تیرے آگے بچھی پڑی تھیں،
اشکوں میں ڈوبے تھے شجر،
خون سے لتھڑی تھی رہگذر،
رو رہی تھیں تتلیاں،
باندھ باندھ کے ہچکیاں،
تمہیں روک لینے کی آس میں،
اک آڑ بن کے حصار میں،
ننھے پروں کی زنجیر میں،
تیرے گرد منڈلا رہی تھیں،
بھنورے بھی چلا رہے تھے،
درد سے بلبلا رہے تھے،
خوں کے آنسو بہار رہے تھے،
تم کو واپس بلا رہے تھے،
وہ بھنبھنا کر یہ کہہ رہے تھے،
اے شاہِ گلشن، اے جانِ گلشن،
ہمارے ہستی پر تو رحم کر،
ہماری عرضی پر نظرِ کرم کر،
تمہیں واسطہ ہے پیار کا،
اس اُجڑی پُجڑی بہار کا،
پھول کلیوں پہ ترس کھاؤ،
بیلوں اور تتلیوں کو بچاؤ،
ہمارے ارماں نہ یوں جلاؤ،
خدار گُلشن سے نہ یوں جاؤ،
قسمیں ساری رو رہی تھیں،
ارادے ڈگمگا رہے تھے،
درد سے لڑکھڑا رہے تھے،
وعدے پاؤں پکڑ رہے تھے،
کیسے کیسے منا رہے تھے،
تم کے چلتے ہی جا رہے تھے،
اور چلتے ہی جا رہے تھے،
تیرے وہ بے رحم قدم تھے،
روتے بھنوروں، بلکتی تتلیوں،
کے محبت بھرے دلوں کو
مسلتے ہیں جا رہے تھے،
تم کچلتے ہی جا رہے تھے،
تم کہ جلاد بن چکے تھے،
سرخ پرچم لہرا رہے تھے،
میں بے اختیار شرمسار مالی،
شکستہ دل لاچار مالی،
بقائے گُلشن کا سوالی،
سکتے کے عالم میں کھڑا تھا،
پتھرائی آنکھوں سے سب تماشا،
صرف تکتا ہی جا رہا تھا،
کوئی فیصلہ بھی نہ کر پا رہا تھا،
آگ بجھا دوں یا خود کو جلا دوں،
کہ پھول کلیوں کی رکتی سانسیں،
میری سانسوں سے جڑی تھیں،
پھول پتیوں کی رگوں میں،
جو جل رہا تھا میرا لہو تھا،
بھنوروں تتلیوں کی التجائیں،
وہ میری روح کی تھی صدائیں،
تیرے قدموں میں جو پڑے تھے،
وہ میرے ہی دل کے ٹکڑے تھے،
میرے جذبوں کے عکس تھے،
میری نظروں میں حیرت بسی تھی،
جدھر دیکھتا ایک عبرت کھڑی تھی،
آنکھیں میری دھندلا چکی تھیں،
واں شکستہ وعدوں بکھرے سپنوں کی،
مردہ جذبوں، بے جان قسموں کی،
ٹوٹتی اناؤں کی،
تڑپتی وفاؤں کی،
رد ہوئی دعاؤں کی،
ان سنی صداؤں کی،
تا حدِ نظر دھول ہی دھول تھی،
میرے پیش و پس میں،
دھواں ہی دھواں تھا،
بے بسی کا تھا یہ عالم،
کل تک جو گُلشن کا ناخدا تھا،
وہ سانس تک نہ لے پا رہا تھا،
آگ بجھاتا یہ کہاں تھا ممکن،
میں ہاتھ تک نہ ہلا سکا تھا،
اب وقت کافی گزر چکا ہے،
اب فکر مجھ کو یہ کھا رہی ہے،
ستم تو سارے تم ڈھا چکے ہو،
جفائیں ساری آزما چکے ہو،
دل کے گُلشن جلا چکے ہو،
راکھ تک بھی اُڑا چکے ہو،
جہاں تھا گُلشن وہاں ہے کھنڈر،
خامشی کا ہے سمندر،
جیسے کہ کوئی قبرستاں ہے،
نہ دھول ہے اب، نہ ہی دھواں ہے،
نہ آہیں نہ آنسو نہ کوئی فغاں ہے،
پھول پتھر بن چکے ہیں،
کلیاں کانٹوں میں بٹ چکی ہیں،
تتلیاں بے بال و پر ہیں،
سپولوں جیسی لگ رہی ہیں،
بھنوروں نے بچھوؤں کا روپ دھارا،
وہ پھول کلیاں اور تتلیاں،
مضطرب ہیں ایک گاہ میں،
منتظر ہیں تیری راہ میں،
مگر اُن کے تیور میں بدل ہے،
اردے اُن کے پُر خطر ہیں،
کسی منتقم سے مزاج میں ہیں،
کسی بے بس و بے آس کا،
اک مشورہ ہے اخلاص کا،
کہیں تم پھر سے نہ لوٹ آنا،
اس طرف کا رخ بھی نہ کرنا،
کبھی اِدھر تم جو آگئے تو،
نشانِ عبرت سے ٹکرا گئے تو،
پھول کلیوں اور تتلیوں کے،
دکھوں کا سمندر بپھر گیا تو،
ارادے اُن کے بتا رہے ہیں،
تم سلامت نہ جا سکو گے،
مگر یہ بھی طے ہے،
تمہیں آنا ہوگا،
یہی گاہ تیرا ٹھکانہ ہوگا،
سوائے اس کے نہ چارہ ہوگا،
ابھی تو سانس باقی ہے،
ابھی تو جان باقی ہے،
اک امکان باقی ہے،
پھول کلیوں تتلیوں کے،
دکھوں اور اذیتوں کا مداوا،
کر سکو تو کر کے دیکھو،
مبادا وقت پلٹ جائے،
اور پھر بے چارہ مالی ہو،
پھر تیری بقا کا سوالی ہو،
پھر قیامت آنے والی ہو،
ہاتھ میں اُن کے ہو سرخ پرچم،
اور تیرا ہاتھ خالی ہو،
پھر سے مقتل سج جائیں،
پھر سے ہوائیں بین کریں،
جہاں تم تھے وہاں تتلیاں ہوں،
ہاتھوں میں اُن کے
تیری بجلیاں ہوں،
پھر اُن کے قدم ہوں،
اور تیرے ہاتھ ہوں،
بلائیں ، التجائیں تیرے ساتھ ہوں،
تیرے سب اوزاروں پر
حکمرانی اُن کی ہو،
سب سزائیں تیری ہوں،
بد گمانی اُن کی ہو،
دکھوں کا مداوا جو کرنا چاہو،
ابھی کچھ وقت باقی ہے،
صدقے کرو اُن کی نذریں اُتارو،
ایک کوشش کرو آکے گلشن سنوارو،
محفل سجاؤ، سبیلیں لگاؤ،
وفاؤں کی مے سے
بھرے جام لاؤ،
محبتوں کے پیغام لاؤ
تخلیق: محمد اطہر طاہر
ہارون آباد
جانے کس کی نظر لگی تھی،
عداوتوں کی بغاوتوں کی،
آگ جیسے بھڑک چکی تھی،
وفا نظروں سے گر چکی تھی،
خون آنکھوں میں اتر چکا تھا،
تو بدگمانی میں گھر چکا تھا،
واہموں میں اُتر چکا تھا،
الہام جیسے کہ ہو رہے تھے،
کہ قیامت ہے آن پہنچی،
بہاریں تڑپ رہی تھیں،
ہوائیں چیخ رہی تھیں،
خزائیں بپھرتی آ رہی تھیں،
پتے بلکتے جا رہے تھے،
اور تم کے بٹتے جا رہے تھے،
پیچھے ہٹتے جارہے تھے،
رفاقتوں کے وہ سارے موسم،
تیرے قدموں میں پڑے تھے،
پھول کلیاں ہاتھ جوڑے،
سانس روکے گھٹنے ٹیکے،
تیرے آگے جھکی کھڑی تھیں،
بیلیں پھولوں کو گود لے کر،
تیرے آگے بچھی پڑی تھیں،
اشکوں میں ڈوبے تھے شجر،
خون سے لتھڑی تھی رہگذر،
رو رہی تھیں تتلیاں،
باندھ باندھ کے ہچکیاں،
تمہیں روک لینے کی آس میں،
اک آڑ بن کے حصار میں،
ننھے پروں کی زنجیر میں،
تیرے گرد منڈلا رہی تھیں،
بھنورے بھی چلا رہے تھے،
درد سے بلبلا رہے تھے،
خوں کے آنسو بہار رہے تھے،
تم کو واپس بلا رہے تھے،
وہ بھنبھنا کر یہ کہہ رہے تھے،
اے شاہِ گلشن، اے جانِ گلشن،
ہمارے ہستی پر تو رحم کر،
ہماری عرضی پر نظرِ کرم کر،
تمہیں واسطہ ہے پیار کا،
اس اُجڑی پُجڑی بہار کا،
پھول کلیوں پہ ترس کھاؤ،
بیلوں اور تتلیوں کو بچاؤ،
ہمارے ارماں نہ یوں جلاؤ،
خدار گُلشن سے نہ یوں جاؤ،
قسمیں ساری رو رہی تھیں،
ارادے ڈگمگا رہے تھے،
درد سے لڑکھڑا رہے تھے،
وعدے پاؤں پکڑ رہے تھے،
کیسے کیسے منا رہے تھے،
تم کے چلتے ہی جا رہے تھے،
اور چلتے ہی جا رہے تھے،
تیرے وہ بے رحم قدم تھے،
روتے بھنوروں، بلکتی تتلیوں،
کے محبت بھرے دلوں کو
مسلتے ہیں جا رہے تھے،
تم کچلتے ہی جا رہے تھے،
تم کہ جلاد بن چکے تھے،
سرخ پرچم لہرا رہے تھے،
میں بے اختیار شرمسار مالی،
شکستہ دل لاچار مالی،
بقائے گُلشن کا سوالی،
سکتے کے عالم میں کھڑا تھا،
پتھرائی آنکھوں سے سب تماشا،
صرف تکتا ہی جا رہا تھا،
کوئی فیصلہ بھی نہ کر پا رہا تھا،
آگ بجھا دوں یا خود کو جلا دوں،
کہ پھول کلیوں کی رکتی سانسیں،
میری سانسوں سے جڑی تھیں،
پھول پتیوں کی رگوں میں،
جو جل رہا تھا میرا لہو تھا،
بھنوروں تتلیوں کی التجائیں،
وہ میری روح کی تھی صدائیں،
تیرے قدموں میں جو پڑے تھے،
وہ میرے ہی دل کے ٹکڑے تھے،
میرے جذبوں کے عکس تھے،
میری نظروں میں حیرت بسی تھی،
جدھر دیکھتا ایک عبرت کھڑی تھی،
آنکھیں میری دھندلا چکی تھیں،
واں شکستہ وعدوں بکھرے سپنوں کی،
مردہ جذبوں، بے جان قسموں کی،
ٹوٹتی اناؤں کی،
تڑپتی وفاؤں کی،
رد ہوئی دعاؤں کی،
ان سنی صداؤں کی،
تا حدِ نظر دھول ہی دھول تھی،
میرے پیش و پس میں،
دھواں ہی دھواں تھا،
بے بسی کا تھا یہ عالم،
کل تک جو گُلشن کا ناخدا تھا،
وہ سانس تک نہ لے پا رہا تھا،
آگ بجھاتا یہ کہاں تھا ممکن،
میں ہاتھ تک نہ ہلا سکا تھا،
اب وقت کافی گزر چکا ہے،
اب فکر مجھ کو یہ کھا رہی ہے،
ستم تو سارے تم ڈھا چکے ہو،
جفائیں ساری آزما چکے ہو،
دل کے گُلشن جلا چکے ہو،
راکھ تک بھی اُڑا چکے ہو،
جہاں تھا گُلشن وہاں ہے کھنڈر،
خامشی کا ہے سمندر،
جیسے کہ کوئی قبرستاں ہے،
نہ دھول ہے اب، نہ ہی دھواں ہے،
نہ آہیں نہ آنسو نہ کوئی فغاں ہے،
پھول پتھر بن چکے ہیں،
کلیاں کانٹوں میں بٹ چکی ہیں،
تتلیاں بے بال و پر ہیں،
سپولوں جیسی لگ رہی ہیں،
بھنوروں نے بچھوؤں کا روپ دھارا،
وہ پھول کلیاں اور تتلیاں،
مضطرب ہیں ایک گاہ میں،
منتظر ہیں تیری راہ میں،
مگر اُن کے تیور میں بدل ہے،
اردے اُن کے پُر خطر ہیں،
کسی منتقم سے مزاج میں ہیں،
کسی بے بس و بے آس کا،
اک مشورہ ہے اخلاص کا،
کہیں تم پھر سے نہ لوٹ آنا،
اس طرف کا رخ بھی نہ کرنا،
کبھی اِدھر تم جو آگئے تو،
نشانِ عبرت سے ٹکرا گئے تو،
پھول کلیوں اور تتلیوں کے،
دکھوں کا سمندر بپھر گیا تو،
ارادے اُن کے بتا رہے ہیں،
تم سلامت نہ جا سکو گے،
مگر یہ بھی طے ہے،
تمہیں آنا ہوگا،
یہی گاہ تیرا ٹھکانہ ہوگا،
سوائے اس کے نہ چارہ ہوگا،
ابھی تو سانس باقی ہے،
ابھی تو جان باقی ہے،
اک امکان باقی ہے،
پھول کلیوں تتلیوں کے،
دکھوں اور اذیتوں کا مداوا،
کر سکو تو کر کے دیکھو،
مبادا وقت پلٹ جائے،
اور پھر بے چارہ مالی ہو،
پھر تیری بقا کا سوالی ہو،
پھر قیامت آنے والی ہو،
ہاتھ میں اُن کے ہو سرخ پرچم،
اور تیرا ہاتھ خالی ہو،
پھر سے مقتل سج جائیں،
پھر سے ہوائیں بین کریں،
جہاں تم تھے وہاں تتلیاں ہوں،
ہاتھوں میں اُن کے
تیری بجلیاں ہوں،
پھر اُن کے قدم ہوں،
اور تیرے ہاتھ ہوں،
بلائیں ، التجائیں تیرے ساتھ ہوں،
تیرے سب اوزاروں پر
حکمرانی اُن کی ہو،
سب سزائیں تیری ہوں،
بد گمانی اُن کی ہو،
دکھوں کا مداوا جو کرنا چاہو،
ابھی کچھ وقت باقی ہے،
صدقے کرو اُن کی نذریں اُتارو،
ایک کوشش کرو آکے گلشن سنوارو،
محفل سجاؤ، سبیلیں لگاؤ،
وفاؤں کی مے سے
بھرے جام لاؤ،
محبتوں کے پیغام لاؤ
تخلیق: محمد اطہر طاہر
ہارون آباد