امکانات
محفلین
عوامی حکومت ۔یا ۔عوامی طاقت ؟
زبیر احمد ظہیر
جمہوری طاقت کیا ہوتی ہے ؟یہ بات ہمیںبرسوں سے سمجھ نہ آئی تھی ایک لانگ مارچ نے بخوبی سمجھادی ہے عوامی طاقت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے مگر ہم اس طاقت کو کبھی استعمال نہیں کرسکے اور نہ ہی ہم کبھی صحیح معنوں میں اس طاقت کامظاہر ہ کرسکے ۔وکلاء نے جرات کی اور اپنی طاقت منوالی ۔بات ہوتی ہے دراصل مسلسل کوشش کرنے کیا۔مسلسل کوشش عددی کمتری کو نہیں دیکھتی ایک چلے تو قافلے کے ساتھ قافلے مل جاتے ہیں ،عددی لحاظ سے وکلاء کو دیکھا جائے تو ان کی تعداد ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیں مگر انہوں نے پوری قوم کو ساتھ ملا لیا اورعملا انہوں وہ کچھ منوالیا جو سترہ کروڑ قوم پہلے نہ منوا سکی تھی وکلاء کے قافلوں نے جوں ہی اسلام آباد کا رخ کرنا شروع کیا تو پوری قوم کو امید نہ تھی کہ وکلا ء پوری قوم کو باہر نکال لیں گے اپوزیشن کو بھی یہ ڈر تھا حکومت بھی اس غلط فہمی کاشکار تھی بلکہ ایک بڑے گھاک سیاست دان نے تو ڈوبتے جہاز میں سوار ہونا گواراکرلیا اور وکلاء تحریک کو پنجاب تحریک کہہ ڈالا ان کا یہ بیان لانگ مارچ کی کامیابی کی بے یقینی پر سب سے بڑی دلیل کہا جاسکتاہے جوں ہی اسلام آباد کی جانب سیلاب بڑھنے لگا تو حکومت کے ایوانوںمیںہل چل شروع ہو گئی ان بدلتے لمحوں کے ساتھ پوری قوم کی نظریں ملک کے سیاسی منظرنامہ پر جم کر رہ گیں اور سانس لیناتک مشکل ہوگیا ہے کہ نہ جانے اگلے لمحے کیاہونے جارہاہے سانس جو لے لی پتہ نہیں شور میںآوز کانوں کو سنائی دے یا نہیں ۔ساری قوم انتظار کی اس کیفیت سے دوچار تھی یہ وہ وقت تھا جب حکومت کو اس معاملے کا حل تلاش کرنا تھا اس معاملے پر ساری دنیا کی نظر تھی ۔پاکستانی قوم اور مارشل لا میں فاصلے کم ہونے شروع ہوگے تھے مگر اس نازک لمحے میں آرمی چیف نے ثالثی کاکردار ادا کیا ،معاملے کی نزاکت پر خود ضمانت دینا قبول کر لی جس سے دونوں فریق مذاکرات پر آمادہ ہوئے اپوزیشن نے تو گیند حکومت کی کورٹ میں پھینک دی تھی اب جو کچھ کرنا تھا حکومت کوہی کرنا تھا حکومت کو کیسے احساس ہوا۔ اس معاملے میں پی پی کے ان تمام رہنماؤں کا کردار پتھر کی پہلی دیوار سمجھا جائے گا جنہوں نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنی شروع کردی تھی ۔اور کھل کر حکومت کو اس کی غلطیوں کااحساس دلانا شروع کر دیاتھا ۔شیری رحمان نے بروقت استعفی دیکر ٹی وی نشریات کو بند ہونے سے بچا لیا تھا اور وہ صدرجو کل تک افتخار چوہدری کو بحال نہ کرنے اور پنجاب میںگورنر راج ختم نہ کرنے کی قسم کھائے بیٹھے تھے انہیں عوامی جمہوری طاقت کے مظاہرے نے چند گھنٹوں میںفیصلہ بدلنے پر مجبور کردیا۔بس ایک رات میں وہ ہوگیا جو دوسا ل میں نہ ہو سکا حکومت کو ناچار معزول چیف جسٹس کی بحالی کا فیصلہ کرنا پڑا اور یہ فیصلہ بھی سحری اور فجر میں کیا گیا یہ وقت عام طور پر گہری نیند کا ہوتاہے اس فیصلے کے انتظار میں لوگوں نے رات آنکھوںمیںگزاری ۔ چیف جسٹس بحال ہوئے اور نوٹیفکیشن 2دنوں میں آئے گا جو بھی ہوا مگر 2نومبر والی عدلیہ تو بحال نہیںہوئی ظاہر ہے معاملہ’’ کچھ لو کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر حل ہونا تھا دوسری جانب بھی صدرزرداری تھے وہ بھی گھاٹے کا سودانہیں کرتے جیسا کیسا بھی ہوا عدلیہ کا معاملہ حل ہوا اور حکومت اب اس فیصلے کو تبدیل بھی نہیں کرسکتی مگر گورنر راج کیا بنا یہ وزیر اعظم کے قوم سے خطاب میں واضح نہیں ہو سکا اس معاملے میں یوں دکھلائی دیتا ہے کہ کوئی سمجھوتہ بھی ضرور ہوا ہے مگر یہ معاملہ چونکہ خالصتا شریف برادران کا تھا اس لیے اسے قوم سے خطاب میں شامل نہیں کیا گیا جہاں تک میاں نواز شریف کی نااہلی کے خاتمے کا سوال ہے حکومت خود عدالت میں نظر ثانی کی درخواست پیش کرے گی اس نظر ثانیکے اعلان سے کیا یہ نہیں ثابت ہوتا ہے کہ شریف برادران کی نااہلی کا فیصلہ عدالتی نہیں صدارتی تھا حکومت کے اس اعلان نے اس شک کو یقین میں بدل دیا ہے جس سے نوازلیگ شریف جن کا سیاسی مستقبل خطرے سے دوچار تھا اسے ایک رات میں چار چاند لگ گئے ہر چند کہ وزیراعظم نے پنجاب کے گورنرراج کے بارے میںکوئی ذکرنہیںکیا تاہم ایک بات توثابت ہو رہی ہے ن لیگ اب پنجاب میں ایک بار پھر حکومت سازی کی پوزیشن میں آگئی ہیعین ممکن ہے قومی سیاسی حکومت کے فارمولے کے تحت حکومت سازی میںپی پی کو ایک بار پھرشریک کرنا پڑ جائے ظاہرہے ن لیگ نے اقتدار کی سیاست ترک نہیں کرنی اور تنہااس کی حکومت سازی کا پی پی بھی تماشانہیں دیکھ سکتی پی پی کو سلمان تاثیر کی بسیارکوششوں سے ق لیگ کی حمایت مکمل حاصل نہیں ہو سکی اوراب حکومت کی سبکی کے بعد ق لیگ بھنور سے نکلے جہاز میں کودنے کی کوشش نہیں کرے گی یوںمحسوس ہوتا ہے کہ جیسے سلمان تاثیرمنصوبہ بری طرح ناکا م ہو گیاہے جہاں سے سلمان تاثیر کی ناکامی شروع ہوتی ہے وہاں سے پی پی کے حقیقی رہنماؤں کی اہمیت میںاضافے کا آغاز ہوتاہے یہ صدمہ صدرکوپی پی کے سلمان تاثیر جیسے شاہینوںنے پہنچایا کہ صدرکوایسے حالات اورمشکلات سے دوچار ہونا پڑا کہ اتنی آفت توسابق صدرمشرف پر بھی اچانک نہیں ٹوٹی تھی سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا صدر پی پی کے شاہینوں سے اپنی جان بچا پائیں گے یا اسے حادثہ سمجھ کر نظر انداز کردیں گے صدر اگر پی پی کے فاختاؤں کو ساتھ ملالیں توان کی جو طاقت کم ہو ئی اس کا ازالہ ہو سکتاہے صدر زردار ی فور ی طور پر رضا ربانی ، صفدر عباسی ،ناہیدخان ،شیری رحمان ،نفیس صدیقی جیسے ان لوگوں کو منالیں ان لوگوںنے دراصل علیحدگی اختیار کرکے پی پی کی عوام میں ساکھ بچائی ہے وکلا تحریک اورلانگ مارچ کے مخالف کنارے پرکھڑی پی پی کو ان لوگوں نے ساری زندگی کے طعنوںسے بچالیا ہے اگر آپ سے یہ چند لوگ ناراض نہ ہوتے توپی پی کل اس تاریخی عوامی انقلاب میں تل دھرنے کی جگہ نہ بناپاتی۔دوراندیشی کاتقاضا ہے کہ صدر زرداری رضا ربانی جیسوں کو فوری طورپر گلے لگا کر ثابت کر دیں کہ پی پی حکومت عدلیہ کی بحالی کی مخالف نہ تھی ورنہ عوامی طاقت کامظاہرہ حکمران جماعت کوعوامی نہیں حکومت کی بدنامی باور کروائے گا۔پی پی کی حکومت جو اپنے آپ کو عوامی کہلاتی ہے اس میں عوامی طاقت کامظاہرہ یہ ایک تاریخی سوال بن گیاہے اگرفاختاوںکورضامندنہ گیاتواس سوال کا پی پی کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہو گا۔
زبیر احمد ظہیر
جمہوری طاقت کیا ہوتی ہے ؟یہ بات ہمیںبرسوں سے سمجھ نہ آئی تھی ایک لانگ مارچ نے بخوبی سمجھادی ہے عوامی طاقت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے مگر ہم اس طاقت کو کبھی استعمال نہیں کرسکے اور نہ ہی ہم کبھی صحیح معنوں میں اس طاقت کامظاہر ہ کرسکے ۔وکلاء نے جرات کی اور اپنی طاقت منوالی ۔بات ہوتی ہے دراصل مسلسل کوشش کرنے کیا۔مسلسل کوشش عددی کمتری کو نہیں دیکھتی ایک چلے تو قافلے کے ساتھ قافلے مل جاتے ہیں ،عددی لحاظ سے وکلاء کو دیکھا جائے تو ان کی تعداد ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیں مگر انہوں نے پوری قوم کو ساتھ ملا لیا اورعملا انہوں وہ کچھ منوالیا جو سترہ کروڑ قوم پہلے نہ منوا سکی تھی وکلاء کے قافلوں نے جوں ہی اسلام آباد کا رخ کرنا شروع کیا تو پوری قوم کو امید نہ تھی کہ وکلا ء پوری قوم کو باہر نکال لیں گے اپوزیشن کو بھی یہ ڈر تھا حکومت بھی اس غلط فہمی کاشکار تھی بلکہ ایک بڑے گھاک سیاست دان نے تو ڈوبتے جہاز میں سوار ہونا گواراکرلیا اور وکلاء تحریک کو پنجاب تحریک کہہ ڈالا ان کا یہ بیان لانگ مارچ کی کامیابی کی بے یقینی پر سب سے بڑی دلیل کہا جاسکتاہے جوں ہی اسلام آباد کی جانب سیلاب بڑھنے لگا تو حکومت کے ایوانوںمیںہل چل شروع ہو گئی ان بدلتے لمحوں کے ساتھ پوری قوم کی نظریں ملک کے سیاسی منظرنامہ پر جم کر رہ گیں اور سانس لیناتک مشکل ہوگیا ہے کہ نہ جانے اگلے لمحے کیاہونے جارہاہے سانس جو لے لی پتہ نہیں شور میںآوز کانوں کو سنائی دے یا نہیں ۔ساری قوم انتظار کی اس کیفیت سے دوچار تھی یہ وہ وقت تھا جب حکومت کو اس معاملے کا حل تلاش کرنا تھا اس معاملے پر ساری دنیا کی نظر تھی ۔پاکستانی قوم اور مارشل لا میں فاصلے کم ہونے شروع ہوگے تھے مگر اس نازک لمحے میں آرمی چیف نے ثالثی کاکردار ادا کیا ،معاملے کی نزاکت پر خود ضمانت دینا قبول کر لی جس سے دونوں فریق مذاکرات پر آمادہ ہوئے اپوزیشن نے تو گیند حکومت کی کورٹ میں پھینک دی تھی اب جو کچھ کرنا تھا حکومت کوہی کرنا تھا حکومت کو کیسے احساس ہوا۔ اس معاملے میں پی پی کے ان تمام رہنماؤں کا کردار پتھر کی پہلی دیوار سمجھا جائے گا جنہوں نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنی شروع کردی تھی ۔اور کھل کر حکومت کو اس کی غلطیوں کااحساس دلانا شروع کر دیاتھا ۔شیری رحمان نے بروقت استعفی دیکر ٹی وی نشریات کو بند ہونے سے بچا لیا تھا اور وہ صدرجو کل تک افتخار چوہدری کو بحال نہ کرنے اور پنجاب میںگورنر راج ختم نہ کرنے کی قسم کھائے بیٹھے تھے انہیں عوامی جمہوری طاقت کے مظاہرے نے چند گھنٹوں میںفیصلہ بدلنے پر مجبور کردیا۔بس ایک رات میں وہ ہوگیا جو دوسا ل میں نہ ہو سکا حکومت کو ناچار معزول چیف جسٹس کی بحالی کا فیصلہ کرنا پڑا اور یہ فیصلہ بھی سحری اور فجر میں کیا گیا یہ وقت عام طور پر گہری نیند کا ہوتاہے اس فیصلے کے انتظار میں لوگوں نے رات آنکھوںمیںگزاری ۔ چیف جسٹس بحال ہوئے اور نوٹیفکیشن 2دنوں میں آئے گا جو بھی ہوا مگر 2نومبر والی عدلیہ تو بحال نہیںہوئی ظاہر ہے معاملہ’’ کچھ لو کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر حل ہونا تھا دوسری جانب بھی صدرزرداری تھے وہ بھی گھاٹے کا سودانہیں کرتے جیسا کیسا بھی ہوا عدلیہ کا معاملہ حل ہوا اور حکومت اب اس فیصلے کو تبدیل بھی نہیں کرسکتی مگر گورنر راج کیا بنا یہ وزیر اعظم کے قوم سے خطاب میں واضح نہیں ہو سکا اس معاملے میں یوں دکھلائی دیتا ہے کہ کوئی سمجھوتہ بھی ضرور ہوا ہے مگر یہ معاملہ چونکہ خالصتا شریف برادران کا تھا اس لیے اسے قوم سے خطاب میں شامل نہیں کیا گیا جہاں تک میاں نواز شریف کی نااہلی کے خاتمے کا سوال ہے حکومت خود عدالت میں نظر ثانی کی درخواست پیش کرے گی اس نظر ثانیکے اعلان سے کیا یہ نہیں ثابت ہوتا ہے کہ شریف برادران کی نااہلی کا فیصلہ عدالتی نہیں صدارتی تھا حکومت کے اس اعلان نے اس شک کو یقین میں بدل دیا ہے جس سے نوازلیگ شریف جن کا سیاسی مستقبل خطرے سے دوچار تھا اسے ایک رات میں چار چاند لگ گئے ہر چند کہ وزیراعظم نے پنجاب کے گورنرراج کے بارے میںکوئی ذکرنہیںکیا تاہم ایک بات توثابت ہو رہی ہے ن لیگ اب پنجاب میں ایک بار پھر حکومت سازی کی پوزیشن میں آگئی ہیعین ممکن ہے قومی سیاسی حکومت کے فارمولے کے تحت حکومت سازی میںپی پی کو ایک بار پھرشریک کرنا پڑ جائے ظاہرہے ن لیگ نے اقتدار کی سیاست ترک نہیں کرنی اور تنہااس کی حکومت سازی کا پی پی بھی تماشانہیں دیکھ سکتی پی پی کو سلمان تاثیر کی بسیارکوششوں سے ق لیگ کی حمایت مکمل حاصل نہیں ہو سکی اوراب حکومت کی سبکی کے بعد ق لیگ بھنور سے نکلے جہاز میں کودنے کی کوشش نہیں کرے گی یوںمحسوس ہوتا ہے کہ جیسے سلمان تاثیرمنصوبہ بری طرح ناکا م ہو گیاہے جہاں سے سلمان تاثیر کی ناکامی شروع ہوتی ہے وہاں سے پی پی کے حقیقی رہنماؤں کی اہمیت میںاضافے کا آغاز ہوتاہے یہ صدمہ صدرکوپی پی کے سلمان تاثیر جیسے شاہینوںنے پہنچایا کہ صدرکوایسے حالات اورمشکلات سے دوچار ہونا پڑا کہ اتنی آفت توسابق صدرمشرف پر بھی اچانک نہیں ٹوٹی تھی سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا صدر پی پی کے شاہینوں سے اپنی جان بچا پائیں گے یا اسے حادثہ سمجھ کر نظر انداز کردیں گے صدر اگر پی پی کے فاختاؤں کو ساتھ ملالیں توان کی جو طاقت کم ہو ئی اس کا ازالہ ہو سکتاہے صدر زردار ی فور ی طور پر رضا ربانی ، صفدر عباسی ،ناہیدخان ،شیری رحمان ،نفیس صدیقی جیسے ان لوگوں کو منالیں ان لوگوںنے دراصل علیحدگی اختیار کرکے پی پی کی عوام میں ساکھ بچائی ہے وکلا تحریک اورلانگ مارچ کے مخالف کنارے پرکھڑی پی پی کو ان لوگوں نے ساری زندگی کے طعنوںسے بچالیا ہے اگر آپ سے یہ چند لوگ ناراض نہ ہوتے توپی پی کل اس تاریخی عوامی انقلاب میں تل دھرنے کی جگہ نہ بناپاتی۔دوراندیشی کاتقاضا ہے کہ صدر زرداری رضا ربانی جیسوں کو فوری طورپر گلے لگا کر ثابت کر دیں کہ پی پی حکومت عدلیہ کی بحالی کی مخالف نہ تھی ورنہ عوامی طاقت کامظاہرہ حکمران جماعت کوعوامی نہیں حکومت کی بدنامی باور کروائے گا۔پی پی کی حکومت جو اپنے آپ کو عوامی کہلاتی ہے اس میں عوامی طاقت کامظاہرہ یہ ایک تاریخی سوال بن گیاہے اگرفاختاوںکورضامندنہ گیاتواس سوال کا پی پی کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہو گا۔