عوامی پنگھوڑا اور فوجی حرم سرا کی پرورش میں‌فرق

عوام میں‌مقبول اور عوامی لیڈر کا فرق فوجی حرم سرا میں جنم لینے والے سیاسی لیڈر کے استقبال سے باسانی کیا جاسکتا ہے۔ بے نظیر کے استقبال کے مناظر کو نواز شریف کے حالیہ دورہ پاکستان اور جلاوطنی کی تصاویر سے کیا جاسکتا ہے۔ معلوم ہوپڑے گا کہ عوامی حمایت کسے کہتے ہیں۔ سندھ کے عوام ایک بار پھر یہ ظاہر کریں گے کہ وہ اگر کسی کو دل میں جگہ دیتے ہیں محبت دیتے ہیں تو احساس سود و زیاں سے عاری ہوکر بلکل خالص محبت دیتے ہیں۔
ایک مرتبہ پھر پاکستان کے عوام (مطلب عوام) کے حقیقی لیڈر اپنے چاہنے والوں‌کی محبت کا مظاہرہ دیکھے گی۔
 
نہیں بھائی ہجے کی غلطی نہیں ۔ لیڈر ہی لکھا تھا اور بے نظیر ہے بھی۔
اصل ڈیلر تو نواز شریف ہے جو ڈیل پر ڈیل ہی کیے جاتا ہے ۔ مگر پھر بھی مظلوم ہے۔
 

ساجد

محفلین
ہمت بھائی ،
سب نہلے پہ دہلے ہیں ۔ کوئی فرق نہیں ہے ان سب میں۔ بی بی ہوں یا بابو سب لٹیرے ہیں اور ہم بڑے شوق سے لٹتے ہیں ان کے ہاتھوں۔
 

زیک

مسافر
بینظیر کی کرپشن اور دوسری خرابیاں اپنی جگہ مگر ہمت کی بات صحیح ہے کہ بینظیر ہی ایک لیڈر ہے اور پیپلز پارٹی ہی پاکستان کی واحد پارٹی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
میں ساجد بھائی کا ہمنوا ہوں کہ سب کے سب سیاست دان ہی بد کردار اور لٹیرے ہیں۔
ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بے نظیر کم کرپٹ ہے آصف زرداری کی نسبت۔
ایک ایسا شخص جس نے عیاشی میں اپنے باپ دادا کی ساری دولت اور زمینیں بیچ کھائی ہوں اور حالت یہاں تک پہنچ گئی ہو کہ جائیداد کے نام پر ایک چھوٹا سا سینما گھر بچا ہو جس کے ٹکٹ گھر کی کھڑکی میں سے جھانکتا آصف آصف زرداری ٹکٹیں بیچتا ہو اور یکایک وہ ملک کا "مردِ اول" بن جائے تو یہی کر سکتا تھا جو اس نے کیا۔
اور ہم ہیں کہ ہنوز ان لٹیروں کے سحر میں مبتلا ہیں۔

"مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا" اور ہم تو ان دونوں سانپوں (بے نظیر اور نواز شریف) سے دو دو بار ڈسے جا سکے ہیں۔
 
رات گئی بات گئی

عوام میں‌مقبول اور عوامی لیڈر کا فرق فوجی حرم سرا میں جنم لینے والے سیاسی لیڈر کے استقبال سے باسانی کیا جاسکتا ہے۔ بے نظیر کے استقبال کے مناظر کو نواز شریف کے حالیہ دورہ پاکستان اور جلاوطنی کی تصاویر سے کیا جاسکتا ہے۔ معلوم ہوپڑے گا کہ عوامی حمایت کسے کہتے ہیں۔ سندھ کے عوام ایک بار پھر یہ ظاہر کریں گے کہ وہ اگر کسی کو دل میں جگہ دیتے ہیں محبت دیتے ہیں تو احساس سود و زیاں سے عاری ہوکر بلکل خالص محبت دیتے ہیں۔
ایک مرتبہ پھر پاکستان کے عوام (مطلب عوام) کے حقیقی لیڈر اپنے چاہنے والوں‌کی محبت کا مظاہرہ دیکھے گی۔

مجھے ان تمام لیڈران سے کوئی غرض نہیں خواہ میاں ہو بے نظیر ہو عمران خان ہو یا مولانا ڈیزل لیکن جناب جب سرکاری گاڑیوں میں لوگ بھر بھر کے لائے جائیں اور آمریت کے کندھے قد بڑھانے کے لیے استعمال ہوں، تو ق لیگ کا جلسہ بھی فقید المشال ہو سکتا ہے اور الطاف حسین بھی لاکھوں کی ریلی کر سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بغیر ڈیل آتا ہے تو حواس باختگی کا یہ عالم ہوتا ہے پورا ملک مفلوج کر دیا جاتا ہے۔اور ہاں ایک بات آپ بھی مت بھولیں، بے نظیر 1986 میں ضیاء الحق سے اور 2007 میں مشرف سے ڈیل کر کے آ رہی ہے۔

یہاں سب اپنے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں، کسی کو پاکستان اور عوام سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم سب نے خود کمانا ہے خود کھانا ہے۔ ان نام نہاد لیڈران نے ہمارے لیے کچھ نہیں کرنا۔
 

ساجداقبال

محفلین
اصل ڈیلر تو نواز شریف ہے جو ڈیل پر ڈیل ہی کیے جاتا ہے ۔ مگر پھر بھی مظلوم ہے۔
ہا ہا ہا دونوں بہن بھائی ہیں۔ پہلے بی بی نے ضیاء سے ڈیل کی پھر مشرف سے ۔ ۔ ۔ نواز نے مشرف سے کی۔ دونوں میں کوئی فرق؟ کوئی نہیں۔ دونوں لٹیرے
"مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا" اور ہم تو ان دونوں سانپوں (بے نظیر اور نواز شریف) سے دو دو بار ڈسے جا سکے ہیں۔
یہ بات مومنوں کے بارے میں ہے ہماری طرح نام کے مسلمانوں کے بارے میں نہیں۔ ;)
 

1833_big.gif

3561_detail.gif

3562_detail.gif

 
مجھے ان تمام لیڈران سے کوئی غرض نہیں خواہ میاں ہو بے نظیر ہو عمران خان ہو یا مولانا ڈیزل لیکن جناب جب سرکاری گاڑیوں میں لوگ بھر بھر کے لائے جائیں اور آمریت کے کندھے قد بڑھانے کے لیے استعمال ہوں، تو ق لیگ کا جلسہ بھی فقید المشال ہو سکتا ہے اور الطاف حسین بھی لاکھوں کی ریلی کر سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بغیر ڈیل آتا ہے تو حواس باختگی کا یہ عالم ہوتا ہے پورا ملک مفلوج کر دیا جاتا ہے۔اور ہاں ایک بات آپ بھی مت بھولیں، بے نظیر 1986 میں ضیاء الحق سے اور 2007 میں مشرف سے ڈیل کر کے آ رہی ہے۔

یہاں سب اپنے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں، کسی کو پاکستان اور عوام سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم سب نے خود کمانا ہے خود کھانا ہے۔ ان نام نہاد لیڈران نے ہمارے لیے کچھ نہیں کرنا۔


اس قسم کے خیالات کی ترویج کی وجہ سے اج عوام سڑکوں پر نہیں‌ ہیں۔ یہ ہی فوج چاہتی تھی اسی لیے سیاسی لوگوں‌کے خلاف پروپیگنڈا کرتی رہی ہے۔ اب عوام اپنے اعمال کا نتیجہ خود بھگت رہے ہیں۔
 
Top