عوام سڑکوں پر کیوں نہیں نکلتی؟

چیلنج دو نتائج پیدا کرتا ہے۔ کچھ لوگ چیلنج کو ایک بوجھ بنا لیتے ہیں اور اس کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ چیلنج کو قوت ِمحرکہ میں ڈھال لیتے ہیں اور اس قوت ِمحرکہ کے ذریعے دنیا کو تبدیل کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں حالات کی خرابی ”عوام“ کو بھی ”خواص“ بنادیتی ہے۔ پہلی صورت میں حالات کی خرابی ”خواص“ کو بھی ”عوام“ بناکر رکھ دیتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال معروف دانش ور اور کالم نگار نصرت مرزا کا کالم ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ عوام غربت و مہنگائی کے طوفان پر روپیٹ تو رہے ہیں مگر وہ کچھ کرنے پر آمادہ نہیں۔ مطلب یہ کہ وہ احتجاج نہیں کررہی، سڑکوں پر نہیں آرہے۔ یہ صرف نصرت مرزا کی بات نہیں، بعض سیاسی قائدین بھی اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ عوام غربت و مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں مگر اپنی ناراضی کو احتجاج میں ڈھالنے پر آمادہ نہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ عوام ہی کو کرنا ہے تو سیاسی رہنماﺅں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ عوام اگر خود ہی اپنے رہنما بن گئے تو وہ سیاسی رہنماﺅں کو کیوں منہ لگائیں گی؟ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ بدترین معاشی حالات کے باوجود عوام کا پیمانہ¿ صبر کیوں نہیں چھلک رہا؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ برصغیر میں جتنی عوامی تحریکیں چلی ہیں ان کا مرکزی حوالہ مذہب رہا ہے۔ خلافت تحریک مسلمانوں کی عظیم الشان تحریک تھی اور اس کا بنیادی حوالہ خلافت ِعثمانیہ کا تحفظ تھا۔ خلافت اپنی نہاد میں ایک مذہبی تصور ہے اور اس کے ساتھ بے پناہ تقدس وابستہ ہے۔ تحریک ِپاکستان ان معنوں میں بھی تاریخ ساز تھی کہ اس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آگیا، اور ان معنوں میں بھی تاریخ ساز تھی کہ اس تحریک نے برصغیر کے ایک ایک مسلمان کو فکر و عمل پر مائل کیا، اس کو نیند کی حالت سے نکالا۔ لیکن یہ کام ”پاکستان کا مطلب کیا.... لاالہٰ الا اللہ“ کے نعرے کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک ایک بڑی تحریک تھی، لیکن اس میں جان ا±س وقت پڑی جب یہ تحریک، تحریک ِنظام مصطفیٰ کا رنگ اختیار کرگئی۔ اس رنگ نے عوام کے جوش و جذبے کو بہت بڑھا دیا اور وہ بڑی بڑی قربانیاں پیش کرنے لگے۔ یہ تحریک طویل تھی۔ طویل تحریکیں ”تھک“ جاتی ہیں مگر مذہبی جوش و جذبے نے اس تحریک کو تھکنے نہیں دیا۔ اسلامی جمہوری اتحاد اگرچہ ایک سیاسی اتحاد تھا اور اس کی کامیابی سیاسی کامیابی تھی مگر اس اتحاد کی مہم میں تحریک نظام مصطفیٰ کی گونج کو صاف سنا جاسکتا تھا۔ ان تحریکوں کا زمانہ الگ تھا، کردار جدا تھی، مگر ان کے نظریاتی مواد میں بڑی مماثلت تھی۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی انتخابی مہم کے بعد لوگوں نے مذہبی جوش وجذبے کے ساتھ پیپلزپارٹی کے خلاف ووٹ ڈالے۔

متحدہ مجلس عمل نے انتخابات میں 70 سے زائد نشستیں حاصل کیں اور وہ سرحد اور بلوچستان میں اپنی حکومتیں بنانے میں کامیاب رہی۔ لیکن مجلس عمل کی کامیابی بھی مذہب کی مرہون منت تھی۔ مجلس عمل کی کامیابی کی پشت پر افغانستان میں امریکہ کی جارحیت تھی۔ اس جارحیت کی پشت پر صلیبی جنگ کا تاثر تھا، تہذیبوں کے تصادم کا خیال تھا۔ غربت ومہنگائی کے طوفان کے باوجود لوگ سڑکوں پر نہیں آرہے ہیں تو اس کی وجہ مذہب کے بعض تصورات ہیں۔ پاکستانی معاشرہ فکری و عملی طور پر ہزاروں خامیوں میں مبتلا ہی، لیکن جب کوئی معاشرہ بنیادی طور پر مذہبی معاشرہ ہوتا ہے تو اس معاشرے میں مذہب کے بعض تصورات صدیوں کا سفر کرتے ہوئے عام اور ان پڑھ لوگوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ مثلاً ان میں ایک تصور تقدیر سے متعلق ہے۔ اس تصور کے تحت زندگی جیسی ہو اسے قبول کرنا پڑتا ہے۔ تقدیر کا تصور عمل کی راہ نہیں روکتا مگر یہ نازک بات عام لوگ مشکل ہی سے سمجھ سکتے ہیں۔

مذہب کا ایک تصور صبر ہے۔ صبر اپنی نہاد میں اختیاری ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی تفہیم کے لیے ایک ذہنی سطح کی محتاج ہی، ورنہ عام لوگ تو حالات کے جبر کو صبر سمجھتے ہیں اور صبر کا ا±ن کے نزدیک یہ تصور ہے کہ حالات کو جوں کا توں قبول کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ہے۔ بلاشبہ یہ اسلام کی تعلیم نہیں مگر ہمارے عوام میں صبر کا یہی تصور رائج ہے۔ غربت و مہنگائی کے سونامی کے باوجود عوام متحرک کیوں نہیں ہوتی، اس کی ایک وجہ ایک لطیفے میں بیان ہوئی ہے۔ لطیفہ یہ ہے: ایک صاحب نے دست شناس کو ہاتھ دکھایا اور پوچھا ”میں کب تک غریب رہوں گا؟“ دست شناس نے کہا: ”پندرہ سال تک۔“ ان صاحب نے پوچھا: ”اس کے بعد؟“ ”اس کے بعد تمہیں غربت کی عادت ہوجائے گی“ دست شناس نے جواب دیا۔ عادت زندگی کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ انسان پرامن زندگی گزار رہا ہوتا ہی، پھر جنگ ہوجاتی ہے اور کچھ دنوں میں انسان جنگی حالات کا عادی ہوجاتا ہے۔

انسان طویل عرصہ تک صحت مند رہتا ہے اور پھر کچھ عرصے کے لیے بیمار پڑ جاتا ہے تو اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے وہ ہمیشہ سے بیمار ہے۔ غربت و مہنگائی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ کروڑوں لوگ ان سے عاجز ہیں مگر وہ ان کے ”عادی“ ہوگئے ہیں۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ غربت و مہنگائی میں نشہ بننے کی اہلیت نہیں، ورنہ اب تک غربت و مہنگائی کی عادت نشہ بن چکی ہوتی۔ زیربحث مسئلے کا ایک پہلو تحریکوں سے وابستہ عوام کی مایوسی بھی ہے۔ عوام نے جنرل ایوب کے خلاف تحریک چلائی مگر انہیں اس تحریک سے کیا ملا؟ ایک تازہ دم جرنیل۔ عوام نے بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور قربانیاں دیں مگر انہیں اس تحریک سے کیا ملا؟ ایک نیا مارشل لائ۔ عوام نے متحدہ مجلس عمل کی جھولی کو ووٹوں سے بھر دیا مگر اس کے نتیجے میں انہیں کیا ملا؟ مایوسی۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں عوام اٹھیں تو کیوں اور کیسی؟ اس سلسلے کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ لوگ عوام، عوام تو بہت کرتے ہیں مگر ان کے ذہن میں عوام کا واضح تصور نہیں ہوتا۔

ہمارے یہاں عوام کا ایک طبقہ وہ ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں کے زیر اثر ہے۔ یہ طبقہ صرف اپنے رہنماﺅں کے پیچھے چلتا ہے۔ اس طبقے کے لیے اس کی سیاسی وابستگی ہی سب کچھ ہے۔ اس کے سائے کے بغیر وہ ایک قدم اِدھر ا±دھر نہیں ہوتا۔ چنانچہ عوام کے اس طبقے کے متحرک نہ ہونے کی بات کرنا ہی فضول ہے۔ عوام کا دوسرا طبقہ وہ ہے جس کی یا تو کوئی سیاسی وابستگی ہی نہیں ہے، یا ہے بھی تو ڈھیلی ڈھالی۔ یہ طبقہ کسی سیاسی تربیت کا حامل نہیں، چنانچہ اسے یہ تک معلوم نہیں کہ ردعمل کیسے ظاہر کیا جائی؟ کس کے خلاف؟ اور کہاں؟ تجزیہ کیا جائے تو اس وقت ہماری قیادت دو حصوں میں منقسم ہے۔

ایک طرف وہ قیادت ہے کہ جس کے پاس اخلاقی ساکھ ہے مگر عوامی ساکھ نہیں ہے۔ دوسری طرف وہ قیادت ہے جو عوام میں جڑیں رکھتی ہے مگر جس کی اخلاقی ساکھ نہیں ہے۔ تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ عوام کو وہی قیادت متحرک کرسکتی ہے جس کے پاس اخلاقی ساکھ بھی ہو اور عوامی ساکھ بھی۔ ملک کے مجموعی حالات اور عوام کی اجتماعی نفسیات کا جائزہ لیا جائے تو اس امر کی نشاندہی دشوار نہیں کہ عوامی مسائل کے سلسلے میں چھوٹے موٹے اقدامات غیر مو¿ثر ہوچکے ہیں اور اب صرف بڑے اور فیصلہ کن اقدامات کے ذریعے سیاسی حرکیات یا Political Dynamics پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ اتفاق سے سیاسی جماعتیں بالخصوص اخلاقی ساکھ کی حامل سیاسی جماعتیں بڑے اور فیصلہ کن اقدام کے لیے تیار نہیں۔ مسلمانوں کے مزاج اور نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ شہیدِمذہب، شہیدِعشق اور شہیدِ وفا تو ہوسکتے ہیں مگر ”شہیدِ معاشیات“ مشکل ہی سے ہوسکتے ہیں۔ مسلمان معاشی مسائل کے لیے جلسے جلوس میں جاسکتا ہی، ووٹ دے سکتا ہے لیکن شعوری طور پر جان نہیں دے سکتا۔ مطلب یہ کہ سیاسی جماعتوں کو یا تو مذہبی بنیاد پر تحریک برپا کرکے معاشی مسائل کو اس کا حصہ بنانا ہوگا، یا معاشی مسائل کا اسلام سے ربط ثابت کر کے عوام کو اس سلسلے میں متحرک ہونے پر آمادہ کرنا ہو گا۔


http://www.karachiupdates.com/v2/in...-20-40&catid=63:2009-07-31-13-36-49&Itemid=15
 
Top