طارق شاہ
محفلین
غزلِ
عُمر کا بھروسہ کیا، پَل کا ساتھ ہوجائے
ایک بار اکیلے میں، اُس سے بات ہوجائے
دِل کی گُنگ سرشاری اُس کو جِیت لے، لیکن
عرضِ حال کرنے میں احتیاط ہوجائے
ایسا کیوں کہ جانے سے صرف ایک اِنساں کے !
ساری زندگانی ہی، بے ثبات ہوجائے
یاد کرتا جائے دِل، اور کِھلتا جائے دِل
اوس کی طرح کوئی پات پات ہوجائے
سب چراغ گُل کرکے اُس کا ہاتھ تھاما تھا
کیا قصور اُس کا، جو بَن میں رات ہوجائے
ایک بار کھیلےتو، وہ مِری طرح اور پھر
جِیت لے وہ ہر بازی مجھ کو مات ہوجائے
رات ہو پڑاو کی پھر بھی جاگیے ورنہ !
آپ سوتے رہ جائیں، اور ہات ہوجائے
پروین شاکر