طارق شاہ
محفلین
عِشق کی دُھول میں جو اَٹ جائے
دو جہاں میں وہ جیسے بٹ جائے
ہو زباں کو بس ایک نام کا وِرد
یوں کسی کو نہ کوئی رٹ جا ئے
رات کب عافیت سے ٹلتی ہے
مُضطرب دِن جو ہم سے کٹ جائے
خوش خیالی کہَیں وہ ساتھ اپنا
ابرِ اُمِّید اب تو چَھٹ جائے
پائی مُدّت سے ہےنہ خیر و خبر
ذہنِ مرکوُز کُچھ تو بٹ جائے
تب نہ کوشِش سے کامیابی ہو
جب مُقابل نصیب ڈٹ جائے
زندگی پِھر نہ زندگی سی لگے
قد جو نظروں میں اپنی گھٹ جائے
انحراف اب نہ کُچھ سنانے میں
ڈر تھا تب دِل کہیں نہ پھٹ جائے
غیر کہنے میں کیا تاَمُّل ہو
ذہن و دِل سے جو پل کو ہٹ جائے
مُدّعا ہے پسِ دُعائے غرض
وہ کسی طور ہم سے پٹ جائے
خواہشِ دل ہو اِنتہاپہ خلشؔ
لب کو رُخسار سے جو لَٹ جائے
شفیق خلشؔ