محمد شکیل خورشید
محفلین
عہدو پیمان کی کریں تجدید
ٹوٹ جائے کہیں نہ پھر امید
مدعا ہوسکا کبھی نہ بیاں
لاکھ باندھی سنوار کر تمہید
شہر سارے نے سانحہ دیکھا
گرچہ اخبار میں چھپی تر دید
شیشہِ دل ہے آج تک خالی
کوئی ابھری نہ صورتِ ناہید
اک خلش زندگی میں باقی ہے
جانے پژمردگی ہے یا امید
وہ نہ لوٹا، کبھی سفر سے شکیل
خوب ہم نے اگرچہ کی تاکید
محترم الف عین
و دیگر اساتذہ اور احباب کی نذر
ٹوٹ جائے کہیں نہ پھر امید
مدعا ہوسکا کبھی نہ بیاں
لاکھ باندھی سنوار کر تمہید
شہر سارے نے سانحہ دیکھا
گرچہ اخبار میں چھپی تر دید
شیشہِ دل ہے آج تک خالی
کوئی ابھری نہ صورتِ ناہید
اک خلش زندگی میں باقی ہے
جانے پژمردگی ہے یا امید
وہ نہ لوٹا، کبھی سفر سے شکیل
خوب ہم نے اگرچہ کی تاکید
محترم الف عین
و دیگر اساتذہ اور احباب کی نذر