ہم انتہائی خشوع و خضوع سے افطار کے وقت دسترخوان پر بیٹھے اللہtسے دعائیں مانگنے میں مصروف تھے کہ اچانک ہمارا سارا خشوع دھرا کا دھرا رہ گیا۔
یہ حقیقت تھی کہ یہ افطاری آخری روزے کی تھی، مگر ہمارے خشوع ختم ہونے میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، بل کہ آخری روزے کی افطاری میں تو ہم ہمیشہ انتہائی خشوع اور دل کے سوز و درد کے ساتھ اللہt کے حضور گڑگڑاتے ہیں، ویسے بھی مسلمان جب یہ سوچے کہ آج آخری افطاری ہے تو اس کی دعا میں اور رقت پیدا ہوجائے گی۔
آج آخری روزے میں ہمارے بڑے بھائی نے ہمیں افطار پر مدعو کیا تھا، ہم اپنی پوری فیملی سمیت اپنے بڑے بھائی کے گھر آئے ہوئے تھے، ہماری بھابھی نے آج افطاری میں بہت اہتمام کیا ہوا تھا۔
ممکن ہے آپ یہ سمجھ رہے ہوں کہ ہماری دعا کے خشوع ختم ہونے کی وجہ گرما گرم سموسوں اور کبابوں کی خوش بو ہو یا حلق کی خشکی نے جگ کے اندر لال لال شربت کی ٹھنڈک اور مٹھاس کو تاڑ لیا ہو تو ہم آپ کی یہ غلط فہمی بھی دور کیے دیتے ہیں، کیوں کہ نہ ہمیں سموسے اور کباب کی کچھ زیادہ رغبت ہے، نہ شربت نے ہمارا خشوع پانی کیا، اگرچہ شربت کی تمنا پورے عروج پر تھی، مگر دعا کے خشوع ختم ہونے میں اسے بھی چنداں دخل نہیں تھا، اس لیے کہ شربت جگ میں رکھنے کے بجائے بھابھی نے ہم مردوں کے دسترخوان کے قریب ایک عدد واٹر کولر رکھوادیا تھا، اب اللہ جانے وہ حقیقت میں بھی واٹر کولر ہی تھا یا شربت کولر، ہم اس بات سے بالکل بے خبر تھے۔
آپ واقعی تجسس میں مبتلا ہوگئے ہوں گے کہ ہماری دعا کا خشوع اور وہ بھی رمضان کے مبارک مہینے میں اور وہ بھی آخری روزے میں اور وہ بھی افطار کے وقت کیسے ختم ہوا، کس چیز نے ہمارے خشوع کا جنازہ نکالا، جب کہ نہ ہمیں سموسوں اور کبابوں کی بہت زیادہ رغبت، نہ ہماری نگاہ کے سامنے ٹھنڈا ٹھنڈا، میٹھا میٹھا شربت۔
ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ بات آجائے کہ ہماری بھابھی نے آخری روزے کی افطاری میں کوئی ایسی خاص ڈش بنائی ہوگی جس کا تذکرہ ’’ذوق و شوق‘‘ کی ’’ضیافت‘‘ میں بھی نہ آیا ہو اور ہم نے اسے ’’ذوق و شوق‘‘ میں شائع کرنے کا سوچ لیا ہو، اس سے ہمارے خشوع نے ردی کی ٹوکری کی راہ لے لی ہوگی تو جناب! ایسی بھی کوئی بات نہیں تھی۔
ہمارا خیال ہے اب ہم بتا ہی دیں کہ خشوع بھلا کس نے ختم کیا، اس سے قبل کہ آپ کا خشوع جاتا رہے۔
دراصل ہم بڑے انہماک کے ساتھ دعا مانگ رہے تھے، اچانک ہمارے کانوں میں ایک آواز آئی، غیب سے نہیں، بل کہ برابر میں بیٹھے بھتیجے کی زبان سے:
’’اللہ کرے اس دفعہ آصف چاچا پانچ پانچ سو روپے عیدی دیں۔‘‘ یہ اسماعیل کی آواز تھی۔
’’پانچ پانچ سو تو مشکل ہے، تین تین سو بھی دے دیں تو غنیمت ہے۔‘‘ اسماعیل کے برابر میں بیٹھے اویس نے جواباً اس کے کان میں کھسر پھسر کی۔
اپنے بھتیجوں کی یہ باتیں سن کر ہم یہ بھی بھول گئے کہ اللہt سے کیا مانگ رہے تھے، ہمارا تو یہ سوچ کر ہی دم گھٹنے لگا کہ ہر بچے کو پانچ پانچ یا تین تین سو روپے عیدی!!
ماشاء اﷲ ہماری برادری کافی وسیع ہے، ہمارے بڑے بھائی کے آٹھ بچے ہیں، ایک اور بڑے بھائی کے چھ بچے، سب سے بڑے بھائی کے چار بچے، پھر دو بہنیں بھی ہیں، ان کے بچے، بل کہ ان کے تو پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی ہیں۔
’’یااللہ خیر…!‘‘ ہمارے منہ سے سرد آہ برآمد ہوئی۔
ہم نے فوری طور پر جو حساب لگایا تو ہمارے پانچ بچے ملا کر تقریباً تین درجن بچے تھے جو ہم سے عیدی کا استحقاق ایسے رکھتے تھے جیسے ہم ان کے پیدا ہونے سے پہلے ان سے قرض لے چکے ہوں اور وہ بھی اس شرط پر کہ ہر سال عید کے پُر مسرت موقع پر انھیں ادا کرتے رہیں گے اور یہ ادائیگی بھی انھی کی سوچ کے مطابق ہوگی۔
دماغ بھی عجیب شے ہے، ایک طرف دعا مانگنے میں مشغول، دوسری طرف خاندان بھر کے بچے گننے میں مصروف، تیسری طرف تین درجن کو کبھی پانچ سو سے ضرب دے رہا ہے تو کبھی تین سو سے۔
پانچ سو روپے فی بچہ عیدی کا تو سوال نہیں پیدا ہوتا تھا، کیوں کہ اس صورت میں پورے اٹھارہ ہزار روپے بنتے ہیں، وہ بھی اس شرط پر کہ مزید بچے نمودار نہ ہوجائیں، ورنہ پچھلی عیدوں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ عیدی بانٹتے وقت اڑوس پڑوس سے بھی آٹھ دس بچے گھل مل کر بڑے اعتماد سے ہم سے عیدی وصول کر رہے ہوتے تھے۔
تین سوروپے فی بچہ کے لحاظ سے بھی دس ہزار آٹھ سو کی رقم بن رہی تھی۔
ہمیں بے اختیار عیدی کی رسم پر غصہ آگیا، آخر اس کی ضرورت ہی کیا ہے، قرآن و حدیث کی تعلیمات بھی عیدی سے خالی ہیں، ہم نے کبھی صحابہ کے بارے میں یہ نہیں سنا کہ کسی صحابی نے اپنے بچوں کو عیدی دی ہو۔
ہمارا خاندان بھی ماشاء اﷲ دین دار ہے، ہر بدعت اور بری رسم کے خلاف زور زور سے آواز اٹھتی ہے، کیا کسی کو بھی یہ احساس نہیں کہ یہ رسم کس طرح ختم کی جائے۔
دعا مانگتے مانگتے غصے کی وجہ سے ہمارے ہاتھوں میں کپکپی آگئی، بے اختیار ہم نے اپنا غصہ اپنے برابر میں بیٹھے بھتیجوں پر اتارنا شروع کردیا:
’’آپ لوگ خاموشی سے دعا نہیں مانگ سکتے؟ اتنی قبولیت کا وقت ہے اور آپ لوگ آپس کی غیرضروری باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘
ہماری ڈانٹ سن کر بے چارے بھتیجے تو سہم کر خاموشی سے دعا مانگنے لگے، مگر ہماری سوچ کا تسلسل تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
آپ خود بتائیں جس غریب کی تنخواہ ہی کل بیس ہزار روپے ماہانہ ہو وہ اپنی آدھی تنخواہ کس دل سے اپنے خاندانی بچوں میں تقسیم کرے۔
دعوت سے فارغ ہو کر رات کو اپنے گھر جاکر بھی ہمارا صدمہ ختم نہیں ہوا، گھر کے سب افراد چاند رات کی وجہ سے خوش تھے، چوں کہ آج ’’لیلۃ الجائزۃ‘‘ (انعام کی رات) تھی، اس لیے گھر میں عید کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی چلی کہ آج رات ہم اللہt سے بھی خوب مانگیں کہ جس طرح ہمیں رمضان کے مہینے میں عبادت کی توفیق ملی، نماز اور قرآن کی تلاوت میں مزہ آیا، اسی طرح اللہt ہمیں پورا سال اپنا تعلق نصیب فرمائیں۔
مگر رات بھر ہم پر بے اطمینانی کی کیفیت طاری رہی، ہم یہی سوچتے رہے کہ ایسی کون سی ترکیب کی جائے کہ عیدی دینے سے جان چھوٹ جائے، کیا بری رسم کہہ کر اس کے خلاف آواز اٹھائیں ؟
مگر پھر خود ہی یہ سوچ کر اس ترکیب کو رد کردیا کہ یہ تو خوشی کا تحفہ اور ہدیہ ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ نہ دینے والے نہیں بھی دیتے، مگر ہم دینے پر مجبور تھے، گویا اگر یہ بری رسم تھی تو صرف ہمارے لحاظ سے اور یہ بات اتنی مضبوط نہیں ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھا کر اس رسم کو ختم کروایا جاسکے۔
پھر ہم نے سوچا کہ کیوں نہ کوئی ایسی ترکیب استعمال کی جائے کہ کم عیدی دینی پڑے، سوچتے سوچتے دماغ میں ایک ترکیب آہی گئی۔
ترکیب بڑی اچھی معلوم ہوئی، ہم نے سوچا صبح عید کی نماز پڑھ کر جب سارا خاندان ہمارے بڑے بھائی کے گھر جمع ہوگا تو ہم بچوں میں اعلان کردیں گے کہ جس کی جتنی عمر ہے اسے اس سے پانچ گنا زیادہ عیدی دی جائے گی، مثلا جس بچے کی عمر گیارہ سال ہے اسے پچپن روپے دیے جائیں گے، اس طرح سسپنس میں آکر بچے بھی پانچ سو اور تین سو کو بھول کر اپنی اپنی عمروں کو پانچ سے ضرب دینا شروع کردیں گے اور ساٹھ، ستر اور اسّی روپے میں ہماری جان چھوٹ جائے گی۔
مگر اس ترکیب کا ایک ایسا عیب ہمارے سامنے آیا کہ ہم بستر پر لیٹے لیٹے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔
یہ اچھا ہوا کہ یہ عیب ابھی سے سامنے آگیا، اگر صبح ’’اعلانِ عیدی بحساب عمر‘‘ کرنے کے بعد دماغ میں آتا تو ہم کچھ نہیں کرسکتے تھے۔
عیب یہ سامنے آیا کہ ہمارے سب سے بڑے بھائی کے سب سے بڑے بیٹے کی عمر پچیس سال ، اس سے چھوٹا بائیس سال اور اس سے چھوٹا بیس سال کا تھا، گویا ایک سو پچیس روپے، ایک سو دس روپے اور سو روپے، یہی حال اور بھائیوں کے بڑے بچوں کا بھی تھا۔
پھر یہ سوچ کر ہنسی بھی آگئی کہ بہنوں کے نواسوں، نواسیوں اور پوتوں ، پوتیوں کی عمریں تین، چاراور پانچ سال کے درمیان ہیں، یعنی پندرہ، بیس اور پچیس روپے عیدی، اتنی کم عیدی ہمارے خاندان میں شاید کوئی نہیں دیتا۔
یعنی اس ترکیب میں کہیں اتنی زیادہ رقم جارہی تھی کہ جیب تنگ محسوس ہورہی تھی اور کہیں اتنی کم عیدی دینی پڑرہی تھی کہ عیب محسوس ہورہا تھا۔
پھر صبح عید کی نماز کے بعد دماغ کسی قدر عیدی بانٹنے پر آمادہ محسوس ہوا اور یہ خیال آیا کہ اپنے خاندان کے بچوں پر عیدی کے بہانے کچھ رقم تو خوشی سے لگانی ہی چاہیے، مگر صرف عیدی کے نام پر نہیں، بل کہ ہم اسے ’’انعامی عیدی‘‘ کا نام دیں گے، تاکہ ہمارے بچوں کا حوصلہ بڑھے اور ان کے لیے ترقی کی راہوں میں ہماری حلال کی آمدنی میں سے عیدی کی رقم معاون ثابت ہو۔
چناں چہ جب ساری برادری ہمارے بڑے بھائی کے گھر میں جمع ہوئی تو ہم نے بچوں کو بلاکر اعلان کیا:
’’پیارے بچو اور مستقبل کے روشن ستارو! آج ہم آپ کو ’’انعامی عیدی‘‘ دیں گے۔‘‘
’’یعنی پہلے آپ ہمارا مقابلہ کروائیں گے پھر جو جیتے گا اسے انعام دیں گے؟‘‘ ایک صحت مند بھتیجے نے از خود غلط اندازہ لگایا اور اپنی جیت کا یقینی گمان کر کے خوشی سے اچھلنے لگا۔
’’یہ تو غلط ہے، ناانصافی ہے!‘‘ دوسرے بھتیجے نے جو جسم کے لحاظ سے کم زور تھا، چیخ کر کہا، شاید اسے خطرہ محسوس ہوگیا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کے مقابلے میں جیت نہیں سکے گا اور اس طرح بیٹھے بٹھائے اس کی عیدی ماری جائے گی۔
’’ارے ارے، پہلے ہماری پوری بات تو سن لو، پھر کہنا کہ کیا غلط ہے اور کیا درست۔‘‘ ہم نے انھیں تسلی دی۔
’’عیدی سب کو ملے گی، مگر یہ ’’انعامی عیدی‘‘ ہوگی۔‘‘ ہم نے پھر تفصیل سے بتانا شروع کیا۔
’’انعامی عیدی اس طرح کہ آپ میں سے سوائے کچھ بچوں کے جو بالکل چھوٹے ہیں، تقریباً سب بچے پڑھ سکتے ہیں، کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں، اس پورے رمضان کے مہینے میں کس کس نے کس کس کتاب کا مطالعہ کیا ہے؟‘‘
’’چاچا! میں نے ’’فاتح کون؟‘‘ کا مطالعہ کیا ہے۔‘‘
’’میں نے ’’سنت کہانی‘‘ پوری پڑھی ہے۔
’’میں نے ’’ماں اور ممتا‘‘ بھی پڑھی ہے اور ’’سنت کہانی‘‘ بھی۔‘‘
’’میں نے ’’کہانیوں کے دیس…‘‘
’’ایک منٹ…ایک منٹ۔‘‘ ہم گھبرا گئے، صورتِ حال کچھ بے قابو ہونے لگی تھی۔
’’سنو… سنو… پہلے میری پوری بات سنو… کل سب میرے گھر میں جمع ہوں گے، آپ لوگ اپنی اپنی مطالعہ کی ہوئی کتاب ساتھ لے کر آنا، جس نے جتنے صفحات کا مطالعہ کیا ہوگا اسے اس کی آدھی رقم عیدی ملے گی… ٹھیک ہے؟‘‘
٭٭٭٭٭
اگلے دن یعنی دو شوال کو سب بچے اپنے اپنے ساتھ ایک ایک، دو دو کتابیں لے کر آگئے، ہم صفحے گنتے گئے اور انھیں عیدی دیتے گئے، کسی کو باون روپے عیدی ملی، کسی کو بہتر روپے ،کسی کو اسی روپے اور کسی کو اس سے بھی کچھ زیادہ۔
غرض ہماری اچھی خاصی رقم بچوں کو عیدی دینے میں صرف ہوگئی، مگر ہم بہت خوش تھے کہ بچوں کی آئندہ کے لیے حوصلہ افزائی ہوگئی۔
پھر ہم نے تمام بچوں سے محبت بھرے لہجے میں کہہ دیا کہ اپنی اپنی کتابیں یہیں رکھ دو، بعد میں لے جانا۔
رات کو جب سب سے تنہائی ملی تو ہم نے اپنے دل میں ایک عجیب سا سکون محسوس کیا، ہم نے فرطِ مسرت سے اپنے ایک بھتیجے کی کتاب اٹھا کر محبت سے یہ سوچتے ہوئے کھولی کہ بھتیجے نے جو مطالعہ کیا ہے وہ ہمیں بھی معلوم ہونا چاہیے، آخر کو ہم اس کے چچا ہیں۔
دل میں ہلکی سی ندامت بھی محسوس ہوئی کہ ہم چچا ہو کر مطالعے سے محروم ہیں اور یہ بھتیجے اور بھانجے کتنے ہونہار ہیں کہ رمضان کا مبارک مہینا ذکر و عبادت اور مطالعے میں لگایا۔
مگر ہماری یہ کیفیت زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی، کیوں کہ اس کتاب میں شاید جلد کی خرابی کی وجہ سے صفحہ نمبر پچاس کے فوراً بعد صفحہ نمبر ایک سو اکیس تھا۔
ہمیں دل میں کچھ عجیب سا محسوس ہونے لگا، شاید کسی پر غصہ… یا شاید جلد کی خرابی پر افسوس… یا پھر شاید اپنے بھتیجے… خیر ہم نے اپنا دھیان بانٹنے کے لیے دوسری کتاب اٹھالی جو ایک بھانجے نے دی تھی، کافی ضخیم کتاب تھی، ہمیں حیرت ہوئی کہ ہمارا بھانجا مطالعے کا کتنا شوقین ہے، سب سے زیادہ عیدی بھی اسی کو ملی تھی۔ قلبی سکون والی کیفیت اس کتاب کا پیارا سا نام پڑھ کر پھر بحال ہونے لگی تھی اور دل سے نظرِ بد سے بچانے کی دعائیں نکلنے لگیں کہ ماشاء اﷲ جن گھرانوں کے بچے اتنی اچھی اچھی کتب کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں، ان کے بچوں کی تربیت اور اصلاح کتنی عمدہ ہوتی ہوگی۔ پھر جوں ہی ہم نے اس کتاب کو کھولا تو اس کے صفحات باہمی اتحاد کا منہ بولتا ثبوت پیش کر رہے تھے، یعنی صفحہ نمبر پانچ سے لے کر صفحہ نمبر اٹھارہ تک سب صفحات اوپر سے چپکے ہوئے تھے، جنھیں علاحدہ کرنے کی ہلکی سی بھی کوشش نظر نہیں آرہی تھی۔
اسی طرح صفحہ نمبر تراسی سے صفحہ نمبر ایک سو سولہ تک کے تمام اوراق بھی مسلمانوں کے گزشتہ کئی صدیوں پر مشتمل اتحاد و اتفاق کا عظیم الشان نقشہ پیش کررہے تھے۔
’’دھت تیرے کی…!‘‘ ہماری آنکھوں سے آنسو رواں دواں ہوگئے۔
 
Top