عید الاضحی کے روز ۔۔۔میری ایک اور تازہ غزل -ماہ نے تجھ کو لب ِ بام سنبھلتے دیکھا

سید عاطف علی

لائبریرین
اہلیان محفل کوعید الاضحی کی مبارک باد کے بعد میری ساتویں غزل کے بعد عید الاضحی کے دن ایک اور تازہ کاوش آٹھویں غزل۔ اگر چہ اصلاح ِ سخن میں پیش نہیں کی کہ اصلاح وصول ہی نہیں ہوتی یا بہت کم ۔سو یہاں عرض ہےاور احباب کی تنقیدی رائے بہر حال قیمتی ہوگی۔

ماہ نے تجھ کو لب ِ بام سنبھلتے دیکھا
مہر کو ہم نے سدا ماہ سے جلتے دیکھا

اک مدو جزر ِ مسلسل ہے بپا سینے میں
ماہ سے بھی نہ اسے میں نے بدلتے دیکھا

درس ایثار و محبت کا نہیں شیخ کو یاد
جب بھی دیکھااسے بس زہر اگلتے دیکھا

تر نوالوں سے ہوئے سیر سگان ِ شاہی
نانِ بے آش سے مفلس کو بہلتے دیکھا

دل و جاں قصر سلیمان کی سطوت پہ نثار
کف ِ داؤدمیں آ ہن نہ پگھلتے دیکھا

واعظا کوئی ترے وعظ سے تائب بھی ہوا؟
تجھ کو سینوں پہ سدا مونگ ہی دلتے دیکھا

خوگر ِ ذلت ِ دریوزہ گری ہیں امَراء
خلعت ِ زر میں گداؤں کو نکلتے دیکھا
---
سید عاطف علی
10 ذولحجۃ 1436ھ​
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
ماشاء اللہ بہت خوب صورت غزل ہے عاطف بهائی - اصلاح نہیں آتی تو "ہم" سے کرا لی ہوتی دیکها نہیں کہ اپنی اصلاح سے پہلے اوروں کی کئے پهرتا ہوں -
بہت سی دعائیں -
 

عظیم

محفلین
اہالیان محفل کوعید الاضحی کی مبارک باد کے بعد میری ساتویں غزل کے بعد عید الاضحی کے دن ایک اور تازہ کاوش آٹھویں غزل۔ اگر چہ اصلاح ِ سخن میں پیش نہیں کی کہ اصلاح آتی ہی نہیں۔سو یہاں عرض ہےاور احباب کی تنقیدی رائے بہر حال قیمتی ہوگی۔

ماہ نے تجھ کو لب ِ بام سنبھلتے دیکھا
مہر کو ہم نے سدا ماہ سے جلتے دیکھا

بہت خوب -

اک مدو جزر ِ مسلسل ہے بپا سینے میں
ماہ سے بھی نہ اسے میں نے بدلتے دیکھا

ماہ سے بهی نہ جسے کیسا رہے گا عاطف بهائی ؟

درس ایثار و محبت کا نہیں شیخ کو یاد
جب بھی دیکھااسے بس زہر اگلتے دیکھا

شیخ کو پاس - کے بارے کیا خیال ہے ؟

تر نوالوں سے ہوئے سیر سگان ِ شاہی
نانِ بے آش سے مفلس کو بہلتے دیکھا

یہ تو اپنے سے دور کی کہی -

دل و جاں قصر سلیمان کی سطوت پہ نثار
کف ِ داؤدمیں آ ہن نہ پگھلتے دیکھا

سلیماں نون غنہ کر دیجئے تو ؟
اور آہن ایک لفظ ہے شاید -

واعظا کوئی ترے وعظ سے تائب بھی ہوا؟
تجھ کو سینوں پہ سدا مونگ ہی دلتے دیکھا

وعظ پہ ؟ یا سے بهی ٹهیک ہی ہے -

خوگر ِ ذلت ِ دریوزہ گری ہیں امَراء
خلعت ِ زر میں گداؤں کو نکلتے دیکھا

یہ بهی اوپر کی بات گداوں کا نکلنا دیکها تو سے یاد آیا - مگر شعر سمجها نہیں -

عاطف بهائی - جو میں دیکها وہ لکها آپ جو لکهیں وہ سمجها دیجئے گا -

---
سید عاطف علی
10 زولحجۃ 1436ھ​
 
بہت خوبصورت غزل ہے جناب۔ داد ہی داد قبول فرمائیے


درس ایثار و محبت کا نہیں شیخ کو یاد
جب بھی دیکھااسے بس زہر اگلتے دیکھا


واعظا کوئی ترے وعظ سے تائب بھی ہوا؟
تجھ کو سینوں پہ سدا مونگ ہی دلتے دیکھا


مولوی صاحب سے اتنی ناراضگی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محمد خلیل الرحمٰن
ویسے تو اردو و فارسی شاعری کی طویل تاریخ آپ کے اس تجاہل ِ عارفانہ پر گواہ بننےکے لیے کافی ہے۔سو ہم جیسے شعراء کی مجبوری کہ شیوخ و واعظین و ناصحین نیکو کاران کا یہ بوجھ کسی حد تک تو اتارنے میں اپنا حصہ بقدر جثہ ء قلم و فکر اداکریں جو روایتوں کو اپنے دانتوں تک سے گرفت میں رکھنے کو فخر محسوس کرتے ہیں۔عمر خیام وحافظ سے لےکر آتش ناسخ غالب اور کئی اساتذہ اس کارِ خیرمیں طاق رہے ہیں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top