کاشف اکرم وارثی
محفلین
*عید الفطر کی تیاری*
چاند رات : انعام پانے والی رات۔۔۔
آقا علیہ الصلاہ والسلام نے فرمایا ہے کہ
جس شخص نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں کو ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے زندہ رکھا (عبادت میں مشغول اور گناہ سے بچا رہا) تو اس کا دل اس (قیامت کے ہولناک اور دہشت ناک ) دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل (خوف وہراس اور دہشت و گھبراہٹ کی وجہ سے) مردہ ہو جائیں گے۔۔۔
تو اس رات کو بجائے آتش بازی کرنے یا بازار پھرنے کے ہمیں اللہ کے حضور حاضر رہ کر رمضان المبارک کی محنتوں کا انعام لینا چاہیئے۔۔۔
صدقہ الفطر : سب سے اہم کام جو نماز عید سے پہلے کر لینا سنت ہے۔ وہ فطرانے کی ادائیگی ہے۔۔۔ صدقہ فطر رمضان میں ہو جانے والی لغویات اور بے ہودہ کاموں کی طہارت کرتا ہے اور مساکین کی خوراک کا ذریعہ ہے اس لئے اس کو نماز عید سے پہلے پہلے ادا کر دینا چاہیئے۔۔۔ اگر کسی عذر کی وجہ اس وقت تک ادا نہ ہو پائے تو زندگی میں جب بھی ادا کریں گے ادا ہی ہو گا ۔ قضا نہیں۔۔۔
تمام مالک نصاب خواتین و حضرات پر صدقہ فطرادا کرنا واجب ہے۔۔۔ نابالغ بچوں کی طرف سے بھی ان کے ولی پر فطرانہ ادا کرنا واجب ہے۔ چاہے وہ بچہ عید کی صبح ہی پیدا ہوا ہو۔۔۔
نماز عید کی تیاری کے سلسلے میں اپنے ناخن تراشیں، مسواک کریں، غسل فرمائیں، نئے کپڑے ہوں تو وہ پہنیں یا دھلے ہوئے اچھے کپڑے زیب تن فرمائیں۔۔۔ خوشبو لگائیں۔۔۔ فجر کی نماز محلے کی مسجد میں با جماعت ادا فرمائیں اور کوشش کریں کہ عید گاہ جلد پہنچ جائیں۔۔۔
عیدالفطر کے دن کچھ کھا کر نماز کے لئے تشریف لے جائیں۔۔۔ اگر کھجوریں دستیاب ہوں تو طاق عدد میں کھجوریں کھا لیں یا پھر اور کوئی میٹھی چیز بھی کھا سکتے ہیں۔۔۔
عید گاہ سواری پر جانے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن اگر چل سکتے ہوں تو پیدل جانا افضل ہے۔۔۔ ایک راستے سے جائیں اور دوسرے راستے سے واپس آئیں۔ اس طرح مختلف راستے آپ کی عبادتوں کے گواہ بنتے جائیں گے۔۔۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں ایک لمبی حدیث نقل کی ہے، جس کے کچھ حصے کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتاہے،جس سے چاند رات اور یوم العید میں اللہ تعالی کی طرف سے اس کے بندوں کے ساتھ ہونے والے معاملے کا اندازہ ہو سکتا ہے:
”پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو (آسمانوں میں) اس کا نام” لیلة الجائزة“ (انعام کی رات ) سے لیاجاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رب العزت فرشتوں کو تمام شہروں کی طرف بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں (راستوں )کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آوازسے، جس کوجن و انس کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پُکارتے ہیں کہ اے امتِ محمدیہ ! اُس ربِ کریم کی(بارگاہ کی) طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے،پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں :کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے معبود اور مالک ! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کو اس کی مزدوری پوری پوری ادا کر دی جائے،تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:”فإني أشھدکم یا ملائکتي! إنيقد جعلتُ ثوابھم من صیامھم شھر رمَضان وقیامھم رضائي ومغفرتي“ فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی۔۔۔
اور پھر آپ بخشے بخشوائے اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔۔۔ ان شاءاللہ عزوجل۔۔۔
صدقہ الفطر : سب سے اہم کام جو نماز عید سے پہلے کر لینا سنت ہے۔ وہ فطرانے کی ادائیگی ہے۔۔۔ صدقہ فطر رمضان میں ہو جانے والی لغویات اور بے ہودہ کاموں کی طہارت کرتا ہے اور مساکین کی خوراک کا ذریعہ ہے اس لئے اس کو نماز عید سے پہلے پہلے ادا کر دینا چاہیئے۔۔۔ اگر کسی عذر کی وجہ اس وقت تک ادا نہ ہو پائے تو زندگی میں جب بھی ادا کریں گے ادا ہی ہو گا ۔ قضا نہیں۔۔۔
تمام مالک نصاب خواتین و حضرات پر صدقہ فطرادا کرنا واجب ہے۔۔۔ نابالغ بچوں کی طرف سے بھی ان کے ولی پر فطرانہ ادا کرنا واجب ہے۔ چاہے وہ بچہ عید کی صبح ہی پیدا ہوا ہو۔۔۔
نماز عید کی تیاری کے سلسلے میں اپنے ناخن تراشیں، مسواک کریں، غسل فرمائیں، نئے کپڑے ہوں تو وہ پہنیں یا دھلے ہوئے اچھے کپڑے زیب تن فرمائیں۔۔۔ خوشبو لگائیں۔۔۔ فجر کی نماز محلے کی مسجد میں با جماعت ادا فرمائیں اور کوشش کریں کہ عید گاہ جلد پہنچ جائیں۔۔۔
عیدالفطر کے دن کچھ کھا کر نماز کے لئے تشریف لے جائیں۔۔۔ اگر کھجوریں دستیاب ہوں تو طاق عدد میں کھجوریں کھا لیں یا پھر اور کوئی میٹھی چیز بھی کھا سکتے ہیں۔۔۔
عید گاہ سواری پر جانے میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن اگر چل سکتے ہوں تو پیدل جانا افضل ہے۔۔۔ ایک راستے سے جائیں اور دوسرے راستے سے واپس آئیں۔ اس طرح مختلف راستے آپ کی عبادتوں کے گواہ بنتے جائیں گے۔۔۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں ایک لمبی حدیث نقل کی ہے، جس کے کچھ حصے کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتاہے،جس سے چاند رات اور یوم العید میں اللہ تعالی کی طرف سے اس کے بندوں کے ساتھ ہونے والے معاملے کا اندازہ ہو سکتا ہے:
”پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو (آسمانوں میں) اس کا نام” لیلة الجائزة“ (انعام کی رات ) سے لیاجاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رب العزت فرشتوں کو تمام شہروں کی طرف بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں (راستوں )کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آوازسے، جس کوجن و انس کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پُکارتے ہیں کہ اے امتِ محمدیہ ! اُس ربِ کریم کی(بارگاہ کی) طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے،پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں :کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے معبود اور مالک ! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کو اس کی مزدوری پوری پوری ادا کر دی جائے،تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:”فإني أشھدکم یا ملائکتي! إنيقد جعلتُ ثوابھم من صیامھم شھر رمَضان وقیامھم رضائي ومغفرتي“ فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی۔۔۔
اور پھر آپ بخشے بخشوائے اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔۔۔ ان شاءاللہ عزوجل۔۔۔
.....
( الشفا)