عبدالقیوم چوہدری
محفلین
فرض کیا عید پر آپ نے رشتہ داروں کے بچوں کو ٹوٹل دس ہزار روپے عیدی دی۔ اور جب عید کے دن آپ کے بچے اُن کے گھر گئے تو اُنہیں بھی سارے رشتہ داروں کو ملا کرلگ بھگ دس ہزارعیدی ملی۔ برابری کے اصول کے تحت آپ کے بٹوے میں نو پرافٹ نولاس کے مطابق پورے دس ہزار ہونے چاہئیں ‘ لیکن جب آپ حساب لگاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ بیگم کے پاس سات ہزار آئے ہیں اور آپ کے بچوں کے پاس تین ہزار۔۔۔سوال یہ ہے کہ آپ کے دس ہزار کہاں گئے؟
عید پر اکثر سسرال والے اپنے داماد اور بیٹی کو عیدی دیتے ہیں۔عموماً سسرال کی طرف سے داماد کے لیے سوٹ ہوتاہے اور بیٹی کے لیے سوٹ کے ساتھ ساتھ کیش بھی ہوتاہے۔ سوال یہ ہے کہ داماد کے لیے عیدی کیش کی شکل میں کیوں نہیں آتی؟
عید پر آپ نے بڑے چاؤ سے نئے کپڑے سلوائے‘ رات رات بھر رش بھری مارکیٹوں میں جاکر اچھے سے جوتے خریدے۔پھر پوری محنت سے کپڑے استری کیے۔ چاند رات کو اچھے سے سیلون میں جاکر بال بنوائے‘ فیشل کروایا‘ صبح اٹھ کر شیو کی‘ نہائے‘ کپڑے پہنے‘ نماز پڑھی۔۔۔اور گھر واپس آکر تمام چیزیں اُتار کر پرانی شرٹ بنیان پہن کر سوگئے اور آٹھ گھنٹے سوتے رہے۔۔۔وجہ؟؟؟
پہلے لوگ سحری کے وقت بیدار ہوتے تھے‘ اب سحری کرکے سوتے ہیں۔ اس کے باوجود پورا رمضان ڈھول والا رات بارہ بجے سے ہی آپ کو مزید اٹھانے کی کوشش کرتا رہا۔عید کے دن وہ عیدی بھی مانگنے آیا اور آپ نے بڑی خوشی سے اسے سو پچاس پکڑا دیے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے۔۔۔لیکن وقفے وقفے سے جو پانچ اور ڈھول والے عیدی مانگنے آئے‘ وہ کون تھے اور آپ کو کیسے پتا چلا کہ ان میں سے کون سحری کے وقت ’ڈگا‘ لگاتا رہا ہے؟
آپ چاند رات پر کار واش کرانے گئے۔ انہوں نے ایک سوروپیہ زائد مانگ لیا۔ وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ یہ عیدی ہے ۔ آپ نے عید پر گاڑی میں پٹرول ڈلوایا‘ لڑکے نے عیدی کا تقاضا کردیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے ہی سب کو عیدی دی یا آپ کو بھی کسی نے عیدی کے طور پر کوئی رعایت دی؟ بلکہ سوال تھوڑا اور بڑھا دیتے ہیں کہ عیدی گاہک سے ہی کیوں مانگی جاتی ہے‘گاہک کو دی کیوں نہیں جاتی؟
رمضان میں آپ کے گھر کام کرنے والی ماسی نے ’راشن‘ مانگا۔ آپ نے اپنی معاشی حالت کی وجہ سے معذرت کرلی ۔ ماسی نے طعنہ دیتے ہوئے بتایا کہ آپ کے علاوہ مجھے ہر’باجی‘ نے راشن دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مذکورہ ماسی آٹھ دس گھروں سے راشن لے چکی ہے تو پھر اسے آپ کے گھرسے راشن مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا راشن دینا بھی فرض ہے؟ یہ رواج کس نے ڈالا ہے؟؟؟
آپ عید کی نماز پڑھنے گئے۔ خشوع و خضوع سے نماز پڑھی‘ دعا مانگی اور قریبی نمازیوں سے عید ملنا شروع کی۔ پہلا نمازی آپ سے تین دفعہ گلے ملا۔۔۔دوسرے سے بھی آپ تین دفعہ ملنا چاہتے تھے لیکن وہ ایک دفعہ مل کر آگے بڑھ گیا۔۔۔تیسرے سے آپ نے ایک دفعہ ملنے کی کوشش کی لیکن وہ تین دفعہ گلے ملا۔۔۔اب آپ اسی شش وپنج میں عید ملتے رہے کہ ایک دفعہ گلے ملیں یا تین دفعہ۔۔۔سوال یہ ہے کہ عید پر‘ خصوصاً سخت گرمی کی عید پر کتنی دفعہ عید ملنا ضروری ہے۔۔۔نیز مصافحہ سے بھی کام چل سکتا ہے یا ’جپھا‘ ڈالنا ضروری ہے؟
عید کے تینوں دن چھٹی تھی ۔۔۔بلکہ عید سے ایک دن پہلے کی چھٹی بھی ملا لی جائے تو چار چھٹیاں تھیں۔ آرام کرنے کے لیے شاندار وقت تھا۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ عید کے تین دن گذار کر آپ کو لگ رہا ہے جیسے اب کچھ دن آرام کرنا چاہیے؟اسی میں ایک ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ کیا پچھلے تین دنوں میں سے کسی ایک کو ’نیند کا عالمی دن‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟
رمضان میں اگر مساجد بھری ہوئی ہوتی تھیں تو عید کی نماز میں اور بھی زیادہ رونق نظر آئی۔ کھلے میدانوں میں صفیں بچھانی پڑیں۔ لوگ ہاتھوں میں چادریں پکڑے جوق در جوق پوری فیملی کو ساتھ لیے نماز عید ادا کرنے آئے۔کوئی اگر لیٹ ہوگیا تو فوراً دوسری مسجد کی طرف دوڑ لگائی کہ کہیں نماز رہ نہ جائے۔ لیکن اِسی روز‘ صرف چند گھنٹوں بعد نماز ظہر میں نمازیوں کی تعداد 90 فیصد کم کیوں ہوگئی؟
رشید کے دو بیٹے ہیں اور مجید کی دو بیٹیاں۔ رشید نے مجید کی بیٹیوں کو پانچ پانچ سو روپے عیدی دی۔ جواباً مجید نے بھی رشید کے بیٹوں کو پانچ پانچ سو روپے عیدی پکڑا دی۔ یہ عیدی کہلائے گی یا کرنسی ایکسچینج؟ نیز کیا واقعی سچ ہے کہ اگر پہلے خود عیدی دے دی جائے تو دوسری طرف سے چار پیسے زیادہ مل سکتے ہیں؟ اور ہاں!اگر آپ کا ایک بچہ ہو اور آپ کے بھائی کے پانچ ‘ تو عیدی کا ’عادِ اعظم‘ کیا ہوگا؟
عام حالات میں اگر آپ کسی رشتہ دار کے گھر جائیں اور اُن کے بچے کو ہزار کا نوٹ پکڑائیں تو رشتہ دار خواتین ایک ’تڑفلی‘ مچا دیتی ہیں کہ نہیں نہیں اِس کی کیا ضرورت ہے‘ بچے کی جیب سے نوٹ نکال کر واپس آپ کی جیب میں ڈال دیا جاتاہے۔آپ پھر نوٹ نکالتے ہیں لیکن دوسری طرف سے سخت مزاحمت ہوتی ہے۔دس منٹ کی جنگ کے بعد یہ پیسے ہنسی خوشی قبول کرلیے جاتے ہیں‘ گویا انکار ایک ضروری رسم تھی جو ادا ہوئی ‘لیکن عیدی دیتے وقت اِن بچوں کی مائیں کیوں دندیاں نکالتے ہوئے سب کچھ دیکھتی رہتی ہیں؟
عید کے دن اگر سسرال یا رشتہ داروں کی طرف سے عید مبارک کا فون آئے اور ساتھ ہی یہ پوچھا جائے کہ ’آپ گھر پر ہی ہیں؟‘ تو اِس خوفناک سیچوایشن میں کیا جواب دیا جائے؟کیا ایسی کسی صورتحال میں ’’ہیلو ہیلو آواز نہیں آرہی‘‘ کہنا بنتا ہے یا ڈائریکٹ کہہ دیا جائے کہ ہم عید منانے کاغان آئے ہوئے ہیں؟اس بات پر بھی روشنی ڈالئے کہ یہ فون اگر موبائل پر آئے تب تو مذکورہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں لیکن اگر لینڈ لائن پر بات ہورہی ہو تو ؟؟؟
عید کے چوتھے دن بھی عموماًمارکیٹیں‘ دوکانیں اور ہوٹل کیوں بند رہتے ہیں؟ کیا یہ طے ہوچکا کہ جب تک عید کو گذرے پورا ایک ہفتہ نہیں ہوگا زندگی معمول پر نہیں آئے گی۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ رمضان کے دنوں میں ایک چوک پر جو پچاس پچاس بھکاری نظر آتے تھے وہ کہاں گئے؟ مانگنا چھوڑ دیا‘ امیر ہوگئے یا کام دھندے پر لگ گئے؟؟؟ ہر گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹا کر دل فریب مسکراہٹ پھینک کر عیدی مانگنے والے چھ فٹے خواجہ سرا بھی نظر نہیں آرہے۔۔۔عین ممکن ہے دوبارہ مونچھیں بڑھا کر اپنے اپنے علاقے کو لوٹ گئے ہوں۔
عید کی چار چھٹیوں کے بعد کئی لوگ شدت سے آفس جانے کے لیے بے تاب ہوں گے کہ کچھ لمحے سکون سے بھی گذار سکیں ورنہ عید نے تو یہ حال کردیا ہے کہ کئی لوگ اپنی جیب کی طرف دیکھتے ہیں اور زارو قطار ہنستے جاتے ہیں کیونکہ عید پر خوش نظر آنا بہت ضروری ہے خواہ اگلا پورا مہینہ اے سی 29 پر لگانا پڑے۔ میرا دوست چند ہفتوں بعد آنے والی اگلی عید کا تصور کرکے مسلسل یہی پڑھے جارہا ہے۔
اک اور عید کا سامنا تھا شکیل مجھ کو
میں ایک عید کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
میں نے اس کی توجہ دلائی کہ شعر بے وزن ہوگیا ہے‘ آہ بھر کر بولا۔۔۔جیب کے حساب سے پڑھا ہے بھائی۔۔۔!!!
عید پر اکثر سسرال والے اپنے داماد اور بیٹی کو عیدی دیتے ہیں۔عموماً سسرال کی طرف سے داماد کے لیے سوٹ ہوتاہے اور بیٹی کے لیے سوٹ کے ساتھ ساتھ کیش بھی ہوتاہے۔ سوال یہ ہے کہ داماد کے لیے عیدی کیش کی شکل میں کیوں نہیں آتی؟
عید پر آپ نے بڑے چاؤ سے نئے کپڑے سلوائے‘ رات رات بھر رش بھری مارکیٹوں میں جاکر اچھے سے جوتے خریدے۔پھر پوری محنت سے کپڑے استری کیے۔ چاند رات کو اچھے سے سیلون میں جاکر بال بنوائے‘ فیشل کروایا‘ صبح اٹھ کر شیو کی‘ نہائے‘ کپڑے پہنے‘ نماز پڑھی۔۔۔اور گھر واپس آکر تمام چیزیں اُتار کر پرانی شرٹ بنیان پہن کر سوگئے اور آٹھ گھنٹے سوتے رہے۔۔۔وجہ؟؟؟
پہلے لوگ سحری کے وقت بیدار ہوتے تھے‘ اب سحری کرکے سوتے ہیں۔ اس کے باوجود پورا رمضان ڈھول والا رات بارہ بجے سے ہی آپ کو مزید اٹھانے کی کوشش کرتا رہا۔عید کے دن وہ عیدی بھی مانگنے آیا اور آپ نے بڑی خوشی سے اسے سو پچاس پکڑا دیے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے۔۔۔لیکن وقفے وقفے سے جو پانچ اور ڈھول والے عیدی مانگنے آئے‘ وہ کون تھے اور آپ کو کیسے پتا چلا کہ ان میں سے کون سحری کے وقت ’ڈگا‘ لگاتا رہا ہے؟
آپ چاند رات پر کار واش کرانے گئے۔ انہوں نے ایک سوروپیہ زائد مانگ لیا۔ وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ یہ عیدی ہے ۔ آپ نے عید پر گاڑی میں پٹرول ڈلوایا‘ لڑکے نے عیدی کا تقاضا کردیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے ہی سب کو عیدی دی یا آپ کو بھی کسی نے عیدی کے طور پر کوئی رعایت دی؟ بلکہ سوال تھوڑا اور بڑھا دیتے ہیں کہ عیدی گاہک سے ہی کیوں مانگی جاتی ہے‘گاہک کو دی کیوں نہیں جاتی؟
رمضان میں آپ کے گھر کام کرنے والی ماسی نے ’راشن‘ مانگا۔ آپ نے اپنی معاشی حالت کی وجہ سے معذرت کرلی ۔ ماسی نے طعنہ دیتے ہوئے بتایا کہ آپ کے علاوہ مجھے ہر’باجی‘ نے راشن دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مذکورہ ماسی آٹھ دس گھروں سے راشن لے چکی ہے تو پھر اسے آپ کے گھرسے راشن مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا راشن دینا بھی فرض ہے؟ یہ رواج کس نے ڈالا ہے؟؟؟
آپ عید کی نماز پڑھنے گئے۔ خشوع و خضوع سے نماز پڑھی‘ دعا مانگی اور قریبی نمازیوں سے عید ملنا شروع کی۔ پہلا نمازی آپ سے تین دفعہ گلے ملا۔۔۔دوسرے سے بھی آپ تین دفعہ ملنا چاہتے تھے لیکن وہ ایک دفعہ مل کر آگے بڑھ گیا۔۔۔تیسرے سے آپ نے ایک دفعہ ملنے کی کوشش کی لیکن وہ تین دفعہ گلے ملا۔۔۔اب آپ اسی شش وپنج میں عید ملتے رہے کہ ایک دفعہ گلے ملیں یا تین دفعہ۔۔۔سوال یہ ہے کہ عید پر‘ خصوصاً سخت گرمی کی عید پر کتنی دفعہ عید ملنا ضروری ہے۔۔۔نیز مصافحہ سے بھی کام چل سکتا ہے یا ’جپھا‘ ڈالنا ضروری ہے؟
عید کے تینوں دن چھٹی تھی ۔۔۔بلکہ عید سے ایک دن پہلے کی چھٹی بھی ملا لی جائے تو چار چھٹیاں تھیں۔ آرام کرنے کے لیے شاندار وقت تھا۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ عید کے تین دن گذار کر آپ کو لگ رہا ہے جیسے اب کچھ دن آرام کرنا چاہیے؟اسی میں ایک ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ کیا پچھلے تین دنوں میں سے کسی ایک کو ’نیند کا عالمی دن‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟
رمضان میں اگر مساجد بھری ہوئی ہوتی تھیں تو عید کی نماز میں اور بھی زیادہ رونق نظر آئی۔ کھلے میدانوں میں صفیں بچھانی پڑیں۔ لوگ ہاتھوں میں چادریں پکڑے جوق در جوق پوری فیملی کو ساتھ لیے نماز عید ادا کرنے آئے۔کوئی اگر لیٹ ہوگیا تو فوراً دوسری مسجد کی طرف دوڑ لگائی کہ کہیں نماز رہ نہ جائے۔ لیکن اِسی روز‘ صرف چند گھنٹوں بعد نماز ظہر میں نمازیوں کی تعداد 90 فیصد کم کیوں ہوگئی؟
رشید کے دو بیٹے ہیں اور مجید کی دو بیٹیاں۔ رشید نے مجید کی بیٹیوں کو پانچ پانچ سو روپے عیدی دی۔ جواباً مجید نے بھی رشید کے بیٹوں کو پانچ پانچ سو روپے عیدی پکڑا دی۔ یہ عیدی کہلائے گی یا کرنسی ایکسچینج؟ نیز کیا واقعی سچ ہے کہ اگر پہلے خود عیدی دے دی جائے تو دوسری طرف سے چار پیسے زیادہ مل سکتے ہیں؟ اور ہاں!اگر آپ کا ایک بچہ ہو اور آپ کے بھائی کے پانچ ‘ تو عیدی کا ’عادِ اعظم‘ کیا ہوگا؟
عام حالات میں اگر آپ کسی رشتہ دار کے گھر جائیں اور اُن کے بچے کو ہزار کا نوٹ پکڑائیں تو رشتہ دار خواتین ایک ’تڑفلی‘ مچا دیتی ہیں کہ نہیں نہیں اِس کی کیا ضرورت ہے‘ بچے کی جیب سے نوٹ نکال کر واپس آپ کی جیب میں ڈال دیا جاتاہے۔آپ پھر نوٹ نکالتے ہیں لیکن دوسری طرف سے سخت مزاحمت ہوتی ہے۔دس منٹ کی جنگ کے بعد یہ پیسے ہنسی خوشی قبول کرلیے جاتے ہیں‘ گویا انکار ایک ضروری رسم تھی جو ادا ہوئی ‘لیکن عیدی دیتے وقت اِن بچوں کی مائیں کیوں دندیاں نکالتے ہوئے سب کچھ دیکھتی رہتی ہیں؟
عید کے دن اگر سسرال یا رشتہ داروں کی طرف سے عید مبارک کا فون آئے اور ساتھ ہی یہ پوچھا جائے کہ ’آپ گھر پر ہی ہیں؟‘ تو اِس خوفناک سیچوایشن میں کیا جواب دیا جائے؟کیا ایسی کسی صورتحال میں ’’ہیلو ہیلو آواز نہیں آرہی‘‘ کہنا بنتا ہے یا ڈائریکٹ کہہ دیا جائے کہ ہم عید منانے کاغان آئے ہوئے ہیں؟اس بات پر بھی روشنی ڈالئے کہ یہ فون اگر موبائل پر آئے تب تو مذکورہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں لیکن اگر لینڈ لائن پر بات ہورہی ہو تو ؟؟؟
عید کے چوتھے دن بھی عموماًمارکیٹیں‘ دوکانیں اور ہوٹل کیوں بند رہتے ہیں؟ کیا یہ طے ہوچکا کہ جب تک عید کو گذرے پورا ایک ہفتہ نہیں ہوگا زندگی معمول پر نہیں آئے گی۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ رمضان کے دنوں میں ایک چوک پر جو پچاس پچاس بھکاری نظر آتے تھے وہ کہاں گئے؟ مانگنا چھوڑ دیا‘ امیر ہوگئے یا کام دھندے پر لگ گئے؟؟؟ ہر گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹا کر دل فریب مسکراہٹ پھینک کر عیدی مانگنے والے چھ فٹے خواجہ سرا بھی نظر نہیں آرہے۔۔۔عین ممکن ہے دوبارہ مونچھیں بڑھا کر اپنے اپنے علاقے کو لوٹ گئے ہوں۔
عید کی چار چھٹیوں کے بعد کئی لوگ شدت سے آفس جانے کے لیے بے تاب ہوں گے کہ کچھ لمحے سکون سے بھی گذار سکیں ورنہ عید نے تو یہ حال کردیا ہے کہ کئی لوگ اپنی جیب کی طرف دیکھتے ہیں اور زارو قطار ہنستے جاتے ہیں کیونکہ عید پر خوش نظر آنا بہت ضروری ہے خواہ اگلا پورا مہینہ اے سی 29 پر لگانا پڑے۔ میرا دوست چند ہفتوں بعد آنے والی اگلی عید کا تصور کرکے مسلسل یہی پڑھے جارہا ہے۔
اک اور عید کا سامنا تھا شکیل مجھ کو
میں ایک عید کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
میں نے اس کی توجہ دلائی کہ شعر بے وزن ہوگیا ہے‘ آہ بھر کر بولا۔۔۔جیب کے حساب سے پڑھا ہے بھائی۔۔۔!!!