اصل بات تو آپ گول کر گئے وارث بھائی! کہ صاحبِ بیوی ہونے کے بعد پھونک پھونک کے قدم رکھنا پڑتا ہے۔ غلطی سے کسی ستارے کی تعریف کر دی تو دن میں تارے نہ دیکھنے پڑ جائیں۔قبلہ میں نے اب "ضدیں" کرنی چھوڑ دی ہیں، بہت ضدیں کر کے دیکھ لیں، بہت زور لگا لیا لیکن فاصلہ کم نہ ہوا، یہ چمکنے والے چاند ستارے جتنے پہلے دُور تھے اب بھی اتنے ہی دُور ہیں
درست فرمایا لاریب، سر پر "چاند" پڑا ہو تو ستاروں کی روشنی ذرا ماند سی پڑ جاتی ہے، ہاں کبھی کبھی اماوس کی راتوں میں یہی تارے اپنی بہار پھر سے دکھا جاتے ہیںاصل بات تو آپ گول کر گئے وارث بھائی! کہ صاحبِ بیوی ہونے کے بعد پھونک پھونک کے قدم رکھنا پڑتا ہے۔ غلطی سے کسی ستارے کی تعریف کر دی تو دن میں تارے نہ دیکھنے پڑ جائیں۔
درست فرمایا لاریب، سر پر "چاند" پڑا ہو تو ستاروں کی روشنی ذرا ماند سی پڑ جاتی ہے، ہاں کبھی کبھی اماوس کی راتوں میں یہی تارے اپنی بہار پھر سے دکھا جاتے ہیں
عثمان بھائی!! بچوں کے لیے تو عید شاید اب بھی ویسی ہی ہوتی ہے لیکن بڑے ہونے کے بعد ہماری ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ پاکستان میں اب بھی عید ویسی ہی ہوتی ہے۔ صبح صبح عید کی نماز کے لیے بھائی اور ابو لوگوں کی تیاری، مسجد جانے کے لیے گلیوں میں گہما گہمی، عید کی نماز کے بعد سب کا عید مبارک اور عیدی کا تبادلہ، قریب قریب کے رشتہ داروں کی طرف عید مل کے آنا، گھر میں اتنے مہمان، بچوں کی خوشیاں، جھولے، غبارے، مٹھائیاں اور اپنی من پسند چیزوں کی خریداری وغیرہ، سب اسی طرح ہوتا ہے۔دلچسپ دھاگہ ہے۔
بھئی عید پر پاکستان کے گلیوں بازاروں اور وہاں موجود رش کی کچھ تصاویر بھی شئیر کی جائیں۔ مجھے جاننا ہے کہ آج کل پاکستان میں عید کیسی ہوتی ہے۔
نوے کی دہائی کے ابتدا اور آخر میں عید کے تہوار کا فرق واضح معلوم ہوتا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ نوے کی دہائی کے ابتدائی سالوں تک چاند رات کا کوئی ایسا خاص تصور نہیں تھا۔ تاہم نوے کی دہائی کے آخر میں چاند رات کا موقع ایک طرح کے جشن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر چہل قدمی کرتی دکھائی دیتی تھی۔عثمان بھائی!! بچوں کے لیے تو عید شاید اب بھی ویسی ہی ہوتی ہے لیکن بڑے ہونے کے بعد ہماری ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ پاکستان میں اب بھی عید ویسی ہی ہوتی ہے۔ صبح صبح عید کی نماز کے لیے بھائی اور ابو لوگوں کی تیاری، مسجد جانے کے لیے گلیوں میں گہما گہمی، عید کی نماز کے بعد سب کا عید مبارک اور عیدی کا تبادلہ، قریب قریب کے رشتہ داروں کی طرف عید مل کے آنا، گھر میں اتنے مہمان، بچوں کی خوشیاں، جھولے، غبارے، مٹھائیاں اور اپنی من پسند چیزوں کی خریداری وغیرہ، سب اسی طرح ہوتا ہے۔
چاند رات پہ چہل پہل اب بھی ہوتی ہے۔ البتہ جشن والی کیفیت محسوس نہیں ہوتی۔ آخری عشرے میں بازاروں میں رش اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ الامان!! جہاں تک مردوں کے فیشن اور ملبوسات وغیرہ کی بات ہے تو پانچ عدد بھائی (ماشاء اللہ) ہونے کا ہمیں یہ فائدہ ہے کہ بھائی حضرات کے بدلتے رجحانات کے بارے میں علم رہتا ہے۔نوے کی دہائی کے ابتدا اور آخر میں عید کے تہوار کا فرق واضح معلوم ہوتا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ نوے کی دہائی کے ابتدائی سالوں تک چاند رات کا کوئی ایسا خاص تصور نہیں تھا۔ تاہم نوے کی دہائی کے آخر میں چاند رات کا موقع ایک طرح کے جشن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر چہل قدمی کرتی دکھائی دیتی تھی۔
نوے کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں مردوں کا فیشن وہی روایتی قسم کا تھا۔ بہت ہوگیا تو کلف والا کرتا پہن لیا۔ تاہم آٹھ دس سال بعد مردوں کے لباس میں کافی تبدیلی آچکی تھی اور ریڈی میڈ شلوار قمیض کی بہت اقسام موجود تھیں۔
اسی دھاگے میں جو کارڈز ہیں ان کا رواج نوے کی دہائی میں عام تھا۔ انٹرنیٹ عام ہونے کے بعد یہ رواج آہستہ آہستہ بدل گیا۔
بنیادی طور پر تہوار یقیناً اسی طرح ہی منایا جاتا ہوگا جیسے آپ نے بیان کیا ہے تاہم میرا خیال ہے کہ چھوٹی چھوٹی دلچسپ تبدیلیاں تو وقت کے ساتھ ساتھ آئی ہونگی۔