سرور احمد
محفلین
*عید کی حقیقی خوشی*
یوم العید:مصطفی لطفی المنفلوطی
*ترجمہ:ابن ابی طلحہ*
عید کی چاند رات میں ایک عورت کھلونوں کی دکان کے سامنے کھڑی تھی...دکان پہ کافی بھیڑ تھی...سب اپنے بچوں کو عید میں اچھا کھلونا پیش کرنا چاہتے تھے...یہ عورت بھی اپنے بچے کی ضد پر گھر سے کھلونا لینے نکل کھڑی ہوئی تھی...
اس کی نظر سنگ مرمر سے بنے ایک کھلونے پر پڑی....جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دوڑ گئی...*اس لیے نہیں کہ کھلونا بہت شاندار تھا؛بلکہ وہ اس کھلونے کو اپنے لختِ جگر کی نظر سے دیکھ رہی تھی* جسے وہ گھر پر یہ کہہ کر چھوڑ آئی تھی کہ وہ اس کے لیے کھلونا لے کر آئے گی...اس نے دکاندار سے کھلونے کا دام پوچھا تو بہت مہنگا بتایا جس کی ادائیگی عورت کے بس سے باہر تھی...اس نے بھاؤ کم کرنے کے لیے کہا تو دکاندار نے انکار کردیا...عورت کو بڑی مایوسی ہوئی...کھلونا خریدنے کے اس کے پاس پیسے نہیں تھے...اور بنا کھلونے کے وہ گھر لوٹنا نہیں چاہتی تھی...چنانچہ مجبورا وہ،وہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی جسے ایسے وقت میں صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس کے سینے میں ماں جیسا دل دھڑک رہا ہو.
اس نے چپکے سے کھلونے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور احتیاط سے اپنی اوڑھنی میں چھپا لیا... اور سیدھے اپنے گھر کے رستے کو ہولی..
ایک ہی وقت میں اس کے دل میں دو مختلف دھڑکنوں نے ڈیرا ڈال دیا تھا...ایک دھڑکن اپنی اس چوری کے انجام کی تھی...اور دوسری اس خوشی کی تھی جو تھوڑی ہی دیر بعد یہ کھلونا اپنے بچے کو دے کر اسے حاصل ہونے والی تھی..
ادھر دکان کا مالک جو اپنی دکان کی ہر چیز پر گہری نظر رکھتا تھا اس سے عورت کی یہ حرکت چھپی نہ رہ سکی...جیسے ہی وہ دکان سے ہٹی اس نے چھپ کر اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا...ایک گھر میں داخل ہوتے دیکھ جب اسے پتہ چل گیا کہ یہی عورت کا گھر ہے تو لوٹ آیا اورجاکر پولیس چوکی میں اس چوری کی شکایت درج کرائی اور دو پولیس والوں کو ساتھ لے کر اس کے گھر پہونچا...جب وہ گھر میں گھسا تو دیکھا کہ کھلونا بچے کے ہاتھ میں ہے اور اپنی ماں کے سامنے بیٹھا اس کھلونے سے کھیل رہا ہے....اور ماں....وہ اپنے بچے کو پیار بھری نظروں سے کھیلتے دیکھ رہی ہے اور اس کی مسکراہٹوں میں مگن ہے...
کھلونے والے نے عورت کی طرف اشارہ کیا اور دونوں پولیس والے اس کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ڈالنے لگے...اور جب بچے کے ہاتھ سے کھلونا چھینا تو وہ زار وقطار رونے لگا...*اس وجہ سے نہیں کہ اس کا پیارا کھلونا اس سے چھین لیا گیا تھا... بلکہ وہ اپنی ماں کو دیکھ کر رورہا تھا* جس کو دو آدمیوں نے پکڑ رکھا تھا اور وہ ان کے درمیان کھڑی کانپ رہی تھی...بچہ دکان مالک کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہوگیا اور رو رو کر کھلونے والے سے کہنے لگا....میری ماں کو چھوڑ دو...میری ماں کو چھوڑ دو...
کھلونے والا مبہوت ہوکر رہ گیا...سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے...اسی سوچ میں تھا کہ فجر کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی...وہ اذان جس کے بعد گھروں میں عید کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں...
اس کے ضمیر نے اسے کچوکے لگانا شروع کردیا کہ آج کے دن لوگ خوشیاں بانٹتے ہیں.. اور تو ایک حقیر کھلونے کے لیے دو معصوم جانوں کی خوشیاں چھین لینا چاہتا ہے!
وہ پولیس والوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے کہا:معافی چاہتا ہوں... میں نے غلط فہمی میں ان خاتون کو چور سمجھ لیا تھا... اس قسم کا کھلونا میری دکان پر نہیں بکتا ہے...دور سے دیکھ کر میں غلط سمجھ بیٹھا تھا...
یہ سن کر پولیس والے بڑبڑاتے ہوئے لوٹ گئے...اور دکان مالک بچے کی طرف بڑھا اور اس کے ہاتھ میں کھلونا پکڑاکر کہا:مجھے معاف کرنا بیٹا! یہ تمہارا ہی کھلونا ہے..
پھر وہ عورت سے مخاطب ہوکر بولا: بہن میں نے تمہارا بہت دل دکھایا ہے...مجھے یقین ہے کہ تم عید کے دن کی ہی لاج رکھ کر میری زیادتی کو معاف کردوگی...!
عورت کی پیشانی چوری کی وجہ سے خجالت وشرمندگی سے عرق آلود تھی...اس نے بس اتنا کہا کہ میں اپنے فعل پر شرمندہ ہوں...ممتا سے مجبور تھی!
کھلونے والے نے اپنا پرس نکالا اور اس میں سے روپے نکال کر عورت کے منع کرنے کے باوجود یہ کہہ کر کہ ایک بھائی کی طرف سے عیدی ہے اس کے ہاتھوں پر رکھا اور یہ کہہ کر نکلا چلا گیا کہ عید کی سوئیں پینے ضرور آؤں گا...
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عید کی چاند رات میں آسمان پر دو ستارے نمودار ہوتے ہیں.. ایک خوش بختی کا ستارا اور ایک بدبختی کا.... پہلا تو ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جنہوں نے اچھے اچھے پکوان کا انتظام کر رکھا ہے.. اپنے اور بچوں کے لیے نئے نئے کپڑے سلا رکھے ہیں...گھر کو سجا رکھا ہے... مہمانوں کو بلا رکھا ہے....اور رات کو نرم نرم بستر پر لیٹ کر عید کے دن کے خوبصورت خواب دیکھتے ہیں...
اور دوسرا ستارا ان غریبوں اور مسکینوں کے لیے ہوتا ہے جو رات میں اپنے کھردرے بستر پر لیٹ کر آہیں بھرتے ہیں... جن کے بچوں کی نگاہیں سراپا سوال بنیں ہوتی ہیں کہ ہمارے لیے نئے نئے کپڑے کیوں نہیں سلوائے گئے جسے پہن کر ہم اپنے دوستوں کے ساتھ عید میں کھیل سکیں...ہمیں کھلونے کیوں نہیں خریدے گئے...ہمارے نئے جوتے کہاں ہیں... اور وہ اپنے آنسؤوں کو ضبط کرکے انہیں جھوٹی تسلیوں کے سوا کچھ نہیں دے پاتے ہیں...
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو خوش بخت لوگ ہیں وہ ان غریبوں پر کچھ احسان کرسکیں؟؟کیا ہر ایک "کھلونے والا "نہیں بن سکتا کہ اللہ نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے تھوڑا ساہی دے کر انسانیت پر احسان کردیں..؟!
ایسا انسان جو اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے اور سینے میں انسانیت کے تئیں دردمند دل بھی ہے...وہ عید کی نماز کو جاتے ہوئے یا نماز پڑھ کر لوٹتے ہوئے...یا کسی اور موقعہ پر کسی ایسے بچے کو دیکھے جو پرانے کپڑے پہن کر گھر سے کسی ضروری کام سے نکلا ہے... آنکھیں آبدیدہ ہیں...دیواروں اور درختوں کی آڑ لے کر چھپتا چھپاتا جارہا ہے کہ کہیں دوستوں کی نظر نہ اس پر پڑجائے اور اس کی غربت اور فقر تماشہ بن کر رہ جائے...ایسے بچے کو دیکھ کر یقینا وہ شخص شفقت و محبت میں اسے گلے سے لگا لے گا اور اس کے ساتھ "کھلونے والے"کا سا معاملہ کرے گا...کیونکہ وہ جانتا ہے کہ *انسان کو چاہے جتنی خوشیاں میسر آجائیں وہ اس خوشی کے سامنے ہیچ ہیں جو کسی درد مند کے آنکھوں سے آنسو پوچھنے سے حاصل ہوتی ہے.*..!
اللہ کے بندو!یہ غریب مسکین اپنا پورا سال تو تنگ دستی اور فاقہ کشی میں گزار دیتے ہیں..کیا انہیں اتنا بھی حق نہیں کہ کم ازکم سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ ہم انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرسکیں؟جبکہ یہی عید کی حقیقی خوشی ہے!!
ﺑﮩﺖ ﺍﻟﺠﮭﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﻋﯿﺪ ﻣﻨﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﭘﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﭙﮍﺍ ﺳﻼﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﺍﮨﻞِ ﺣﯿﺜﯿﺖ چمکیں گے ﺍﻭﺭ چہکیں گے،ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺠﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﻓﻄﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺯﮐﻮﺍۃ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﻣﯿﺪ ﺑﻨﺪﮬﯽ ﮨﮯ،ﻣﺴﺘﺤﻖ ﮨﻮﮞ ﺍس کا یہ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ بتاﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﺭﻭﻧق ﮨﻮﮔﯽ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺲ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ،ﺍﮮ ﺩﻭﺳﺖ ! ﺗﻮ ﮨﯽ ﺑﺘﺎ یہ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺑِﺘﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟
ہماری امداد کے زیادہ مستحق وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے حالات سے ناواقف لوگ سمجھتے ہیں کہ مالدار ہوں گے... ایسے لوگوں کو ڈھونا پڑتا ہے... خاص علامتوں سے ہی وہ پہچان میں آتے ہیں...لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مانگا نہیں کرتے..
"یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ°تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ°لَایَسْاَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا°
یوم العید:مصطفی لطفی المنفلوطی
*ترجمہ:ابن ابی طلحہ*
عید کی چاند رات میں ایک عورت کھلونوں کی دکان کے سامنے کھڑی تھی...دکان پہ کافی بھیڑ تھی...سب اپنے بچوں کو عید میں اچھا کھلونا پیش کرنا چاہتے تھے...یہ عورت بھی اپنے بچے کی ضد پر گھر سے کھلونا لینے نکل کھڑی ہوئی تھی...
اس کی نظر سنگ مرمر سے بنے ایک کھلونے پر پڑی....جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دوڑ گئی...*اس لیے نہیں کہ کھلونا بہت شاندار تھا؛بلکہ وہ اس کھلونے کو اپنے لختِ جگر کی نظر سے دیکھ رہی تھی* جسے وہ گھر پر یہ کہہ کر چھوڑ آئی تھی کہ وہ اس کے لیے کھلونا لے کر آئے گی...اس نے دکاندار سے کھلونے کا دام پوچھا تو بہت مہنگا بتایا جس کی ادائیگی عورت کے بس سے باہر تھی...اس نے بھاؤ کم کرنے کے لیے کہا تو دکاندار نے انکار کردیا...عورت کو بڑی مایوسی ہوئی...کھلونا خریدنے کے اس کے پاس پیسے نہیں تھے...اور بنا کھلونے کے وہ گھر لوٹنا نہیں چاہتی تھی...چنانچہ مجبورا وہ،وہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی جسے ایسے وقت میں صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس کے سینے میں ماں جیسا دل دھڑک رہا ہو.
اس نے چپکے سے کھلونے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور احتیاط سے اپنی اوڑھنی میں چھپا لیا... اور سیدھے اپنے گھر کے رستے کو ہولی..
ایک ہی وقت میں اس کے دل میں دو مختلف دھڑکنوں نے ڈیرا ڈال دیا تھا...ایک دھڑکن اپنی اس چوری کے انجام کی تھی...اور دوسری اس خوشی کی تھی جو تھوڑی ہی دیر بعد یہ کھلونا اپنے بچے کو دے کر اسے حاصل ہونے والی تھی..
ادھر دکان کا مالک جو اپنی دکان کی ہر چیز پر گہری نظر رکھتا تھا اس سے عورت کی یہ حرکت چھپی نہ رہ سکی...جیسے ہی وہ دکان سے ہٹی اس نے چھپ کر اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا...ایک گھر میں داخل ہوتے دیکھ جب اسے پتہ چل گیا کہ یہی عورت کا گھر ہے تو لوٹ آیا اورجاکر پولیس چوکی میں اس چوری کی شکایت درج کرائی اور دو پولیس والوں کو ساتھ لے کر اس کے گھر پہونچا...جب وہ گھر میں گھسا تو دیکھا کہ کھلونا بچے کے ہاتھ میں ہے اور اپنی ماں کے سامنے بیٹھا اس کھلونے سے کھیل رہا ہے....اور ماں....وہ اپنے بچے کو پیار بھری نظروں سے کھیلتے دیکھ رہی ہے اور اس کی مسکراہٹوں میں مگن ہے...
کھلونے والے نے عورت کی طرف اشارہ کیا اور دونوں پولیس والے اس کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ڈالنے لگے...اور جب بچے کے ہاتھ سے کھلونا چھینا تو وہ زار وقطار رونے لگا...*اس وجہ سے نہیں کہ اس کا پیارا کھلونا اس سے چھین لیا گیا تھا... بلکہ وہ اپنی ماں کو دیکھ کر رورہا تھا* جس کو دو آدمیوں نے پکڑ رکھا تھا اور وہ ان کے درمیان کھڑی کانپ رہی تھی...بچہ دکان مالک کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہوگیا اور رو رو کر کھلونے والے سے کہنے لگا....میری ماں کو چھوڑ دو...میری ماں کو چھوڑ دو...
کھلونے والا مبہوت ہوکر رہ گیا...سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے...اسی سوچ میں تھا کہ فجر کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی...وہ اذان جس کے بعد گھروں میں عید کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں...
اس کے ضمیر نے اسے کچوکے لگانا شروع کردیا کہ آج کے دن لوگ خوشیاں بانٹتے ہیں.. اور تو ایک حقیر کھلونے کے لیے دو معصوم جانوں کی خوشیاں چھین لینا چاہتا ہے!
وہ پولیس والوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے کہا:معافی چاہتا ہوں... میں نے غلط فہمی میں ان خاتون کو چور سمجھ لیا تھا... اس قسم کا کھلونا میری دکان پر نہیں بکتا ہے...دور سے دیکھ کر میں غلط سمجھ بیٹھا تھا...
یہ سن کر پولیس والے بڑبڑاتے ہوئے لوٹ گئے...اور دکان مالک بچے کی طرف بڑھا اور اس کے ہاتھ میں کھلونا پکڑاکر کہا:مجھے معاف کرنا بیٹا! یہ تمہارا ہی کھلونا ہے..
پھر وہ عورت سے مخاطب ہوکر بولا: بہن میں نے تمہارا بہت دل دکھایا ہے...مجھے یقین ہے کہ تم عید کے دن کی ہی لاج رکھ کر میری زیادتی کو معاف کردوگی...!
عورت کی پیشانی چوری کی وجہ سے خجالت وشرمندگی سے عرق آلود تھی...اس نے بس اتنا کہا کہ میں اپنے فعل پر شرمندہ ہوں...ممتا سے مجبور تھی!
کھلونے والے نے اپنا پرس نکالا اور اس میں سے روپے نکال کر عورت کے منع کرنے کے باوجود یہ کہہ کر کہ ایک بھائی کی طرف سے عیدی ہے اس کے ہاتھوں پر رکھا اور یہ کہہ کر نکلا چلا گیا کہ عید کی سوئیں پینے ضرور آؤں گا...
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عید کی چاند رات میں آسمان پر دو ستارے نمودار ہوتے ہیں.. ایک خوش بختی کا ستارا اور ایک بدبختی کا.... پہلا تو ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جنہوں نے اچھے اچھے پکوان کا انتظام کر رکھا ہے.. اپنے اور بچوں کے لیے نئے نئے کپڑے سلا رکھے ہیں...گھر کو سجا رکھا ہے... مہمانوں کو بلا رکھا ہے....اور رات کو نرم نرم بستر پر لیٹ کر عید کے دن کے خوبصورت خواب دیکھتے ہیں...
اور دوسرا ستارا ان غریبوں اور مسکینوں کے لیے ہوتا ہے جو رات میں اپنے کھردرے بستر پر لیٹ کر آہیں بھرتے ہیں... جن کے بچوں کی نگاہیں سراپا سوال بنیں ہوتی ہیں کہ ہمارے لیے نئے نئے کپڑے کیوں نہیں سلوائے گئے جسے پہن کر ہم اپنے دوستوں کے ساتھ عید میں کھیل سکیں...ہمیں کھلونے کیوں نہیں خریدے گئے...ہمارے نئے جوتے کہاں ہیں... اور وہ اپنے آنسؤوں کو ضبط کرکے انہیں جھوٹی تسلیوں کے سوا کچھ نہیں دے پاتے ہیں...
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ جو خوش بخت لوگ ہیں وہ ان غریبوں پر کچھ احسان کرسکیں؟؟کیا ہر ایک "کھلونے والا "نہیں بن سکتا کہ اللہ نے انہیں جو دیا ہے اس میں سے تھوڑا ساہی دے کر انسانیت پر احسان کردیں..؟!
ایسا انسان جو اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے اور سینے میں انسانیت کے تئیں دردمند دل بھی ہے...وہ عید کی نماز کو جاتے ہوئے یا نماز پڑھ کر لوٹتے ہوئے...یا کسی اور موقعہ پر کسی ایسے بچے کو دیکھے جو پرانے کپڑے پہن کر گھر سے کسی ضروری کام سے نکلا ہے... آنکھیں آبدیدہ ہیں...دیواروں اور درختوں کی آڑ لے کر چھپتا چھپاتا جارہا ہے کہ کہیں دوستوں کی نظر نہ اس پر پڑجائے اور اس کی غربت اور فقر تماشہ بن کر رہ جائے...ایسے بچے کو دیکھ کر یقینا وہ شخص شفقت و محبت میں اسے گلے سے لگا لے گا اور اس کے ساتھ "کھلونے والے"کا سا معاملہ کرے گا...کیونکہ وہ جانتا ہے کہ *انسان کو چاہے جتنی خوشیاں میسر آجائیں وہ اس خوشی کے سامنے ہیچ ہیں جو کسی درد مند کے آنکھوں سے آنسو پوچھنے سے حاصل ہوتی ہے.*..!
اللہ کے بندو!یہ غریب مسکین اپنا پورا سال تو تنگ دستی اور فاقہ کشی میں گزار دیتے ہیں..کیا انہیں اتنا بھی حق نہیں کہ کم ازکم سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ ہم انہیں اپنی خوشیوں میں شریک کرسکیں؟جبکہ یہی عید کی حقیقی خوشی ہے!!
ﺑﮩﺖ ﺍﻟﺠﮭﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﻋﯿﺪ ﻣﻨﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﭘﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﭙﮍﺍ ﺳﻼﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﺍﮨﻞِ ﺣﯿﺜﯿﺖ چمکیں گے ﺍﻭﺭ چہکیں گے،ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺠﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﻓﻄﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺯﮐﻮﺍۃ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﻣﯿﺪ ﺑﻨﺪﮬﯽ ﮨﮯ،ﻣﺴﺘﺤﻖ ﮨﻮﮞ ﺍس کا یہ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ بتاﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟ﺭﻭﻧق ﮨﻮﮔﯽ ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺲ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ،ﺍﮮ ﺩﻭﺳﺖ ! ﺗﻮ ﮨﯽ ﺑﺘﺎ یہ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺑِﺘﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ؟
ہماری امداد کے زیادہ مستحق وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے حالات سے ناواقف لوگ سمجھتے ہیں کہ مالدار ہوں گے... ایسے لوگوں کو ڈھونا پڑتا ہے... خاص علامتوں سے ہی وہ پہچان میں آتے ہیں...لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مانگا نہیں کرتے..
"یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ°تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ°لَایَسْاَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا°