غالبؔ سے فرازؔ تک

نسیم زہرہ

محفلین
بقولے: شاعری جزو یست پیغمبری
تخلیقات کا موجب انسانی سوچ اور مشاہدہ ہوتی ہے اور آج یہاں ایک نہائت ہی لطیف تخلیق شاعری ہمارا موضوع ہے، جس طرح ہر انسان کی طبیعت اور مزاج مختلف ہوتا ہے اسی طرح نظریات، احساسات اور جذبات بھی جدا جدا ہوتے ہیں اور ان کے اظہار کا سلیقہ و طریقہ بھی اپنا اپنا ہوتا ہے
ہر دور کے ادیب، مصنف خاص کر شعرا کے کلام میں ان کے دور کا عکس جھلکتا ہے لہذا گذرے زمانوں زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کی عکاسی کے لیئے اس لڑی میں غالبؔ سے لے کر فرازؔ تک - شُہرہ آفاق شعرا کا کلام پیشِ خدمت ہے اور ساتھ ان شعرا سے متعلق مختلف ادوار کے تنقید و تبصرہ نگاروں کے خیالات بھی پیش کیئے جائیں گے

غالبؔ
ظلمت کدہ میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اِک شمع ہے دلیلِ سحر، سو خموش ہے
مَے نے کیا ہے حُنِ خود آرا کو بے حجاب
اے شوق ہاں اجازتِ تسلیم و ہوش ہے
یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشہِٗ نجات
دامانِ باغباں ، کفِ گُلفروش ہے
یا صبحِ دم جو دیکھیئے آکر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز، نہ جوش و خروش ہے
داغِ فُراقِ صُحبتِ شب کی جلی ہوئی
اِک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب۔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے​

غالبؔ اردو ادب کی جبیں پر دمکتا ہوا چاند، جس کا نام اگر اردو ادب سے معدوم کردیا جائے تو شائد کچھ باقی نہ بچ سکے۔ غالبؔ سے متعلق اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ اب مزید کچھ لکھنا بے معنی سا لگتا ہے (شاہد محمود شاہدؔ)

(جاری ہے...........)
 
آخری تدوین:

نسیم زہرہ

محفلین
مومنؔ
دل قابلِ محبتِ جاناں نہیں رہا
وہ ولولہ وہ جوش وہ طغیاں نہیں رہا
کرتے ہیں اپنے زخمِ جگر کو رفو ہم آپ
کُچھ بھی خیالِ جُنبشِ مژگاں نہیں رہا
پِھرتے ہیں کیسے پردہ نشینوں سے منہ چھپائے
رُسوا ہوئے کہ اب غمِ پِنہاں نہیں رہا
نیند آگئی فسانہِٗ گیسُو و زُلف سے
وہم گُماں خوابِ پریشاں نہیں رہا
کِس کام کے رہے جو کسی سے رہا نہ کام
سر ہے، مگر غرور کا ساماں نہیں رہا​

(جاری ہے...........)
 
آخری تدوین:

نسیم زہرہ

محفلین
ذوقؔ
چشمِ قاتل ہمیں کیوں کر نہ بھلا یاد رہے
موت انسان کو لازم ہے سدا یاد رہے
میرا خوں ہے تیرے کوچے میں بہا یاد رہے
یہ بہا وہ نہیں جس کا زبہا یاد رہے
خط بھی لکھتے ہیں تو لیتے ہیں خطائی کاغذ
دیکھیئے کب تک انہیں میری خطا یاد رہے
دو ورق میں کفِ حسرت کے دو عالم کا ہے علم
سبقِ عشق اگر تجھ کو دیا یاد رہے
قتلِ عاشق پہ کمر باندھی ہے اے دل اس نے
پر خدا ہے کہ اسے نام میرا یاد رہے
محو اتنے بھی نہ ہو عشقِ بُتاں میں اے ذوقؔ
چاہیئے ہر بندے کو ہر وقت خدا یاد رہے​

(جاری ہے...........)
 

نور وجدان

لائبریرین
دور جدید میں بھی غزل کا خیال عشق و محبت ہے اکثر اوقات مگر کلاسیکی دور میں جذبات کو حسیات سے زیادہ اجاگر کیا گیا ہے. ایک طرف تخییل طرازی کی حد ہے تو دوسری جانب مشاہدات و تجربات زیادہ ہیں.
 

نسیم زہرہ

محفلین
بہادر شاہ ظفرؔ
یا مجھے افسرِ شاہا نہ بنایا ہوتا
یا میرا تاجِ گدایا نہ بنایا ہوتا
اپنا دیوانہ بنایا مجھے ہوتا تونے
کیوں خرد مند بنایا؟ نہ بنایا ہوتا
خاکساری کے لیئے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش خاکِ درِ جانا نہ بنایا ہوتا
نشہِٗ عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا
تھا جلانا ہی اگر دوریِٗ ساقی سے مجھے
تو چراغِ درِ میخانہ بنایا ہوتا
روز معمورہِٗ دنیا میں خرابی ہے ظفرؔ
ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہوتا​

ظفر نے محسوسات و تصورات کے نئے ترکیبی امتزاج سے اپنی غزل کو جلا بخشی ہے۔ ان کی شاعری میں کرب جو خواہشِ مرگ کی منزل پہنچ جاتا ہے جگہ جگہ اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ ظفر۔ کا آھنگ اپنے اندر روحانیت و حقیقت، عقیدت و جذباتیت اور ضبط و غم کے کتنے ہی سروں کا امتزاج ہے لیکن بنیادی طور پر ان کی شاعری کو غم کی شاعری کہا جاسکتا ہے۔ انکی نغمگیِٗ حزیں موسیقی سے زیادہ اپنے اندر ماتمی لَے رکھتی ہے اور اس میں نوحہ اور آہ و بکا کی کیفیت موجود ہے مثلاً
پڑھے فاتحہ کوئی آئے کیوں
کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع آکے جلائے کیوں
میں تو بے کسی کا مزار ہوں
مگر یہ نوحہِٗ نامرادی زاتی نہیں اجتماعی بھی ہے۔ ظفر۔ کی قنوطیت زندگی کے غموں کا عکس بھی ہے اور زندگی سے فرار کا ایک پہلو بھی، اسے فرار کا ایک پہلو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں غم سنگِ میل نہیں بلکہ خود منزل ہے
کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
 

نسیم زہرہ

محفلین
ایسا ہی ہے۔
مگر حیرت ہوتی ہے کہ نیٹ پر اکثر جگہ حتیٰ کہ ریختہ کی ویب سائٹ پر بھی غلط ورژن موجود ہے۔
یہ تبصرہ دو حصوں پر مشتمل ہے اور 90 کی دہائی میں شاہد محمود شاہدؔ اور ندیم خان (آرگنائزر ادبی مجلس) گورنمنٹ کالج لاہور نے کیا اور "فراز سے غالب تک" شعری مجموعہ میں شائع ہوا
 
Top